• 18 اپریل, 2024

دار المسیح قادیان کی زیارت (قسط اول)

دار المسیح قادیان کی زیارت
قسط اول

دُنیا کے شاید کسی ملک میں ہندوستان کے لئے ویزے کا حصول اتنا مشکل نہ ہو جتنا ناروے کے باشندوں کو ہے۔

بہت شاذ کے طور پر کسی کو مہا بھارت ہندوستان کا اجازت نامہ کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے 1992ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ قادیان جارہے تھے۔ تب ہندوستانی سفارت خانے نے خاص مہر بانی کرتے ہوئے، ویزے ایشو کئے تھے۔ اس کے بعد بھارتی سفارت خانے کو تو جیسے چُپ ہی لگ گئی۔ 1992ء میں جب جلسے کے لئے ویزے لگ رہے تھے خاکسار کے میاں (رفیق احمد فوزی مرحوم) نے اپنے ساتھ میرا اور دونوں بچوں کے ویزے کی بھی درخواست دی، سارے خاندان کو ویزہ مل رہا تھا۔ مگر میں نے بچے چھوٹے ہونے کی وجہ سے سفر کا ارادہ بدل دیا۔ اور اُس کا خمیازہ پھر کئی برس بھگتا۔ بہت دفعہ بھارتی سفارت خانے میں درخواست دی۔ اگر چہ میری درویش ہمشیرہ (سلیمہ اہلیہ درویش عبدالسلام) اور بہنوئی بھی قادیان کے باسی تھے ان کے نام کا بھی اپلائی کیا گیا مگر بھارتی ویزہ سیکشن کسی طرح اعتبار کرنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ 2014 ء خاکسار کی درویش ہمشیرہ سلیمہ بیگم نے بہت اصرار کے ساتھ خاکسار کا ویزہ ایک مرتبہ پھر اپلائی کرنے پر زور دینے لگیں۔ اس مرتبہ ان کے بڑے بیٹے ہومیو ڈاکٹر عزیز احمد اخترنے والدہ کی بیماری کے کاغذات کچہری میں جا کر دکھائے اور مہریں وغیرہ لگواکر میڈکل سرٹیفکیٹ بنوا کر اپلائی کیا۔ آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب ہم دونوں ماں بیٹے کو ہندوستان کی اس مبارک بستی کی زیارت کا پروانہ مل گیا جس کے دیدار کی تمّنا کب سے دل میں پال رکھی تھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

سوئے حرم (قادیان)

الغرض ہم دونوں ماں بیٹوں نے، اپنی بوسیدہ گٹھڑیوں میں، اپنی اپنی عمر کے حساب سے تاریخ ِ مسیح َ موعود اور تاریخ ِ دیار ِ مسیح ؐ کا سُنا اور پڑھا ہوا زادِ راہ باندھا۔ اور دیار مسیح کی سب سے پہلی،پہلی زیارت کی خواہشیں باندھ کر کشاں کشاں چل پڑے، ہمارے ملک سے قادیان جانے والے چند ایک ہی لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ قادیان کی پیدائش ہیں۔اس لئے ان کے لئے تو سب دروازے کھلے ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارے سابق مربیّ انچارج اسکینڈے نیویاجناب سید کمال یوسف صاحب بھی موجود ہیں۔جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ وصف عطا کیاہوا ہے کہ جس تجربے سے وہ خود گزرے ہوں پوچھنے پر بہت فراخ دلی سے راہنمائی کرتے ہیں۔ لہٰذا خاکسار کی درخواست پر اُنہوں نے جن میں کچھ نئی باتیں بھی بتائیں جن کے متعلق ہم نے پہلے نہیں سنا ہوا تھا۔ تبرکات حضرت مسیح ِ موعودؑ اور کچھ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے استعمال کی اشیاء کے علاوہ، کچھ تاریخی اور یادگاری مقامات تھے۔ جن میں قادیان سے باہر کی سڑک پر ایک درخت تھا جہاں تک حضور علیہ السلام حضرت صاحبزادہ صاحب کو الوداع کرنے آ ئے تھے۔ اور دلی میں ایک مسجد بھی تھی جہاں حضور کا حضرت امّاں جان کے ساتھ نکاح پڑھا گیا تھا اس کے لئے ہم ان کے بہت شکر گزار ہیں۔

ناروے سے براستہ ماسکو اور ماسکو سے قادیان جانے کا تجربہ، تجربہ نہیں ایک لمبی داستان ہے جس پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اب یہاں تو ہم اس کا ذکر نہیں کریں گے، بہرحال ہم دونوں ماں بیٹا براستہ دلی سے قادیان اپنے بھانجے عزیزم، عزیز احمد اختر ڈاکٹر ہومیو پیتھ کی رہائش گاہ (ننگل یہ قادیان سے ملحقہ علاقہ ہے) پر پہنچ گئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ قادیان میں داخل ہونے کے دوگھنٹوں بعد عشاء کی اذان ہوگئی ہم اسی وقت مسجد مبارک کو چل پڑے۔ پہلی مرتبہ تو ہمیں مسجد مبارک جانے کے لئے کسی نے نہ روکا شاید نماز کا وقت تھا میں نے بتایا میں مہمان ہوں تو اندر چلی گئی۔ پرانے قادیان کی مخلص خواتین جنہوں نے مجھ سے ایسے سلام کیا جیسے کبھی ربوہ میں پرانی خواتین باہر سے آنے والے اجنبی مہمان سے محبت اور خلوص سے ملتی تھیں۔ کالے برقعے پہنے ہوئے، وہی انداز، وہی طریقِ شناسائی۔ اپنے مخصوص انداز میں، کہاں سے آ ئی ہو؟ کہاں ٹھہری ہوَ؟ فوراً ہی والدین کے نام اور شجرہ نسب پو چھنے کی خوبصورت ادا۔ وہی شجرہ نسب ملانے اور واقف داری نکالنے کاچاہت بھرا تجسس۔ ان خواتین سے مل کر سفر کی ساری تھکاوٹ اور کوفت ایک دم ختم ہوگئی۔ اگلے روز جب خاکسار اور عزیزم عامر فوزی گھر سے دیارِ حرم کی باقاعدہ زیارت کا ارادہ لے کر نکلے تو گھر والوں نے ہمارے ساتھ گھر کے دو بچے عزیزم باسط اور عزیزم نور احمد ہماری راہنمائی کے لئے روانہ کر دئے۔ ہم نے انہیں کہا کہ آپ ہمیں بس دیارِ حرم کے سامنے پہنچا دو باقی ہم خود دیکھ لیں گے۔ ننگل کے علاقے سے نکل کر پکی سڑک پر آ ئے تو سامنے ہی مینارۃ المسیح کا چمکتا مینار نظر آ گیا تھا۔ہمارے خیال میں مینار کی سیدھ میں چلتے چلتے دیارِ مسیح پہنچ جانا تھا۔ اور آگے ہمیں معلوم ہی ہے، ساری تاریخ سے واقف ہیں اس لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ایک ایک مقام دیکھیں گے۔ حضرت مسیح ؑ اور ان کا سارا زمانہ یاد کریں گے۔ اور اگر کسی اور کی موجودگی ہوئی تو مزہ نہیں آئے گا۔ مگر دیار ِ حرم کی تمام سیر کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ یہ کام اتنا ّ آسان نہیں تھا جتنا ہم سمجھ رہے تھے۔ عزیزم باسط احمد اور عزیزم نور احمد نے جس طرح ہمیں مسجد اقصیٰ، مینارۃ المسیح، مسجد مبارک، اور دیار ِ مسیح کی ایک ایک کھڑکی، دیوار دروازہ، سیڑھی اور کمرہ دکھایا اور اس کی تفصیل تاریخی حوالوں کے ساتھ بتائی، اور جیسے ہمیں جدید تعمیر کے ساتھ ساتھ قدیم عمارات اور جزئیات کو کھول کھول کر بتایا۔ اگر ہم دونوں صرف پڑھی ہوئی تاریخ کے زور پر زیارت کرنے نکلتے تو وہ تفصیل کبھی بھی ہم سے حل نہ ہو سکتی۔

مسجد اقصیٰ اور مینارۃ المسیح ؑ

جو حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کے والد محترم حضرت مرزا غلام مرتضیٰ نے بہت جدوجہد کے بعد انتہائی مخالفت اور اہلِ قادیان کو ایک بھاری قیمت دے کر بنائی تھی ان کی وفات سے چھ ماہ پہلے مکمل ہوئی۔ مسجد کا کام 1875ء میں شروع ہوا اور جون 1876ء میں ختم ہوا۔

مسجد کی زیارت کے دوران کتنی مرتبہ یہ خیال آیا کہ !جب مسجد بنائی جارہی ہو گی تب تو آپ کے والد صاحب کے دل میں کہیں بھی یہ خیال نہیں ہو گا کہ ان کا یہ والا بیٹا اس مسجد کا والی وارث بنے گا۔ مگر بعد کی تاریخ نے یہ بتا دیا کہ یہ مسجد ان کے اسی بیٹے کے لئے بنائی گئی تھی جن کے مستقبل کے متعلق وہ بہت پریشان رہتے تھے۔ اس وقت اس میں صرف دو سو آدمیوں کی نماز پڑھنے کی گنجائش تھی 1900ء میں حضرت مسیح ِ موعود نے اس کی توسیع کروائی اور دو سو سے دو ہزار نمازی نماز پڑھنے کے قابل ہو گئے۔اس کے بعد کی توسیع خلافت اولیٰ اور خلافتِ ثانیہ میں بھی ہوئی۔

حضرت مسیح ِ موعود کی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ بھی اسی مسجد میں کیا گیا۔

مسجد اقصیٰ سطح زمین سے قدرے اونچی جگہ پر ہے۔ مسجد اقصیٰ کی زیارت بھی اپنے اندر عجب روحانیت رکھتی ہے۔ مسجد کے اوپر کے حصّے میں پہنچتے ہی مینارۃالمسیح کا خوبصورت چمکتا سنگِ مرمر آنے والے کا استقبال کرتا ہے۔ مینارۃ المسیح کی اپنی ہی شان ہے سننے اور پڑھنے کے بعد اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور پھر اس کے تاریخی پس منظر اور اس تاریخی اہمیت کی روشنی میں اسے دیکھنا اور ہی معنی ٰ رکھتاہے۔ ہم نے چاروں طرف اسے گھوم کر دیکھا، اندر جاکر خوبصورت جھروکوں میں سے قادیان کا انتہائی دلفریب منظر دیکھنا اور جھروکوں سے تازہ ہوا کا مزہ یہ سب کچھ ہمارے لئے جن کو زندگی میں پہلی مرتبہ قادیان کی زیارت نصیب ہوئی ہو کسی خواب سے کم نہیں تھا۔ مینارۃالمسیح کے ساتھ ہی حضرت مسیح ِ موعود ؑ کے والد ماجد کے مزار کا چھوٹا سا چبوترہ سا ہے۔ اصل قبر تقریباً چھ سات فٹ نیچے ہے۔ جب مسجد کے صحن کو اونچا کر کے وسیع کیا گیا تو قبر نیچے رہ گئی اور قبر کے نشان کے طور پر اوپر چھوٹا سا چبوترہ بنا دیا گیا۔

مقام خطبہ الہامیہ

گو کہ مسجد بتدریج وسیع کی جاتی رہی ہے مگر پھر بھی اصل قدیم حصّہ ویسے کا ویسا ہے۔ صحن میں وہی قدیم چھوٹی چھوٹی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں۔ بعض جگہ پر ٹوٹی ہوئی ٹائلیں بدلائی جارہیں تھیں۔ قدیم حصے میں زیارت کرنے والوں کے لئے خطبہ الہامیہ والے مقام پر تختی لگی ہو ئی تھی، اس مقام پر کھڑے ہو کر خطبہ الہامیہ کے الفاظ اور واقعات کے متعلق سوچنا جسم میں سنسناہٹ پیدا کر رہا تھا۔ وہاں دو نفل ادا کئے، تصور ہی تصور میں حضرت مسیح ِ موعودؑ کے وجود ِ مبارک کو مسجد میں کھڑے خطبہ دیتے ہوئے یاد کیا۔

ہماری زندگی کا سب سے خوبصورت جمعہ

مسجد اقصیٰ ماشاءاللہ اب نئی وُسعت کے ساتھ بہت وسیع ہو چکی ہے۔ ہم نے ایک نمازِ جمعہ بھی یہاں ادا کی ہمیں تو سمجھ نہیں آئی کہ اتنی وسیع عمارت کہاں سے آ گئی ماشاءاللہ۔ حضرت مسیح ِ موعودؓ کی مسجد میں زندگی کا پہلاجمعہ پڑھ رہے تھے۔ ہمارے لئے تو وہاں کی ہر چیز پاک اور مقدس اور نہایت محبوب تھی، امام صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا گزشتہ جمعہ کا خطبہ جو عملی اصلاح پر تھا پڑھ کر سنایا، نہ جانے کیا بات تھی یہ ہم دونوں ماں بیٹوں کے اپنے اندر کے جذبات تھے یا اس دیار کی ہر شے تھی ہی دلفریب کہ ہم نے باہر نکل کر دونوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کے بعد اب کہیں اور جمعہ کا کیا مزہ آئے گا۔ کیا ایسی بات کہیں اور ہوگی جو اس جگہ ہے۔ اُس جمعہ کا مزہ ابھی بھی باقی ہے۔ ماشاء اللہ قادیان کی لجنہ کی آبادی دیکھ کر حیرانی ہو ئی۔خاکسار سب سے پہلی صف میں تھی، سلام پھیر کر پیچھے نظر ڈالی تو ہال بھرا ہوا تھا۔سوائے دو خواتین کے ایک خاکسار اور ایک خاتون امریکہ سے تھیں جن کے برقعوں کے رنگ سیاہ نہیں تھے باقی سارے ہال کی لجنہ سیاہ برقعوں میں ملبوس تھی۔ بہت ہی اچھا لگ رہاتھا۔ بالکل ربوہ کا نظارہ یاد آ گیا۔

الدّار

پیدائشی احمدی ہوتے ہوئے زندگی میں پہلی مرتبہ قادیان اور اس میں موجود شعائراللہ اور امام الزماں ؑ کے تبرکات دیکھنا۔ اس کے برخلاف بار بار قادیان کی زیارت کرنے آنا یا وہاں رہتے ہوئے ہر شہ کی زیارت بار بار کرنے والے کے احساسات اور جذبات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

حضرت مسیحِ موعود ؑ کا دیار جس کے گرد تمام تاریخ ِ احمدیت کا ننانوے فیصد حصہ گھومتا ہے، وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اب اونچی، اونچی سُرخ اینٹوں کی دیواروں اور جدید طرز کے خوبصورت اور مضبوط گیٹ کے اندر گھر چکا ہے۔ یہ حفاظتی مضبوط چہار دیواری اب وقت کی ضرورت ہے۔ داخلی راستے پر دو گیٹ ہیں ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے اپنے اپنے گیٹ سے اسکیورٹی سے گزر کر دیارِ مسیح کے صحن میں آگئے اور دیارِ مسیح کے اندرونی حصے کی زیارت کو چل پڑے۔ گراؤنڈ فلور پر شروع میں کچھ رہائشی کمرہ جات ہیں جن پر ناموں کی تختیاں لگی ہیں۔ دائیں طرف تائی جی کا صحن ان کے حصے کے کمرے اور وہ مشہور کنواں جن کا پانی کسی زمانہ میں تائی جی نے حضرت مسیح ِ موعود ؑ کے بہشتیوں کو لینے سے منع کر دیا تھا۔ تائی جی والا صحن تو خاصا کھُلا تھا۔ بائیں طرف دیارِ حرم میں اندر داخل ہونے کے دو محرابی دروازے ہیں،ایک قدیم اور ایک جدید، قدیم دروازے کی اونچائی چھوٹی ہے اور جدید کی مناسب ہے جس سے گزرتے ہوئے دراز قد مرد بھی نہیں ٹکراتا۔

حضرت مسیح ِ موعودؑ کا کھدوایا ہوا متبرک کنواں

حضرت مسیح ِ ِ موعود ؑ کی پیدائش والا کمرہ دو اور رہائشی کمرے چھوٹا سا صحن اور صحن کے بیچ کنواں قریب جاکر دیکھا تو کونئیں کی چرخی کیساتھ ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر اس کنوئیں کے کھدنے کی وجہ بقلم حضرت مسیح ِ موعودؑ درج ہے۔یہ وہی متبرک کنواں ہے کہ جب تائی جی نے حضرت مسیح ِ موعودؑ کے بہشتیوں کو پانی بھرنے سے منع کر دیا تو حضرت مسیح ِ موعود ؑ نے پانی کی قلت اور مشکل دیکھتے ہوئے حضرت ڈاکٹرمیرمحمد اسماعیل ؓ کو خط لکھا جس میں اپنی ملکیت والے علاقے میں ایک کنواں کھودنے کی تحریک کی اور اس سلسلے میں کچھ رقم کے انتظام کی ہدایت بھی فرمائی۔

ہم نے بے اختیار اس کنوئیں کی ہتھّی اور چرخی کو چلایا۔ اس کے بعد جتنی دفعہ بھی وہاں گئے اس ہتھّی کو محض اس خیال سے چلایا کہ کبھی اس ہتھّی پر امام الزماں، خلفائے احمدیت اور حضرت مسیح ِ موعود ؑ کے شعائراللہ بچوں کے ہاتھ بھی تو لگے ہونگے۔ صحن کے اندر ایک برامدہ نما کمرہ ہے جس کے اوپر سیڑھیاں حضرت امّاں جان کے صحن اور دالان میں جاتی ہیں۔ نیچے والایہ کمرہ لجنہ کے لئے عام دنوں میں نما ز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

دوسری منزل اور کچھ مبارک کمرے

دوسری منزل ہی تو وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے فرستادے اور اس کی جماعت کے لئے برکات، فضائل اور رحمتوں کی بارشیں برساتا رہا ہے، اور ہمیشہ برسانے کے وعدے کئے ہوئے ہیں، وہ کمرہ جس میں حضور انور نے نو ماہ کے روزے رکھے، بیت الفکر، بیت الذکر، جس میں حقیقۃالوحی اور چشمہ معرفت لکھی۔ مسجد مبارک کا قدیم ترین حصہ، نیا حصہ، پرانی محراب جہاں حضرت مسیح ِ موعود ؑ نماز پڑھا کرتے، بیت الذکر کے اندر بیت الدعا، جہاں، مسجد مبارک کے بائیں جانب تجّلّیاتِ الہیہ ظاہر ہونے کا کمرہ۔ یعنی سُرخ چھینٹوں واے نشان والا کمرہ، اس کمرے کے ساتھ ہی انتہائی چھوٹی سی سیڑھی نیچے جاکر دیار ِ مسیح کے صحن میں اُترتی ہے۔ یہی وہ سیڑھی تھی جس کے متعلق مکرم کمال یوسف سابق مربّی سلسلہ اسکینڈے نیویا نے ہدایت کی تھی کہ ان سیڑھیوں پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تقلید میں کچھ دیر بیٹھنا۔ پہلی دفعہ تو وہ سیڑھی دوسری منزل سے دیکھی تھی، مگر اگلے روز جب دوبارہ میں اکیلی اوپر جانے لگی تو اس سیڑھی کا رستہ ہی یاد نہیں رہا۔ چوتھے دن میں نے مسجد کے صحن میں کھڑے ایک کارکن سے پو چھا تو انہوں نے صحن میں ہی ایک دروازہ کھو ل کر کہا کہ یہ ہیں وہ سیڑھیاں جو اوپر مسجد مبارک تک جاتی ہیں اور سُرخی کے چھینٹوں والے کمرے کے ساتھ کھُلتی ہیں۔

ہم وہاں بیٹھے تو ضرور مگر سوچنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ بس درود شریف ہی پڑھتے رہے۔بیت الفکر اور مسجد مبارک کے درمیان کھلنے والی وہ کھڑکی جو حضرت مسیح ِ موعودؑ مسجد میں آنے جانے کے لئے استعمال فرماتے تھے۔ اس کھڑکی سے ہمیں بھی بار، بار گزرنا بہت اچھا لگا۔ حضرت امّاں جان کا دالان اور بھی کچھ رہائشی کمرے ہیں۔ اب تو لفٹ بھی لگی ہوئی ہے۔ ہمارے گائیڈ بچوں نے تمام دیارِ مسیح کے ساتھ دل بھر کر ہماری تفصیلی ملاقات کروادی۔

حضرت مسیح ِ موعود ؑ کا بیت الدعاء

یہ حجرہ حضور ؑ نے 1903ء میں خلوت میں عبادت کے لئے بنوایا تھا، بیت الذکر کے ساتھ ہی سیڑھیاں نکال کر ایک حجرہ سا بنایا گیا تھا اس میں سے ایک کھڑکی نیچے گلی میں کھُلتی ہے۔ ایک دروازہ ہے جو بیت الذکر میں کھلتا ہے۔ سن رکھا تھا کہ یہ حجرہ بہت چھوٹا ہے دو افراد کی نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ خاکسار نے اپنے قیام کے دوران نو دن وہاں مسلسل زیارت کی اور اللہ تعالیٰ نے اس مبارک و مقدس حجرے میں نماز پڑھنے کی بھی بار بار تو فیق دی الّدار کی زیارت کے ان نو دن کے تجربات اور مشاہدات بیان کرنے کے لئے بہت بڑا ذخیرہ ہے مگر اپنے احساسات بیان کرنا اتنا آسان نہیں۔ ان دنوں بیت الدعا میں خواتین کے لئے دُعا کرنے کا وقت صبُح آٹھ بجے سے دوپہر ساڑے بارہ بجے تک تھا۔ خاکسار کی حتیّ الامکان کی یہ کوشش ہوتی کہ صبح جلدی دیارِ حرم میں پہنچاجائے تاکہ جتنے بھی فیض پانے کے مقامات ہیں وہاں سجدہ ریز ہو کر حضرت مسیح ِ موعودؑ کی سنّت میں بارگاہِ الٰہی میں تضّرعات پیش کر سکوں، اور امام الزماں اور ان کے اوّلین صحابہ کو حاصل ہو نے والی برکات میں سے کچھ حصہ طلب کر سکوں۔ ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے بیت الدعا میں پہنچ جاتے، دل میں خیال ہوتا کہ ہم ہی سب سے پہلے ہیں۔ مگر کیا دیکھتے کہ ہم سے پہلے بھی مسیح الزماں کو ماننے والیاں امام الزماں کی سنّت میں اپنے رب سے راز ونیاز میں مصروف ہوتیں۔ بہت کم ایسا ہوا کہ بیت الدعاء والا حجرہ بالکل خالی ہو۔کچھ خواتین مسلسل بیت الدعاء کے باہر کمرے میں اپنی باری کے لئے موجود ہوتیں،وہ بیت الدعا کی سیڑھیوں کے پاس کھڑی ہوتیں یااپنی باری کے انتظار میں قرآن پاک لے کر پڑھ رہی ہوتیں۔۔ ایک بات بہت شدت سے محسوس کی کہ کسی بھی لجنہ ممبر میں خود غرضی کا عنصر نہیں تھا، کوئی بھی زیادہ دیر تک اندر رہنا پسند نہ کرتا اس لئے بعد میں آنے والوں کو بھی جلد موقعہ مل جاتا۔ کبھی چار کبھی پانچ خواتین اس میں ایک وقت میں سمٹ کر نماز پڑھتے دیکھیں بھی اور تجربہ بھی کیا، حضور کے صدقے اب اسمیں ایئر کنڈیشن اور پنکھا بھی لگا ہوا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

بیت الدعاء سے فارغ ہو کر دوسرے متبرک کمروں میں جھانکتے تو ایک دو خواتین بیت الذکر میں، یا بیت الفکر، میں بھی سجدہ ریز ہوتیں، خاکسار بیت الذکر سے نکل کر درمیانی مشہورو معروف کھڑکی سے ہو کر مسجد مبارک والے حصے میں جاتی،صرف اس خیال سے کہ یقیناً حضرت مسیح ِ موعود ؑ یا خلفاء بھی اس کھڑکی سے مسجد مبارک میں گئے ہونگے۔ اس کے پہلو میں سُرخ چھینٹوں کے نشان والا کمرہ بھی عبادت کے لئے کھلا ہوتا ہے۔ کوئی عبادت کرے یا اللہ تعالیٰ کی سرخ چھینٹوں والے واقعے کی تجلی کے متعلق سوچے اور حضرت عبداللہ سنوری ؓ کی قسمت پر رشک کرے، یہ تو ہر زائر کی اپنی سوچ اور پہنچ پر منحصر ہے۔

قالین بچھا ہے ائیر کنڈیشن اور پنکھا بھی ہے۔ یہی حال مسجد مبارک کے پرانے حصے کی محراب والی جگہ کا تھا، اور کچھ ایسی ہی صورت ِ حال اسی منزل پر واقع اُس کمرے کی تھی جس میں حضرت مسیح ِ موعود ؑ نے نو ماہ کے روزے رکھے تھے۔ محمد ﷺ اور غلام کے رستے سے گزر کر خدا پاناہے۔ سو ہر زائر کی اپنی سی کو شش ہوتی ہے۔ آگے رحمان خدا کی مرضی ہے کس کی جھولی میں کتنا ڈالتا ہے۔ اسی سوچ اور جذبے سے ہم نے بھی اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو الدّار کے در ودیوار سے خدائے پاک کی محبت سمیٹنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی نظرِ کرم کرے۔ آمین

بیت الدعاء میں ناصرات الاحمدیہ
ایک خوبصورت منظر

یہ تمام مقدس کمرے جن کے گوشے گوشے سے خدا کے زندہ اور حیُّ قیوم ہونے کا ثبوت ملتا تھا۔ اپنے اندر ایسا سحر رکھتے ہیں کہ ان سے آزاد ہونا مشکل ہے، کبھی ایک کونے میں جاکر سجدہ کرو تو کبھی دوسرے کونے میں کھڑے ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگو، ایک دو دفعہ میں مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ خواتین زائرات جن میں انفرادی یاگروپ کی صورت میں کبھی کنوئیں کو دیکھتی ہیں، وہاں لگی تختی پڑ ھ رہی ہیں، پھراوپر آکر وہاں کے ایک ایک کمرے میں بے تابی سے عبادت کر رہی ہیں، ایسے جیسے اپنے پیارے راہبر، کے نشانوں کو ڈھونڈا جارہا ہے۔ یا کہ کہیں کوئی چیز قیمتی چیز کھو گئی ہو۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ بیرون از قادیان ہیں، تبھی یہ ہماری طرح بے تاب تھیں۔ ایسے ہی ایک دن جب کہ خاکسار بیت الذکر میں بیٹھی دُعا میں مشغول تھی اُس دن رش قدرے زیادہ تھا، اس لئے میرے علاوہ دو تین بہنیں اور بھی بیت الدعا ءمیں جگہ ملنے کے انتطار میں تھیں کہ بیت الذکر کے دروازے پر ہلکی ہلکی آوازیں آنا شروع ہوئیں دروازے پر کچھ بچیاں (ناصرات) یونیفارم پہنے ہوئے جوتیاں اُتار کر اندر آ رہیں تھیں ان کے ہاتھوں میں قلم، پین اور کاپیاں تھیں، ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ یہ اسکول کی بچیاں، صبح، صبح یہاں کیسے آ گئی ہیں، کہ ایک بڑی خاتون کی آ واز آ ئی جو بیت الدعا ءکی سیڑھیوں کے پاس کھڑی تھیں کہ بچیوں کا امتحان ہے انہوں نے نفل پڑھنے ہیں اب انہیں بیت الدعا ءمیں جانے کی جگہ دے دو! کچھ ہی دیر میں بیت الدعاء میں نفل ادا کرنے والیاں باہر آگئیں اور بچیوں نے اندر جا کرنفل ادا کئے اپنی اپنی چیزیں پکڑیں اور اسکول کو چل دیں۔ یہ نظارہ میرے لئے ا تنا حسین تھا، اتنا حسّاس تھا کہ اس زمانہ میں بھی یہ بچیاں خدا کے اتنے قریب ہیں، اور اہلِ قادیان اتنے خوش نصیب ہیں کہ ان کی بچیاں امتحان دینے جانے سے پہلے امام الزماں اور نبی اللہ کی عبادت گاہ میں آ کر نفل پڑھتی ہیں تب انہیں سکون ملتا ہے، شاید یہ بات دوسروں کے لئے معمولی ہو، مگر میرے لئے ان بچیوں کے نصیبوں میں ایسی صبحیں جن میں وہ دیارِ مسیح کی سجدہ گاہوں میں جاکر امتحانات سے پہلے اپنی کامیابیوں کے لئے معصوم دُ عائیں مانگنا، بہت ہی روح پرور سوچ ہے۔

(باقی آئندہ ان شاء اللہ)

(نبیلہ رفیق فوزی۔ناروے)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2021