• 4 مئی, 2024

فقہی کارنر

مسجد کی امامت اور ختم پر اجرت لینا

ایک سوال پر (حضرت مسیح موعودؑ نے) فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو ناپاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے مُلاں لوگ پڑھتے ہیں۔ اس ملک کے لوگ جو ختم وغیرہ دیتے ہیں مُلَّاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے۔

وَلَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا

(البقرہ: 42)

یہ کفر ہے۔ جو طریق آج کل پنجاب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے ملاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کر کے جماعت کراتے ہیں ایسا امام شرعاً ناجائز ہے۔ صحابہؓ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اجرت پر امامت کرائی ہو پھر اگر کسی مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ملاں نے نماز جنازہ کی چھ یا سات تکبیریں کہیں۔ لوگوں نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یاد رہتا ہے کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یاد رہے جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک مُلَّا یہاں آ کر رہا۔ ہمارے میرزا صاحب نے اُسے محلے تقسیم کر دئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جو محلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قد چھوٹے ہیں اس لئے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی۔

اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردّی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہو جاتا ہے۔

(البدر 27 مارچ 1903ء صفحہ73)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اردو زبان کے رموز اوقاف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 ستمبر 2022