• 3 مئی, 2024

افریقن احمدیوں کا عشق خلافت اور فدایت کے نظارے

اس مضمون کے کئی زاوئے ہیں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔ جماعت احمدیہ ہمیشہ اجتماعیت کو فروغ دیتی ہے۔ اسی لئے اجتماعی طور پر پیش آمدہ فدائیت کے چند نظارے پیشِ خدمت ہیں۔ جن سے احبابِ جماعت کی خلافتِ احمدیہ سے عشق و محبت عیاں ہوتی ہے اور وارفتگی کے عالم کا اظہار ہوتا ہے۔(ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ جات کے دوران پیش آنے والے واقعات جمع کئے گئے ہیں۔ دور خلافت رابعہ میں دورہ 1988ء کی رپورٹس والفضل میسر نہ آنے کے سبب درج نہ ہو سکے۔)

1970ء اور 1980ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مغربی افریقہ کا سفر اختیار کیا۔ مغربی افریقہ کے قریباً تمام ممالک میں کثرت کے ساتھ احمدی جماعتیں موجود ہیں۔ حضور کے اس سفر سے ان کی برسوں کی آرزو اور تمنا پوری ہوئی اور وہ حضور کی زیارت کے شرف سے مشرف ہوئیں۔ جس جگہ بھی حضور تشریف لے گئے افریقن احمدی مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے دور دراز کی مسافت طے کرکے حضور کی زیارت کے لئے جوق در جوق جمع ہوئے اور انہوں نے اپنی مخصوص روایات کے ساتھ دینی نظمیں پڑھ کر اور پرجوش نعرے لگا کر والہانہ رنگ میں حضور کا خیر مقدم کیا۔ اور حضور کے ارشادات سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ کیا۔

لیگوس۔ نائیجیریا کے ہوائی مستقرپر ہزار ہا افریقن فدائی احمدیوں کی جانب سے پر تپاک خیر مقدم

11 اپریل 1970ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا جہاز فرینکفورٹ (جرمنی) سے پرواز کر کے تقریبا ساڑھے چار بجے شام نائیجریا کے شہر لیگوس کے ہوائی اڈہ پر پہنچا۔ حضور کے جہاز سے اترتے ہی اللہ اکبر، اسلام زنده باد، احمدیت زنده باد حضرت امیرالمومنین زندہ با دکےفلک شگاف نعروں اور احمدی احباب اور بہنوں کے والہانہ انداز میں ’’اَھْلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَباً بِّكُمْ‘‘ کے الفاظ سے حضور کا استقبال کیا۔ حضور نے جہاز سے اتر کر نائیجیریا کی یورو با قبیلوں کی زبان میں فرمایا:

INU MI DUN PUPO LATI RI YIN

یعنی میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔ اس پر حضور کے، خدام کی وجد کی کیفیت میں تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے فضائی مستقر گونج اٹھا۔۔۔ فضائی مستقر پر نہ صرف لیگوس کی مقامی جماعت کے احباب نے بلکہ نائیجریا کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے متعدد احباب نے بڑی گرمجوشی سے حضور کا استقبال کیا۔اندازہ ہے کہ تقریباً ایک ہزار سے 1500 تک احباب ہوائی اڈہ پر موجود تھے۔ غیر از جماعت مسلمان احباب اور معززین شہر بھی استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔

(ماہنامہ خالد دورۂ مغربی افریقہ نمبر صفحہ 19)

اکرا غانا کے ہوائی اڈے پر دس ہزار افریقن احمدیوں کی طرف سے والہانہ خیر مقدم

حضرت خلیفۃ المسیح لثالث ؒ 18 اپریل1970ء کو لیگوس سے بذریعہ ہوائی جہاز غانا کے دارالحکومت اکرا میں تشریف لائے۔ اکرا کے فضائی مستقر پر خوشیوں سے معمور دس ہزا ر احمدی فدائیوں نے اپنے پیارے آقا کانہایت شاندار استقبال کیا۔ جہاز کے اندر ہی حضور کی نظر اس جم غفیر پر پڑی تو حضور کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور حضور نے جہاز کی کھڑکی سے ہی اپنے عشاق کو ہاتھ ہلا ہلا کر ان کے والہانہ استقبال کا جواب دیا۔ اور جب حضور جہاز سے باہر تشریف لائے تو فضا میں اللہ اکبر اسلام احمدیت حضرت خلیفۃ المسیح۔ زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔ احمدی احباب کے والہانہ اظہار سے متاثر ہو کر حضور نے فرمایا کہ آج مسکرا ہٹوں کا دن ہے۔ ہم اس لئے مسکراتے ہیں کہ اسلام کی فتح کا دن قریب آ چکا ہے۔ یہ دلوں کی فتح ہو گی۔

(ماہنامہ خالد دورۂ مغربی افریقہ نمبر صفحہ47)

وا ؔ کے احباب کا منفرد انداز

واؔ کے ڈیڑھ صد احباب والہانہ انداز میں اپنے آقا کی ملاقات کے لئے کماسی میں حاضر ہوئے۔ نماز کے بعد ان سے ملاقات کے لئے حضورکا بیج کے ہال میں داخل ہوئے جو روشنیوں سے بقۂ نور بنا ہوا تھا۔ جونہی حضور ہال میں داخل ہوئے ڈیڑھ سو مخلصین سفید لبادوں میں ملبوس سروں پر کلاه اور سفید شملے اور طرے دار پاکستانی پگڑیاں پہنے اپنے آقا کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے۔ بعض احباب نے اپنے پاکستانی بھائیوں کی تقلید میں اچکنیں بھی پہنی ہوئی تھیں۔ پہلے انہوں نے آواز بلند اَھْلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَباً کہا۔ پھر نہایت خوش الحانی اور وجد کی کیفیت کے ساتھ یہ عربی قصیدہ پڑھنا شروع کیا۔

طلع البدر علينا من ثنیات الوداع
وجب الشكر علينا ما دعا للہ داع

اس قصیدہ کے ختم ہونے کے بعد انہوں نے ایک اور عربی قصیدہ پڑھا۔ ان قصائد کے دوران پڑھنے والے عشاق کے چہرے بہت عشق اور ایمان و تشکر کے جذبات سے منو رتھے۔

(ماہنامہ خالد دورۂ مغربی افریقہ نمبر صفحہ 64)

سیرالیون کے فضائی مستقر پر
حضور کا پر جوش اور والہانہ استقبال

جس وقت حضور کا جہاز لنگی ایئر پورٹ (سیرالیون) پہنچا تو مقامی احمدی احباب ایئر پورٹ کی چھت پر بے تابانہ رنگ میں ہاتھ، رومال اور کپڑے ہلا ہلا کر حضور کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ جہاز کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی احباب جماعت نے اسلام اور حضرت امیر المومنین۔ زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔ حضور کا قافلہ ایئر پورٹ سے روانہ ہوا تو فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ فری ٹاؤن جانے کے لئے حضور کے قافلہ کی کاریں کشتی کے ذریعہ سمندر پار لے جائی گئیں۔ وہاں جماعتوں کا اکثر حصہ اپنے پیارے امام کے انتظار میں اپنی وردیوں میں ملبوس کھڑا تھا۔ حضور کی کار اللہ اکبر کے نعروں، منظوم دعائیہ اور استقبالیہ ترانوں کے درمیان آگے بڑھ رہی تھی۔ اور حضور ساتھ ساتھ ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیتے جا رہے تھے۔ قافلے کے آگے لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہو رہا تھا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ تشریف لا رہے ہیں۔ احمدی سکولوں کے طلباء اپنی اپنی خوشنما وردیوں میں ملبوس خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔

اهلا و سهلا و مرحباً
بارک خليفتنا خلیفۃ المسيح
یارب مولیٰ خلق الوریٰ
بارک امیر المومنین

(ماہنامہ خالد دورۂ مغربی افریقہ نمبر صفحہ93 و تاریخ احمدیت جلد26 صفحہ59)

چھ ماہ کا کام ایک ما ہ میں مکمل

دورہ نائیجریا 1980ء کے موقع پر جماعت احمدیہ ابادان کی جامع مسجد تا حال زیر تعمیر تھی۔ جب حضور کے دورے کا پروگرام بننے لگا مکرم امیر صاحب نائیجریا نے حضور کے دورے سے ایک ماہ قبل جب اس مسجد کا معائنہ کیا تو آپ نے اندازہ لگایا کہ مسجد کا بقیہ کام اندازاً چھ ماہ کے عرصے میں پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ ادھر جماعت ابادان کی شدید خواہش تھی کہ ان کے محبوب امام اس شہر کو اپنی تشریف آوری کا شرف بخشیں۔ تب مکرم امیر صاحب نے جماعت ابادان کو چیلنج دیا کہ اگر جماعت یہ وعدہ کرے کہ حضور کی نائیجریا میں آمد سے قبل یہ مسجد مکمل کر دی جائے گی تو حضور کی خدمت میں اس مسجد کے افتتاح کی درخواست کی جائے گی۔ جماعت احمدیہ ابادان نے فلک شگاف نعرۂ تکبیر کے ساتھ اس خوشکن چیلنج کو قبول کر لیا اور الحمد للہ کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی اور انہوں نے وقتِ مقررہ سے قبل یعنی چھ ماہ کا کام ایک ماہ میں مکمل کر لیا۔

اسی طرح لیگوس اور الارو کی مساجد میں کافی کام ہوناباقی تھا مگر ان دونوں جماعتوں نے بھی دن رات کام کر کے اس مسجد کو مکمل کر لیا اور حضور کی آمد سے پہلے پہلے اسے غریب دلہن کی طرح سجا دیا۔

(روزنامہ الفضل خاص نمبر 26 اکتوبر 1980ء صفحہ13)

نائیجریا کے ہوائی مستقر کا نظارہ

18 اگست 1980ء کا وہ تاریخی دن تھا جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا نائیجیریا کی سرزمین پر ورود مبارک ہونا تھا۔ چنانچہ جماعت احمدیہ نائیجریا کے افراد جوق در جوق وقتِ مقررہ سے کئی گھنٹے قبل ہوائی مستقر پر پہنچنے شروع ہو گئے۔ بزرگ انصار، خدام، اطفال، مستورات، ناصرات اپنے آقا کی راہ تک رہے تھے۔ سارا مہینہ ساری جماعت نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور خاص دعاؤں میں بسر کیا اور اب وہ مبارک گھڑی آ رہی تھی جس کی ان کو عرصۂ دراز سے انتظار تھی۔ افراد جماعت اس وقت بھی بعض زیرِ لب اور بعض بآواز بلند دعاؤں میں مصروف تھے جماعت کے سرکردہ احباب باربار احباب کو بطور یاددہانی دعاؤں کی تلقین کر رہے تھے۔ تین منزلہ وسیع و عریض اور جدید سہولتوں سے آراستہ فضائی مستقر فدایانِ خلافت سے کھچا کھچا بھرا ہوا تھا۔ ہوائی اڈے پر کام کرنے والے اور مختلف علاقوں سے آنے والے مسافروں کے لئے یہ ایک عجیب تجربہ اور نیا اور اچھوتا موقع تھا۔ چنانچہ بہت سے مسافر بھی حضور کا انتظار کرنے لگے۔ ساری نظریں فرشِ راہ تھیں۔ دل خدا کی حمد کے ترانے گا رہے تھے۔ زبانوں پر درود اور دعا تھی اور سر فخر سے بلند تھے۔ چہرے خوشی و مسرت سے دمک رہے تھے۔ بوڑھے سے لے کے بچے تک ہر شخص مسرور اور خوش تھا۔ ۔۔ نہ صرف ہوائی مستقر کی تینوں منزلیں فدایانِ خلافت سے بھری پڑی تھیں بلکہ انتظامیہ کی درخواست پر افرادِ جماعت کی کثیر تعداد ایئر پورٹ سے باہر سڑک پر ایک قطار میں کھڑی ہو گئی۔

اس دوران فدائیت کا ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ تیسری منزل سے ایک معمر اور بزرگ احمدی اس قدر خوشی و مسرت کے عالم میں اچھلتا ہوا نمودار ہوا۔ گویا کہ دنیا و مافیھا کی دولت اسے مل گئی ہو۔ اس کی زبان پر صرف یہی دو فقرے تھے جن کو وہ بآوازِ بلند بار بار دوہرا رہا تھا۔

I have seen Huzur, I have seen Huzur

اپنے بڑھاپے کے بوجود وہ ایئر پورٹ پر دوڑ دوڑ کر عالم وجد میں احمدیوں کو حضور کی بخیریت تشریف آوری کی خبر سنا رہا تھا۔ اس کے بعد حضور کو ان کے خدام نے اطلاع دی کہ VIP لاؤنج کے باہر نائیجیریا کے احمدی احباب حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے چشم براہ ہیں۔ تب حضور اپنے عشاق سے ملنے کے لئے عام انتظار گاہ میں تشریف لائے۔ حضور کا چہرۂ مبارک دیکھتے ہی ساری فضا نعرۂ تکبیر اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد، انسانیت زندہ باد اور حضرت خلیفۃ المسیح زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ وہاں موجود جملہ احبابِ جماعت دیوانہ وار اپنے محبوب آقا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑے۔ ہر ایک کی یہ خوہش تھی کہ وہ حضور کو ایک نظر قریب سے دیکھ لے۔۔۔

حضور کی کار روانہ ہوئی تو سڑک کے اطراف میں کھڑے ہزاروں فدائی اپنے آقا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے چین تھے۔ حضور کی کار نہایت آہستگی سے چلتی رہی۔ سڑک کے دونوں کناروں پر جمع احباب حضور کو دیکھ کر جھنڈیاں لہراتے رہے اور ان کا جان سے پیارا آقا اپنے متبسم چہرے کے ساتھ ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے خدام کے نعروں اور محبت کا جواب دے رہا تھا۔ سڑکوں پر خدام اپنے مخصوص لباس میں ٹریفک کنٹرول کر رہے تھے۔

(روزنامہ الفضل خاص نمبر 26 اکتوبر 1980ء صفحہ15-14)

غانا کے فدائی احمدیوں کے
ایک جمِ غفیر کا روح پرور نظارہ

احمدیہ سیکنڈری سکول فومینا (غانا) کے پرنسپل مکرم کمال الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ
24 اگست 1980ء کے روز صبح ہی صبح بے شمار بسیں متعدد ٹرک جو کہ دو دو سن کے لئے چارٹر کئے گئے تھے۔ ایئر پورٹ کی طرف روانہ تھے۔ ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ حضور کے طیارے کی آمد کا وقت دس بجے صبح تھا مگر صبح چھ بجے سے ہی لوگ ہوائی اڈے پر پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔۔ ۔ اس روز ہوائی اڈے پر اتنے افریقی جمع تھے کہ انھیں دیکھ کر دل شکر اور حمد کے جذبات سے لبریز ہو گیا۔۔ ۔ حضور کی آمد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس موقع پر مرد عورتوں نے خصوصی طور پر خاص لباس بنوائے تھے۔ اس علاقہ کی یہ روایت ہے کہ بہت خاص خاص مواقع پر جو کئی سالوں میں ایک بار آتا ہے تمام مرد و زن نیا لباس بنواتے ہیں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ غانا کے تمام افرا د اس روز ایک مخصوص رنگ کا نیا لباس پہنے ہوئے تھے جو کہ ان کو نمایاں طور پر ممتاز کرتا تھا۔ یہ لباس لجنات کی خواتین اور مرد و ں نے پہن رکھے تھے۔ یہ سفید لباس تھا۔۔ ۔۔ اس کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے لباس میں جو بہت نمایاں چیز تھے وہ سفید رومال تھے جو کہ ہر مرد و زن، بچے بوڑھے نے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے۔۔ ۔

ایئر پورٹ پر رش کے ساتھ ہر افریقی احمدی کے چہرے پر حضور کی آمد کے خیال سے ایسی خوشی اور مسرت دمک رہی تھی جیسے وہ دن ان کی بہت بڑی عید کا دن ہو۔ جس چہرے کو دیکھیں مسرت سے کھلا ہوا ہے۔ جس شخص سے ملیں اس کی باچھیں کھلی جا رہے ہیں۔ لوگ خوشی میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے ہیں۔ میں بعض احباب سے ملا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آج ہمارے لئے بہت بڑی عظمت کا دن ہے۔ آج ہماری فتح کا دن ہے۔

Today is our great day. Today is our victory.

جگہ جگہ خدام الاحمدیہ کے اراکین اپنے مخصوص لباس میں کھڑے ہجوم کو منظم کر رہے تھے۔ ان کے مخصوص لباس میں سیاہ اور سفید سکارف، سر پر سیاہ ٹوپی، سفید قمیض اور سیاہ پتلون شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیاہ و سفید رنگ کی چھڑی تھامے یہ خدا ایئر پورٹ سے سٹیٹ گیسٹ ہاوس جانے والی سڑک کے پانچ سات میل لمبے راستے پر جا بجا کھڑے تھے۔

اکرا کا کوٹوکا ایئر پورٹ افریقہ کے خوبصورت ترین ہوئی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اس کی بلڈنگ کے اوپر ایک وسیع و عریض اور نہایت خوب صورت بالکنی بنی ہوئی ہے۔ جس میں آٹھ دس ہزار افراد کے سمانے کی گنجائش موجودہے۔ (اس دن) وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔۔ ۔

سب سے پہلے ایک نہایت مخلص غانئین احمدی احمد بوائٹنگ نے حضور کے طیارہ کو لینڈ کرتے دیکھا اور چشمِ زدن میں اس کے جسم کی ساری قوت اس کے حلق میں جمع ہوگئی اور اس نے جلسہ سالانہ ربوہ کے مخصوص انداز میں ہاتھ بلند کر کے نعرۂ تکبیر کی آواز بلند کی اور اس احمدی کی بلند اور بھاری آواز کی گونج ایئر پورٹ کی خاموش بلڈنگ کی دیواروں سے ابھی ٹکرا رہی تھی کہ پندرہ ہزار افراد کا آتش فشاں گویا پوری قوت سے پھٹ پڑا۔ زیر لب دعائیں کرنے والے ہونٹوں اور آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے والے احباب کے جذبوں اور جوش کے بارود کو جیسے کسی نے تیلی دکھا دی ہو اور ہزاروں بادلوں کی گرج کے ساتھ نعرہ تکبیر کا پہلا زبردست جواب گونجا۔ اللّٰہ اکبر

اور ایئر پورٹ پر جیسے جوش و جذبے، وارفتگی اور دیوانگی کا ایک سیلاب آگیا۔ اس نعرے سے جس نے حضور کا طیارہ آتے نہ بھی دیکھا تھا اس نے بھی دیکھ لیا۔ رَن وے کے آخری کونے سے تیز رفتاری سے ہوائے اڈے کی بلڈنگ کی طرف بڑھتا ہوا طیارہ جوں جوں نزدیک آ رہا تھا۔ فلک شگاف نعروں کا ایک طوفان ابل رہا تھا۔ احباب اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے سفید رومال اپنے سروں سے اونچے کر کے لہرا رہے تھے۔ بیک وقت سینکڑوں نعرے لگانے والے آوازیں بلند کرتے اور ہزاروں احباب روحانی جذب و شوق میں مست اور بے خود ہو کر گلے پھاڑ پھاڑ کر ان کا جواب دیتے ان کے نعروں میں نمایاں ترین نعرہ ’’خلیفۃ المسیح زندہ باد‘‘ کا اردو نعرہ تھا۔

محبت اور دیوانگی کے بھی عجیب عجیب روپ ہیں۔ کہاں تو یہ افریقی احمدی اپنے آقا کا طیارہ دیکھ کر خوشی اور مسرت سے پاگل ہو رہے تھے اور کہاں یہ حیرت ناک بات ہوئی کہ جونہی طیارہ ایئر پورٹ کی عمارت کے عین سامنے آکر رکا تو سب پر ایک خاموشی چھا گئی۔ خوشی و مسرت سے مبہوت ہو کر ہزاروں نگاہیں طیارے کے دروازے پر جم گئیں۔ احترام و محبت کے ملے جلے جذبات نے اس قدر رعب طاری کیا کہ یک لخت ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی میں زیر لب دعائیں کرنے اور آہستہ آہستہ قرآنی آیات کی تلاوت کرنے کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ حضور کا طیارہ رک چکا تھا سیڑھی لگائی جا رہی تھی اور کوئی دم میں حضور طیارے سے باہر آیا چاہتے تھے۔ افریقی احباب اس دوران آہستہ آواز میں سبحان اللّٰہ سبحان اللّٰہ کا ورد کر رہے تھے۔۔ ۔ طیارے کا دروازہ کھلا تو سب سے پہلے طیارے سے باہر آنے والی شخصیت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث (رحمہ اللہ) کی تھی۔ حضور انے احباب کے پر جوش مجمع کو دیکھتے ہی ہاتھ ہلائے اور چونکہ طیارہ عمارت کے عین درمیان میں آکر کھڑا ہواتھا اس لئے حضور نے دائیں اور بائیں گھوم کر تمام احباب کی طرف ہاتھ ہلائے۔ حضور کے ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہی خاموشی کا طلسم ایک بار پھر ٹوٹ گیا اور فضا میں محبت و فدائیت کے نعرے۔ احباب کا زور دار طریقے سے سفید رومالوں کو ہلانا اچھل اچھل کر حضور کی آمد پر خوشی کا اظہار اور ایک دفعہ پھر ہوائی اڈے کی عمارت کے درو دیوار نعروں کی گونج سے کانپنے لگے۔

(روزنامہ الفضل خاص نمبر 26 اکتوبر 1980ء صفحہ 14-15)

بارش اور ٹھنڈ میں بیٹھے رہے

24 اگست 1980ء اکرا میں مشن ہاوس میں مسجد کا افتتاح فرمایا۔اس اثناء میں ابھی حضور تشریف نہ لائے تھے کہ تین بجے کے قریب بارش شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ اس علاقہ میں بارش کے ساتھ جب ہوا چلنے لگے تو یکدم شدید ٹھنڈ ہو جاتی ہے اور لوگ گھروں کے اندر تو آگ بھی جلا لیتے ہیں۔ بارش شروع ہونے سے قبل ہزاروں افراد کو جو حضور کے انتظار میں تھے یہ ہدایت کی گئی کہ حضور تشریف لانے والے ہیں اس لئے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ اس اثناء میں بارش شروع ہو گئی مگر خلیفۃ وقت سے وارفتگی اور محبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا اور اس دوران عربی نظمیں مقامی زبان میں مسیح کی آمد کے متعلق پڑھی جاتی رہیں۔ کورس کے رنگ میں دعائیں پڑھی گئیں۔ سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ، اللّٰہ اکبر اور تسبیحات و تکبیرات کا ورد جاری رہا۔ کبھی کبھی کوئی نعرہ بھی لگا دیتا۔ جماعت کے انتظام کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں ہزار لوگوں کا انتظام کرسیوں پر کیا گیا تھا۔ بارش جاری تھی اور لوگ آرام و سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران جبکہ بارش پورے زور سے جاری تھی حضور تشریف لے آئے، احباب کو بارش میں بھیگتا دیکھ کر حضور بھی احباب کی محبت کی وجہ سے اسی بارش میں بھیگتے خود بھی سٹیج پر تشریف لے آئے۔ حضور کی شیروانی مبارک بارش میں بھیگ گئی اور اسی عالم میں زبردست نعروں کے جلو میں حضور نے احباب کو خطاب فرمایا۔

(روزنامہ الفضل خاص نمبر 26 اکتوبر 1980ء صفحہ23)

غانا کے عشاقِ خلافت

13 مارچ 2004ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جہاز غانا کے لوکل ٹائم کے مطابق شام چھ بجکر 35منٹ پر اکرا کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ (Kotoka) پر اترا۔ غانا کے جملہ ریجنز سے 3000سے زائد احمدی احباب حضور انور کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ استقبال کے لئے آنے والوں کا سلسلہ صبح سے جاری تھا۔ بعض احباب ایک دو دن قبل ہی اکرا پہنچے ہوئے تھے۔ حضور انور کے جہاز کا اترنا ہی تھا کہ احباب جماعت نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے اور خوب گرمجوشی سے اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ جہاز کی کھڑکیوں سے یہ سارا دل فریب نظارہ نظر آ رہا تھا۔

جلسہ سالانہ غانا کا منظر

جلسہ گاہ کو بینرز سے خوب سجایا گیا ہے۔ بینرز پر مختلف آیات، احادیث نبویہ اور الہامات حضرت مسیح موعود درج تھے۔

بستان احمد کی چار دیواری پر نظر ڈالیں تو ہر طرف سفید اور کالے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس خدام ڈیوٹی پر کھڑے نظر آتے تھے۔ 60 خدام اپنے مخصوص یونیفارم میں حضور انور کے اعزاز میں گارڈ آف آنر پیش کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ حضور انور پولیس کی گاڑیوں اور موٹر سا ئیکلوں کے سکواڈ میں جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ … خدام کے ایک دستہ نے حضور پر نور کے اعزاز میں گارڈ آف آنر پیش کیا اور حضور انور کو خوش آمدید کہا۔۔ ۔

حضور انور کا والہانہ استقبال

پرچم کشائی کے بعد حضور انور جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو ساری فضا نعرہ ہائے تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ حضور انور پہلے مردوں کی طرف تشریف لے گئے او رہاتھ ہلا کر ان کے نعروں کا جواب دیا۔ پھر آپ عورتوں کی طرف تشریف لائے جہاں عورتوں نے ہاتھوں میں لئے سفید رومال ہلا ہلا کر پر جوش نعروںسے حضور انور کا خیر مقدم کیا۔ ہر احمدی کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ اسے پیارے محبوب امام کا دیدار ہو رہا تھا۔ غانا کی تاریخ میں یہ وہ تاریخی دن تھا جو پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ آج غانا سے پہلی مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح کا خطاب اور جلسہ کی کارروائی MTA کے ذریعہ ساری دنیا میں براہ راست نشر کی جا رہی تھی۔

کماسی کا دل فریب نظارہ

20 مارچ 2004ء کو حضور انور آسوکورے سے کماسی کے لئے روانہ ہوئے۔ 4بجے سہ پہر حضور انور کماسی پہنچے اور مشن ہاؤس کا معائنہ فرمایا مشن ہاؤس سے ایک کلومیٹر باہر سے سٹرک کے دونوں طرف مردوزن بچے او ربچیاں ہزار ہا کی تعداد میں، احمدیت کے جھنڈے لہراتے ہوئے حضور کا استقبال کر رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ حضور انور مشن ہاؤس کے گیٹ میں داخل ہوئے تو قریباً 60 بچیوں نے بڑی مترنم آواز سے ترانہ ’’سیدی، مشفقی، مرشدی، مہرباں‘‘ پڑھا، غانین بچوں کے منہ سے پیارے آقا کی محبت میں اردو ترانہ، دل کو بہت بھا رہا تھا، دل ان کی خلافت سے محبت پر واری ہوا جاتا تھا، یہ بچیاں سفید دوپٹے، سفید لباس پہنے ہوئے تھیں اور ہاتھوں میں احمدیت کے جھنڈے لہرا رہی تھیں۔ حضور انور ان بچوں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ اور ترانہ سنتے رہے۔ اس ترانہ کے بعد غانین احمدی بچیوں نے نظم، ’’ہے دست قبلہ نما لاالٰہ الا اللّٰہ‘‘ مترنم آواز سے پڑھی، حضور انور نے یہ نظم سنی اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ حضور انور نے اپنے استقبال کے لئے آنے والے غیر احمدی چیف اور ائمہ کرام کو شرف مصافحہ بخشا۔ ریجنل صدر Mr. Abdullah Nasir Boateng نے حضور انور کو ایک سکارف پہنایا جس پر ’’Welcome to Ashanti Region‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ ایک طفل عدنان ابوبکر نے حضور انور کی خدمت میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔

کماسی کی مسجد میں

چار بج کر پچیس منٹ پر حضور انور نے کماسی کی تین منزلہ بہت خوبصورت اور وسیع وعریض مسجد میں نماز ظہر وعصر پڑھائیں اور اس پر نصب ’’یادگاری تختی‘‘ کی نقاب کشائی فرمائی۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں احمدی احباب موجود تھے۔ غیر احمدی چیف اور ائمہ نے بھی حضور انور کے ساتھ نمازاد اکی۔ اس مسجد میں چھ ہزار نمازیوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ نماز ادا کرنے کے بعد حضور انور مسجد کی تیسری منزل کی بالکنی پر تشریف لے گئے۔ مسجد کے احاطہ میں ہزار ہا احمدی اپنے پیارے آقا کے دیدار کے منتظر تھے۔

حضور انور کا چہرہ مبارک دیکھنا ہی تھا کہ ہر طرف سے نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے۔ احباب کی خوشی ومسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ہجوم بڑے جوش وخروش کے ساتھ نعرے لگا رہا تھا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے فلک شگاف نعروں سے بیت الذکر کی فضا گونج رہی تھی۔ یہ انبوہ کثیر جب کورس کی شکل میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھتا تو دلوں پر عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ منظر ناقابل بیان ہے۔

سب یک آواز ہو کر احمدیت زندہ باد، کے نعرے لگا رہے تھے۔ نیز لبیک اللھم لبیک کے الفاظ کورس کی شکل میں پڑھ رہے تھے۔

یہ عجیب روح پرور اور ایمان افروز نظارہ تھا۔ حضور انور مسلسل 10منٹ تک متبسم چہرہ کے ساتھ ہاتھ ہلا ہلا کر ’’مشتاقان دید‘‘ کے والہانہ نعروں کا جواب دے رہے تھے۔

بھاگتے بھاگتے گاڑی صاف کر ڈالی

22 مارچ 2004ء کو حضور انو ر وا (Wa) اپرویسٹ ریجن (Upper West Region) کے لئے روانہ ہوئے۔ قریباً چھ گھنٹے کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد حضور انورپونے تین بجے WA مشن ہا ؤ س پہنچے۔ ٹیچی مان سے وا (WA)جانے والی 195 میل لمبی سٹرک میں سے 71میل کا حصہ کچا ہے اور اتنی گردپائی جاتی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کدھر جا رہے ہیں۔ نہ اگلی گاڑی نظر آتی ہے نہ پچھلی۔ اس گردوغبار میں اندازہ لگا کر ہی سڑک پر رہنا پڑتا ہے۔ سڑک میں چھوٹے چھوٹے گڑ ھے ہونے کی وجہ سے اس قدر جھٹکے لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ یہ 71 میل کا سفر قریباً چار گھنٹے میں طے ہوا۔ اگر یہ حصہ، پختہ سڑک پر مشتمل ہوتا تو وا کا سارا سفر تین ساڑھے تین گھنٹے کابنتا ہے۔ حضور انور کی گاڑی مسلسل ’’WA‘‘ کی جانب عازم سفر تھی۔

وا کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک کے دونوں طرف خدام اورلجنہ نے نعرہ ہائے تکبیر سے حضور انور کا استقبال کیا۔ مشن ہا ؤ س تک پہنچنے کے لئے ابھی دو میل کا سفر باقی تھا۔ اس سارے راستے میں احباب جماعت مختلف گروپس اور ٹولیوں کی شکل میں حضور انور کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ سڑکوں پر خوش آمدید اور اھلاًوسھلاً ومرحبا کے بینرز لگے ہوئے تھے۔

حضور انور کی گاڑی مشن ہا ؤ س پہنچی تو احمدیوں کی بھاری تعداد حضو ر کے استقبال کے لئے موجود تھی۔ سب احمدی احباب سفید لباس میں ملبوس نعرہ ہائے تکبیر لگا رہے تھے اور اھلاً وسھلاًومرحبا کے الفاظ پڑھ رہے تھے۔

خدام کی حضور انور سے وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور کی گاڑی مٹی سے اٹی پڑی ہے تو وہ گاڑی کے دونوں طرف بھاگنے لگے۔ بھاگتے بھاگتے حضور انور کی چلتی ہوئی گاڑی مشن ہا ؤ س میں پہنچنے سے پہلے ہی صاف کر ڈالی۔

حضور انور کے استقبال کے وقت لا ؤ ڈ سپیکر پر، احمدیت زندہ باد اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس زندہ باد کے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے جا رہے تھے۔ حضور انور لجنہ کی طرف بھی تشریف لے گئے اور ہاتھ ہلا کر ان کے والہانہ نعروں کا جواب دیا۔ حضور انور نے Elders کو بھی جو ایک قطار میں کھڑے تھے شرف مصافحہ بخشا۔

برکینافاسو میں مصافحہ کے بعد کا عالم

مصافحہ کے بعد بعض لوگوں نے خصوصاً بڑی عمر کے لوگوں نے کہا کہ ہم بہت تکلیف اٹھا کر اور لمبا سفر کر کے دو دن میں یہاں پہنچے ہیں اور ہم سارے راستہ میں یہ دعا کرتے رہے کہ خداتعالیٰ ایسا موقع پیدا فرما دے کہ ہم خلیفہ کو اپنا ہاتھ لگالیں۔بعد میں معلوم نہیں کہ زندگی میں دوبارہ ملاقات ہو آج اللہ نے ہماری دعا سن لی ہے۔ اور ہمارے ہاتھوں نے حضور انور کے ہاتھوں کو چھو لیا ہے۔

حضور انور سے مصافحہ کرنے کے بعد بعض لوگ اپنا ہاتھ اپنے چہرہ پر اور اپنے کپڑوں پر ملتے۔ ہر ایک کی محبت کا اپنا اپنا انداز تھا۔ ایک صاحب نے مصافحہ کے بعد اپنے ہاتھ پر رومال لپیٹ لیا کہ اب میرے ہاتھ کو کوئی دوسراہاتھ نہ لگے اور میں اس برکت کو ساتھ لئے رکھوں۔

ایک روز حضور انورنے گزرتے ہوئے ایک بچے کو پیار کیا اور اس سے مصافحہ فرمایا تو قریب کھڑے لوگوں نے اس بچے کا ہاتھ چومنا شروع کر دیا کہ حضور کا ہاتھ اس بچے کے ہاتھ کو لگا ہے۔

ایک فدائی خلافت کا منفرد تحفہ

بوبو جلاسو برکینا فاسو میں ریڈیو سٹیشن کے معائنہ کے بعد حضور باہر تشریف لائے تو Koudogou ریجن کے Tyniema (چینما) نامی گا ؤ ں کے ایک مخلص دوست جن کا نام مسٹرادریس تھا حضورانور کی خدمت میں ایک چھڑی اور اپنا اکلوتا بیٹا پیش کیا بیٹے کی عمر 25سال ہے۔ والد کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ جماعت کی خدمت کرے۔اس شخص کے ذریعہ Tyniena اور Naba Dougou میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ اور جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ یہ صاحب اپنی بزرگی کی وجہ سے اپنے علاقہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

بینن کے فدائیانِ خلافت کے اخلاص کا نظارہ

بینن کے مقامی وقت کے مطابق رات 7بجکر بیس منٹ پر حضور انور کا طیارہ بینن کے انٹرنیشنل کوتونو (Cotunou) ایئرپورٹ پر اترا اور وہ تاریخ ساز لمحہ آ پہنچا جب خلیفۃ المسیح کے قدم پہلی بار بینن (بادشاہوں کی سرزمین) پر پڑے۔ جہاز کی سیڑھیوں پر امیر صاحب بینن، مجلس عاملہ کے بعض ممبران، مربیان اور ڈاکٹرز نے حضور انور کو خوش آمد ید کہا۔

حضور انور ایئرپورٹ سے Portonovo (پورٹونووو) روانہ ہونے کے لئے VIPلا ؤ نج سے جب باہر تشریف لائے تو بینن کی مختلف جماعتوں سے حضور انور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے دو ہزار سے زائد افراد نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ اھلا و سھلا و مرحبا لکم کی آوازیں ہر طرف سے آ رہی تھیں۔ خواتین اور بچیاں استقبالیہ گیت گا رہی تھیں۔ اور مرد و زن چھوٹے بڑے سبھی ہاتھ ہلا ہلا کر حضور انور کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ حضور انور نے ہاتھ ہلا کر سب کو سلام کیا۔ خدام الاحمدیہ کے گروپس اپنے مخصوص لباس میں چاق وچوبند ڈیوٹی پر موجود تھے۔ بچیاں سفید لباس میں ملبوس والہانہ انداز میں نغمے گا رہی تھیں۔ بڑا ہی ایمان افروز اور روح پرور منظر تھا۔ سبھی کی نظریں اپنے پیارے امام کے چہرہ پر مرکوز تھیں سبھی نے پہلی بار حضور انور کو اپنے درمیان دیکھا تھا۔ ہر کوئی خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا۔

دیدار کے واسطے پیدل سفر

مشن ہا ؤ س جانے والی سڑک پر جونہی حضور انور کی گاڑی داخل ہوئی سڑک کے دونوں طرف کھڑے احباب جماعت نے والہانہ انداز میں حضور انور کا استقبال کیا بچے استقبالیہ نغمے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ اٹھا کر حضور انور کو سلامی دے رہے تھے۔ جب حضور انور گاڑی سے اترے تو ایک طفل نے حضور انور کی خدمت میں پھول پیش کئے اور ساتھ ہی تمام بچوں نے یک زبان ہو کر اردو میں یہ کہا ’’ہم پیارے حضور کو بینن کی سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں‘‘ یہ فقرہ بچوں نے بار بار دہرایا۔ اور پھر فرنچ زبان میں بھی حضور انور کو خوش آمدید کہا۔ اس ریجن کی 17جماعتوں کے 1700 سے زائد احباب نے والہانہ انداز میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے ہوئے حضور انور کااستقبال کیا۔ ہر طرف سے اھلا و سھلا و مرحباً لکم کی آوازیں آ رہی تھیں۔

یہ سب احباب دور دور کی جماعتوں سے سفر کی تکالیف اٹھا کر یہاں پہنچے تھے اکثر جگہوں پر کچے راستے ہیں اور ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہے۔ بعض جماعتیں 18کلو میٹر تک پیدل سفر کرکے اس جگہ پہنچیں جہاں سے ٹرانسپورٹ مل سکتی تھی۔ بعض لوگ 135کلو میٹر کے کچے راستوں سے سفر کرکے پہنچے۔ لیکن کسی کے چہرے پر تھکاوٹ کے کوئی آثار نہیں تھے ہر ایک کے چہرہ پر خوشی و مسرت تھی۔ ہر ایک مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا اپنے پیارے آقا کے دیدار کے لئے بیتاب تھا ایسا کیوں نہ ہوتا آج ان کی زندگی میں ایسا دن آیا تھا جب ان کا محبوب امام ان میں موجود تھا۔

(دورہ افریقہ نمبر الفضل ربوہ 28 دسمبر 2004ء)

فدائیانِ خلافت کے عشق کا ایک نظارہ

16 اپریل 2008ء کو اکرا غانا میں گیسٹ ہاؤسز کے افتتاح کے بعد حضور انور واپس رہائش گاہ جانے کے لئے روانہ ہوئے تو راستہ کے دونوں طرف جو قریباً ڈیڑھ فرلانگ ہے، حضور انور کے عشاق پروانوں کی طرح اپنی شمع پر امڈ آئے۔ ہر طرف ایک ہجوم تھا، تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے سب خوشی و مسرت سے جھومتے ہوئے نعرے بلند کررہے تھے اور استقبالیہ نغمے الاپ رہے تھے۔ قابل دید منظر تھا لیکن ناقابل بیان۔ ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ عورتیں بھاگتے ہوئے جگہ تلاش کرتی تھیں کہ کہیں قدم رکھنے کی جگہ مل جائے اور اپنے آقا کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ خدام اپنے مخصوص لباس سفید شرٹ اور سیاہ پتلون میں ملبوس، گلوں میں خدام کے رومال ڈالے اور سروں پر اپنی مخصوص سفید دھاری والی سیاہ ٹوپی پہنے، سینکڑوں کی تعداد میں چاک وچوبند ڈیوٹی پر موجود تھے اور حضور انور کی کار اور راستہ کے دونوں طرف مسلسل ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ حضور انور کی گاڑی بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ ایک طرف حضور انور اپنے عشاق کو دیکھ رہے تھے تو دوسری طرف عشاق کی نظر یںمسلسل حضور انور کے پُرنور چہرہ پر مرکوز تھیں اور ہر ایک اپنی پیاس بجھا رہا تھا۔ یہ پیاسے لوگ آج سیراب ہورہے تھے اور ان کی ترسی ہوئی نگاہوں کو تراوت نصیب ہورہی تھی۔ یہ روح پرور، ایمان افروز منظر اور ماحول حضور انور کی رہائش گاہ تک جاری رہا۔ حضور انور کی گاڑی آہستہ آہستہ رہائش گاہ میں داخل ہوئی۔

(الفضل ربوہ 28 اپریل 2008ء)

305 سائیکل سوار خدام

غانا کے جوبلی جلسہ میں سب سے بڑا وفد بورکینا فاسو سے شامل ہوا جس کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔ یہ وفد 44 بسوں اور 13 گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعہ بڑا لمبا سفر طے کرکے غانا پہنچا۔ اس وفد کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ تین صد سے زائد خدام سائیکلوں پر 1600 کلومیٹر سے زائد بڑا طویل، تکلیف دہ اور انتہائی کٹھن سفر طے کر کے اپنے پیارے آقا کے دیدار کے لئے غانا پہنچے۔ ان خدام کو جونہی علم ہوا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز غانا کے جلسہ میں شامل ہورہے ہیں تو 1135 خدام سائیکلوں پر اس سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ ہر ایک میں ایک غیرمعمولی جوش اور جذبہ تھا۔ جماعتی انتظامیہ نے بڑی مشکل سے صرف 300 خدام کو اجازت دی۔ اس سفر کے لئے حکومتی انتظامیہ نے بھی ہر لحاظ سے تعاون کیا اور غانا کے ایمبیسڈر صاحب نے خصوصی اجازت نامہ جاری کیا۔ ان خدام کی روانگی سے قبل 5اپریل 2008ء کو واگاڈوگو شہر کے وسط میں واقع Palace Da Nation جس میں سرکاری پریڈ ہوتی ہے۔ ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں Youth Ministry کے جنرل سیکرٹری، غانا کے ایمبیسڈر صاحب، ممبر قومی اسمبلی اور بہت سے دیگر حضرات نے شرکت کی۔ میڈیا کے نمائندگان بھی شامل ہوئے۔

اس موقعہ پر وزارت یوتھ کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ وہ اس بات کا گواہ ہے کہ احمدی نوجوان عزم رکھتے ہیں۔ نیشنل اجتماع کے موقع پر خدام نے بڑی تعداد میں اپنے خون کا عطیہ دیا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے بزرگ پیدل غانا جایا کرتے تھے۔ پھر غانا کے ذریعہ پہلا سائیکل سوار بورکینا فاسو آیا تھا اور آج ہم تین سو سائیکل سوار غانا بھجوا رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

غانا کے ایمبیسڈر نے کہا کہ اگرچہ یہ لمبا اور کٹھن سفر بہت مشکل کام ہے لیکن جب احمدی خدام نے عزم کرلیا ہے تو پھر ان کے لئے کوئی مشکل نہیں۔

اس موقع پر TV کے ایک نمائندہ نے پوچھا کہ سائیکل بہت خستہ حال ہیں یہ کس طرح اتنا بڑا سفر کرسکتے ہیں تو جماعتی نمائندہ نے اس کا جواب دیا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان اور عزم بڑا ہے کہ ہم خلافت کے انعام کے شکرانے کے طور پر یہ سفر اختیار کررہے ہیں۔ جب نیشنل TV نے اسی شام یہ خبر نشر کی تو اس کا آغاز اس طرح کیا۔

’’اللہ کی خاطر خلافت جوبلی کے لئے واگا ڈوگو سے اکرا کا سائیکل سفر! اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت مضبوط‘‘

پھر TV نے یہ خستہ حال سائیکل بھی دکھائے۔ پھر دو خدام سے سوال پوچھے کہ کیوں جارہے ہیں۔ ایک خاد م نے جواب دیا کہ اپنے خلیفہ سے ملنے جارہا ہوں۔ دوسرے نے کہا احمدیہ خلافت جوبلی کی سو سالہ تقریبات میں ہمارے خلیفہ آرہے ہیں ان میں شامل ہونے کے لئے جارہا ہوں۔

جب خلافت احمدیہ کے ان فدائی احمدی سائیکل سواروں کا قافلہ واگاڈوگو سے روانہ ہوا تو پولیس نے وہ تمام راستے جن سے اس قافلہ کا گزر ہونا تھا بند کردیئے۔ سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم تھا جو یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور ان کے درمیان یہ احمدی فدائی نوجوان خلافت جوبلی کے لوگو کی شرٹس پہنے غانا کی طرف رواں دواں تھے۔ جب یہ قافلہ شام کو غانا کے بارڈر پر پہنچا توباقاعدہ ایک تقریب منعقد ہوئی اور بارڈر کی انتظامیہ، پولیس اور سرکردہ افراد نے ان کو رخصت کیا اور یوں یہ قافلہ نعرے لگاتا ہوا غانا کی سرزمین میں داخل ہوا۔ غانا میں بارڈر سے ہی TV، ریڈیو اور میڈیا نے اپنی خبروں میں وسیع پیمانہ پر Coverage دی۔

یہ قافلہ جس گاؤں، قصبے اور شہر سے گزرتا تو سارا شہر امڈ آتا اور والہانہ استقبال کرتے اور ہمارے سائیکل سوار بھرپور نعرے لگاتے۔ پہلی رات بولغا میں رہے اور دوسری رات ٹمالے میں۔ ٹمالے میں اس قافلہ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں امیر صاحب غانا بھی اکرا سے ہوائی جہاز کے ذریعہ پہنچے۔ ناردرن ریجن کے منسٹر، اعلیٰ سرکاری حکام اور TV، پر یس کے نمائندوں نے اس تقریب میں شرکت کی۔

مختلف مقامات پر پڑاؤ کرتے ہوئے سات دن مسلسل ان کا سفر جاری رہا۔ ان سائیکل سواروں میں پچاس سے ساٹھ سال کی عمر کے سات انصار بھی شامل تھے اور دو تیرہ تیرہ سال کے بچے بھی شامل تھے۔ جب ان بچوں سے امیر صاحب بورکینا فاسو نے کہا کہ آپ سفر پر نہیں جائیں گے تو یہ غمزدہ ہوگئے اور اپنے قائد اور معلم کے پیچھے بھاگے کہ امیر صاحب کو کہیں کہ ہم ضرور جائیں گے۔ اب ہم واپس نہیں جائیں گے۔ چنانچہ ان بچوں کو اجازت دے دی گئی اور ان دونوں نے بہت ہی خوشی کے ساتھ یہ سارا سفر مکمل کیا۔

صدر صاحب خدام الاحمدیہ بورکینا فاسو جالو عبدالرحمن صاحب نے بتایا کہ ابتدائی جاں نثاروں نے دین کی خاطر بے حد قربانیاں کیں۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے خدام بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہوں اور ہماری خواہش تھی کہ خلافت جوبلی کے سلسلہ میں کوئی ایسا خاص کام کیا جائے جس سے ہمارے اخلاص اور وفا کا اظہار خلافت کے ساتھ ہو اور ہم حضور انور کو بتائیں کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور ہر چیلنج کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ ہم نے سائیکل سفر کے ذریعہ جلسہ سالانہ غانا میں شمولیت کی تحریک کی۔ جس پر خدام نے لبیک کہا اور 1435 خدام نے اپنے نام پیش کردیئے۔ بعض انتظامی مشکلات کی وجہ سے 300 کا انتخاب کیا گیا اور ہم اپنے عزم میں سرخرو ہوئے۔

(الفضل ربوہ 10 مئی 2008ء)

مصافحہ کا شرف

جلسہ کے انتظامات کے دوران حضور انور مختلف راستوں سے گزر رہے تھے ایک جگہ پر بورکینا فاسو سے سائیکلوں پر آنے والے 305 خدام کھڑے تھے جو سولہ سو کلومیٹر سے زائد سفر طے کرکے جلسہ میں شرکت کے لئے غانا پہنچے تھے۔ حضور انور ان کے قریب پہنچ کر گاڑی سے اتر آئے اور ان میں سے ہر ایک کو شرف مصافحہ بخشا۔ ان خدام کے چہرے خوشی سے کھِل اٹھے۔ سات دن کے طویل اور انتہائی کٹھن سفر کی تھکاوٹ پل بھر میں دور ہوگئی اور ان میں نئی جان آگئی۔ ہر ایک بے حد خوش تھا۔ ایک دوسرے کو گلے لگ کر مبارکباد دیتے تھے۔ حضور انور سے مصافحہ کے بعد اپنے ہاتھ چومتے اور بعض اپنے جسم پر پھیرتے اور ان برکتوں کے مزے لوٹتے۔ زہے قسمت زہے نصیب۔

(الفضل ربوہ 2 مئی 2008ء)

برکت کے حصول کے نظارے

سوا دوگو سالف صاحب صدر جماعت وایو گیا حضور انور سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنے ہاتھ اپنے منہ اور بازوؤں پر ملنے لگے اور کہتے جاتے کہ روحانیت لے لی ہے۔

ڈوری کے ایک صاحب کہنے لگے کہ سارے سفر کی تکلیف دور ہوگئی ہے اور ہمارا مقصد پورا ہوگیا۔ ہم تو برکات لینے آئے تھے اور برکات ہمیں مل گئی ہیں۔

حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے بعد ایک صاحب کہتے جاتے تھے کہ نور ہی نور ہے، آج مجھے بہت مزا آیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔

ایک ڈرائیور جو کہ بورکینا فاسو سے آئے تھے۔ حضور انور سے مصافحہ کے بعد کہنے لگے کہ دو دن تک کسی سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا تاکہ برکت دور نہ ہو جائے۔

سویا گاؤں کے ہمیامکری صاحب کہنے لگے کہ آج حضور انور سے مل کر میری زندگی کا مشن مکمل ہوگیا ہے اب مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں رہی۔ جو مجھے ملنا تھا مل گیا ہے۔

آئیوری کوسٹ کے ایک دوست کہنے لگے کہ حضور انور سے ملاقات کے بعد میری اصلاح ہوگئی ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیسے ہوئی ہے؟ تو کہنے لگے کہ جب بھی میں کوئی برا کام کرنے لگوں گا تو خیال آئے گا کہ میرے ہاتھ کو حضور انور نے چھوا ہوا ہے اور برے کام سے رک جاؤں گا۔

بورکینا فاسو کے ایک دوست عیسیٰ سیاماں صاحب نے کہا کہ میں نے 2005ء میں بیعت کی تھی۔ مجھے آج پتہ چلا ہے کہ میں کیا ہوں اور کتنا خوش قسمت ہوں اور میں نے کیا پایا ہے، اپنی خوشی کا اظہار نہیں کرسکتا۔ ایک دوست نے جلسہ سالانہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی زندگی میں حج کے بعد یہ سب سے بڑا مجمع دیکھا ہے۔

(الفضل ربوہ 9 مئی 2008ء)

اللہ تعالیٰ ان روحوں میں فدائی روحوں پر اپنا فضل نازل فرمائے اور ان کے ایمان و ایقان میں برکت عطا فرمائے اور یہ روز بروز خلافت سے محبت میں بڑھتے چلے جائیں۔ آمین

(ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

یہ جلسہ ہے سالانہ یہ ایام مبارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2022