• 14 مئی, 2024

یا دوں کے دریچوں پر حاضری (تعلیم الاسلام کالج ربوہ)

یا دوں کے دریچوں پر حاضری
تعلیم الاسلام کالج ربوہ اور اس کے طلباء کا مسکن فضل عمر ہو سٹل کی
چند انمنٹ یادیں

؎کىا ڈھونڈتے ہو فصلِ خزاں مىں  بہار کو
اب وہ چمن کہاں ہے،وہ رنگِ چمن کہاں

 تعلىم الاسلام کالج ربوہ کے سابق پروفىسرز، اساتذہ ىا پرانے طلباء کالج کے بارہ مىں تو  گاہے بگاہے کچھ لکھتے رہتے ہىں لىکن اس عظىم درسگاہ کے فضل عمر ہوسٹل کى زندگى کى ىادوں پر کم لکھا گىا ہے۔ ىا کم از کم مىرى نظروں سے تو اىسا مضمون نہىں گزرا۔ شاىد اسکى وجہ ىہ ہو کہ کالج کے طلباء کى اکثرىت ربوہ شہرہى کى رہنے والى تھى اسلئے ہوسٹل کى اندرونى زندگى اور ماحول سے قدرے آگاہ نہىں تھے۔ مجھے دو سال  (1968ء تا 1970ء) اِس کالج مىں طالب علم اور فضل عمر ہوسٹل مىں رہنے کا موقع ملا ہے۔ گزشتہ دس بارہ سالوں سے دماغ مىں ىہ خىال گردش کرتا رہتا تھا کہ ہوسٹل کى زندگى کى ىادوں پر کچھ لکھنا چاہئے لىکن ىہ خىال قلم تک نہىں پہنچتا تھا۔ حال ہى مىں ٹى آئى کالج کے زمانہ کے اىک ہونہار کلاس فىلو سے پچاس سال بعد اتفاقاً فون پربات ہوئى تو کچھ پرانى باتوں کے درمىان مىں نے ىہ تذکرہ بھى کردىا۔ ىہ سنتے ہى موصوف اس قدرمتحرک ہوئے کہ اپنے بچپن کى  تربىت کى بنا پر ىہ پىشکش بھى کر دى کہ اگر مىں اپنى ىادوں کو بول کر رىکارڈ کرکے ان کو روانہ کردوں تو وہ رضاکارانہ طور پر ا س کو ٹرانسکرائب کردىں گے؟ مىرے دىرىنہ  کلاس فىلو کى اس ترغىب نے مىرے پرانے خىال کو اىسا متحرک کىاکہ مىرے قلم پر لگے زنگ  کو دور کردىا۔ممکن ہے مىرا ىہ مضمون کسى معمولى حد تک کالج کے تارىخى ادب کى کمى کوپورا کر دے۔

 اىک اور بات بھى قابل ذکر ہے کہ پچاس سال پہلے جب سے فضل عمر ہوسٹل چھوڑا ہے، آج تک کسى سے کبھى بھى ان واقعات کا ذکر نہىں کىا، نہ زبانى، نہ تحرىرى۔  اس لئے ىہ باتىں مىرى ىادوں سے آج پہلى بار نکل رہى ہىں۔ اسلئے ان لفظوں مىں مىرى آنکھ اور دل بھى شرىک ہے۔ ىہ بھى درست ہے کہ ىہ ىادىں مىرے ذاتى مشاہدات ،تجربات اور محسوسات پر مشتمل ہىں۔ مىں نے کوشش کى ہے کہ اپنے بىان کو کسى لگى لپٹى کے بغىر ہى لکھا جائے  تاکہ اُس دور کى ىاد اُسى طرح محفوظ  ہو جس طرح واقعات ہوئے تھے۔ مجھے ىہ بھى علم ہوا ہے کہ چند پرانے طلباء نے ٹى آئى کالج کے پرانے زمانہ کا طلباء کا رسالہ المنار آجکل دوبارہ آن لائن جارى کىا ہوا ہے جس سے وہ اپنى پرانى ىادوں سے محظوظ ہوتے رہتے ہىں۔  پڑھنے والوں مىں سے اگر اُس دور کے کسى پرانے طالب علم کى نظر سے ىہ مضمون گزرے تو مىرى خواہش اور درخواست بھى ہے کہ وہ بھى اپنى ىادوں کو کھوجتے ہوئے ضرور کچھ لکھىں۔ مشہور شاعر وحشت کلکتوى کے بقول

؎مزا آتا اگر گزرى ہوئى باتوں کا افسانہ
کہىں سے ہم بىان کرتے، کہىں سے تم بىان کرتے

آئىے! مىں آپ کو اپنى ىادوں کے درىچوں سے آنے والى ہواؤں سے متعارف کراؤں۔ مىٹرک کا امتحان مىں نے گورنمنٹ ہائى سکول کھارىاں ضلع گجرات سے پاس کىا اور والدىن کى خواہش پر 1968ء مىں تعلىم الاسلام کالج ربوہ مىں اىف اىس سى پرى انجىنئرنگ مىں داخلہ لے لىا۔ والدصاحب کى خواہش تھى کہ مىں انجنىئر بنوں۔رہائش کىلئے فضل عمر ہوسٹل کا انتخاب کىا گىا۔ مىرے لئے ىہ سب اىک بالکل نىا تجربہ تھا ۔  دل مىں کالج کى زندگى کى کچھ آزادى کى خوشى اور کچھ نئى جگہ جانے کے انجانے خوف کے ملے جلے جذبات تھے۔ کالج مىں کل طلباء کى تعداد کا تو علم نہىں لىکن ان دنوں جہاں تک مجھے ىاد پڑتا ہے کوئى اڑھائى سو کے قرىب طلباء ہوسٹل مىں رہتے تھے۔ ان مىں سے سو کے قرىب احمدى تھے اور تقرىباً  ڈىڑھ سو کے لگ بھگ ربوہ کے نواحى علاقوں سے آئے ہوئے تھے جو  احمدى نہ تھے۔  اسى طرح طلباء کى اىک خاصى تعداد چنىوٹ اور ارد گرد کے قصبوں اور گاؤں سے بھى کالج مىں پڑھنے آتى تھى اور ىہ سب طلباء بھى احمدى نہ تھے۔  اُس زمانہ مىں کالج کى احمدى انتظامىہ ہونے کى وجہ سے کسى کو کسى کے مذہبى فرقہ کا کم ہى پتہ ہوتاتھا۔سب ہى صرف طالب َعلم تھے۔

ہوسٹل کا عمومى نظام

 جس سال مىں نے داخلہ لىا اسوقت کالج کے اصل پرنسپل تو مکرم پروفىسر قاضى محمد اسلم  تھے لىکن مکرم صوفى بشارت الرحمان بطورقائم مقام پرنسپل  کام کر رہے تھے۔ اسکى وجہ ىہ تھى کہ مکرم قاضى صاحب ٹانگ پر چوٹ کے باعث علىل تھے اور چندماہ کى رخصت پر لاہور گئے ہوئے تھے۔  ہوسٹل کے وارڈن مکرم چوہدرى محمد على تھے جو کالج مىں فلسفہ پڑھاتے تھے۔  انکے نائب مکرم سعىد اللہ خان تھے جو کالج مىں شمارىات کا مضمون پڑھاتے تھے۔ ہوسٹل کے اىک اور نوجوان نگران مکرم منور شمىم خالد بھى تھے جو کالج مىں پولىٹىکل سائنس کامضمون پڑھاتے تھے۔ اسى طرح بعد مىں اىک اور نوجوان مکرم محمد اسلم منگلا، جنہوں نے انہى دنوں مىں اىم اے پاس کىا تھا  اور کالج مىں اسلامىات پڑھاتے تھے، انکو بھى ہوسٹل کا اىک سپروائزرمقرر کر دىا گىا تھا۔ طلباء مىں سے چار مزىد نگرانى کرتے تھے جن کو پرىفىکٹ کہا جاتا تھا۔ ان کا کام طلباء کے چھوٹے مسائل حل کرنا  ہوتاتھا۔ ىہ عموماً بى اے کى آخرى کلاس سے لئے  جاتے۔ ہر پرىفىکٹ ہوسٹل کى اىک ونگ کا انچارج ہوتا۔  انتظامى لحاظ سے ىہ نگرانى کا اىک مضبوط نظام تھا۔  رہائش کىلئے اىک تو ہوسٹل کى مىن بلڈنگ تھى جس کا ڈ ىزائىن چکور نماتھا۔  اسکى چار ونگ تھىں اور ہر ونگ مىں دونوں طرف کمرے اور درمىان مىں بڑى سى گلى تھى۔ بلڈنگکے درمىان بڑا کھلا صحن تھا جہاں نماز کىلئے صفىں بچھائى جاتىں۔  دوسرى منزل پر صرف دو کمرے تھے جن مىں اکثر غىر ملکى طلباءہى رہتے تھے۔اس بلڈنگ کے علاوہ کچھ علىحدہ مکانات تھے جن کو انىکسى کہا جاتا تھا۔ کچھ سىنئرطلباء کو جو  بى اے کى کلاسوں مىں تھے انہىں انىکسى مکانات مىں رہنے کى اجازت مل جاتى تھى اسطرح وہ  ہوسٹل کے سخت قوائد وضوابط اور نگرانى سے قدرے آزاد ہو جاتے تھے۔  ہوسٹل کى مىن بلڈنگ مىں نئے آنے والے طلباء رہتے تھے اور انکى نگرانى بھى سخت تھى۔ رہنے کا انتظام کچھ اىسا تھا کہ مىن بلڈنگ مىں دو قسم کے کمرے تھے۔  اىک وہ جن کو ڈارمىٹرى کہا جاتا تھا اور ان مىں چار طلباء رہتے تھے۔ دوسرے  چھوٹے سنگل رہائشى کمرے تھے جن کو عموماً (Cubicle) کہاجاتا تھا جو بى اے کے چند ہونہار طلباء کو ملتے تھے ىا پرىفىکٹ صاحبان کو سنگل کمرہ ملتا تھا۔

 ہوسٹل کى عمومى زندگى

کالج اور ہوسٹل کا درمىانى فاصلہ چند قدم ىا اىک فرلانگ ہى تھا اسلئے ہوسٹل مىں رہنے والے طلباء،جب کوئى کلاس نہ ہوتى اپنے کمرہ مىں بھى آسکتے تھے لىکن جو طلباء ربوہ شہر کے رہنے والے تھے،جن کو ڈے سکالرز کہتے تھے،فارغ اوقات مىں وہ کالج مىں ہى ٹولىوں کى شکل مىں گپ شپ لگاتے ىا کالج کى ٹک شاپ مىں چائے کى محفل جماتے۔  ہمارا دن کا اکثر وقت تو کالج کى کلاسوں مىں گزر جاتا، اسکے بعد ہم لوگ واپس ہوسٹل آکر اپنے کامن روم مىں کىرم بورڈ ىا ٹىبل ٹىنس کھىلتے،ىا وىسے ہى خوش گپىوں مىں وقت گزارتے۔ بعض پڑھا کو قسم کے طلباء تو اپنى پڑھائى مىں لگ جاتے۔ کامن روم مىں اىک رىڈىو بھى تھا، جس کا مقصد خبرىں سننا تھا۔ مجھے ابھى تک ىاد ہے کہ جنرل اىوب خان نے 1968ء مىں جب ىہ اعلان کىا کہ وہ اگلے صدارتى الىکشن مىں حصہ نہىں لىں گے اور پھر مارچ 1969ء مىں صدارت سے استعفىٰ دىا تو ىہ دونوں خبرىں مىں نے کامن روم کے  اسى رىڈىو پرسنى تھىں۔ ہوسٹل مىں ڈنر کے بعد مغرب کى باجماعت نماز ہوتى اسکے بعد کچھ فارغ وقت، جو عموماً چہل قدمى ىا ٹک شاپ مىں چائے پىنے مىں صرف ہوتا۔  اتنے مىں عشاء کى نمازکا وقت ہو جاتا اوراسکے بعد سب اپنے اپنے کمروں مىں چلے جاتے اور پڑھائى کا کام شروع کرتے۔ اس پڑھائى کے وقت ىا سٹڈى ٹائم مىں عموماً کوئى نگران ہوسٹل مىں چکر بھى لگاتا تھا  اور کبھى دروازہ کھول کر بھى دىکھ لىتا کہ کىاطلباء پڑھ رہے ہىں؟ عام طور پر تو نگران لوگ اکثر درگزر ہى کرتے تھے۔ البتہ سب سے بڑا خوف وارڈن ىا چوہدرى محمد على صاحب کا ہى ہوتا تھا۔  جب کبھى کسى نے چوہدرى صاحب کو دىکھ لىا اُسکى پہلى کوشش ىہى ہوتى کہ باقى سب طلباء کو اُنکى ہوسٹل مىں آمدکى اطلاع کر دے۔ ہمارے لئے اىک بڑى اچھى بات ىہ تھى کہ مکرم چوہدرى صاحب اىک خاص قسم کى خو شبو کا استعمال کرتے تھے۔ چوہدرى صاحب ہوسٹل کے اندرجس برآمدے سے گزر جاتے خوشبو کى لہرىں چھوڑ تے جاتے اسطرح طلباء کو پتہ چل جاتا کہ وارڈن صاحب بلڈنگ مىں موجود ہىں۔ معلوم نہىں کہ خوشبو  ان کو واقعى پسند تھى ىا دانستہ اپنى آمد کا لطىف اعلان تھا۔ بہر حال ان کى آمد کے اس ذرىعہ کى خوشبو پاتے ہى ہم اپنے کمروں مىں جاکر پڑھائى شروع کردىتے۔ غالباً امجد اسلام امجد نے ىہ شعر چوہدرى صاحب کے لئے ہى کہا ہو گا۔

؎گزرے ہىں ترے بعد بھى کچھ لوگ ادھر سے
لىکن ترى خوشبو نہ گئى راہ گزر سے

عشاء کى نماز پر حاضرى

ہوسٹل کى زندگى مىں سب سے اہم بات عشاء اور فجر کى باجماعت نمازىں تھىں جوسب کىلئے لازمى تھى۔  احمدى طلباء کى نماز علىحدہ ہوتى اور دىگر طلباء اپنى نماز الگ کرتے۔ ان دونوں نمازوں پرسب کى حاضرى لگنى ہوتى  تھى  اسطرح انتظامىہ کو پتہ چل جاتا کہ کون ہوسٹل سے غائب ہے۔ ظہر، عصر اور مغرب کى نمازوں کى حاضرى نہىں تھى، گرمىوں مىں  ہم اکثر چارپائىاں باہر نکال کر کھلے صحن مىں بھى سوتے تھے۔ چوہدرى محمد على صاحب ہوسٹل آکر طلباء کو صبح کى نماز کىلئے اُٹھاتے۔ انکا طرىق ىہ تھا کہ پائىنتى کى طرف کھڑے ہو کر طلباء کے پاؤں دباتے اور آگے نکل جاتے۔ سردىوں مىں کوئى نگران کمروں کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹاتا کہ نماز کا وقت ہو گىا ہے۔ چوہدرى صاحب کى موجودگى بہر حال نماز پر زىادہ حاضرى بنا دىا کرتى۔ عشاء کى حاضرى پہلے سال مکرم منور شمىمخالد باقاعدہ سب کا نام بول کر رجسٹر مىں لگاتے تھے اور دوسرے سال مکرم محمد اسلم منگلا نے ىہ کام سنبھال لىا۔ جو بھى عشاء کى نماز کے وقت حاضر نہ ہوتا اس کو اىک روپىہ جرمانہ ہوتا۔  فجر کى نماز مىں حاضر نہ ہونے کا پچىس پىسے جرمانہ تھا۔ اسطرح اگر د ونوں نمازوں مىں غىرحاضرى ہوتى توثواب سے محروم ہونے کے علاوہ اىک روپىہ پچىس پىسے کا روزانہ کا نقصان ہوتا تھا۔  جوکسى وجہ سے حاضر نہىں ہوتے تھے ان کو نگران کے پاس جاکر معقول عذربىان کرنا ہوتا تھا۔ ہر ماہ کے آخر مىں غىر حاضر رہنے والوں کے نام جرمانہ والى لسٹ مىں شامل کرکے نوٹس بورڈ پر آوىزاں کر دىا جاتا،  اسطرح سب طلباء کو پتہ چل جاتا کہ کون نماز نہىں پڑھتا اور  کس کو کتنا جرمانہ ہوا۔ ہم لوگ جو ربوہ سے باہر سے پڑھنے آئے تھے ان کىلئے نماز نہ پڑھنے کا جرمانہ عجىب سى بات تھى اور نئى بھى تھى۔ اُس عمر مىں ہمارے لئے صبح کى نماز کىلئے اٹھنا زىادہ بڑا جہاد تھا۔ 

کالج کا مشہور عام چوکىدار بابا شادى کالج کى انتظامىہ کا وفادار اور دىرىنہ ملازم تھا۔وہ دن کو  تو کالج کى رکھوالى کرتا تھا لىکن رات کو ہوسٹل مىں سوتا تھا۔  بنىادى طور پر ان پڑھ، لىکن بہت مستعد اور ہوشىار آدمى تھا۔ اسکو حکم تھا کہ جو بھى ہوسٹل مىں رات کولىٹ آئے اس کى رپورٹ وارڈن صاحب کو کرے۔ اس کو چکمہ دىنا اسقدر آسان بھى نہىں تھا۔ اسکا طرىق ىہ تھا کہ رات کو اپنى چارپائى ہوسٹل کے دروازہ کے اندر تھوڑا فاصلہ رکھ کر اور اپنى چارپائى کے پائىدان اور دروازہ کے درمىان اپنا مضبوط ڈنڈا پھنسا کر سوتا تھا۔ اگر کوئى باہر سے دروازے کو دھکا دے تو اس کى چارپائى زور سے ہل جاتى اور وہ اٹھ جاتا اور لڑکوں کو رجسٹر مىں نام لکھنے کا کہتا۔  اس کے بغىر وہ جانے نہىں دىتا تھا۔ اگلے دن رجسٹر وارڈن صاحب کى خدمت مىں پىش کىا جاتا اور پھر وارڈن صاحب کے سامنے لىٹ آنے والوں کى پىشى ہوتى۔ بعض اوقات وىسے ہى نماز سے غىر حاضر ہوتے، ىا کبھى صرف سوئے رہنے کے باعث صبح کى نماز سے بھى غىر حاضرى ہو جاتى تھى۔ اس طرح مہىنہ کے آخر مىں جرمانہ کى لِسٹ مىں نام آجاتا اور ہر ماہ دس بارہ روپے کا جرمانہ بن جاتا اىک دفعہ جب ہم دوست ہوسٹل دىر سے واپس آئے تو دروازہ معمول کے مطابق بندپاىا اور کوئى بھى بابا شادى کے رجسٹر مىں نام لکھنے پر راضى نہ تھا۔ جاڑے کے دن تھے رات سردى بڑھنے لگى، صبح تک باہر انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا۔  اىک تجوىز ىہ ہوئى کہ قرىبى کسى مسجد مىں چلے جاتے ہىں اور رات وہاں گزار لىتے ہىں۔ مختلف مساجد کو دىکھنا شروع کىا تو دارالرحمت محلہ کى مسجد کا دروازہ کھلا دىکھ کر اس کے اندر چلے گئے، لىکن کچھ دىر بعد وہاں بھى سردى نے آن پکڑا۔  کوئى کمبل وغىرہ تو اپنے ساتھ نہىں لائے تھے۔ اب ىہ تجوىز سوجھى کہ صفوں کو گول لپىٹ کر انکے اندر لىٹا جائے، خىال ىہ تھا کہ نمازىوں کے آنے سے پہلے ىہاں سے بھاگ کر ہوسٹل مىں داخل ہو جائىں گے۔  کرنا اىسا ہوا کہ رات کى خوارى، تھکاوٹ، سردى اور صفوں کے کمبل سے گہرى نىند آگئى۔  آنکھ اس وقت کھلى جب موذن صاحب مسجد مىں آچکے تھے اور لڑکوں کو صفوں مىں لپٹا دىکھ کر حىران اور پرىشان تھے۔ پہلے اس کے کہ وہ چور چور کى دھوم مچاتے ہم سب وہاں سے اس طرح بھاگے جس طرح واقعى چور بھاگتے ہىں۔  جب ہوسٹل پہنچے تو دروازہ کھل چکا تھا، اور ہم  نے فجر کى نماز مىں شامل ہوکر حاضرى بھى لگوالى۔

اىک لطىفہىوں ہوا کہ دو لڑکے رات کو دىر سے آئے، بابا شادى نے حسب معمول ان کو نام لکھنے کا کہا تو انہوں نے بلا چون وچرا حامى بھر لى۔ اگلے دن جب رجسٹر وارڈن صاحب کى خدمت مىں پىش ہوا تو بابا شادى کو پوچھا گىا کہ کىا وہ لڑکوں کو شکل سے  پہچانتا بھى ہے کہ نہىں۔ رات کے اندھىرے مىں نىند سے اٹھا ہوابابا کس طرح لڑکوں کو پہچان سکتا تھا۔ اس طرح بابا شادى کى بھى شامت آ گئى۔ اب وہ سخت ناراض اور سارا دن جو جى مىں ٓاتا لڑکوں کو کہتا رہا۔ اصل وجہ ىہ تھى کہ رات لىٹ آنے والے دونوں لڑکوں نے چوہدرى محمد على صاحب اور صوفى بشارت الرحمان صاحب کا نام رجسٹر مىں لکھ دىا تھا۔ بابا شادى تو پڑھا لکھا نہ تھا کہ پڑھ لىتا۔ 

جرمانہ معاف کروانے کا طرىقہ

 جرمانہ سے بچنے کا اىک ىہ بھى  طرىقہ تھا کہ سارى رات باہر رہو اورجب فجر کى نماز کے وقت دروازہ کھلے تو اندر داخل ہو کر اپنى صبح والى حاضرى لگوا لو۔ اس طرح کبھى ہم ىہ بات بھى ثابت کرنے مىں کامىاب ہو جاتے کہ عشاء کے وقت بھى ہوسٹل مىں ہى موجود تھے مگر نمازمىں حاضر نہ ہوسکے۔ جرمانہ معاف کروانے کا قانونى طرىقہ ىہ تھا کہ وارڈن صاحب کو اىک درخواست دىنى ہوتى جس مىں کو ئى قابل قبول وجہ بىان کرنى ہوتى۔  اگر وارڈن صاحب نے اس کو مان لىا تو وہ جرمانے کو معاف کر دىتے ىا کبھى آدھا کر دىتے۔  بعض اوقات تو ىہ طرىقہ بھى چل جاتا تھا لىکن ہر ماہ تو درخواست نہىں دى جاسکتى تھى کىونکہ بہانے تو محدود تھے اور اس سے عادى مجرم ثابت ہونے کا خدشہ بھى تھا۔

حاضرى کا رجسٹر

 جس عرصہ مىں مکرم محمد اسلم منگلا عشاء کى نماز پرحاضرى لگاتے تھے ان کا طرىق تھا کہ جو بھى حاضر ہوتا اس کے نام کے آگے پى P لگا دىتے اور جو غىر حاضر ہوتا اسکے نام کے آگے A کى بجائے صرف اىک چھوٹا سا نقطہ لگا دىتے تھے۔  اس مىں منطق ىہ تھى کہ اگر طالب علم بعد مىں آجائے ىا کوئى معقول وجہ بىان کرے تو اسکو پى P مىں آسانى سے تبدىل کىا جا سکے، اسطرح طالب علم جرمانہ سے بچ جائے۔

ہوسٹل مىں منگل کا پلاؤ

ہوسٹل مىں کھانے کا انتظام نہاىت عمدہ تھا۔ طلباء پر مشتمل اىک مىس کمىٹى تھى جو اس بات کا ہفتہ وار فىصلہ کرتى کہ کس دن کىا پکنا ہے اور پھر نوٹس بورڈ پر پورے ہفتہ کا پروگرام لگا دىا جاتا۔ اس طرح سب کو معلوم ہوتا کہ آج کھانے مىں کىا ملے گا۔ صبح ناشتہ کى تو کوئى خاص بات اب ذہن مىں نہىں رہى کىونکہ مىں اکثر صبح کا ناشتہ کالج کى ٹک شاپ مىں کىا کرتا تھا۔  اىک ىا دو فرائى کئے ہوئے انڈے، ساتھ جمال بىکرى کا بہت لذىز بن، اور چائے کا کپ، ابھى تک اس کا خاص مزا ىاد آتا ہے۔ ہوسٹل مىں لنچ مىں تو اکثر دال چاول ہى ہوتے سوائےمنگل کے دن، لىکن ڈنر پرہر دن کوئى مختلف ترکارى  ىا آلو  گوشت، مرغى کا قورمہ،بىف کباب اور کبھى پلاؤ بھى ملتا۔  لنچ کىلئے ہمارے مىس کا ہال بارہ بجے کھل جاتا تھا  اور کوئى دو گھنٹہ تک لنچ کاوقت رہتا تھا۔  اسى طرح  شام کے کھانے کىلئے بھى مغرب کى نماز سے پہلے مىس ہال کا دروازہ کھل جاتا جو عشاء کى نماز تک کھلا رہتا۔

ىہ جو مىں نے ابھى منگل کے دن لنچ کى بات کى ہے اس کا مىرى مستقبل کى پڑھائى سے بہت گہرا تعلق ہے۔  پڑھىں اور لطف اُٹھا ئىں کہ کس طرح بظاہر معمولى، بے ضرر اور معصوم سے واقعات انسانوں کى زندگىو ں پر کىسے گہرے اور نماىاں ا ثر ڈالتے ہىں۔  جىسے مىں نے کہا ہے کہ لنچ کىلئے مىس ہال کا دروازہ پورے بارہ بجے کھل جاتا تھا۔ منگل کے روز ہمىں بڑا لذىذ گوشت پلاؤ اور ساتھ آلو کى ٹکىاں اور دہى کا رائتہ لنچ مىں ملتا تھا۔  اس قدر مزے دار کہ پچاس سال بعد بھى جب ىاد آتا ہے تو منہ مىں پانى آتاہے۔ اس نوجوانى کى عمر مىں بھوک بھى بہت لگتى تھى۔  سب ہى لڑکے منگل کے دن کا انتظار کرتے اور مىس ہال کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے ہى وہاں لمبى لائن لگ جاتى۔ مىرى بد قسمتى سے اسى وقت ہمارى کىمسٹرى کى کلاس شروع ہو تى تھى۔  اگر کلاس ختم ہونے کے بعد کھانے جاتے تو پلاؤ ختم ىا ٹکىاں ختم ىا بچا کھچا ملتا تھا۔ بھوک اور پلاؤ کے چسکے نے بڑى مشکل پىدا کر دى کہ کىمسٹرى کى کلاس مىں جاىا جائے ىا پلاؤ کھانے جاىا جائے۔ بالآخر اس جنگ مىں پلاؤکى فتح ہوئى اورہر منگل کو کىمسٹرى کى کلاس مىں غىر حاضرى ہو تى رہى اور مىں مىس کى لائن مىں چند پہلے طلباء مىں ہوتا۔ ہمارے کىمسٹرى پڑھانے والے پہلے استاد مکرم رفىق ثاقب  تھے جو ڈسپلن اور حاضرى کے بہت پابند تھے مگر ان کے افرىقہ جانے کے بعد ان کے بھائى مکرم پروفىسر مبارک احمد انصارى  نے شروع کردى۔  مکرم انصارى صاحب طلباء کے ساتھ بہت نرمى کا سلوک کرتے تھے اور غىر حاضرى پرزىادہ پوچھ گچھ بھى نہىں کرتے تھے۔  مىرے لئے پلاؤ کھانا اور بھى آسان ہو گىا۔  اسکا نتىجہ ىہ ہوا کہ مىں کىمسٹرى کے مضمون مىں کمزور ہوتا گىااور پھر گىارہوىں کلاس کے سالانہ امتحان مىں اس مضمون مىں فىل ہو گىا۔ کىمسٹرى مىں فىل ہونے پر مکرم چوہدرى حمىداللہ نے مجھے اپنے دفتر بلاىا اور پوچھ گچھ بھى کى۔ پھر کہنے لگے کہ صرف اىک مضمون مىں کمزور ہوں اگر مىں توجہ دوں اور محنت کروں توکمى کو پورا کىا جا سکتا ہے۔ غالباً  ان کى سفارش پر ہى کالج نے مجھے بارہوىں کلاس مىں داخلہ دے دىا۔  چوہدرى صاحب ىا کالج والوں کو کىا علم تھا کہ مىں پلاؤ  اور کىمسٹرى کى کس مشکل جنگ مىں مبتلا تھا۔  اگلے سال بھى ىہى سلسلہ چلتا رہا اور ىہ حالت ہو گئى کہ کىمسٹرى کے مضمون سے مجھے نفرت سى ہو نے لگى بلکہ اس کى کتاب پکڑتے ہى ہاتھ ٹھنڈے ہونے شروع ہو جاتے۔ جب آدھا سال دوسرا بھى اسى طرح گزر گىا تو اب مجھے خود فکر ہونے لگى کہ مىں تو اىف اىس سى کے فائنل امتحان مىں کبھى پاس نہ ہو سکوں گا۔ ىہ بھى احساس ہونے لگا کہ اگر اىف اىس سى مىں ہى فىل ہو گىا تو پھر آگے پڑھائى کا تمام سلسلہ ہى ختم ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نتىجے پر پہنچا کہ اىف اىس سى کى بجائے اىف اے کا امتحان دے دىا جائے۔

اىف اے کاپرائىوىٹ امتحان دے کر ہوسٹل مىں اپنى دو سالہ رہائش  ختم کرکے واپس گھر چلا گىا اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگا۔ مکرم والد صاحب نے امتحان اور مضامىن  کے بارہ مىں پوچھا کہ فزکس، کىمسٹرى اور حساب کے پرچے کىسے ہوئے۔ اب مشکل ىہ تھى کہ مىں جو کر آىا تھا ان سے چھپاىا تو نہىں جاسکتا تھا۔ انہىں بتا دىا کہ مىں نے سا ئنس کے مضا مىن چھوڑ کراىف اے کا امتحان دے آىا ہوں۔  پلاؤ والى بات چھوڑ کر ان کو اتنا ہى بتاىا کہ کىمسٹرى نہىں آتى تھى اسلئے مضامىن تبدىل کر لئے تھے اور ىہ بھى بتا دىا کہ بطور پرائىوىٹ طالب علم کے امتحان دىا ہے۔ ان کوصدمہ تو ضرور ہوا مگر کر بھى کىا سکتے تھے۔ کہنے لگے کہ اگر تو تم پاس ہو گئے تو مىں سمجھوں گا کہ تم کچھ کام کر سکتے ہو اور بى اے مىں داخلہ دلوا دوں گا۔ اگر فىل ہو گئے تو تمہارى پڑھائى ختم، کوئى اور کام کر لىنا۔ گرمىوں کى چھٹىاں اسى انتظار اور کشمکش مىں گزر گئىں۔ جب نتىجہ آىا تو مىں سىکنڈ ڈوىثرن مىں پاس ہو گىا، اور بى اے مىں کھارىاں کنٹونمنٹ بورڈ ڈگرى کالج مىں داخلہ مل گىا، اور پھرپنجاب ىونىورسٹى لاہور اور کىنىڈا کى اىک بڑى ىونىورسٹى سے بھى انتظامىات مىں دو اىم اے کى ڈگرىاں بھى حاصل کىں۔  بظاہر فضل عمر ہوسٹل مىں منگل کے دن لنچ  پر پلاؤ اىک معمولى اور معصوم سا  واقعہ لگتا ہے لىکن مىرى پڑھائى کى ٹرىن نے اسى سے اپنى پٹرى کا کانٹا بدلا۔  مجھے کبھى بھى اس کا افسوس نہ ہواکہ پلاؤ نے مجھے  انجىنئرنہ بنے دىا۔  آج بھى اپنے گھر مىں  جب گوشت پلاؤ بنے تو مىں آلو کى ٹکىاں بھى بنواتا ہوں اور فضل عمر ہوسٹل مىں قىام کے دن ىاد آتے ہىں، لىکن وہ اصلى مزا کہاں؟ 

فضل عمر ہوسٹل کے کچن سے متعلقہ اىک اور بات بھى قابل ذکر ہے۔باورچى کى امداد اورکھانا پکانے کىلئے پانچ سات ملازم بھى ہو تے تھے۔ انہوں نے اىک سائىڈ بزنس ىہ بھى شروع کىا ہوا تھا کہ کچھ ماہانہ معاوضہ، غالباًدس بارہ روپے، کے بدلے وہ ملازم طلباء کے بستر بناتے، کپڑے دھوبى کو دىتے اور واپس کمرہ مىں لاتےاور جب وہ طالبعلم کھانے کىلئے مىس ہال مىں داخل ہوتے تو وہ ملازم اپنے ان کا خاص خىال رکھتے، اىک اضافى فائدہ ىہ بھى تھا کہ بعض زمىندار گھرانوں کے طلباء اپنے گھروں سے ڈبوں مىں دىسى گھى لے آتے اور اپنے ملازم کو رکھنے کىلئے دے دىتے۔ جب بھى دال پکتى تو وہ ملازم ڈبہ سے دىسى گھى نکال کر خوب تڑکا لگا کر ان کىلئے لاتے۔ ہر ملازم کے پاس اس کے کمرہ مىں کئى کئى ڈبے دىسى گھى کے پڑے ہوتے اور ان پر مالک کا نام بھى لکھا ہوتا۔ 

کراىہ کے پنکھے اور رامپورى ٹوپى

اىک اور بات ان دنوں کى ىاد آتى ہے وہ  ىہ کہ سخت گرمىوں مىں گول بازار مىں مجىد آئرن اسٹور سے پنکھے کراىہ پر لىنا ہوتا تھا۔ کوئى پانچ سات روپىہ ماہانہ پر پنکھے مل جاتے تھے۔ گرمى اسقدر ہوتى کہ پنکھے چل چل کر خود بھى گرم ہو جاتے اور کچھ دىر کىلئے آرام کرتے اور پھر خود ہى چالو ہو جاتے۔  ہمارے کچھ دوست اىسے بھى تھے جو پنکھوں کى موٹر کو ٹھنڈا کرنے کىلئے ان پر پانى انڈىل دىتے اس طرح موٹر کو جلا کر واپس اسٹور والوں کو دے آتے اور نىا پنکھا لے آتے۔ کئى دفعہ ہم نے اىسا بھى کىا کہ دروازہ کے نىچے کمبل وغىرہ سے درمىانى جگہ کو بند کر کے فرش پر پانى کى بالٹىاں انڈىل کر اىک جھىل سى بنا دىتے۔ اسطرح پنکھے کى ہوا کچھ دىر کىلئے قدرے ٹھنڈى رہتى۔ اىک دفعہ مجھے مغرب کى طرف کمرہ ملا جہاں دوپہر کے بعد سورج کى شعائىں کمرہ کو اس قدر گرم کر دىتىں کہ کمرہ مىں رہنا مشکل ہو جاتا۔ مىرے روم مىٹ نے کھڑکى پر اپنى رضائى بطور پردہ کے لٹکا دى اور ہر دس منٹ بعد رضائى پر پورى بالٹى پانى کى پھىنک دىتا، مگر رضائى پھر بھى منٹوں مىں سوکھ جاتى۔

 پاکستان مىں ٹى آئى کالج وہ واحد تعلىمى ادارہ تھا جہاں کالاگاؤن اور ٹوپى پہننى ىونىفارم کا لازمى حصہ تھا۔ سردىوں مىں تو کپڑوں کے اوپر گاؤن پہنا جاسکتا تھا لىکن گرمىوں مىں کالے رنگ کا لبادہ جسم کىلئے آرام دہ لباس نہ تھا۔ اکثر لڑکے عموماً اسکو کندھے پر ہى لٹکائے رکھتے تھے۔  ٹوپى کىلئے گول بازار مىں افضل برادرز  والے جو کالے رنگ کى مخمل کى بنى ہوئى سستى ٹوپىاں فروخت کرتے تھے جس کو رامپورى ٹوپى کہا جاتا تھا۔  جب اس ٹوپى کو خرىدا جاتا اس وقت تو مائع لگى ہوئى بہت خوبصورت لگتى لىکن چند ہفتوں مىں اسکى سب اکڑ ختم ہوجاتى اور شکل مىں بھى گىند نما گول ہو جاتى تھى۔ اسکى وجہ ىہ تھى کہ اکثر لڑکے اس کو سر پر پہننے کى بجائےتہہ کر کے جىبوں مىں ڈال لىتے تھے اور حسب ضرورت نکال کر سر پر پہن لىتے۔  ٹوپى کا اکثر گم ہو جانا بھى عام تھا اس لئے گول بازار سے پھر نئى خرىد لىتے۔  افضل برادرز کا ٹوپىوں کا کاروبار بہت چلتا تھا۔ مکرم صوفى بشارت الرحمان کے پرنسپل ہونے کے دور مىں تو گاؤن اور ٹوپى کى پابندى لازمى تھى کىونکہ وہ اکثر جرمانہ کر دىتے تھے، لىکن مکرم قاضى محمد اسلم کے دورمىں کافى رعاىت تھى اور جرمانہ نہىں ہو تا تھا۔ 

؎ وہ نىاز و ناز کا ماجرا، وہ زمانہ شوق و شباب کا
اسے بار بار نہ ىاد کر، جو گزر گىا، سو گزر گىا

مسجد مبارک مىں جمعہ کى نماز

ہوسٹل مىں جو احمدى لڑکے رہتے تھے وہ جمعہ کى نماز کىلئے مسجد مبارک جاىا کرتے تھے۔ ہوسٹل اور مسجد کا درمىانى فاصلہ کافى تھا اور شدىد گرمىوں مىں پىدل چل کر جانا کوئى آسان نہىں تھا۔ تمام سڑکىں کچى بجرى والى تھىں اور گرد بھى بہت ہو تى تھى۔ اىک راستہ جو ہم طلباء اختىار کرتے تھے وہ رىل کى پٹرى پر چل کر جانا تھا۔ اس طرح گرد سے تو بچ جاتے لىکن رىل کى بجرى مصىبت بنتى۔ پھر درمىانى لکڑى کے پھٹوں پر کود کود کر جاناشروع کر دىا۔ بعض دفعہ تپتى لوہے کى رىل کے اوپر سارا راستہ چل کرجاتے اور وہاں سے پہاڑى کے درّہ مىں سے گزرتے جہاں پٹھان ہاتھوں مىں ہتھوڑى لئے بڑے بڑے پتھرکوٹ کر بجرى بنا رہے ہوتے۔ انسانى محنت اور غربت کى وہ مثال ابھى تک ذہن مىں محفوظ ہے۔ بقول اقبال

؎ زندگانى کى حقىقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شِىر و تىشہ و سنگِگراں ہے زندگى

اىک دفعہ لڑکوں نے فىصلہ کىا کہ درّہ کى بجائے سىدھا جانا ہے اور بڑے پہاڑ کے اوپر سے پار کرکے جانا ہے۔ پاؤں مىں ہوائى چپل، گرمى کى شدت اور پھر سب سے مشکل اور خطرناک راستہ۔ ہم سب لڑکوں نے اىسا ہى کىا اور خدا نے ہمىں کسى حادثہ سے بچائے رکھا، ورنہ ہم نے اپنى طرف سے کوئى کسر نہىں چھوڑى تھى۔  وہ کىا  نڈر، اىڈونچر اوربے وقوفى والى عمر تھى۔ نہ پہاڑ پر چڑھتے خوف اور نہ اترنے کا ڈر۔ کئى بار وہاں پہاڑوں پر چڑھے لىکن بفضلِ خدا بچے رہے۔

بابا شادى کو جرمانہ

بابا شادى بہت شرىف النفس، سادہ تھا، قمىض بہت کم پہنتا، نىچے صرف اىک چھوٹى سى لنگى، آنکھوں پر اىک گول شىشے والى عىنک جو اسکے ناک کے نىچے سرکى ہوئى، لڑکوں کے ساتھ گپ شپ اور مذاق، کالج کا دىرىنہ وفادار، سب رازوں سے واقف اورہر چىزکا بھىدى بھى تھا۔ پہلے پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سے مضبوط تعلق رکھتا تھا۔ کالج کى سىڑھىوں کے نىچے اىک چھوٹے سے کمرہ مىں اس کى رہائش تھى۔ سارا دن کالج مىں رہتا اور رات کو ہوسٹل کے اندرسوتا  تھا۔ کالج کى تمام چابىاں اسکے پاس ہوتىں اور سب سے بڑھ کرکالج کى کلاسوں کى گھنٹى بجانا بھى اسکا کام تھا۔ گھنٹى کىا تھى، اىک لوہے کا لٹکا ہوا بڑا سا توا اور بابا شادى کے ہاتھ مىں لکڑى کا ہتھوڑا تھا جس کو وہ  بہت شوق سے زور زور سے مارتا۔ ىہ ہتھوڑا ہى اس کا سب سے کارآمد اور طاقتور اسلحہ تھا۔ بابا شادى کى اسى ٹلى کے بل پر ہى کالج کا نظام چلتا تھا۔ سب کلاسىں اسى سے شروع ہوتىں اور اسى ٹلى کى آواز پر ختم ہوتىں۔ مکرم قاضى محمد اسلم صاحب تو اپنى طبىعت کے لحاظ سے نرم خو تھے۔انہوں نے بابا شادى کو اىسے ہى رہنے دىا۔  جب مکرم صوفى بشارت الرحمان صاحب قائم مقام پرنسپل کے فرائض انجام دىنے لگے تو اپنى طبىعت کے لحاظ سے مذہبى اور سخت ڈسپلن کے قائل تھے۔ ہر طالب علم کو ٹوپى اور گاؤن مىں دىکھنا چاہتے تھے۔ پر نسپل کے دفتر مىں بغىر ٹوپى اور گاؤن داخلہ بالکل ممنوع تھا، بلکہ جرمانہ بھى کر دىتے تھے۔ اُن سے جرمانہ وغىرہ بھى معاف کروانا اتنا آسان نہ تھا۔  کلاسوں کے درمىانى عرصہ مىں طلباء جب برآمدہ مىں گھومتے ہوئے مکرم صوفى صاحب کو دىکھتے تو فوراً گاؤن ٹوپى پہن لىتے۔ طلباء کىلئے تو ان پابندىوں کو ماننا ان کى تعلىم کا حصہ تھا۔ مکرم صوفى صاحب نے کسى حد تک بابا شادى کو بھى ڈسپلن کا حصہ بنانا چاہا کہ وہ کالج مىں قمىض ضرور پہنے اور کم ازکم پرنسپل کے کمرہ مىں تو ضرور ٹھىک طرح سے کپڑے پہن کر داخل ہو۔ لىکن پرانا تجربہ کار اور عادات سے مجبور باباشادى کس طرح اىسى پابندىوں مىں آسکتا تھا۔ اىک دفعہ اىسا ہوا کہ بابا شادى پہلے کى طرح بغىر قمىض پرنسپل کے دفتر مىں داخل ہو گىا۔ مکرم صوفى صاحب نے اس کو جرمانہ کرکے نوٹس بورڈ پر لگا دىا۔ بابا شادى نے نوٹس بورڈ کے پاس کھڑا ہوکر زور زور سے شور کرکے بہت سے طلباء کو اکٹھا کر لىا۔

چوہدرى محمد على صاحب

 چوہدرى محمد على صاحب ہمارے ہوسٹل وارڈن تھے اسلئے ان کے ساتھ ہمارا ہر وقت کا تعلق تھا۔ چوہدرى صاحب طلباء کى اسپورٹس مىں بھى بہت دلچسپى لىتے تھے۔ کالج کى باسکٹ بال ٹىم کے بھى انچارج تھے۔ انکا رعب اور دبدبہ بھى بہت تھا۔ کالج مىں استاد تو فلسفہ کے تھے لىکن ہر کوئى انکى انگرىزى دانى سے زىادہ مرعوب تھا۔ چند خاص باتىں بھى ان کے ساتھ منسوب تھىں اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ موصوف خوشبو کا بے درىغ استعمال کرتے تھے۔ اپنے ہى اىک شعر مىں غالباً اپنے بارہ مىں ہى کہتے ہىں

؎ ان کى پہچان ہے فقط خوشبو
لفظ گورے نہ سانولے صاحب

دوسرى خاص بات ىہ تھى کہ ان کے موڈ اچانک تبدىل ہو جاتے تھے۔ اىک پل مىں ہنس رہے ہىں اور دوسرے پل مىں اچانک آنسوؤں کے ساتھ رقت مىں آجاتے اور تىسرے پل مىں غصہ مىں بھى آجاتے اور جھڑکىاں بھى دىنے لگ جاتے۔ رونے والى حالت مىں ہمدردى کے جذبات ابھار لىتے، ہنسنے والى حالت مىں محبت اور تعلق کا اظہار پىدا کر لىتے، غصہ اور جھڑک والى صورت مىں خوف پىدا کر لىتے۔ اس وجہ سے لڑکے ان سے ڈرتے بھى تھے کہ نہ معلوم اگلے پل مىں کىا ہو گا۔ ىہ تجربات دن مىں کئى بار ہوتے لىکن ىہ ضرور تھا کہ اىسى کىفىات لمحہ بھر ہى رہتىں۔ اچھے شاعر بھى تھے۔ اىک دفعہ ىہ شعر پڑھا تو چوہدرى صاحب کا رونا ىاد آگىا۔ 

؎ رونا کہاں ہوا مجھے دل کھول کر نصىب
دو آنسوؤں مىں نوح کا طوفان آگىا

 مىں چوہدرى صاحب کو پاکستان سے ہجرت کے ستائىس سال بعد آخرى بار 2003ء مىں لندن ىوکے مىں ملا تو دىکھتے ہى پہچان گئے۔ مىں سمجھا کہ وىسے ہى دلجوئى کى خاطر کہہ رہے ہىں، نام تو ان کو ىاد نہىں تھا لىکن کہنے لگے تم کھارىاں کے رہنے والے ہو۔  ہزاروں طلباء ان کى نظروں سے گزرے لىکن بلا کى ىاداشت تھى۔ آپ کى پىدائش 1917ء مىں جالندھر مىں ہوئى 98 سال کى عمر مىں 2015ء مىں ربوہ مىں ان کى وفات ہوئى ۔اللہ تعالىٰ ان کى مغفرت فرمائے۔

عجب شخصىت کے مالک تھے۔ بقول شاعر
؎ ہوا اڑائے پھرے گى گلى گلى تىرى خوشبو

ڈاکٹر ناصر پروىز پروازى صاحب

 اگر مىں ىہ کہوں کہ مکرم پروازى صاحب کالج مىں سب سے زىادہ ہردلعزىز استاد تھے تو ىہ مبالغہ نہ ہوگا۔ موصوف عام بول چال تو پنجابى مىں کرتے لىکن پڑھاتے اردوتھے۔ پڑھاتے کىا انکى کلاس شعر و شاعرى کى اىک محفل ہى ہو تى تھى، اور وہ بھى عمدہ لطىفوں اور حاضر جوابى جملوں سے بھرى ہوئى۔ وہ طلباء کى کلاس مىں حاضرى کبھى نہ لگاتے لىکن ان کى کلاس مىں حاضرى سب سے زىادہ ہوتى۔ مجھے ىاد ہے کہ جو بھى اپنى کلاس سے فارغ ہوتا خواہ کسى بھى درجہ مىں ہوتا، وہ بھى شغل کى خاطر پروازى صاحب کى کلاس مىں جا کر بىٹھ جاتا۔ اس لئے انہوں نے پرنسپل صاحب سے اجازت لے کراپنى کلاس کو کالج کے بڑے ہال مىں شفٹ کر دىا تھامىرا ذاتى خىال ہے کہ اس زمانہ مىں جو بھى طالب علم ٹى آئى کالج مىں پڑھتا تھا اس کے اردو ادبى ذوق مىں پروازى صاحب کا ہاتھ ضرور ہے۔ مىرى حد تک تو ىہ بات بالکل درست ہے کہ شعر و شاعرى پڑھنے کى چَس پروازى صاحب کى کلاس ہى کا نتىجہ ہے۔ کالج مىں مشاعروں کا انعقاد، اور ڈرامے اسٹىج کروانا بھى انہىں کا کام تھا۔ جب 1969ء مىں غالب کى سو سالہ برسى آئى تو مکرم پروازى صاحب نے طلباء کى ٹرىننگ کر کے غالب کى زندگى پر نہاىت عمدہ ڈرامہ بنواىا اس کى ىاد اور لطف ابھى تک باقى ہے۔ مکرم پروازى صاحب کالج مىں بہت سے نامى گرامى ادبى شخصىتوں کو بھى مدعو کرتے اور مشاعرے کرواتے۔ اسى طرح  چوہدرى محمد على صاحب کے ساتھ باسکٹ بال کى ٹىم کى نگرانى بھى کرتے تھے۔ پروازى صاحب آجکل کىنىڈا مىں رہتے ہىں کبھى کبھار ملاقات بھى ہو جاتى ہے۔ اللہ تعالىٰ ان کو صحت اور برکت والى زندگى عطا کرے۔

چوہدرى حمىداللہ صاحب

چوہدرى صاحب کے بھائى مىرے والد صاحب مرحوم کے قرىبى دوست تھے۔ ان کا دفتر کالج کے ہال کے پىچھے اىک چھوٹے سے کمرہ مىں ہوتا تھا۔ مجھے جب بھى کبھى کوئى مسئلہ ہوتا مىں ان کے دفتر مىں بلا جھجک چلا جاتا اور وہ بڑے تحمل سے مىرى بات سنتے اور مناسب رہنمائى کرتے۔ مکرم چوہدرى حمىداللہ صاحب بڑےٹھنڈے اور دھىمے مزاج کے آدمى تھے۔ وہ کالج مىں ہمىں حساب Mathematic پڑھاىا کرتے تھے۔ وقت اور اصول کے پابند اور ہمىشہ کلاس کى حاضرى بھى لگاتے تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز نہاىت عمدہ اور سلىس ہوتا تھا۔ ہر بات اور نقطہ کو بڑى احتىاط سے سمجھاتے۔ پاکستان مىں ا عشارىہ کا نظام کچھ سال پہلے جارى ہوا تھا۔ مجھے ابھى تک وہ کلاس ىاد ہے جس مىں مکرم چوہدرى حمىداللہ صاحب نے ہمىں اعشارىہ کا غىر متناہى نظام اور (Concept of Infinity) سمجھاىا۔  اىک لائن بلىک بورڈ پر لگا کر اس کو آدھا کىا، پھر اسکو آدھا کىا، پھر اسکو آدھا کرتے ہى گئے اور اسطرح سمجھاىا کہ ىہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔  مىر ے ذہن مىں ابھى تک ان کى آواز اور وہ تصوىر محفوظ ہے جس وقت انہوں نے وہ لائن لگائى اور آہستہ آہستہ سمجھانا شروع کىا اور اپنى ہلکى آواز سے ىہ فقرہ بھى دھراتے جاتے ىہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا، چلتا چلا جائے گا، چلتا چلا جائے گا اور کبھى ختم نہ ہو گا۔  کالج کے بعد چوہدرى صاحب جماعت کا کام کرتے رہے اور بڑے عہدے بھى پائے مگر انکسارى ہمىشہ ان کا شعار رہا۔ مىرا ان کے ساتھ ان کى سارى عمر تک قرىبى تعلق رہا۔ جب بھى کىنىڈا آتے ان سے ملاقات ہوتى، مىرے گھر بھى کھانے پر آتے۔ انکے بىٹے رشىداللہ کا کہنا ہے کہ جب بھى وہ والد صاحب کے ساتھ فون پر بات کرتا، چوہدرى صاحب مىرا حال اس سے ضرور پوچھتے اور باقاعدہ سلام بھى بجھواتے۔ اسى طرح کئى اور دوستوں کى وساطت سے بھى سلام و دعا بجھواتے رہتے۔ مىرى انکے ساتھ آخرى ملاقات 2008ء مىں کىلگرى مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہوئى۔ نہاىت محبت سے ملے اور بہت عمدہ باتىں بھى کىں۔ اُن جىسے قابل، اىماندار، محنتى، قابل رشک اور مخلص انسان اب کہاں پىدا ہوتے ہىں۔ حال ہى مىں انکى وفات ہوئى ہے اور ہر طرف سے انکى ىاد مىں لوگوں نے بہت اچھى باتىں کہىں ہىں۔ اللہ تعالى ان پر بىشمار رحمتىں نازل کرے۔

مکرم شرىف احمد خالد صاحب

 مکرم شرىف خالد صاحب اپنى طبىعت کے لحاظ سے بہت سادہ، نرم خو، طلباء سے محبت کرنے والے، اور دوست قسم کے آدمى تھے۔ طلباء نے بے تکلفى مىں ان کا نام چاچا شرىف خالد رکھا ہوا تھا۔ وہ ہمىں انگرىزى پڑھاتے تھے لىکن اگر سچ کہوں تو ہمارے انگرىزى کے دىہاتى مبلغ تھے۔سارى انگرىزى تقرىباً پنجابى مىں ہى پڑھاتے تھے۔ خود بھى اپنى مدد آپ کے تحت کاغذ پر انگرىزى الفاظ کا اردو مىں ترجمہ لکھ کر ساتھ لاتے۔  طلباء کو کبھى اس بات کى سمجھ نہ آئى کہ ان کو انگرىزى پڑھانے مىں کىسے دلچسپى پىدا ہوئى۔ کى کبھار ان کى غىر موجودگى مىں مکرم مرزا خورشىد احمد صاحب بھى انگرىزى کى کلاس پڑھاتے تو پھر معلوم ہوتا کہ ىہ زبان کس طرح بولى جاتى ہے۔ کچھ سالوں کے بعد وہ گھٹىالىاں مىں کسى کالج کے پرنسپل بن کر چلے گئے۔ مجھے معلوم ہوا ہے آپ وفات پا چکے ہے۔ اللہ انکى تربت پر ہزار رحمت کرے۔ ہر مسافر کو کسى گھاٹ پہ اتر جانا ہے۔

مکرم محمد اسلم منگلا صاحب

مکرم اسلم منگلا صاحب سے کالج مىں تو مىں نے کوئى کلاس نہىں پڑھى لىکن وہ ہمارے ہوسٹل کے اىک نگران تھے۔ مرحوم نہاىت شرىف اور بہت عمدہ انسان تھے۔ طبىعت مىں حىا اور بردبارى تھى۔ اىم اے اسلامىات کرنے کے بعد ان کى ہوسٹل مىں نئى نئى تقررى ہوئى تھى اور ابھى تجربہ بھى نہىں تھا،  اسلئے ابھى خود اعتمادى بھى پىدا نہىں ہوئى تھى۔ لڑکوں کے ہجوم مىں بات کرتے ہوئے کچھ گھبرا سے جاتے تھے۔ ہوسٹل مىں رہنے والے طلباء پاکستان کے مختلف شہروں، گاؤں اور جگہ جگہ سے آئے تھے۔ عمر بھى اکثر کى کچى تھى اور شرارتوں سے بھرپور تخلىقى دماغ بھى تھا۔ جونہى طلباء کو  ان کى نا تجربہ کارى کا احساس ہوا تو پھر انکو مزىد تنگ کرنا شروع کردىتے۔  بعض اوقات تو بچارے رون ہلکے ہو جاتے۔ اب اس بات کو پچاس سال سے زىادہ عرصہ گزر چکا ہے مگرمجھے آج تک اس بات کا احساس ہے کہ موصوف منگلا صاحب کے ساتھ ہوسٹل کے کچھ لڑکے خوامخواہ زىادتى کرتے تھے۔  کالج کے بعد وہ پرائىوىٹ سىکرٹرى کے دفتر مىں چلے گئے اور  باقى سارى عمر اسى دفتر کى خدمت مىں گزار دى۔ منگلا صاحب مرحوم مجسم شرافت تھے۔ اللہ تعالى ان کى تربت پر ہزار رحمت بھىجے اور ہم سب طلباء کو معاف بھى کرے۔ اب دىکھائے گاىہ شکلىں نہ زمانہ ہر گز۔  

حرف آخر

ٹى آئى کالج اور فضل عمر ہوسٹل کو چھوڑے ہوئے پچاس سال سے زىادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مىں پنجاب ىونىورسٹى لاہور کے ہوسٹل مىں بھى رہا ہوں، اور پھر کىنىڈا مىں ىونىورسٹى مىں بھى رہا ہوں لىکن جو ىادىں فضل عمر ہوسٹل کے دور کى ہىں ان کا مقابلہ بعد کى اسٹوڈنٹ لائف سے نہىں ہو سکتا۔ جس زمانہ کا مىں ذکر کر رہا ہوں وہ حکومت پاکستان کى طرف سے 1972ء مىں تعلىمى ادارے قومىانے سے پہلے کا دور ہے۔ خاص کرساٹھ کى دہائى کے اواخر مىں کالج اپنے تعلىمى اور ادبى اعتبارسے بہت عروج پر تھا۔  ٹى آئى کالج ان چند محدود تعلىمى اداروں مىں سے اىک تھا جس نے اىم اىس سى فزکس کى کلاسىں بھى شروع کر دى تھىں، اور کىمسٹرى مىں اىم اىس سى کى کلاسىں شروع کرنے کى پلاننگ بھى ہو رہى تھى۔ عموماً ان مضامىن مىں اىم اىس سى کرنے کىلئے پنجاب ىونىورسٹى مىں داخلہ لىنا ہوتا تھا۔  کالج طلباء کى اسپورٹس کے مىدان مىں بھى صف اوّل کا درجہ رکھتا تھا۔ متواتر کئى سال کشتى رانى مىں پنجاب ىونىورسٹى کا چمپئن رہا۔ اسى طرح باسکٹ بال کے مىدان مىں بھى ٹى آئى کالج کى ٹىم کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔  مىرے وہاں ہوتے ہوئے آل پاکستان باسکٹ بال چمپئىن کا مقابلہ بھى اُسى کالج مىں ہوا جس مىں پورے پاکستان سے ٹىمىں کھىلنے کىلئے وہاں آئىں۔ ہوسٹل کے کمرے ہم سے خالى کرا کر مہمان ٹىموں کو دئىے گئے۔  کالج مىں طلباء کى ىونىن بھى تھى، انتخاب بھى ہوتے تھے لىکن نہ کبھى طلباء نے کوئى ہڑتال کى، نہ کو ئى توڑ پھوڑ، اورنہ کسى قسم کا ہنگامہ۔ اساتذہ اور طلباء کا آپس مىں رشتہ نہاىت باادب اور دوستانہ تھا۔ باقاعدہ کلاسوں کى تعلىم کے علاوہ، مشاعرے، ڈرامے، ادبى محفلىں، تقرىرى مقابلے، کھىلىں اور طرح طرح کى دىگر سر گرمىاں بھى کالج کى زندگى کا حصہ تھىں۔ انہى وجوہات کى بنا پر دور دور سے طلباء،  احمدى بھى اور دوسرے مسلمان بھى، بلا لحاظ فرقہ، کالج مىں پڑھنے کىلئے آتے تھے۔  فضل عمر ہوسٹل مىں بھى طلباء کى رہائش ، حفاظت، اور دىکھ بھا ل کا نہاىت عمدہ انتظام تھا۔  کالج تو شاىد اب بھى قائم ہے اور سننے مىں آىا ہے کہ حکومت نے کالج کى اب نئى عمارت بھى تعمىر کى ہے۔ لىکن وہ باتىں کہاں؟ مىرى ىادىں تو کسى اور زمانہ سے تعلق رکھتى ہىں۔  ىہ وہ نادر  دور تھا جب پاکستان مىں کفر سازى کى باقاعدہ فىکٹرى کا پلانٹ نہىں لگا تھا۔  وہ اساتذہ ہى اور تھے،  وہ طلباء ہى اور تھے، وہ ماحول ہى اور تھا۔ وہ طلباء جو اُس دوَر مىں اِس کالج مىں طالبعلم رہے ہىں وہ سب ہى اس حقىقت کى کھلے طور پر تصدىق کر سکتے ہىں۔ حال ہى مىں کوئى پرانا طالب علم اپنى ىادوں کى محبت مىں ٹى آئى کالج کو دىکھنے ربوہ گىا تو وہاں سے پرانى عمارت کى تصوىرىں اور وىڈىو بنا لاىا اور انٹرنىٹ پر دوستوں کو بھجوا دىں۔ کسى نے مجھے بھى وہ تصوىرىں دىں۔ جن محبت بھرى آنکھوں سے کالج نے ہمىں دىکھا، انہى آنکھوں سے ہم نے دنىا کو دىکھا، اور انہى آنکھوں سے قومىائے جانے والے کالج کے کھنڈرات کو دىکھ کر دکھ ہوا۔ ىہ وہ کالج تھا جس نے ہمىں اسوقت شعور دىا، تعلىم دى، اور زندگى کى راہ دکھائى، جب ہمىں کچھ بھى معلوم نہ تھا۔ ىہ وہ کالج تھا جہاں پورے ملک کے وزىر، سفىر، افسران، شعراء کرام، ادبى شخصىات، سا ئنسدان وغىرہ  اور پنجاب ىونىورسٹى کے وائس چانسلر تک بھى آنا فخر محسوس کرتے تھے۔

؎کىا دن تھے جب نظر مىں خزاں بھى بہار تھى
ىوں اپنا گھر بہار  مىں وىراں نہ تھا کبھى

(چوہدری نصیر احمد۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اىڈىٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2021