• 26 اپریل, 2024

سو سال قبل کا الفضل

6؍نومبر 1922ء دو شنبہ (سوموار)
مطابق 15؍ربیع الاول1341 ہجری

صفحہ اول اور دوم پر حضرت سیدمیر محمد اسحٰق صاحبؓ کی جانب سے ہفتہ وار رپورٹ لنگر خانہ شائع ہوئی ہے۔ جس میں آپؓ نے دورانِ ہفتہ لنگر خانہ تشریف لانے والے مہمانان کے اسماء اور لنگر خانہ کے اخراجات کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح صفحہ نمبردو پرہفتہ واررپورٹ صیغہ محاسب و بیت المال بھی شائع ہوئی ہے۔اسی صفحہ پر مکرم رحیم بخش صاحب (حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب) ناظر تعلیم و تربیت کا اعلان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے سیکرٹریان تعلیم وتربیت کے تقرراور ان کے اسماء کا اعلان کیا ہے۔

صفحہ نمبر3 اور 4 پراداریہ شائع ہوا ہے جسےایڈیٹر اخبار الفضل نے تین مختلف عناوین کے تحت تحریر کیا ہے۔پہلا عنوان ’’خلیفہ ٹرکی سے دنیوی اقتدار علیحدہ کرنے کی تجویز اور مسلمانانِ ہندوستان کا غم و غصہ‘‘ ہے۔ اس عنوان کے تحت الفضل اخبار لکھتا ہے کہ ’’لنڈن سے 23؍اکتوبر 1922ء کا تار مظہر ہے کہ ’’قسطنطنیہ ٹائمز‘‘ کے نامہ نگارنے جنرل رفعت پاشا کے متعلق جو تھریس کے گورنر مقرر کیے گئے ہیں لکھا ہے کہ انہوں نے قسطنطنیہ یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرکی کی داخلہ یعنی اندرونی پالیسی عوام کی حکومت پر مبنی ہو گی۔مجھے خلافت کے قیام کے متعلق کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن خلیفہ کو تمام دنیاوی اختیارات سے محروم کر دینا چاہئے۔ روحانی اور دنیاوی طاقت کا اجتماع جسے ترکوں کے اول سلطان خلیفہ سلیم نے قائم کیا تھا۔ بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔اب اسے ترک کر دینا چاہئے۔‘‘

اخبار الفضل نے اس گورنر قسطنطنیہ کی اس تقریر کے بعد ہندوستان کے بعض اخبارات کی اس پر آراء شامل کی ہیں جن میں گورنر قسطنطنیہ کے خیالات سے مکمل انکار کیا گیا ہے۔ ان آراء کے بعد اخبار الفضل لکھتاہے کہ
’’بات دراصل یہ ہے کہ اگر فی الواقعہ خلافت ٹرکی اسلامی خلافت ہوتی تو کبھی اس کی یہ حالت نہ ہوتی بلکہ خدا کی مدد اور نصرت اس کے شاملِ حال رہتی۔ کیا اس میں دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لیے بہت بڑا سبق نہیں ہے۔اگر عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں تووہ وقت بھی آئے گا اور ضرور آئے گا جبکہ یہ نام کی خلافت بھی نہ رہے گی۔ اس کے لیے روز بروز سامان پیدا ہو رہے ہیں اور جنرل رفعت پاشا کی تقریر بھی ان میں سے ایک ہے۔‘‘

اداریہ کا دوسرا حصہ زیرِ عنوان ’’بانی آریہ سماج کی گمنام ابتدائی زندگی‘‘ ہے۔

اس عنوان کے تحت پنڈت دیانند صاحب کی سابقہ زندگی کے بارہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور پنڈت صاحب کی ابتدائی زندگی کا کوئی سراغ یا اتا پتا معلوم نہ ہونے پر اخبار لکھتا ہے کہ ’’کیا پنڈت صاحب کو اپنی پہلی زندگی، اپنے وطن، حتیٰ کہ اپنے ماں باپ تک کو پوشیدگی میں رکھنا ظاہر نہیں کرتا کہ وہ ان باتوں سے دوسروں کے آگاہ ہونے کو اپنے نئے منصوبوں کے لیے مضر سمجھتے تھے اور انہیں ایسے پول کھلنے کا ڈر تھا جو ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے۔ ورنہ اپنے ابتدائی حالات کو پوشیدہ رکھنے کی انتہائی کوشش کرنے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔

حیرت ہے جو شخص ہندوؤں کے قدیم مذہبی خیالات کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے کھڑا ہو۔ جس نے سب مذاہب کے پاک انسانوں پر طرح طرح کے الزام لگائے۔ جس نے اپنے پیروؤں میں دوسروں کے خلاف بد زبانی اور فحش کلامی کرنے کا بیج بویا۔ اس میں اتنی بھی جرأت نہ تھی کہ نئے خیالات لے کر اپنے ہم وطنوں کو منہ دکھا سکتااور اپنے ماں باپ سے کلام کر سکتا۔‘‘

صفحہ نمبر5 تا 7 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 27؍اکتوبر 1922ء شائع ہوا ہے۔

صفحہ نمبر8 پر ایک مضمون عبدالحکیم صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ انبالہ چھاؤنی کا شائع ہوا ہے۔مذکورہ مضمون ’’مولوی محمد علی صاحب اور مرزا محمد خدا بخش صاحب میں اختلافِ عظیم بیعتِ خلافت کے متعلق‘‘ کے عنوان سے ہے۔

اس مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت مسیحِ موعودؑ کے بعد بیعتِ خلافت کو غیر ضروری قرار دیا اور اس کی تائید میں یہ کہتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے خلفاء نے بھی اپنی بیعت کو لازمی قرار نہیں دیا۔

لیکن اس کے برخلاف مولوی محمد علی صاحب کے ہی ایک ساتھی مرزا محمد خدا بخش عقیدہ رکھتے تھے اور انہوں نے لکھا کہ ’’پیشتر ازیں بخوبی دکھایا گیا ہے کہ بیعت کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ رسولِ کریمﷺ وخلفائے اربعہ نے بیعت کی۔مگر بہانہ جو کہہ دیتے ہیں کہ وہ بیعتِ خلافت یعنی ملکی تھی نہ کہ روحانی۔لہٰذا ہم ان کی نادانی اور جہالت کو رد کرنے کے لیے کثیرالتعداد احادیث پیش کرتے ہیں کہ بیعت نہ صرف ملکی معاملات کے لیے ہوا کرتی تھی بلکہ ہر نیک کام کے کرنے اور برے کام سے بچنے کے لیے بھی ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ مرزا محمد خدا بخش صاحب نے اس بات کی تائید میں بعض احادیث بیان کی ہیں۔

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221106.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

جماعت یوکے کی نئی ویب سائیٹ کا افتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ