• 13 مئی, 2024

یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’پس یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آسکتی، جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ48 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’اپنے ایمانوں کو وزن کرو‘‘۔ ’’اپنے ایمانوں کو وزن کرو۔ عمل ایمان کا زیور ہے۔ اگر انسان کی عملی حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے۔ مومن حسین ہوتا ہے۔‘‘ ایک خوبصورت انسان ہوتا ہے۔ ’’جس طرح ایک خوبصورت انسان کو معمولی اور ہلکا سا زیور بھی پہنا دیا جائے تو وہ اُسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے۔‘‘ اسی طرح پر ایک ایمان دار کو اُس کا عمل نہایت خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ’’اگر وہ بد عمل ہے تو پھر کچھ بھی نہیں۔ انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اُس کو اعمال میں ایک خاص لذّت آتی ہے اور اُس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔ گناہوں سے اُسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ ناپاک مجلس سے نفرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ249 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سُورۃ ہُود نے بوڑھا کر دیا۔ کیونکہ اس کے حکم کے رُو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے۔ اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری کرنا جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے، ممکن ہے کہ وہ اُس کو پورا کرے لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے۔ اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور قوتِ قدسی کا پتہ لگتا ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی۔ صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ اُن کو کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111) کہا گیا اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ (المائدہ: 120) کی آواز اُن کو آگئی۔ آپؐ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیّبہ میں نہ رہا۔ غرض ایسی کامیابی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعاتِ زندگی میں نہیں ملتی۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قال ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے۔ کیونکہ اگر نِرے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تودوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہو گا اور دوسروں پر کیا شرف!‘‘ فرماتے ہیں: ’’تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں۔‘‘ اس تمہید کے بعد آپ نے پھر جماعت کو نصیحت فرمائی کہ ’’تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو، کوئی اس کو قبول نہیں کرتا۔ کیا کوئی انسان میلی چیز پسند کر سکتا ہے؟ جب تک کپڑے میں ایک داغ بھی ہو، وہ اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہو گی، کوئی خریدار نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص عمدہ چیز کو پسند کرتا ہے، اسی طرح جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکو گے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ115-116 ایڈیشن 2003ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اعلیٰ اخلاق اپنانے والا بنائے۔ ہمارے اندر وہ پاک تبدیلی پیدا کرے جس کی چمک دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرنے والی ہو۔ پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کے راستے کھلیں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 6؍دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ679-681)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2022