• 26 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 14)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 14

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔ نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟

یاد رکھو کہ پاکیزگی کے مراحل بہت دور ہیں اور وہ ان خیالات سے بالا تر ہیں۔ صرف پاکیزگی حاصل کرنا اور سچے طور سے صغائِر کبائِر سے بچ جانا ان لوگوں کا کام ہے جو ہر وقت خدا کو آنکھ کے سامنے رکھتے ہیں اور فرشتہ سیرت بھی وہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ دیکھو ایک بکری کو اگر ایک شیر کے سامنے باندھ دیں تو وہ اپنا کھانا پینا ہی بھول جاوے چہ جائیکہ وہ ادھر ادھر کھیتوں میں مُنہ مارے اور لوگوں کی محنت اور جانفشانیوں سے پیدا کی ہوئی کھیتیوں سے کھاوے۔ پس یہی حال انسان کا ہے۔ اگر اس کو یہ یقین ہو کہ میں خدا تعالےٰ کو دیکھ رہا ہوں یا کم از کم خدا تعالےٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو بھلا پھر ممکن ہے کہ کوئی گناہ اس سے سرزد ہو سکے؟ ہر گز نہیں۔ یہ ایک فطرتی قاعدہ ہے کہ جب یقین اور قطعی علم ہو کہ اس جگہ قدم رکھنا ہلاکت ہے یا ایک سوراخ جس میں کالا سانپ ہو اور یہ خود اسے دیکھ بھی لیوے تو کیا اس میں اُنگلی ڈال سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ غرض یہ فطرت انسانی میں ہی رکھا گیا ہےکہ جہاں اس کو ہلاکت کا یقین ہوتا ہے اس جگہ سے بچتا اور پرہیز کرتا ہے۔ جب تک اس درجہ تک خدا تعالےٰ کی معرفت نہ ہو جاوےاور یہ یقین پیدا نہ ہو جاوے کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے یا ایک خطرناک زہر ہے تب تک حقیقت ایمان کو نہیں سمجھا گیا اور بغیر ایسے کامل یقین اور معرفت کے پھر ایمان بھی ادھورا ایمان ہے۔ وہ ایمان جس کا اعمال پر بھی اثر نہ ہو۔ یا جو ایمان امتحانی حالات میں ذرا بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے کس کام کا ایمان ہے اور اس کی کیا فضیلت ہو سکتی ہے۔

جو لوگ خیالی کرتے ہیں کہ دنیا کے کاروبار میں آرام سے زندگی بھی بسر کرتے رہیں اور خدا بھی مل جاوےاور انسان پاک بھی ہو جاوے اور اسے کوئی محنت اور کوشش نہ کرنی پڑے یہ بالکل غلط خیال ہے۔ کل انبیاء، اولیاء، اتقیاء اور صالحین کا یہ ایک مجموعی مسئلہ ہے کہ پاک کرنا خدا کا کام ہے اور خدا کے اس فضل کے جذب کے واسطے اتباع نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم ازبس ضروری اور لازمی ہے جیسا کہ فرماتا ہے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)۔ سورج دنیا میں موجود ہے مگر چشم بینا بھی تو چاہیئے۔ خدا تعالےٰ کا قانون قدرت لغو اور بے فائدہ نہیں ہے۔ جو ذرائع کسی امر کے حصول کے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ آخر انہیں کی پابندی سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ کان سننے کے واسطے خدا نے بنائے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے۔ آنکھ جو دیکھنے کے واسطےبنائی گئی ہے وہ سننے کا کام نہیں کر سکتی۔ بس اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے فیضان کے حصول کی جو راہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اس سے باہر رہ کر کیسے کوئی کامیاب ہو سکتا ہے۔ حقیقی پاکیزگی اور طہارت ملتی ہے اتباع نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ خود خدا نے فرما دیا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو رسولؐ کی پیروی کرو۔ پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں کسی نبی یا رسول کی کیا ضرورت ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔

خدا تعالےٰ فرماتا ہے کہ تم پاک نہیں ہو سکتے جب تک کہ میں کسی کو پاک نہ کروں۔ تم اندھے ہو مگر جسے میں آنکھیں دوں۔ تم مردے ہو مگر جسے مَیں زندگی عطاکروں۔ پس انسان کو چاہیئے کہ ہمیشہ دُعا میں لگا رہے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی سچی تڑپ اور سچی خواہش پیدا کرے اور خدا تعالےٰ کی محبت کی پیاس دل میں پیدا کرے تاکہ پھر خدا تعالےٰ کا فیضان بھی اس کی نصرت کرے اور اسے قدرت نمائی سے اُٹھائے۔ خدا تعالےٰ کی تلاش میں اور اس کی مرضی کے ڈھونڈنے میں فنا ہو جاوے تا خدا پھر اسے زندہ کرے اور شربتِ وصال پلا دے۔ اور اگر انسان جلدی کرے گا اور خدا تعالےٰ کی چنداں پروا نہ کرے گا یا معمولی طور سے لاپرواہی کرے گا تو پھر یاد رکھو کہ خدا بھی غنی عن العا لمین ہے۔ کیا کوئی ہے جو خدائی قانون کو مٹا سکےجو کہ اس نے فضل کے حصول کے واسطے بنا دیا ہے کہ فضل کے حصول کے امیدوار ازراہ نیاز اس دروازے سے داخل ہوں۔ جب ان کی امیدیں پوری ہوں گی ورنہ اگر تمام عمر بھی بھٹکتے پھریں بجز اس اصلی راہ کے(جو اتباع نبی صلے اللہ علیہ وسلم ہے) ہر گز ہرگز منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکیں گے۔ خدا تعالیٰ نے ایک راہ بتا دی ہے۔ ہلاک ہوگا وہ جو پیروی نہ کرے گا۔ مگر لوگ باوجود سمجھانے کے نہیں سمجھتے اور لاپرواہی کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس راہ کو جس کی ہم ان کو دعوت دیتے ہیں آزما لیں کہ آیا ہم سچ کہتے ہیں یا جُھوٹ۔ ہماری طرف سے تو خدا بحث کر رہا ہے اور اس نے ہماری تائید میں آجتک ہزاروں نشان بھی دکھائے۔ کون شخص ہےجس نے ہمارا کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو۔ ابھی ایک انگریز امریکہ سے ہمارے پاس آیا تھا۔ وہ خود اقرار کر گیا ہے کہ واقعی میں ڈوئی آپ کی پیشگوئی کے عین منشاء کے مطابق مر ا مگر وہ تو خود بُرا تھا۔

غرض ایک ڈوئی کیا ہزاروں روشن اور زبردست نشان موجود ہیں۔ خدا تعالیٰ کسی کا محکوم تو ہے نہیں وہ چاہے مردے زندہ کرے یا زندوں کو مارے۔

غرض دنیا کے کاموں کے واسطے اپنی عمریں، مال، دولت، صحت، وقت آپ لوگ خرچ کرتے ہیں۔ آخر دین کا بھی حق ہے کہ اس کے لیےبھی کوئی وقت، عمر، دولت خرچ کی جاوے۔آپ ولایت میں ساڑھے تین سال رہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ تین کو جانے دیں وہ باقی کی ساڑھ ہی ہمارے پاس رہ جاویں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی معلومات میں کیسا مفید اضافہ ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ278-281، ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

یاد رکھو کہ ایمان بغیر اعمال صالحہ کے ایسا ہی بیکا ر ہے جیسا کہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکمّا ہے۔ درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں۔ اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لا پروائی کرے گا تو اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ سب جانتے ہیں۔ یہی حال روحانی زندگی میں شجر ایمان کا ہے۔ ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمال صالحہ روحانی رنگ میں اس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کاکام کرتے ہیں۔ بھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے رُوحانی فیوض و برکات کے ثمرات حَسَنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70)۔

نفس انسانی ایک بیل کے مشابہ ہے اور اس کے تین درجے ہوتے ہیں

نفس امّارہ۔ امّارہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ امّارہ کہتے ہیں بدی کی طرف لے جانے والا۔ بہت بدی کا حکم کرنے والا۔

دوسری قسم نفس کی نفس لوّا مہ ہے۔ لوّامہ کہتے ہیں ملامت کرنے والے کو۔ انسان سے ایک وقت بدی ہو جاتی ہے مگر ساتھ ہی اس کا نفس اس کو بدی کی وجہ سے ملامت بھی کرتا اور نادم ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے مگر بعض طبائع ایسے بھی ہیں کہ اپنی گندہ حالت اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے وہ ایسے محجوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی فطرت فطرت سلیم کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی۔ ان کو اس ملامت کا احساس ہی نہیں ہوتا مگر شریف الطبع انسان ضرور اس حالت کا احساس کرتا اور بعض اوقات وہی ملامت نفس اس کے واسطے باعث ہدایت ہو کر موجب نجات ہو جاتی ہے۔ مگر یہ حالت ایسی نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جاوے۔

نفس کی ایک تیسری حالت ہے جسے مطمئنّہ کے نام سے پکارا گیا ہے اور وہ انسان کو جب حاصل ہوتی ہے کہ انسان نفس امّارہ اور پھر نفس لوّامہ کی مشکلات کو حل کر جائے اور اس جنگ میں اس کو فتح نصیب ہو۔ نفس امّارہ انسان کا دشمن ہے اور وہ گھر کا پوشیدہ دشمن ہے۔ لوّامہ بھی کبھی کبھی دشمنی کا ارادہ کرتا ہے مگر باز آ جاتا ہے۔ مگر بر خلاف ان دونوں حالتوں کے جب انسان ترقی کر کے نفس مطمئنّہ کے درجہ تک ترقی کر جاتا ہےتو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ گویا اس کا دشمن اس کے زیر ہو گیا اور اس نے دشمن پر نمایاں فتح حاصل کر لی اور صلح ہوگئی۔ انسانی ترقیات کی آخری حد اور اس کی زندگی کا انتہائی نقطہ اسی بات پر ختم ہوتا ہے کہ انسان حالتِ مطمئنّہ حاصل کر لے اور وہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ اس کی رضا خدا کی رضا اور اس کی ناراضگی خدا تعالےٰ کی ناراضگی ہو جاتی ہے۔ اس کا ارادہ خدا تعالےٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور وہ خدا کے بُلائے بولتا اور خدا کے چلائے چلتا ہے۔ تمام افعال حرکات و سکنات اس سے نہیں بلکہ خدا سے سرزد ہوتے ہیں۔ اور انسان کی پہلی حالت پر ایک قسم کی موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی کا جامہ اُسے از سر نو عطا کیا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ395-397، ایڈیشن 1984ء)

تیسرا مقام خدا تعالیٰ کے شکر کا یہ ہے کہ یہ خاص خدا تعالےٰ کا فضل ہے کہ اُس نے آپ لوگوں کے دلوں میں اس طرف توجہ ڈالی اور آپ لوگ یہاں تکلیف اُٹھا کر تشریف لائے۔ خدا کرے کہ جس طرح ہم جسمانی طور سے مِل کر بیٹھے ہیں اور جسمانی ملاقات ہوئی ہے اسی طرح ایک دن وہ بھی آوے کہ رُوحانی طور سے بھی ہم مل بیٹھیں۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو زبان دی اور ایک دل بخشا ہے۔ صرف زبان سے کوئی فتح نہیں ہو سکتی۔ دلوں کو فتح کرنے والا دل ہی ہوتا ہے جو قوم صرف زبانی ہی زبانی جمع خرچ کرتی ہے۔ یاد رکھو کہ وہ کبھی بھی فتح یاب نہیں ہو سکتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا نمونہ دیکھو کہ کیا اُن کے پاس کوئی ظاہری سامان تھے؟ ہر گز نہیں۔ مگر پھر با یں ہمہ کہ وہ بے سر و سامان تھے اور دشمن کثیر اور ہر طرح کے سامان اسے مہیّا تھے ان کو خدا تعا لیٰ نے کیسی کیسی بے نظیر کامیابیاں عطا کیں بھلا کہیں کسی تاریخ میں ایسی کامیابی کی کوئی نظیر ملتی ہے؟ تلاش کر کے دیکھ لو مگر لاحاصل۔ پس جو شخص خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی دُنیا ٹھیک ہو جاوے، خود پاک دل ہو جاوے۔ نیک بن جاوے اور اس کی تمام مشکلات حل اور دُکھ دُور ہو جاویں اور اس کو ہر طرح کی کامیابی اور فتح و نصرت عطا ہو تو اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰہَا (الشمس: 10)۔ کامیاب ہو گیا، با مراد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔ تزکیہ نفس میں ہی تمام برکات اور فیوض اور کامیابیوں کا راز پنہاں ہے۔

فلاح صرف امور دینی ہی میں نہیں۔ بلکہ دنیا و دین میں کامیابی ہو گی۔ نفس کی ناپاکی سے بچنے والا انسان کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہو۔

میں یہ قبول نہیں کر سکتا کہ فلسفہ، ہیئت اور سائنس کا ماہر ہونے سے تزکیہ نفس بھی ہو جاتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ البتہ یہ مان سکتا ہوں کہ ایسے شخص کے دماغی قویٰ تیز اور اچھے ہو جاتے ہیں۔ ورنہ ان علوم کو رُوحانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ بعض اوقات یہ امور رُوحانی ترقی کی راہ میں ایک روک ہو جاتے ہیں اور آخری نتیجہ اس کا بجُز اس خوش قسمت کے کہ وہ فطرتِ سلیم رکھتا ہے۔ اکثر کبر و نخوت ہی دیکھا ہے۔ کبھی نیکی اور تواضع ان میں نہیں ہوتی۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ391-392، ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

دنیا میں اس زمانے میں نفاق بہت بڑھ گیا ہے۔ بہت کم ہیں جو اخلاص رکھتے ہیں۔ اخلاص اور محبت شعبہ ایمان ہے۔ آپ کو خدا آپ کی محبت اور اخلاص کا اجر دے اور تقویت عطا کرے۔ اخلاق فاضلہ اسی کا نام ہے بغیر کسی عوض معاوضہ کے خیال سے نوع انسان سے نیکی کی جاوے۔ اسی کا نام انسانیت ہے۔ ادنیٰ صفت انسان کی یہ ہے کہ بدی کا مقابلہ کرنے یا بدی سے در گزر کرنے کی بجائے بدی کرنے والے کے ساتھ نیکی کی جاوے۔ یہ صفت انبیاء کی ہے اور پھر انبیاء کی صحبت میں رہنے والے لوگوں کی ہے اور اس کا اکمل نمونہ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ خدا تعالےٰ ہر گز ضائع نہیں کرتا ان دلوں کو کہ ان میں ہمدردی بنی نوع ہوتی ہے۔

صفات حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے دو ہی حصّے ہیں اور وہی قرآن شریف کی پاک تعلیم کا خلاصہ اور لب لباب ہیں۔ اوّل یہ کہ حق اللہ کے ادا کرنے میں عبادت کرنا۔ فسق و فجور سے بچنا اور کل محرمات الٰہی سے پرہیز کرنا اور اوامر کی تعمیل میں کمر بستہ رہنا۔ دوم یہ کہ حق العباد ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرے۔ بنی نوع انسان کے حقوق بجا نہ لانے والے لوگ خواہ حق اللہ کو ادا کرتے ہی ہوں بڑے خطرے میں ہیں کیونکہ اللہ تعالےٰ توستار ہے، غفار ہے۔ رحیم ہے اور حلیم ہے اور معاف کرنے والا ہے۔ اس کی عادت ہے کہ اکثر معاف کر دیتا ہے مگر بندہ (انسان) کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ کبھی کسی کو کم ہی معاف کرتا ہے۔ پس اگر انسان اپنے حقوق معاف نہ کرے تو پھر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی ادائگی میں کوتاہی کی ہو یا ظلم کیا ہو خواہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں کوشاں ہی ہو اور نماز روزہ وغیرہ احکام شرعیہ کی پابندی کرتا ہی ہو۔ مگر حق العباد کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے اس کے اور اعمال بھی حبط ہونے کا اندیشہ ہے۔

غرض مومن حقیقی وہی ہے جو حق اللہ اور حق العباد دونو کو پورے التزام اور احتیاط سے بجا لاوے۔ جو دونو پہلوؤں کو پوری طرح سے مد نظر رکھ کر اعمال بجا لاتا ہے وہی ہے کہ پورے قرآن پر عمل کرتا ہے ورنہ نصف قرآن پر ایمان لاتا ہے۔ مگر یہ ہر دو قسم کے اعمال انسانی طاقت میں نہیں کہ بزور بازو اور اپنی طاقت سے بجا لانے پر قادر ہو سکے۔ انسان نفس امّارہ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ جب تک اللہ تعالےٰ کا فضل اور توفیق اس کے شامل حال نہ ہو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ289-291، ایڈیشن 1984ء)

ہمارے نزدیک کوشش کر کے انسان جب تک ایک پاک تبدیلی کی طرف نہیں جُھکتا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں حاصل ہو سکتا۔ نفس امّارہ کا مغلوب کرنا بہت بڑا بھاری مجاہدہ ہے۔ اسی نفس امّارہ ہی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے انسان نہ حق اللہ کو ادا کر سکتا ہے اور نہ حق العباد سے سبکدوش ہو سکتا ہے۔ شریعت نے دو ہی حصّے رکھے ہیں۔ ایک حق اللہ اور دوسرا حق العباد۔

حق اللہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور ذکر اللہ میں لگے رہنا، اس کے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کرنا، اس کے محرمات سے بچتے رہنا وغیرہ۔
حق العباد کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرنا اور کسی کے حقوق میں دست اندازی نہ کرنا جہاں اس کا حق نہیں ہے۔ جھوٹی گواہی نہ دینا وغیرہ۔

اب یہ دونوں امر ایسے مشکل ہیں کہ تمام گناہ، جرائم، معاصی اور دوسری طرف تمام نیکیوں کے اصول اسی میں آ گئے ہیں۔ کہنے کو تو ہر ایک کہہ لیتا ہے کہ میں اپنی قوت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں مگر انسان فطرت سے الگ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ فطرت انسانی کسی کپڑے کا دامن تو ہے نہیں کہ پلید ہوا تو کاٹ کر الگ کر دیا جا سکے۔ فطرت رُوح کا پیدائشی جُزو ہے۔ پس جبکہ انسانی فطرت میں ہی یہی رکھا گیا ہے کہ انسان انہی امور سے خائف ہوتا اور پرہیز کرتا ہے۔ جن کو وہ اپنی ہلاکت کا باعث اور مضر یقین کرتا ہے۔ کسی نے کوئی نہ دیکھا ہو گا کہ سڑکنیا کو باوجود سڑکنیا تسلیم کرنے کے دانستہ استعمال کرے یا سانپ کو سانپ یقین کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑ لے یا ایک طاعون زدہ گاؤں میں جہاں موتا موتی کا بازار گرم ہے خوامخواہ جا گھسے۔ اس اجتناب اور پرہیز کی وجہ کیا ہے۔ یہی کہ ان باتوں کو وہ مہلک یقین کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ319، ایڈیشن 1984ء)

(ترتیب وکمپوزڈ۔فضل عمر شاہد۔ خاقان احمد صائم۔ لٹویا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2021