• 26 اپریل, 2024

سیدنا حضرت امیر المومنین کا مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء

مستورات سے خطاب

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍اگست 2021ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2021ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب

آج کل روشن خیالی کے نام پر آزادیٔ اظہار و عمل کا ایسا تصور پیدا ہو گیا ہے جو روشن خیالی کم اور اندھیروں کی طرف لے جانے والی زیادہ ہے

اسلام میں عورت کے بہت سے حقوق قائم کیے گئے ہیں اور ان کے اجر بھی مردوں کے برابر ہیں بشرطیکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کریں اور اسلام کی تعلیم پر عمل کریں

دنیا کو عورت کا مقام اور اس کی عزت اور شرف کے بارے میں بتانا آج احمدی عورت اور احمدی بچی کا کام ہے

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ﴿۴﴾ إِيَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِيَّاکَ نَسۡتَعِيۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ﴿۶﴾  صِرَاطَ الَّذِيۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡہِمۡ ۬ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّيۡنَ﴿۷﴾

آج کل روشن خيالي کے نام پر آزادئ اظہار و عمل کا ايسا تصور پيدا ہو گيا ہے جو روشن خيالي کم اور اندھيروں کي طرف لے جانے والي زيادہ ہے۔ ايسا تصور ہے جو مصنوعي اور سطحي ہے۔ جس کے فوائد اور نقصان کا موازنہ کرنے کي تکليف ہي گوارا نہيں کي گئي۔ اس نام نہاد آزادي اور روشن خيالي کے بعض پہلوؤں کے فوائد کي بجائے نقصان زيادہ ہيں۔ يہ ديکھا ہي نہيں جا رہا کہ روشن خيالي اور آزادئ اظہار و عمل کے نام پر ہم اپني نسل کے مستقبل داؤ پر لگا کر خود بھي اندھيروں کي گھاٹيوں کي طرف بڑھ رہے ہيں اور اپني نسل کو بھي اس ميں دھکيلنے کي کوشش ميں لگے ہوئے ہيں۔ اس نام نہاد آزادي کو سوشل ميڈيا کے ذريعہ سے آج کل اس قدر exploit کيا جا رہا ہے، اس کي تشہير کي جا رہي ہے، غلط رنگ ميں پيش کيا جا رہا ہے کہ يہ سوچنے سمجھنے کي صلاحيتيں ہي ختم ہو گئي ہيں کہ ہم کس تباہي کو آواز دے رہے ہيں۔ بہرحال دنيا دار جب دنياوي نظر سے ديکھتے ہوئے چاہے نيک نيتي سے ہي سہي، اول تو نيک نيتي بہت کم ہوتي ہے، ايک برائي کو ختم کرنا چاہتے ہيں يا اس سے بچنا چاہتے ہيں تو دوسري برائي ميں گرفتار ہو جاتے ہيں کيونکہ روحاني آنکھ ان کي بند ہوتي ہے اور پھر آج کل دنيا داري نے اور دين سے دوري نے اس حد تک دين سے متنفر کر ديا ہے کہ يہ لوگ دين کي نظر سے ديکھنا بھي نہيں چاہتے اور اسلام کے خلاف تو عام طور پر سخت تنقيد کي جاتي ہے اور اسلام کو تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ اور اس کي تعليم کو پراني، دقيانوسي تعليم کا نام ديا جاتا ہے جس کا آج کل کي ترقي يافتہ دنيا ميں کوئي مقام نہيں ہے، يہ کہا جاتا ہے اسلام کے بارے ميں۔ حالانکہ اسلام ہي ايک ايسا مذہب ہے جو ايسي تعليم ديتاہے جو ہر ايک کے حقوق بتاتي ہے، آزادئ اظہار و عمل کا بھي پتہ ديتي ہے اور ہر ايک کي حدود اور قيود کا بھي ذکر کرتي ہے اور اس کو اعتدال پر رکھنے کے ليے ہدايت بھي ديتي ہے۔

2019ء کے جلسہ کي آخري تقرير ميں مَيں نے اسلام ميں مختلف طبقوں کے حقوق کا ذکر کيا تھا اور يہ ذکر کرتے ہوئے بتايا تھا کہ کس طرح اسلام حقوق ديتا ہے۔ کچھ کي ان شاء اللہ آئندہ بھي نشاندہي کروں گا ليکن اس وقت ميں يہاں عورتوں کے حوالے سے کچھ باتيں کہني چاہتا ہوں۔

عموماً اسلام پر يہ اعتراض کيا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو آزادي نہيں ديتا۔ ليکن يہ اسلام کي تعليم سے لاعلمي يا اعتراض برائے اعتراض ہے۔

اسلام کي خوبصورت تعليم کا بنيادي اصول

يہ ہے کہ صرف حقوق لينے پر زور نہ دو بلکہ اگر معاشرے ميں امن اور سکون کي فضا پيدا کرني ہے تو حقوق ادا کرنے کي طرف بھي توجہ کرو اور ہر ايک کے ذمہ جو فرائض ہيں ان کو ادا کرنے کو بھي اہميت دو۔تبھي حقيقي امن اور سلامتي کي فضا قائم ہو سکتي ہے جو اگر ہر طبقہ کے حقوق، اختيارات کو واضح کرتي ہے تو ان کي ذمہ داريوں کي بھي بات کرتي ہے۔ عورت کو صرف يہ نہيں کہتي کہ تم اپنے حقوق حاصل کرو بلکہ اپنے مقام کو سمجھنے اور غلط چيزوں سے بچنے کے ليے بھي ہوشيار کرتي ہے۔ پس يہ وہ سموئي ہوئي تعليم ہے جو حقيقت ميں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے اور آزادي ٔعمل و اظہار کي ضامن ہے۔ پس اس تعليم کا نہ کوئي اَور ديني تعليم مقابلہ کر سکتي ہے نہ ہي کوئي دنياوي تعليم اور قانون مقابلہ کر سکتا ہے۔ جيسا کہ ميں نے کہا کہ اس وقت ميں ان باتوں کے بارے ميں عورتوں کے حوالے سے بات کروں گا جو اسلام ميں عورت کے مقام کو ظاہر کرتي ہيں اور ان کے حقوق کا پتہ ديتي ہيں۔ اللہ تعاليٰ نے بےشمار جگہ

عورتوں کے بارے ميں احکامات

ديے ہيں اور پھر ان کا عملي اظہار آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي زندگي سے ہميں ملتا ہے کہ کس طرح آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے عورت کي عزت قائم فرمائي اور پھر اس زمانے ميں کس طرح حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے ہميں عورت کي عزت اور اس کا احترام پيدا کرنے کي طرف توجہ دلائي اور جب ہم ان باتوں کو ديکھتے ہيں جو عورت کے متعلقہ حقوق کے بارے ميں قرآن کريم ميں بيان ہوئے ہيں اور پھر آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے عمل اور ارشادات سے ان کي وضاحت ہوئي اور پھر حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے بيان فرمائے اور اس کي روشني ميں خلفاء نے بھي مختلف اوقات ميں بيان کيے تو پھر اس کي کوئي وجہ نہيں رہتي کہ کسي احمدي عورت کے دل ميں مذہب کے مخالف لوگوں کي باتيں سن کر يہ خيال گزرے کہ اسلام ميں نعوذ باللہ عورت کے حقوق کا خيال نہيں رکھا گيا۔ حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ نے سورۂ کوثر کي تفسير ميں عورتوں کے جو حقوق اسلام نے ديے ہيں وہ بيان کيے ہيں۔ قرآن کريم کي تعليم کي روشني ميں يہ واضح کيا کہ جو حقوق عورت کے قرآن کريم نے قائم فرمائے ہيں اس سے پہلے کسي شريعت ميں نہيں تھے بلکہ کہنا چاہيے کہ کسي دنياوي قانون ميں بھي نہيں تھے اور قرآن کريم عورت کا حق صرف تسليم ہي نہيں کرتا بلکہ ان پر اس قدر زور ہے کہ اس حوالے سے علوم کا ايک دروازہ کھل گيا ہے۔ نئي نئي باتيں پتہ لگتي ہيں۔ عورت مرد کے نکاح کے موقع پر، جب ايک لڑکي اور لڑکے کا نکاح ہوتا ہے جو آيات پڑھي جاتي ہيں آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے اس ميں ايسي آيات منتخب فرمائي ہيں جن ميں عورت کے حقوق کي اہميت واضح ہو جاتي ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِيۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِيۡرًا وَّ نِسَآءً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِيۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَيۡکُمۡ رَقِيۡبًا (النساء: 2)

اے لوگو! اپنے رب کا تقويٰ اختيار کرو جس نے تمہيں ايک جان سے پيدا کيا ہے اور اس سے اس کا جوڑا بنايا اور پھر ان دونوں ميں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھيلا ديا اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ايک دوسرے سے مانگتے ہو اور رحموں کے تقاضے کا بھي خيال رکھو۔ يقينا ًاللہ تم پر نگران ہے۔

پس يہ واضح فرما ديا کہ

مرد اور عورت نفسِ واحدہ سے پيدا ہوئے ہيں

يعني ايک ہي جنس سے ہيں گو مختلف صنف ہيں۔ ايک مرد ہے ايک عورت ہے ليکن جنس ايک ہے۔ وہ ايک ہي قسم کا دماغ لے کر آئے ہيں۔ دونوں کے ايک ہي قسم کے احساسات ہيں۔ مرد ميں دماغ ہے، اگر کسي کام کرنے کي صلاحيت ہے تو عورت ميں بھي ہے۔ مرد کے احساسات ہيں تو عورت ميں بھي ہيں۔ دونوں ايک ہي طرح کے جذبات رکھتے ہيں۔ جذبات مرد کے اگر ہيں تو عورت کے بھي جذبات ہيں۔ نکاح کے شروع ميں ہي بتا ديا کہ عورت کے حقوق کي کيا اہميت ہے، مردوں کو اس بات کي طرف توجہ دلا دي کہ تم يہ نہ سمجھو کہ عورت کا دماغ نہيں ہے اور تم جس طرح چاہو اس پر حکومت کر سکتے ہو۔ عورت جذبات بھي رکھتي ہے، اس کا دماغ بھي ہے، احساسات بھي رکھتي ہے اس ليے اسے اپنے جيسا سمجھو اور اسے کم اور ذليل نہ سمجھو۔ پھر آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ بھي فرمايا کہ بعض اہم امور ميں عورتوں سے بھي مشورہ لے لينا چاہيے۔ آپؐ خود بھي عورتوں سے مشورہ ليا کرتے تھے اس کا نتيجہ يہ ہے کہ ايک دفعہ جب حضرت عمرؓ کي اہليہ نے آپؓ کو کسي بات پر کوئي مشورہ ديا تو حضرت عمر ؓنے کہا کہ تم کون ہوتي ہو بيچ ميں بولنے والي؟ وہ سن رہي تھيں، وہاں بيٹھي ہوئي تھيں، مشورہ دے ديا۔ تو ان کي اہليہ نے جواب ديا کہ جاؤ جاؤ وہ دن گئے جب ہمارا کوئي حق نہيں تھا۔ مجھ پہ رعب نہ ڈالو۔ اب وہ دن چلے گئے۔ اب تو رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم بھي اپني بيويوں سے مشورہ ليتے ہيں۔ تم کون ہو جو مجھے روکو۔ پس آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے عورتوں کے حقوق پر اتنا زور ديا کہ عورتوں کو بھي احساس پيدا ہو گيا کہ وہ مردوں سے کم نہيں ہيں۔

حضرت عمرؓ  کے زمانے کے بعض واقعات سے يہ پتہ چلتا ہے کہ آپؓ اگر کوئي حکم ديتے تو بعض دفعہ عورتيں صاف صاف کہہ ديتيں کہ يہ حکم آپؓ کس طرح دے سکتے ہيں، آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے تو اس طرح فرمايا ہے۔ جو آپؓ بات کر رہے ہيں اس کے الٹ بات آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمائي ہے۔ بہرحال قطع نظر اس کے کہ عورتوں کے يہ جواب صحيح تھے يا غلط، وہ صحيح سمجھيں يا حضرت عمر ؓ صحيح سمجھ کر تشريح فرما رہے تھے ليکن يہ ظاہر ہوتا ہے کہ

عورت کو اجتماعي معاملات ميں رائے دينے کا حق

اسلام نے ديا ہوا ہے اور اس پر اتنا زور ہے کہ اس کي مثال کسي اور دين ميں نہيں ملتي۔

(ماخوذ ازتفسير کبير جلد10 صفحہ301-302)

يہاں يہ بھي واضح ہو کہ وہ عورتيں دين کا علم حاصل کرنے ميں بھي شوق رکھتي تھيں اور علم حاصل کرتي بھي تھيں۔ تبھي تو آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے حوالے سے يہ بات کرتي تھيں کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے يوں فرمايا ہے۔پس احمدي عورتوں کو اس طرف بھي توجہ ديني چاہيے کہ نہ صرف حقوق لينے کي باتيں کريں بلکہ

ديني علم سيکھنے اور اس ميں بڑھنے کي بھي کوشش کريں

اور اپنے بچوں کي بھي اس نہج پر تربيت کريں۔ صرف دنياوي علم کے حصول کے ليے ہي زيادہ زور نہ ديتي رہيں۔ قرآن کريم اور دين کا علم ہي ہے جو آج کل کے اعتراض کرنے والوں اور دين کا استہزا کرنے والوں کے جواب دينے کے قابل آپ کو بنائے گا۔ ياد رکھيں يہ دجال کي چال ہے کہ نوجوان نسل کو آزادي کے نام پر اور عورتوں کو ان کے حقوق کے نام پر دين سے دور لے جاؤ اور آئندہ نسليں اسلام کي تعليم سے متنفر ہو جائيں يا يہ آواز اٹھانے لگ جائيں کہ اسلام کي تعليم کو بھي نئے زمانے کے مطابق ہونا چاہيے اور ان کے حقوق کا پاس ہونا چاہيے۔ دين سے دور لے جانے والے لوگ ہمدرد بن کر ہي دين سے ہٹانے کي کوشش کرتے ہيں يہ ہميشہ ياد رکھيں۔ پس ہوشيار رہنا چاہيے اور ان شيطاني حملوں سے بچنے کے ليے بلکہ ان کے اعتراض ان پر الٹانے کے ليے اپنے آپ کو تيار کريں نہ يہ کہ متاثر ہو جائيں۔ ان لوگوں کو بتائيں کہ تم کيا اعتراض کرتے ہو اسلام پر۔ اسلام تو عورت کو جو تحفظ اور آزادي ديتا ہے وہ نہ کسي مذہب ميں ہے نہ ہي دنياوي قاعدے اور قانون ميں ہے۔ اور جس کو تم آزادي کا نام ديتے ہو وہ عورت کے تقدس اور حيا کو ختم کرنے والي ہے بلکہ ان دنيا داروں ميں سے بھي بعض لکھنے والوں نے يہ لکھا ہے کہ مرد جو عورت کي آزادي اور حقوق کا شور مچاتے ہيں يہ ان کے اپنے مفاد اوراپنے غلط جذبات کي تسکين کے ليے ہے۔ ان کو عورت سے کوئي ہمدردي نہيں۔ کئي کالمسٹ نے اخباروں ميں يہ لکھا ہے بلکہ ايک نے تو کھل کے لکھا ہے۔ پس يہ ان کے جذبات کي تسکين کے ليے ہے نہ کہ عورت کو کچھ دينے کے ليے۔ عورت کے مفاد کے ليے باتيں نہيں کرتے بلکہ اپنے مفاد کي باتيں کر رہے ہوتے ہيں۔ پس بہت ہوشيار ہونے کي ضرورت ہے۔

احمدي عورت خوش قسمت ہے کہ اس نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے

جنہوں نے ہميں ہر معاملے ميں اسلام کي خوبصورت تعليم کو نکھار کر دکھا ديا۔ عورتوں کے حقوق کے بارے ميں حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام ايک جگہ فرماتے ہيں کہ ’’عورتوں کے حقوق کي جيسي حفاظت اسلام نے کي ہے ويسي کسي دوسرے مذہب نے قطعاً نہيں کي۔ مختصر الفاظ ميں فرما ديا کہ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ (البقرة: 229) کہ جيسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہيں ويسے ہي عورتوں کے مردوں پر ہيں۔‘‘ فرمايا کہ ’’بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بےچاريوں کو پاؤں کي جوتي کي طرح جانتے ہيں اور ذليل ترين خدمات ان سے ليتے ہيں۔ گالياں ديتے ہيں۔ حقارت کي نظر سے ديکھتے ہيں اور پردہ کے حکم ايسے ناجائز طريق سے برتتے ہيں کہ ان کو زندہ درگور کر ديتے ہيں۔‘‘ اس طرح جس طرح کہ گويا کسي کو زندہ دفنا ديا۔ ’’چاہئے کہ بيويوں سے خاوند کا ايسا تعلق ہو جيسے دو سچے اور حقيقي دوستوں کا ہو تا ہے۔ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خداتعاليٰ سے تعلق کي پہلي گواہ تو يہي عورتيں ہوتي ہيں۔‘‘ فرمايا ’’انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خداتعاليٰ سے تعلق کي پہلي گواہ تو يہي عورتيں ہوتي ہيں۔ اگر ان ہي سے اس کے تعلقات اچھے نہيں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعاليٰ سے صلح ہو۔‘‘ فرمايا کہ ’’رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے۔ خَيْرُکُمْ خَيْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ کہ تم ميں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے ليے اچھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ417-418)

پس بڑي وضاحت سے اس ارشاد ميں فرما ديا کہ حقوق کے لحاظ سے، دونوں کے حقوق ايک جيسے ہيں۔ يہ کتني بڑي بات آپؑ نے عورت کے حق ميں فرمائي ہے کہ اگر مرد کے تعلقات عورت کے ساتھ صحيح نہيں ہيں تو پھر خدا تعاليٰ سے صلح بھي ممکن نہيں ہے۔ پس مرد تو مجبور ہے کہ اللہ تعاليٰ کو راضي کرنے کے ليے بھي عورت کے حق ادا کرے۔ جو پہلے ميں نے آيت پيش کي تھي اس ميں بھي يہي اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے کہ

عورت اور مرد دماغ، جذبات، احساسات اور حقوق کے لحاظ سے برابر ہيں

اور نکاح کے موقع پر خطبہ نکاح کے شروع ميں يہ آيت پڑھي جاتي ہے اور يہ پڑھ کر مرد کے ذہن کو بھي صاف کر ديا کہ اگر تمہارے دل ميں کوئي بڑائي ہے تو اسے نکال دو اور عورت کو بھي تسلي دلا دي کہ تمہارے حقوق کي حفاظت اللہ تعاليٰ فرماتا ہے۔ اگر کوئي اس طرح حقوق ادا نہيں کرتا تو اللہ تعاليٰ کي پکڑ ميں آتا ہے جس سے مومن کو ہميشہ خوفزدہ رہنا چاہيے۔ جس کا ايمان ہي کمزور ہے يا مومن نہيں اس کي تو بات اور ہے۔ اگر کوئي حقيقي مومن ہے تو پھر اس کو بہرحال خوفزدہ رہنا چاہيے۔ ايک حقيقي دوست کا رشتہ بڑا مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ آپؑ نے فرمايا کہ اس طرح کا رشتہ پيدا کرو۔ اس آزاد معاشرے ميں کہنے کو تو دوستي کر کے ايک دوسرے کو سمجھ کر رشتے ہوتے ہيں۔ شادي کے شروع ميں لڑکا لڑکي مرد عورت دوستي کرتے ہيں، کہتے ہيں ہم بڑے اچھے دوست ہيں اور آخر اس دوستي کا نتيجہ يہاں نکلتا ہے کہ رشتے بھي ہو جاتے ہيں ليکن کچھ عرصہ بعد اکثريت کي يہ دوستي ختم ہو جاتي ہے اور پھر عليحدگي تک نوبت آ جاتي ہے۔ پس يہ کہنا بھي غلط ہے کہ پسند کي شادي اور پہلے سے تعلق بنا کر کي جانے والي شادي ديرپا ہے۔ ان کا اپنا اعداد و شمار جو ہے يہاں کا ڈيٹا جو ہے وہ اس کي نفي کرتا ہے کہ جو آپس کي understanding سے رشتے ہوئے ہيں وہ زيادہ ٹوٹتے ہيں۔ اگر انسان حقيقي مومن اور مومنہ ہے جو ايک دوسرے کو شروع ميں نہ جانتے ہوں تب بھي خدا تعاليٰ کي خاطر اس رشتہ کو دونوں ايسا نبھاتے ہيں جو خدا تعاليٰ کي رضا حاصل کرنے والا ہو۔ تاہم يہ بات بھي واضح ہو کہ يہ ضروري نہيں کہ ماں باپ کے کہنے پر لڑکي ضرور رشتہ کر لے۔

اسلام عورت کو يہ حق ديتا ہے کہ اس کي مرضي کے بغير شادي نہيں ہو سکتي۔

اگر اسلام سے پہلے کي تاريخ ديکھيں تو پتہ چلتا ہے کہ والدين جہاں چاہتے عورت کي شادي کر ديتے۔ بلکہ اب بھي بعض غير ترقي يافتہ اور ترقي پذير ممالک ميں ايسا ہي ہوتا ہے کہ ماں باپ اپني مرضي سے شادي کرنے پر لڑکي پر زور ڈالتے ہيں بلکہ بعض لوگ تو يہاں ترقي يافتہ ممالک ميں آ کر بھي اس قسم کي جاہلانہ حرکتيں کرتے ہيں کہ ہماري مرضي سے، ہماري برادري ميں اور ہمارے خاندان ميں ہي شادي ہو گي،نہيں تو لڑکي کو بڑي سختياں جھيلني پڑتي ہيں۔ اصل طريقہ تو يہ ہے کہ ماں باپ صرف دعا کر کے اپني پسند کا اظہار کريں ليکن زبردستي نہيں کرني چاہيے۔ اگر کوئي يہ کہے کہ مسلمان يہ کرتے ہيں تو واضح ہو يہ ان لوگوں کا قصور ہے جو اپني مرضي ٹھونستے ہيں۔ اسلام کي تعليم کا تو کوئي قصور نہيں۔ اسلام نے تو يہاں تک کہا ہے کہ

عورت کي مرضي کے خلاف اگر کوئي شادي ہو تو وہ باطل ہے،

غلط ہے۔پس يہ ايک بہت بڑا حق ہے جو قرآن کريم نے اور اسلام نے عورت کو ديا ہے جس کا اس سے پہلے تصور بھي نہيں تھا۔

(ماخوذ از تفسير کبير جلد10 صفحہ302)

پھر جيسا کہ حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے فرمايا کہ خاوند اور بيوي کا رشتہ ايک ايسا رشتہ ہے جس ميں وہ ايک دوسرے کے رازدار بھي ہوتے ہيں اور اس لحاظ سے

مرد کي بہت سي باتوں کي عورت گواہ ہوتي ہے۔

 پھر عورت بڑي گہري نظر سے اپنے خاوند کو ديکھتي ہے کہ اس ميں کيا خوبياں ہيں اور کيا خامياں ہيں۔ اور اگر مرد اپنے فرائض اور حقوق جو اللہ تعاليٰ نے اسے ديے ہيں وہ ادا نہيں کر رہا جو بيوي کے حقوق ہيں انہيں اسلامي تعليم کے مطابق ادا نہيں کر رہا تو ايک دن بيوي پھر اس کے سامنے کھڑي ہو سکتي ہے اور ايسے بگڑے ہوئے خاوند کو کہہ سکتي ہے اور کہے گي اور وہ اس کا حق رکھتي ہے کہ پہلے اپني اصلاح کرو پھر مجھے سمجھانا۔ پس عموماً گھروں ميں جھگڑوں کي بنياد بھي يہيں سے پڑتي ہے۔ جب مرد جابر حاکم کي طرح اپنے گھر کو چلانا چاہتا ہے اور حقوق ادا نہيں کرتا تو اسے بيوي کے اعتراضوں کا سامنا بھي کرنا پڑتا ہے۔ پس عورت کے ايک بيوي کے حق کو قائم کرنے کے ليے اور گھر ميں امن کي فضا پيدا کرنے اور قائم رکھنے کے ليے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا يہ سنہرا ارشاد ہے کہ تم ميں سے بہتر وہي ہے جو اپنے اہل کے ليے اچھا ہے۔

کتنے بڑے حق ہيں جو عورت کو ديے۔ پھر

اسلام نے عورت کو الگ گھر کا حق ديا ہے۔

اس پہ بھي بعض لوگ سوال کرتے ہيں۔ آج کے معاشرے ميں خاص طور پر ايشين يا پاکستاني يا ہندوستاني معاشرے ميں اس بات پر جھگڑے ہوتے ہيں کہ ايک گھر ميں رہنے کي وجہ سے بيوي کي اپنے سسرال سے چھوٹي چھوٹي باتوں پر اَن بن رہتي ہے جو بڑھتے بڑھتے پھر خاوند بيوي کے جھگڑوں ميں تبديل ہو جاتي ہے اور عليحدگي تک پہنچا ديتي ہے۔ تو بيوي کو يہ حق ہے کہ وہ عليحدہ گھر کي خواہش کرے اور انتہائي مجبوري کے علاوہ مردوں کو يہ کہا گيا ہے کہ اس خواہش کو پورا کرنا چاہيے۔ لڑکي کو مجبور نہيں کرنا چاہيے کہ وہ ضرور سسرال ميں رہے۔ اگر وسائل ايسے ہيں تو پھر عليحدہ ہونا چاہيے اور اگر نہيں وسائل تو پھر کوشش کرني چاہيے کہ جب بھي حالات بہتر ہوں عليحدہ ہو جائے۔ پھر

عورت کا حق مہر مقرر کيا گيا ہےتا کہ اس کي کوئي جائيداد ہو

اس کے پاس کوئي رقم ہو اس کي وہ آپ وارث ہو اور مکمل مالک ہو۔ جائيداد ميں اسے حصہ ديا گيا ہے۔ آج کي نام نہاد دنيا ميں جائيداد اور وراثت کا حق ديا گيا ہے ليکن يہ صرف سو ڈيڑھ سو سال پہلے آہستہ آہستہ ملا ہے جو کہ اسلام نے پندرہ سو سال پہلے دے ديا تھا بلکہ پہلے تو يہاں يہ رواج تھا کہ شادي کے بعد عورت کي جائيداد اس کي جائيداد نہيں سمجھي جاتي تھي۔ اگر عورت کو کسي ذريعہ سے جائيداد مل جاتي تھي يا اس نے کسي ذريعہ سے پيدا کر لي اور اس کي ابھي شادي نہيں ہوئي يا شادي ہو گئي ہے تو پھر اس کي جائيداد سمجھي نہيں جاتي تھي اور بعض لوگ تو صاحبِ جائيداد عورت سے شادي کر کے اس کي جائيداد پر قابض ہو جاتے تھے۔ شادي کے بعد عورت کي جائيداد خاوند کي طرف چلي جاتي تھي ليکن اسلام نے ابتدا ميں ہي عورت کي جائيداد کو اس کي ذاتي ملکيت قرار دے کر اسے اتني آزادي دے دي کہ صحابہ کو اس زمانے ميں شبہ پڑ گيا کہ مرد کے ليے يہ بھي جائز نہيں ہے کہ عورت کي جائيداد ميں سے عورت کي مرضي سے بھي کچھ خرچ کر لے يا لے لے۔ اگر عورت دے بھي تو تب بھي نہيں لينا اس حد تک صحابہ محتاط ہو گئے تھے۔صحابہ اس وقت تک اس سے بچتے رہے جب تک کہ اسلام کي تعليم ميں يہ حکم نہيں آگيا کہ تم عورت کي طرف سے خوشي سے ديا ہوا تحفہ لے بھي سکتے ہو اور اپنے اوپر خرچ بھي کر سکتے ہو۔ اگر عورت خوشي سے ديتي ہے تو کوئي حرج نہيں لے لو۔ اتني احتياط کي ضرورت نہيں۔

(ماخوذ از تفسير کبير جلد10 صفحہ302-303)

پھر

اسلام نے لڑکيوں کي تعليم پر زور ديا ہے

اور تاکيد فرمائي ہے۔ يہاں تک فرمايا کہ جس کي دو لڑکياں ہوں اور وہ ان کي اچھي تربيت کرے تو خدا تعاليٰ اس کے گناہوں کو معاف کر ديتا ہے۔ ايک عورت حضرت عائشہ رضي اللہ تعاليٰ عنہا کے پاس آئي۔ غريب عورت تھي اور کھانے کے ليے کچھ مانگا۔ اس کے ساتھ دو لڑکياں تھيں۔ ايک اس نے اپنے دائيں طرف بٹھا لي ايک بائيں طرف بٹھالي۔ حضرت عائشہؓ کے پاس اس وقت سِوائے ايک کھجور کے گھر ميں کچھ نہيں تھا۔ انہوں نے وہ کھجور اسے دے دي۔ اس عورت نے منہ ميں ڈال کر کھجور کے دو ٹکڑے کيے اور آدھا ايک کو دے ديا اور آدھا دوسري کو اور خود بھوکي رہي۔ جہاں اس سے ماں کي قرباني کا پتہ لگتا ہے وہاں آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کے اس عمل سے ايک اَور خوبصورت بات بيان فرمائي۔ جب آنحضور صلي اللہ عليہ وسلم کو يہ بات بتائي گئي تو آپؐ نے فرمايا کہ جس کي دو بيٹياں ہوں اور وہ ان کي اچھي تربيت کرے اور ان کو تعليم دلوائے تو اللہ تعاليٰ اس پر جنت واجب کر ديتا ہے۔ اس عورت پر جنت واجب کرديتا ہے۔ يہ ضروري نہيں ہے کہ تعليم اس ليے حاصل کي جائے کہ ملازمت کرني ہے، اگلي نسل کي تربيت اور اس کي تعليم کے ليے بھي عورت کي تعليم ضروري ہے۔ کسي خاص پيشہ اور ہنر کو سيکھ کر اس ميں کام کرنا اور ملازمت کرنا بھي غلط نہيں ہے ليکن عورت اگر اگلي نسل کو سنبھالنے کے ليے تعليم کے زيور سے آراستہ ہوتي ہے تو يہ اسے جنت کي خوشخبري ديتي ہے۔ (ماخوذ از تفسير کبير جلد10 صفحہ304) جس کا ايک دوسري حديث ميں يوں ذکر آيا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نيچے ہے۔ (کنز العمال جلد8 جزء16 صفحہ192 کتاب النکاح باب فی بر الوالدین حدیث45431۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) يعني اولاد کي اعليٰ تربيت اور تعليم صرف ماؤں کو جنت ميں نہيں لے جاتي بلکہ بچوں کو بھي جنت ميں لے جانے کا ذريعہ بنتي ہے۔ يہ کتنا بڑا اعزاز اور مقام ہے جو مرد کو نہيں ديا گيا عورت کو ديا گيا بلکہ عورت کي عزت کو اس سے بھي بڑھ کر بيان کيا گيا ہے۔

پس نيک عورت،

مومنہ عورت ايسي ہے جو مردوں سے کئي قدم آگے ہو سکتي ہے

اور جس قوم کي عورتيں نيکي ميں آگے ہوں، تعليم يافتہ اور تربيت يافتہ ہوں، اپنے بچوں کي صحيح اسلامي تعليم کي روشني ميں تربيت کرنے والي ہوں تو پھر اگلي نسليں جن ميں لڑکے بھي شامل ہيں لڑکياں بھي ايسي نکليں گي جو نيکي اور تقويٰ ميں ايک دوسرے سے سبقت لے جانے والي ہوں گي، بڑھنے والي ہوں گي۔

اسلام نے بعض حالات ميں طبيعتيں نہ ملنے کي وجہ سے يا کسي اَور وجہ سے شادي کے رشتہ کو ختم کرنے کي جو اجازت دي ہے اس کي بات اگر ہم ديکھيں تو اس حق کا استعمال بھي دونوں کو برابر ديا ہے۔ مرد کو طلاق کي صورت ميں، عورت کو خلع کي صورت ميں اور مرد کو يہ حکم ہے کہ اس حق کو استعمال کرنے کي صورت ميں يہ بات مدّنظر رہے کہ عورت پر زيادتي نہ ہو۔ اگر زيادتي ہوتي ہے تو يہ بہت بڑا ظلم ہے اور اللہ تعاليٰ ظلم کي سزا ديتا ہے۔ طلاق کے سلسلہ ميں اللہ تعاليٰ ايک جگہ مردوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (البقرة: 228) اور اگر وہ طلاق کا قطعي فيصلہ کر ليں تو يقيناً اللہ بہت سننے والا اور دائمي علم رکھنے ولا ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے جو اس کي وضاحت فرمائي ہے وہ مردوں کي طرف نہيں جاتي بلکہ آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’اگر طلاق دينے پر‘‘ مرد ’’پختہ ارادہ کر ليں سو ياد رکھيں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے يعني اگر وہ عورت جس کو طلاق دي گئي خدا کے علم ميں مظلوم ہو‘‘ فرمايا ’’وہ عورت جس کو طلاق دي گئي ہے خدا کے علم ميں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کي بد دعا سن لے گا۔‘‘

(آريہ دھرم، روحاني خزائن جلد10 صفحہ52)

پس اس آيت ميں مرد کو ہوشيار کيا گيا ہے کہ

طلاق کا فيصلہ سوچ سمجھ کر کرو۔

بلاوجہ چھوٹي چھوٹي باتوں پر عورت کو طلاق نہ دے دو۔ اللہ تعاليٰ اگر تمہاري سنتا اور تمہاري باتيں جانتا ہے تو عورت کي باتيں بھي سنتا ہے اور اس کے حالات کا بھي علم ہے اسے اور اگر تم ظلم کر کے اسے اپنے سے عليحدہ کر رہے ہو تو عورت اللہ تعاليٰ سے تمہارے اس ظلم کا بدلہ لينے کي دعا کر سکتي ہے اور اللہ تعاليٰ مظلوم کي دعا سنتا ہے۔ پس يہاں مردوں کو ڈرايا گيا ہے جو طلاق دينے ميں جلد بازي کرتے ہيں اور عورت کا حق قائم کيا گيا ہے۔

پھر ايک اعتراض يہ ہے کہ

ايک سے زيادہ شاديوں کي مرد کو اجازت

دے کر عورت کا حق مارا گيا ہے۔ بات تو يہ ہے کہ يہ بعض حالات ميں اجازت ہے، حکم نہيں ہے اور اس اجازت پر عمل کرنے کے ليے بھي بعض شرائط رکھي گئي ہيں۔ اس ترقي يافتہ معاشرے ميں ايک شادي کر کے پھر دوسري عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھے جاتے ہيں۔ روز کي خبريں ہم ديکھتے ہيں اور يہ بے حيائي اور فحاشي ہے جس کي اسلام قطعاً اجازت نہيں ديتا اور اس بے حيائي کا نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ جب بيوي کو اپنے خاوند کے ايسے تعلقات کا پتہ چلتا ہے تو نوبت عليحدگي تک آتي ہے اور يہ اس معاشرے ميں عام چيز ہے۔ اس ليے ان لوگوں کو تو اسلام کي ايک سے زيادہ شادي کي اجازت پر اعتراض نہيں ہونا چاہيے۔ خود ان کے عمل ايسے ہيں پہلے اپنے آپ کو ديکھيں۔ دوسرے يہ کہ جيسا کہ ميں نے کہا بعض شرائط کے ساتھ اجازت ہے اور اگر وہ شرائط پوري نہيں ہو رہيں تو اجازت نہيں ہے۔ اور پھر

ايک سے زيادہ شادي کي صورت ميں انصاف کو انتہائي اہم کہا گيا ہے۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ايک سے زيادہ شادي کرنے والے کے فرائض اور ہر بيوي کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا ہے کہ يہ حقوق اس قسم کے ہيں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہو تو بجائے بياہ کے وہ ہميشہ رنڈوا رہنا پسند کرے۔ خدا تعاليٰ کي تہديد کے نيچے رہ کر جو شخص زندگي بسر کرتا ہے وہي ان کي بجاآوري کا دم بھر سکتا ہے۔ ايسے لذات کي نسبت جن سے خدا تعاليٰ کا تازيانہ ہميشہ سر پر رہے تلخ زندگي بسر کر ليني ہزارہا درجہ بہتر ہے۔ يعني شادي کے بعد بيوي کے حقوق ادا نہ کرنا يہ کتنا بڑا گناہ ہے اگر اس کا پتہ ہو انسان کو تو فرمايا کہ ايک شادي بھي شايد نہ کرے اور بغير شادي کے رہنا پسند کرے انسان اگر وہ صحيح مومن ہے۔ فرمايا کہ ايک سے زائد شادي کو شريعت نے بطور علاج کے رکھا ہے۔ جہاں شادي ہے وہاں جو شرائط پوري ہوني ہيں وہ بطور علاج ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہيں پہلي بيوي کي رعايت اور دلداري يہاں تک کرني چاہيے (يہ بھي حق قائم کيا ہے) کہ اگر کوئي ضرورت مرد کو ازدواج ثاني کي محسوس ہو ليکن وہ ديکھتا ہے کہ دوسري بيوي کے کرنے سے پہلي بيوي کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ اس کي دل شکني ہوتي ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسي معصيت ميں مبتلا نہ ہو اور نہ کسي شرعي ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو۔ شرائط ہيں

گناہ سے بچنا اور شرعي ضرورت کا خيال۔

تو ايسي صورت ميں اگر اپني ضرورتوں کي قرباني سابقہ بيوي کي قرباني کے ليے کر دے يعني جو موجود بيوي ہے اس کے ليے اگر قرباني کر دے اور ايک ہي بيوي پر اکتفا کرے تو کوئي حرج نہيں۔ اس بات پہ بھي فرمايا کہ اگر بہت اشد مجبوري نہيں ہے جو جائز مجبوري ہے تو پھر بيوي کي دلداري کے ليے ضروري ہے کہ قرباني کرو اور ايک پہ اکتفا کرو اور اسے مناسب ہے کہ دوسري شادي نہ کرے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلدہفتم صفحہ63-64)

پھر فرمايا ’’دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکيوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہيں۔ جب والدين ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہيں تو خيال کرو کہ کيا اميديں ان کے دلوں ميں ہوتي ہيں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء: 20) کے حکم سے ہي کر سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدہفتم صفحہ65)

پس يہاں عورت کے احساسات، جذبات کا بڑا کھول کر ذکر فرماتے ہوئے ان کے حق کي طرف توجہ دلاتے ہوئے مردوں کو نصيحت کي اور تنبيہ فرمائي ہے۔ آپؑ نے يہاں تک فرمايا کہ ’’يہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسي مسلمان سے نکاح کرنا چاہيں تو اول شرط کرا ليں کہ ان کا خاوند کسي حالت ميں دوسري بيوي نہيں کرے گا۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحاني خزائن جلد23 صفحہ246)

يہ بھي عورت کا حق ہے کہ جس مرد سے شادي کر رہے ہيں شادي سے پہلے اس سے عہد لے سکتے ہيں، معاہدہ کر سکتے ہيں کہ آئندہ جو بھي حالات ہوں تم دوسري شادي نہيں کرو گے اور پھر چاہے جو بھي حالات ہوں مرد پابند ہے کہ نہيں شادي کرے گا۔ پس اس حد تک مرد کو پابند کرنے کا حق ديا گيا ہے۔

پھر مرد کي يہ ذمہ داري لگائي ہے کہ وہ عورت کي ضروريات کا ذمہ دار ہے۔ اس کي حفاظت کرنے والا ہے۔ عورت کا بحيثيت خاوند نگران بھي ہے اور اس لحاظ سے مرد کي ذمہ داري ہے کہ وہ گھر کے تمام معاملات ديکھے۔ گھر کے خرچ پورے کرے۔

بيوي بچوں کي ضروريات کا خيال رکھے۔

عورت کمانے والي بھي ہے تب بھي اس کي کمائي پر نظر نہ رکھے جيسا کہ پہلے ميں نے بيان کيا سوائے اس کے کہ اپني مرضي سے عورت خرچ کرے۔ بلکہ خود اپني ذمہ داري ادا کرے اور جسماني لحاظ سے بھي مرد کو فضيلت ہے يہ ہم دنيا ميں بھي ہر جگہ ديکھتے ہيں۔ طاقت کے لحاظ سے بھي اور اعصاب کے لحاظ سے بھي۔ اس ليے اس بات کا خيال رکھے کہ اسے جذباتي اور جسماني تکليف نہ پہنچائے۔ مرد کو فضيلت اگر دي گئي ہے جسماني لحاظ سے اور اعصاب کے لحاظ سے مضبوط اعصاب بنايا ہے بعض معاملات ميں تو پھر يہ بھي فرض اس پر ڈالا گيا ہے کہ وہ کسي قسم کي تکليف عورت کو نہ دے ۔ اگر گھر ميں بعض باتوں پر اختلاف ہو جاتا ہے تو پھر بھي ايسي باتيں نہ کرے يا غصہ ميں ہاتھ نہ اٹھائے جو عورت کو جذباتي يا جسماني تکليف ناجائز طور پر پہنچا سکے يا پہنچانے والي ہو۔ جو جسماني فضيلت ہے يا بيوي کي ضروريات پوري کرنے کي ذمہ داري ہے مرد اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ تو يہاں اس حوالے ميں

عورت کا حق قائم کيا گيا ہے

اس آيت ميں بھي جو قرآن شريف ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے مرد قوام ہے وہاں عورت کا حق قائم کيا گيا ہے اور مرد کو اس فضيلت کي وجہ سے اس کي ذمہ داري کا احساس دلايا گيا ہے اور يہ فضيلت بھي پھر ہر معاملے ميں نہيں ہے يہاں بعض معاملات ميں ہے۔ تبھي تو ايک موقع پر ايک صحابيہ کے يہ کہنے پر کہ مرد سب فرائض عبادتوں وغيرہ کے بھي پورے کرتے ہيں اور لمبي ايک تفصيل بيان کي انہوں نے اور پھر يہ بھي آخر ميں بيان کيا کہ سب سے بڑھ کر جہاد بھي کرتے ہيں جس کا بہت بڑا ثواب ہے جبکہ ہم عورتيں اس سے محروم ہيں ہم تو گھروں ميں بيٹھي رہتي ہيں، قيد ہيں، صرف اپني گھريلو ذمہ دارياں ہي ادا کر سکتي ہيں اور اولاد کو پالتي ہيں، گھر کي نگراني کرتي ہيں تو

کيا ہم اپني ذمہ دارياں ادا کر کے اجر ميں مردوں کے برابر شريک نہيں ہيں؟

بعض مجبوريوں کي وجہ سے اگر ہمارے پہ پابندياں ہيں تو پھر اجر ميں تو ہميں شريک ہونا چاہيے۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم سے عرض کيا کہ کيا ہم اس طرح اجر ميں شريک نہيں ہوں گي۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے اس عورت کي بڑي تعريف کي اور صحابہ سے فرمايا کہ تم نے دين کے معاملے ميں اپنے مسئلہ کو اس عمدگي سے بيان کرنے ميں اس عورت سے بہتر کسي کي بات سني ہے؟ صحابہ کو بھي توجہ دلائي کہ ديکھو کيسي خوبصورت بات کي ہے اس عورت نے۔ صحابہ نے عرض کيا ہم تو کسي عورت سے اتني گہري سوچ کي اميد بھي نہيں رکھتے۔ پراني تربيت تھي جو پرانے خيالات تھے اس ليے صحابہؓ نے تو صاف کہہ ديا کہ ہم تو نہيں سمجھ سکتے کہ عورت اتني عقل کي بات کر سکتي ہے۔ پس آپؐ نے صحابہ سے يہ سوال پوچھ کر ان کو يہ بھي بتا ديا کہ تم عورت کو کمتر سمجھتے ہو ليکن عورتيں بھي بڑي عقل اور ديني لحاظ سے حکمت کي باتيں کرتي ہيں۔ پس ہر معاملے ميں تم لوگ اپنے آپ کو ہي فضيلت نہ دو۔ عورتيں بھي بعض معاملات ميںعقل کي باتيں کرنے ميں تمہارے سے زيادہ فضيلت لے جاتي ہيں ۔ پھر اس عورت سے فرمايا جو يہ سب معاملہ لے کے آئي تھي، جس نے ايک لمبي تفصيل اپني باتوں کي گنوائي تھي کہ تم نے جو باتيں گنوائي ہيں کہ يہ يہ ہم عورتيں کرتي ہيں اور اگر ايک نيک عورت، گھر دار عورت اپنے بچوں اور اپنے گھر کو سنبھالنے کے ليے جو تم نے کہا اسي طرح کرتي ہے اپنے خاوند کے ہوتے ہوئے اور اس کے پيچھے بھي اس کي ذمہ دارياں ادا کرتي ہے وہ اپنے اجر ميں مردوں کے برابر ہے۔ کوئي اجر ميں کمي نہيں۔جس طرح ايک جہاد ميں شريک شخص کو اجر مل رہا ہے اور ثواب مل رہا ہے وہي اجر ايک گھر ميں رہنے والي عورت کوبھي مل رہا ہے۔ وہ عورت آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي يہ بات سن کے خوشي خوشي لا الٰہ الا اللّٰہ اور اللّٰہ اکبر کے الفاظ بلند کرتے ہوئے عورتوں کي طرف چلي گئي۔

(اسد الغابة جلد7 صفحہ17-18 اسماء بنت يزيد۔ دار الکتب العلمية بيروت 2003ء)

پس مردوں کو بعض فرائض کي ذمہ داريوں کي وجہ سے فضيلت ہے نہ کہ عقل، جذبات کے لحاظ سے، اور اگر مرد وہ ذمہ دارياں ادا نہيں کرتے تو وہ گناہگار بھي ہيں ۔ بہرحال اسلام ميں عورت کے بہت سے حقوق قائم کيے گئے ہيں اور ان کے اجر بھي مردوں کے برابر ہيں بشرطيکہ وہ اپني ذمہ دارياں بھي ادا کريں اور اسلام کي تعليم پر عمل کريں۔ اسلام کي تعليم کو کسي احساس کمتري کي وجہ سے اپنے ليے شرمندگي کا باعث نہ سمجھيں يا دجال کي چال ميں پھنس کر اپنے اوپر ناجائز بوجھ نہ سمجھيں۔

اسلام کا ايک حکم پردے کا بھي ہے۔

گذشتہ دنوں کسي نے مجھے لکھا کہ يہاں ان ممالک ميں تو ہمارے ملکوں کے مردوں کي طرح جس طرح عام ہمارے ايشين مرد ہيں عورتوں کو گھور گھور کے ديکھتے ہيں يہاں تو گھور کر نہيں ديکھا جاتا اس ليے يہاں اس طرح پردہ کرنے کي کيا ضرورت ہے جس طرح اسلام کا پردہ کرنے کا حکم ہے۔ پہلي بات تو يہ ياد رکھني چاہيے کہ اللہ تعاليٰ کا کوئي حکم ايسا نہيں جسے ہم خود اپنے نفس کے دھوکے ميں آ کر غلط تشريح کرتے ہوئے وقت کي ضرورت يا عدم ضرورت کا درجہ دے ديں۔ پھر يہ ياد رکھيں کہ اسلام نے جہاں عورت کو پردہ کرنے اور نظريں نيچي رکھنے کا حکم ديا ہے وہاں پہلے مردوں کو حکم ديا ہے۔ اگر ايک حقيقي اسلامي معاشرہ ہو اور وہاں مرد غضِ بصر کرے اور وہ غضِ بصر سے کام لينے والا ہو تب بھي عورت کو حکم ہے کہ تم بھي نظريں نيچي رکھو اور پردہ کرو۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے بھي مردوں کو بازاروں ميں بيٹھنے کي صورت ميں نظريں نيچي رکھنے کا حکم ديا ہے۔

(صحيح بخاري کتاب المظالم باب أفنية الدور والجلوس فيہا حديث2465)

حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے بھي فرمايا ہے کہ ’’مومن کو نہيں چاہئے کہ …… بے محابا اپني آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے بلکہ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ پر عمل کر کے نظر کو نيچي رکھنا چاہئے اور بدنظري کے اسباب سے بچنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ332)

پس يہ کوئي دليل نہيں ہے کہ کيونکہ مرد ديکھ نہيں رہے اس ليے پردہ اور حيا دار لباس کي ضرورت نہيں ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ ‘‘آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہيں ليکن يہ لوگ نہيں جانتے کہ

’’اسلامي پردہ سے مراد زندان نہيں۔

کوئي قيد خانہ نہيں ہے کہ عورت کو قيد کر کے رکھ دو ’’بلکہ ايک قسم کي روک ہے کہ غير مرد اور عورت ايک دوسرے کونہ ديکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچيں گے۔‘‘ فرمايا ’’…… بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتيں کرنے کي اجازت ہي نہ دي جو کسي کي ٹھوکر کا باعث ہوں۔‘‘ پہلے ہي احتياط کر دي تاکہ بدنتائج سے بچا جائے۔ ’’ايسے موقعہ پر يہ کہہ ديا کہ جہاں اس طرح غير محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں تيسرا ان ميں شيطان ہوتا ہے۔‘‘ فرمايا ’’……اگر کسي چيز کو خيانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو ليکن اگر حفاظت نہ کرو اور يہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہيں تو ياد رکھو کہ ضرور وہ چيز تباہ ہو گي۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ34-35)

پس جن لوگوں کے ذہنوں ميں يہ سوال اٹھتے ہيں ان کو ياد رکھنا چاہيے کہ اسلام کسي بھي غلطي اور گناہ کے امکان کے سدّباب کے ليے احتياطي تدابير بتاتا ہے اور اس پر عمل کرنے والے ہي اپني عفت اور عزت بچانے والے ہيں۔

اسلام کا ہر حکم اعتدال کا ہے

اس ليے پردے ميں غير ضروري سختي کو بھي حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ردّ فرمايا ہے۔ آپؑ نے فرمايا کہ ’’اسلامي پردہ سے يہ ہرگز مراد نہيں ہے کہ عورت جيل خانہ کي طرح بند رکھي جاوے۔ قرآن شريف کا مطلب يہ ہے کہ عورتيں ستر کريں وہ غير مرد کو نہ ديکھيں۔ جن عورتوں کو باہرجانے کي ضرورت تمدني امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہيں ہے وہ بيشک جائيں ليکن نظر کا پردہ ضروري ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ449)

اس طرح ايک جگہ آپؑ نے فرمايا کہ سر کے بال ،گال اور ٹھوڑي کو ڈھانک کے رکھو۔

(ماخوذ از ريويو آف ريليجنزجلد4 نمبر1صفحہ17 ماہ جنوري1905ء۔ بحوالہ تفسير حضرت مسيح موعود عليہ السلام جلد3 صفحہ446)

اور قرآن کريم ميں حکم ہے کہ اپنے گريبانوں پر اوڑھنياں ڈال ليا کرو اور اپني زينتيں ظاہر نہ کرو، اس کي پابندي کرو۔ آپؑ نے فرمايا ’’مساوات کے لئے عورتوں کے نيکي کرنے ميں کوئي تفريق نہيں رکھي گئي ہے اور نہ ان کو منع کيا گيا ہے کہ وہ نيکي ميں مشابہت نہ کريں۔ اسلام نے يہ کب بتايا ہے کہ زنجير ڈال کر رکھو۔ اسلام شہوات کي بناء کو کاٹتا ہے۔ يورپ (اس ميں سب ترقي يافتہ ممالک شامل ہيں۔ آپؑ کي مراد ترقي يافتہ ممالک تھے جو نام نہاد ہيں ان) کو ديکھو کيا ہو رہا ہے……  يہ کس تعليم کا نتيجہ ہے؟ کيا پردہ داري کا يا پردہ دري کا۔‘‘ بہت سے معاملات يہاں بھي ہوتے ہيں اخباروں ميں بھي ہم پڑھتے ہيں۔ اب يہ کيا ہے۔ فرمايا کہ يہ پردے کا نتيجہ ہے يا پردہ نہ کرنے کا نتيجہ ہے۔ ’’……اسلام تقويٰ سکھانے کے واسطے دنيا ميں آيا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ449)

آپؑ نے فرمايا:

اسلام تقويٰ سکھانے کے واسطے دنيا ميں آيا ہے۔

پس ہميں تقويٰ پيدا کرنے کي ضرورت ہے چاہے وہ مرد ہے يا عورت ہے اور اللہ تعاليٰ کے جو حکم ہيں ان پر عمل کرنے کي ضرورت ہے۔اللہ تعاليٰ ہميں ہميشہ تقويٰ کي راہوں پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے۔ ہر احمدي عورت اور ہر احمدي بچي کو اپنے مقام کو سمجھنا چاہيے اور اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے بتائے ہوئے طريق پر چلتے ہوئے اپني زندگيوں کو سنوارنے کي کوشش کرني چاہيے نہ کہ آزادي اور حقوق کے نام پر اندھي تقليد کرتے ہوئے اپنے ان دنياداروں کے پيچھے چلنا شروع کر ديں بلکہ دنيا کو عورت کا مقام اور اس کي عزت اور شرف کے بارے ميں بتانا آج احمدي عورت اور احمدي بچي کا کام ہے جس کے ليے بغير کسي احساس کمتري کے ہرايک کو کوشش کرني چاہيے۔ اللہ تعاليٰ سب کو اس کي توفيق عطا فرمائے۔ اب دعا کر ليں۔

٭دعا٭

(الفضل انٹرنيشنل 7 ستمبر 2021ء صفحہ 6 تا 10)

پچھلا پڑھیں

اىڈىٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2021