• 6 مئی, 2024

احمدیت ہی غالب آئے گی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہماری جماعت کا قیام اسلام کے دوبارہ احیاء اور اس کو دنیا میں شوکت و عظمت کے ساتھ قائم کرنے کے لئے ہوا ہے۔ گویا احمدیت کی شکل میں کوئی نیا مذہب قائم نہیں ہوا۔ احمدیت نے کوئی نئی شریعت پیش نہیں کی۔ احمدیت کوئی نیا مسلک لے کر نہیں آئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا احمدیت لفظ بلفظ اُس کی نقل ہے اور حرف بحرف اُسی کی تصدیق ہے۔ احمدیت کے آنے کی وجہ اور اللہ تعالیٰ کے ایک مامور کو کھڑا کرنے کی وجہ صرف اور صرف اِتنی ہی تھی، اتنی ہی ہے اور اتنی ہی رہے گی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کو جو مسلمانوں نے بُھلا دیا تھا اور آپ کے بتائے ہوئے رستہ کو جو مسلمانوں نے ترک کر دیا تھا اور آپ کی سکھائی ہوئی تعلیم کو جسے لوگوں نے چھوڑ دیا تھا اور اس کے نتیجہ میں اپنے عمل کی کمزوری اور خدا کی گرفت کی وجہ سے مسلمانوں کا قدم ذلّت، نکبت اور رُسوائی کی طرف لَوٹ گیا تھا اور یا تو وہ ایک وقت میں دنیا کے ایک بڑے حصہ پر غالب تھے اور یا وہ سارے ممالک میں مغلوب ہو گئے اور ان کی دینی، اخلاقی، سیاسی، تمدنی اور علمی برتری دینی، اخلاقی، سیاسی، تمدنی اور علمی شکست اور کمزوری میں متبدّل ہو گئی ہے۔ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اِس ذلت کو دور کرے اور پہلے طریق کو دوبارہ دنیا میں رائج کرے۔ اسلامی اخلاق کو دوبارہ پیدا کرے اور اپنے دین کو پھر دنیا میں غالب کرے اور کفر اس کے مقابلہ میں شکست کھا کر اپنی مقررہ جگہ پر چلا جائے۔ یہی احمدیت کے قیام کی غرض تھی، یہی غرض اب بھی ہے اور یہی غرض قیامت تک رہے گی۔ دشمن خواہ کتنی غلط باتیں ہماری طرف منسوب کرے، وہ خواہ کتنے غلط عقیدے ہماری طرف منسوب کرے، وہ خواہ کتنی باتیں اپنے دل سے بنا کر ہمارے عقیدوں میں داخل کرنے کی کوشش کرے یہ ایک صداقت ہے جس کا کوئی غیر بھی دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کرے گا تو اس پر واضح ہو جائے گی اور اُسے تسلیم کرنا ہو گا کہ احمدیت کا مقصد اور مدعا ابتدا سے لے کر آج تک یہی رہا ہے اور آج سے لے کر قیامت تک یہی رہے گا۔ اور اگر یہ صحیح ہے کہ یہی منشاء احمدیت کے قیام کا تھا، یہی منشاء احمدیت کے قیام کا ہے اور یہی منشاء احمدیت کے قیام کا رہے گا۔ اور اگر یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں بھیجے گئے تھے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے اور قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے تو پھر یہ تیسرا نتیجہ بھی ضروری ہے کہ یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کی طاقتیں اور قوتیں خواہ وہ سیاسی ہوں، تمدنی ہوں، علمی ہوں یا کسی قسم کی بھی ہوں منفردانہ طور پر یا مشترک طور پر الگ الگ وقتوں میں یا ایک ہی وقت میں مختلف سکیموں کے ماتحت یا ایک ہی سکیم کے ماتحت اچانک یا کسی سوچی سمجھی ہوئی تدبیر کے مطابق اگر حملہ کریں گی تو وہ ناکام و نامراد رہیں گی اور احمدیت ہی غالب آئے گی ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ احمدی اپنے فرائض کو ادا کریں اور وہ اپنے مقصد کو اپنے سامنے ہمیشہ زندہ رکھیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24نومبر 1950ء بمقام ربوہ الفضل مورخہ30نومبر1950ء)

(مرسلہ: ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

اردو زبان کے رموز اوقاف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 ستمبر 2022