رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۵﴾
(بنی اسرائیل: 25)
ترجمہ: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی۔
یہ قرآن مجید میں مذکور ماں باپ کے لئے رحم وبخشش طلب کرنے کی بہت پیاری دعا ہے۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نیز والدین کے حقوق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
پھر والدین کا وجود ہے، یہ ایسا وجود ہے کہ انسان تمام عمر بھی ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں اتار سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ سلوک کریں، تمہارے سے سختی کریں، نرمی کریں، تم نے ہر حال میں ان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرنا ہے۔ تم نے ان کی کسی بری لگنے والی بات پر بھی اُف تک نہیں کہنی۔ صبر سے ہر چیز کو برداشت کرنا ہے۔ ہمیشہ ان سے نرمی اور پیار کا معاملہ رکھنا ہے کیونکہ تمہارے بچپن میں ان کی جو تمہارے لئے قربانیاں ہیں تم ان کا احسان نہیں اتا ر سکتے۔ اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے لئے اس طرح دعا کیا کرو کہ رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی ۔۔۔۔۔ تو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ماں باپ کے احسانوں کا ایک انسان بدلہ نہیں اتار سکتا لیکن دعا اور حسن سلوک ضروری ہے۔ اس سے کچھ حد تک آدمی اپنے فرائض کو ادا کر سکتا ہے اور اسی سے بخشش ہے۔
(خطبہ جمعہ 13؍ اکتوبر 2006ء)
(مرسلہ: مریم رحمٰن)