جب میری شادی کی تاریخ رکھی جانی تھی تو میرے ابوجان مولانا عبدالباسط شاہدصاحب زیمبیا میں مشنری انچارج کی حیثیت سے خدمت بجا لا رہے تھے۔ میری امی جان نے پیارے آقاحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے شادی کے لئے دعاکی درخواست کے لئے ملاقات کی۔ اس موقع پر میں بھی اپنی امی جان کے ساتھ تھی۔ پیارے آقا نے دعاؤں کے ساتھ شادی کی تاریخ مقرر کر دی اور ہماری حوصلہ افزائی کے لئے خود مجھے رخصت کرنے کا وعدہ فرمایا۔حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ( خلیفۃ المسیح الرابعؒ) نے رخصتی کے موقع پر دعا کروائی۔ظاہر ہے کہ اس خاص موقع پر باپ کی غیر موجودگی کتنی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا خیال بھی پیارے آقاؒ نے ایسے رکھا کہ شادی سے چند روز پہلے غیر متوقع طور پر ابو جان کو پاکستان آنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چونکہ بالکل بھی امید نہ تھی اور اچانک یہ خبر کہ ابوجان آرہے ہیں ہماری امی جان اور ہم سب بہن بھائیوں کے لئے بہت ہی خوشی کا باعث بنی یہ تو سلوک ہے ہمارے پیارے آقاؒ کا واقفین زندگی کے ساتھ، جبکہ ان دنوں جماعت کے وسائل بھی محدود تھے۔
یہاں یہ بتاتی چلوں کہ ہمارے ابو جان نے ہمیشہ ہماری تربیت اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی۔ ہر وقت اورہر لمحہ خدا تعالیٰ سے دعا، صبر اورشکر کی تلقین کرتے رہے اور کرتے ہیں۔
جب ہم چھوٹے تھے تب چھوٹے چھوٹے کام بھی کھیل کھیل میں خودسکھاتے رہے۔ خلفائے کرام، بزرگانِ احمدیت اور دادا جان (مکرم عبدالرحیم درویش صاحب) کے پیارے پیارے واقعات سناتے رہے۔سو کر اٹھنے پر بستر کیسے سمیٹنا ہے، کمبل اور چادروں کی تہیں کیسے لگانی ہیں۔امی جان کو علم ہوئے بغیر چائے خود بناتے اور ہم دونوں بہنوں کو چائے پیش کرنے کا کہتے جبکہ خود بھی امی جان کے ساتھ جاکر بیٹھ جاتے اور امی جان یہ سمجھتی تھیں کہ ہم دونوں خود چائے بنا کر لائی ہیں اور اس کے ساتھ بھی ایک کھیل ہوتی تھی۔اسی طرح کھیل کھیل میں ہمیں بہت کچھ سکھایا۔میری عمر 7 سال تھی جب ابوجان کی تقرری تنزانیہ ہو گئی او ر مجھے وہ دن اس طرح یاد ہے کہ ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر ابوجان(واقف زندگی) کو الوداع کہنے والوں کا ایک تانتا تھا، لائن لگی تھی اور تمام احباب ابوجان سے مصافحہ کر رہے تھے اورہم بہن بھائی اپنی امی جان کے ساتھ اسٹیشن پر ایک طرف کھڑے تھے اور ابو جان نے ہمیں بھی خدا حافظ کہا اور اس طرح ہم ابوجان کا خدا حافظ کہتے ہوئے ہاتھ لہراتا ہوا دور تک دیکھتے رہے کہ گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ تین سال کے بعد جب ابوجان کی واپسی ہوئی تو اس وقت استقبال کرنے کے لئے آنے والے احباب سے اسی طرح اسٹیشن بھرا ہوا تھا اور سب ابو جان سے مصافحہ کر رہے تھے اور گلاب کے پھولوں کے ہار پہنا رہے تھے۔ اس وقت چونکہ ربوہ میں کسی قسم کی پابندیاں نہیں ہوتی تھیں اس لئے یہ طریق تھا جب مبلغین اپنی تقرری پر روانہ ہوتے اور جب ان کی واپسی ہوتی تھی تو اسی طرح ربوہ کے اسٹیشن پر رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ بہرحال بات ہو رہی تھی کہ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ابو جان کو میری شادی کے موقع پر خود بلوایا۔ ابو جان نے میری رخصتی کے بعد اسی رات کو گیارہ بجے میرے نام خط لکھا، درج ذیل ہے جو آج بھی میرے لئے رہنمائی کا باعث ہے۔ الفضل کی زینت اس لئے بنا رہی ہوں تا اور بھی ہماری سب پیاری بہنوں اوربیٹیوں کی رہنمائی کا باعث ہو۔ یہ پیارا اور دعائیہ خط اپنی شان و شوکت کے ساتھ اسی طرح میرے پاس اصلی حالت میں محفوظ ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
گیارہ بجے شب۔
مدثر پارے!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ
خدا تعالیٰ کے کام نرالے ہیں اور اس کے بندوں سے اس کا سلوک عجیب ہوتا ہے۔ بغیر کسی تیاری، امید اور کوشش کے دور پار پردیس سے اس نے مجھے یہاں پہنچا دیا۔ تمہاری نئی زندگی کی صبح کی تاریخ مقرر کرنے میں بھی ایک تاریخ بن گئی اور بڑے ابا جان (میرے دادا جان) کی تاریخی بیٹی کے رخصتانہ کی تاریخ خود خلیفۂ وقت کے مشورہ اور ارشاد سے مقرر ہوئی۔حضور کی خدمت میں تحریری اور زبانی دعا کی درخواست کا موقع ملا اور پھر یہ بھی کہ جو تاریخ مقرر ہوئی وہ آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کی ولادت مبارکہ کی تاریخ تھی۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ
؎ گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار
میری پیاری بیٹی! تمہاری زندگی کا نیا اور اہم باب شروع ہو رہا ہے میں کہہ نہیں سکتا دنیا کے ہر باپ کے جذبات یہی ہوتے ہوں گے مگر مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میں تمہاری خوشی اور خوشحالی کی دعا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی روح کو پانی کی طرح بہا دوں۔ تمہیں شاید حیرانی ہو مگر دعا کرتے ہوئے یہ حالت بھی آجاتی ہے کہ اے خدا ! آگے اور کیا مانگوں۔ دینے والی ہستی اتنی عظیم و برتر اور سوالی وہ جو اپنی ضرورت سے بھی واقف نہیں۔
میری پیاری بیٹی! نئی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ مدد کی طالب رہنا۔ اس کے سامنے ہمیشہ جھکی رہنا کہ عزت کے حصول کا اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ دنیا کے تجربہ میں نہیں آیا۔ ہر کسی کے حق کو سمجھ کر اسے باحسن ادا کرنے کی کوشش کرنا مگر مقصد خدا تعالیٰ کی خوشنودی رہے۔لالچ سے تو خدا کے فضل سے تم ہمیشہ دور رہو گی۔ حسد، بغض اور کم ظرفی کی بلاؤں سے بچنے کی پوری کوشش کرنا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے تم ایک پرانے احمدی خاندان کی فرد ہو اور ایک مخلص احمدی خاندان میں شامل ہوئی ہواس لحاظ سے تمہاری یہ بھی ذمہ داری ہو گی کہ بڑے وقار، تحمل، بردباری مگر عاجزی اور فروتنی سے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو۔ میں اس مضمون کو یہاں ختم کرتا ہوں مگر پورے یقین کے ساتھ کہ تم کو ان نصائح کی ضرورت نہیں ہے اور میں یہ سطور محض اپنے فرض کی ادائیگی کے طور پر لکھ رہا ہوں اور پورے یقین کے ساتھ کہ میرا خدا تمہیں بہت خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ اے خدا! تو ایسا ہی کر۔
عزیز محی الدین کے متعلق میرا تأثر یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے معاملہ فہمی اور تدبر کی دولت کے ساتھ ساتھ خدا اور رسولؐ کی محبت بھی عطا فرمائی ہے۔ اگر میرا یہ تأثر درست ہے اور خدا کرے کہ درست ہی ہوتو پھر میرا اطمینان اور یقین بے وجہ نہیں ہے۔۔۔۔ باقی پھر۔
ابو جان نے ہمیشہ ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔
شادی کے بعد بھی انہیں جب محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں کوئی کمزوری پائی جاتی ہے تو ابو جان ہمیں لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 7) کا سبق دیتے ہیں اور ہمیشہ ہمیں دعاؤں کا، ہر حال میں خدا تعالیٰ کا شکر بجا لانے کا اور یہ کہ ہر بات اور ہر چیز میں سے اس کا مثبت پہلو تلاش کرنے اور منفی پہلو کو ہمیشہ نظر انداز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔اسی طرح امی جان نے بھی ہمیں بچپن سے ہی خدا تعالیٰ سے محبت اورخلافت سے وابستگی اور پیار، نمازوں میں باقاعدگی اور قرآن پاک کی تلاوت روزانہ صبح کرنے کی عادت ڈالی۔ خدا کرے کہ ہمارے بچے بھی جو اب شادی شدہ ہیں اور واقفین نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں اور بڑا بیٹا واقف زندگی ہے اللہ تعالیٰ ان تمام کو ہمیشہ خلافت سے وابستگی عطا کرےاور ان دعاؤں کے وارث بنتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے والدین کو صحت تندرستی والی خوشیوں سے بھرپورلمبی عمر عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دےکہ ہم اپنے والدین کی امیدوں پر پورے اترنے والے ہوں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کا اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے بنیں۔ آمین
(مدثرہ عباسی۔ لندن)