• 15 مئی, 2024

سب انسانوں سے بہتر جماعت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بعض باتوں کی اس وقت مَیں یہاں نشاندہی کرتا ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ (آل عمران: 111) یعنی تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں یا عباد الرحمٰن کا مقام حاصل کرنے والوں کی جماعت کو یہاں سب انسانوں سے بہتر جماعت فرمایا ہے۔ کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق احسن کو اپنے قول و فعل میں قائم کیا ہوا ہے۔ اس لئے بہتر ہیں کہ نیکی کی ہدایت کرتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اس ہدایت کی تلقین کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنا قرب دلانے کے لئے دی ہے۔ فرمایا کہ تم لوگ اس لئے بہتر ہو خیر اُمّت ہو کہ بدی سے روکتے ہو۔ ہر گناہ اور برائی سے آپ بھی رکتے ہو اور دوسروں کو بھی رکنے کی تلقین کرتے ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکو اور پھر یہ کہ تمہارا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے اس لئے تم خیر اُمّت ہو۔ تم اس یقین پر قائم ہو کہ خدا تعالیٰ میرے ہر قول و فعل کو دیکھ رہا ہے۔ تم اس ایمان پر قائم ہو کہ دنیا کے عارضی رب میری ضروریات پوری نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے میری ضروریات پوری کرنے والا ہے اور میری دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اور پھر یہ قول ایسا ہے، یہ بات ایسی ہے جس کو دنیا کو بھی بتاؤ کہ تمہاری بقا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے اور چلنے سے ہے۔ دنیاوی آسائشوں اور عیاشیوں میں نہیں ہے۔ پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان احسن باتوں اور نیکیوں اور برائیوں کی مزید تفصیل دی ہے۔ مثلاً یہ کہ فرمایا کہ وَالَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا (الفرقان: 73)

اور وہ لوگ بھی اللہ کے بندے ہیں جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے اور جب لغو باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ بزرگانہ طور پر بغیر ان میں شامل ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یہاں دو باتوں سے روکا ہے۔ ایک جھوٹ سے، ایک لغو بات سے۔ یعنی جھوٹی گواہی نہیں دینی۔ کیسا بھی موقع آئے، جھوٹی گواہی نہیں دینی۔ بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ تمہاری گواہی کا معیار ایسا ہو کہ خواہ اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی پیارے اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ پس یہ معیار ہے سچائی کے قائم کرنے کا۔ یہ معیار قائم ہوگا تو اس احسن میں شمار ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے احسن فرمایا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بنتا ہے۔ نیکیوں میں مزید ترقی ہوتی ہے اور ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ سچائی کے بارہ میں مزید فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا (الفرقان: 71) کہ اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور وہ بات کہو جو پیچ دار نہ ہو بلکہ سچی، کھری اور سیدھی ہو۔

یہ وہ سچائی کا معیار قائم رکھنے کے لئے احسن ہے جس کو کرنے اور پھیلانے کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے جائزے لیں تو سچائی کے یہ معیار نظر نہیں آتے۔ ہر قدم پر نفسانی خواہشات کھڑی ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں، کتنے ہیں ہم میں سے جو بوقت ضرورت اپنے خلاف گواہی دینے کو تیار ہو جائیں، اپنے والدین کے خلاف گواہی دیں، اپنے پیاروں کے خلاف گواہی دیں اور پھر یہ معیار قائم کریں کہ اُن کی روز مرہ کی گفتگو، کاروباری معاملات وغیرہ جو ہیں ہر قسم کی پیچ دار باتوں سے آزاد ہوں۔ کہیں نہ کہیں یا تو ذاتی مفادات آڑے آ جاتے ہیں یا قریبیوں کے مفادات آڑے آ جاتے ہیں۔ یا اَنائیں آڑے آ جاتی ہیں اور غلطی ماننے کو وہ تیار نہیں ہوتے۔ ان باتوں کو پیچ دار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اپنی جان بچائی جائے تاکہ اپنے مفادات حاصل کئے جائیں۔ قولِ سدید کا معیار اللہ تعالیٰ کے احسن حکموں میں سے ایک ہے۔ یایہ کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو یہی احسن ہے کہ سچائی بغیر کسی ایچ پیچ کے ہو۔ اگر اس حکم پر عمل ہو تو ہمارے گھروں کے جھگڑوں سے لے کر دوسرے معاشرتی جھگڑوں تک ہر ایک کا خاتمہ ہو جائے۔ نہ ہمیں عدالتوں میں جانے کی ضرورت ہو، نہ ہمیں قضا میں جانے کی ضرورت ہو۔ صلح اور صفائی کی فضا ہر طرف قائم ہو جائے۔ اگلی نسلوں میں بھی سچائی کے معیار بلند ہو جائیں۔

(خطبہ جمعہ 18؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اردو زبان کے رموز اوقاف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 ستمبر 2022