• 9 جولائی, 2025

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 6)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 6

کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس ذکر میں کہ انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے ہمارے دادا صاحب کا ذکر سنایا کرتے تھےکہ:
’’جب ہمارے خاندان کی ریاست جاتی رہی تو ان کے والد صاحب کو یہاں سے نکلنا پڑااور کپور تھلہ کی ریاست میں پناہ گزین ہو گئے۔اس وقت ریاست والوں نے چاہا کہ آپ کو دو گاؤں گزار ہ کے لئے دے دیں لیکن آپ نے نہ لئے اور فر مایا اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر ہم یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہو جائے گی اوراپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اس کے دل سے جاتا ر ہے گا۔لیکن وہ رہے ایک لمبے عرصہ تک وہیں۔پھر جس وقت ہمارے دادا ذرا بڑے ہوئے تو اس وقت سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ ان کے والد فوت ہوئے انہوں نے انہیں لا کر قادیان میں دفن کیا اور خود دہلی پڑھنے چلے گئے حالانکہ کوئی سامان میسّر نہ تھا۔ایک میراثی خدمت گار کے طور پر ساتھ گیا۔ شایدا س زما نہ کے لوگوں میں وفا کا مادہ زیادہ ہوتا تھا کہ اس غربت کی حالت میں اس شخص نے سا تھ نہ چھوڑا۔

جب دہلی پہنچے تو ایک مسجد میں جہاں مدرسہ تھا جاکر بیٹھ گئے۔انہوں نے سنا ہواتھا کہ دہلی شاہی جگہ ہے اور وہاں لڑکوں کو مفت تعلیم ملتی ہے۔لیکن بیٹھے بیٹھے کئی دن گزرگئے مگر کسی نے ان کا حال دریافت نہ کیا اور نہ کھانے کو کچھ دیا۔آخر جب تین دن کا فا قہ ہوگیا تو چوتھے دن کسی شخص کو جو خود بھی کنگا ل تھا خیال آیا کہ انہیں اتنے دن یہاں بیٹھے ہو گئے ہیں انہیں کچھ کھانے کو تو دینا چاہئے۔ چنانچہ وہ ایک سوکھی روٹی لاکر انہیں دے گیااس نے جو روٹی ان کے ہاتھ میں دی تو ان کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ہمراہی نے سمجھ لیا کہ معلوم ہو تاہے روٹی خراب ہے اور انہیں دیکھ کر اپنی گزشتہ حالت یاد آگئی ہے اور اس کا تصور کر کے تکلیف محسوس ہوئی ہے۔ اس موقع پر اس نے مذاق کے طور پر ان کا دل بہلانے کے لئے کہا لائیں میرا حصہ مجھے دیں۔ان کو پہلے ہی غصہ آیا ہوا تھا، اس کا یہ فقرہ سن کر انہوں نے زور سے روٹی اٹھا کر اس کی طرف پھینکی جو اتفاقاً اس کی ناک پر لگی اور چونکہ روٹی سوکھی ہوئی تھی اس لئے اس کے لگنے سے اس کی ناک کی ہڈی پر زخم ہو گیا اور خون بہنے لگا۔

مگر ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے تعلیم حاصل کی، محنت کی اور اس قدر ہمت سے کام لیا کہ آخر ایک بہت بڑے عالم اور طبیب ہو گئے۔ واپس آئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ شروع ہو گیا تھا انہوں نے ان کی جائیداد میں سے سات گاؤں واگزار کر دئیے اور جنرل کے عہدہ پر فوج میں مقرر کیا۔

اب دیکھو کہ کس بے کسی کی حالت کو پہنچ کر بھی انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور نہ اپنی ہمت پست کی بلکہ سمجھا کہ اگر ہم غریب ہو گئے ہیں تو کیا ہوا دنیوی لحاظ سے ہمارا ایک حق قائم ہے، وہ ہم لے کر چھوڑیں گے۔ چنانچہ انہوں نے علم سیکھا اور لیاقت پیدا کی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ سے اپنے حق کے ایک حصہ کو کم سے کم واپس لے لیا۔

تو جس چیز کو انسان اپنی سمجھتا ہے اس کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے اور جس چیز کو اپنی نہیں سمجھتا اس کے حصول کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتا۔ پھر جو چیز خداتعالیٰ نے تمہیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس لئے دینے کا وعدہ کیا ہے کہ تم ہی اس چیز کے حقیقی اہل ہو اس چیز کے حصول کے لئے اگر تم جدوجہد نہ کرو تو کون کہہ سکتا ہے کہ تمہیں خداتعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ149-151)

رونق ایمان سے آتی ہے

ایک دوست نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ رونق روپے سے آتی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نقطۂ نگاہ یہ بھی ہے چنانچہ کلیلہ دمنہ جو فلسفہ کی کتاب ہے لیکن کہانیوں کے رنگ میں لکھی گئی ہے اس میں ایک کہانی آتی ہے جسے غالباً مثنوی رومی میں بھی بیان کیا گیا ہے، گو بیان کرنے میں کچھ فرق ہے کہ:
ایک مہمان کسی شخص کے ہاں آیا اس نے دیکھا کہ اس مکان میں ایک چوہا تھا جو کھانے پینے کی چیزیں زبردستی اٹھا کر لے جاتا تھا۔ گھر والے اسے مارنے کی کوشش کرتے، لیکن وہ ہمیشہ تیزی سے بھاگ کر نکل جاتا۔ اس طرح وہ چوہا کھا کھا کر بہت موٹا ہو گیا۔ گھر والوں نے اس مہمان کے پاس ذکر کیا کہ یہ چوہا بڑا تیز معلوم ہوتا ہے، اس نے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بہتیرا ہم زور لگاتے ہیں کہ اسے پکڑیں مگر یہ قابو میں نہیں آتا۔ ہم بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ میز پرکودتا ہے اور کوئی چیز اٹھا کر لے جاتا ہے۔ ہم مارنا چاہتے ہیں تو وہ تیزی سے نکل جاتا ہے اس کا کیا علاج کریں؟ مہمان نے کہا، آپ اس چوہے کی بل کھود کر دیکھیں، اس کے اندر سے ضرور روپیہ نکلے گا۔ چنانچہ انہوں نے بل کو کھودا تو اس میں سے ایک تھیلی دیناروں سے بھری ہوئی نکلی۔ گھر والوں نے وہ تھیلی اپنے قبضہ میں کر لی اور اس کے بعد سے چوہے کی طاقت بھی جاتی رہی۔

یہ درحقیقت کہانی کے رنگ میں اس امر کا ذکر ہے کہ دنیا دار لوگ روپیہ ہاتھ آجانے پر اترا جاتے ہیں اور چوہا کا نام اس لئے رکھا کہ چوہا زمین کی طرف ہمیشہ جھکا رہتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی منافق کی مثال چوہے سے دی ہے۔

غرض دنیا دار لوگ روپیہ ہاتھ میں آجانے پر اترا جاتے ہیں اور فخر اور عجب میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر اس کا نام ہم رونق نہیں رکھ سکتے، رونق ہمیشہ ایمان سے آتی ہے۔ روپیہ تو آتا اور ختم ہو جاتا ہے،لیکن رونق وہ ہے جس کے پیچھے رونق کا ایک سلسلہ لگا ہو۱ ہو اور خوشی ہمیشہ پہنچتی رہے لیکن روپیہ تو خواہ کروڑوں کروڑ ہو پھر بھی ختم ہو جاتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ158-159)

اصل چیز امداد کا تسلسل ہے

روپیہ کوئی چیز نہیں، امداد کا تسلسل اصل چیز ہے۔ تم خود ہی سوچو وہ شخص زیادہ مالدار ہے جس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ ہے یا وہ زیادہ مالدار ہے جسے روزانہ اخراجات کے لئے جس قدر رقم کی ضرورت ہوتی ہے، میسر آجاتی ہے؟ جس کے پاس ہزار روپیہ ہے وہ تو ختم ہو جائے گا لیکن جسے روزانہ امداد ملتی ہے وہ چلتی چلی جائے گی۔ تو اصل چیز روپیہ نہیں، بلکہ اصل چیز امداد کا تواتر ہے اور یہ تواتر محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ چنانچہ جو خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے، وہ خرچ کرتا ہے اور پھر اور آجاتا ہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے گھر میں کچھ غلہ ڈلوا دیا اور فرمایا اس سے گزارہ کرو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ہم اس غلّہ سے خرچ کرتے رہے، کرتے رہے اور کرتے رہے، یہاں تک کہ ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ آخر ایک دن میں نے کہا کہ آؤ اس غلہ کو تولیں تو سہی، کتنا باقی ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں جب تولا تو اس کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ ختم ہو گیاکیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امداد کا ایک سلسلہ جاری تھا چاہے وہ کسی رنگ میں ہو، چاہے ان کی بھوکیں کم کر کے، چاہے ان کی طاقتیں بڑھا کر،چاہے تحائف کی کثرت کر کے۔ غرض کسی نہ کسی رنگ میں امداد کا سلسلہ جاری تھا، جب حضرت عائشہؓ نے چاہا کہ غلہ تول کر دیکھیں اور پھر تولا تو چند دنوں کے بعد ہی ختم ہو گیا۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ مجھے یاد ہے۔ آپؑ کو بیماری کی وجہ سے ہمیشہ مشک استعمال کرنا پڑتا تھا۔ ایک دفعہ کوئی دوست تحفہ کے طور پر مشک لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے ایک لمبے عرصہ تک استعمال کرتے رہے۔ ایک دن فرمایا یہ مشک ختم ہونے میں نہیں آتا، دیکھیں تو سہی کتنا باقی ہے۔ چنانچہ اسے تول کر دیکھا گیا اور پھر بہت تھوڑے عرصہ میں ہی وہ ختم ہو گیا۔

تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو برکتیں آتی ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں اور روپیہ تو خواہ ارب، دس ارب ہو ختم ہو جاتا ہے۔ پس روپے سے رونق نہیں بلکہ رونق ایمان سے ہوتی ہے۔ روپے سے تو عجب، فخر اور ریاءپیدا ہوتا ہے بشرطیکہ ایمان نہ ہو اور جب ایمان ہو تو پھر انسان کی روپے پر نظر نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ پر نظر ہوتی ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ160-161)

کچھ خانے خدا کے لئے چھوڑ دو

عبدالحمید جو ٹرکی کا معزول بادشاہ تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ اس کی ایک بات مجھے بہت ہی پسند ہے۔

یونان سے جب ترکوں کی جنگ ہوئی تو اس وقت خطرہ تھا کہ یورپ کی تمام طاقتیں یونان کی مدد کریں گی اور ترکوں کو لازماً شکست ہو جائے گی۔ اس وقت ترکوں نے ایک مجلس منعقد کی جس میں فیصلہ کیا کہ یونان کے حملہ کی اس اس رنگ میں مدافعت ہونی چاہئے۔ دوسرے دن ایک وزیر گھبرایا ہوا عبدالحمید کے پاس آیا اور کہنے لگا اگر مکمل انتظام ہوتا تو شاید یونان کے حملہ سے ہم بچ جاتے مگر مجھے اس انتظام میں بعض خامیاں نظر آتی ہیں جن کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ اگر ان خامیوں کی موجودگی میں ہم نے جنگ کی تو ہمیں شکست ہو جائے گی بہتر یہی ہے کہ یونان سے صلح کر لی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب اس وزیر نے عبدالحمید کو یہ بات کہی تو عبدالحمید ہنس کر کہنے لگا اتنے خانے ہم نے پر کئے تھے اور اب کچھ خانے خدا کے لئے چھوڑ دو اور اس کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے جنگ شروع کر دو۔ چنانچہ لڑائی ہوئی اور ترکی کو فتح حاصل ہوئی۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ380)

تو مومن کو اپنی کوششوں میں سے ایک خانہ خداتعالیٰ کے لئے چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ درحقیقت سچی بات یہ ہے کہ مومن کبھی بھی ایسے موقع پر نہیں پہنچتا، اور دراصل کوئی شخص بھی ایسے موقع پر نہیں پہنچتا، جس کو اس دنیا میں کامل موقع کہا جا سکے۔ یعنی یہ کہاجا سکے کہ اب کوئی رستہ کمزوری کا باقی نہیں رہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مومن سمجھتا ہے ابھی کامیابی کا راستہ ہے، لیکن غیر مومن سمجھتا ہے اب کوئی راہ نہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ188)

انسانی عقل تمام کمزوریوں کا احاطہ نہیں کر سکتی

ڈاکٹر بعض دفعہ کسی مریض کا جب علاج کرتا ہے تو کہتا ہے میں نے ساری تدابیر اختیار کر لیں اب اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں، مگر پھر بھی کوئی صورت نکل آتی ہے اور بیمار اچھا ہو جاتا ہے۔مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت آیا کرتی ہے کہ جب میری مرحومہ بیوی امة الحئی سخت بیمار تھیں تو تین تجربہ کار ڈاکٹران کا علاج کر رہے تھے۔ انہوں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں، محض اعصابی کمزوری کی شکایت ہے، حالانکہ اس مشورہ کے چند گھنٹوں کے اندر اندر وہ فوت ہو گئیں۔

تو انسانی اندازے بہت دفعہ غلط ہو جاتے ہیں۔ کئی دفعہ ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں فلاں مریض اب مرنے لگا ہے اور وہ بچ جاتا ہے اور کئی دفعہ کہتے ہیں کہ بچ جائے گا اور وہ مر جاتا ہے۔ اس بارہ میں ان کی طرف سے کوئی بے احتیاطی نہیں ہوتی مگر ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جہاں تک ان کی نگاہ پہنچتی ہے اس کے اوپر بھی راستے اور سوراخ ہیں، موت کے لئے بھی اور حیات کے بھی۔ بہرحال سامانوں کی تکمیل کو انتہاءتک پہنچانے کے بعد انسان خوش ہو جاتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ تکمیل کوئی چیز نہیں۔

تھوڑے ہی دن ہوئے اخباروں میں مضامین شائع ہوئے تھے کہ امپیریل ائیرویز نے ہوائی جہازوں کی سلامتی کے لئے انتہائی حد تک کوشش کی ہے اور اب اس نے نہایت محفوظ جہاز بنا لئے ہیں۔ ان جہازوں کے رائج ہو جانے کے بعد حادثات کا امکان بالکل جاتا رہے گا کیونکہ راستہ کے تمام چارٹ لنڈن میں لگے ہوئے ہوں گے، اور وائرلیس کے ذریعہ جہاز کو ہدایات پہنچتی رہیں گی کہ اب راستہ میں فلاں پہاڑ ہے، فلاں خطرہ ہے اور اس سے محفوظ رہنے کا یہ طریق ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ پرسوں کے ایک اخبار میں ایک طرف تو یہ نقشہ چھپا اور دوسری طرف یہ خبر درج تھی کہ وہ جہاز جو اس تجربہ کے لئے روانہ کیا گیا تھا وہ فرانس میں ہی ٹوٹ کر گر گیا۔ یہ پہلا سفر تھا جو اس نے الیگزنڈرا(مصر) آنے کے لئے کیا لیکن باوجود اس قدر سلامتی کی تجاویز اختیار کرنے کے وہ فرانس میں جہاں ایک ایک سواری کا جہاز بھی آسانی سے اتر جاتا ہے گر کر تباہ ہو گیا، اور سفر بھی مکمل نہ کر سکا اور عین اس وقت جب لنڈن کا مرکز اسے ہدایات دے رہا تھا، ایک پہاڑ سے ٹکرا کر چکنا چور ہو گیا۔

تو انسانی عقل باوجود اپنے کمال کو پہنچ جانے کے پھر بھی تمام کمزوریوں کا احاطہ نہیں کر سکتی اور ایسے رخنے رہ جاتے ہیں جن کو پورا کرنا خداتعالیٰ ہی کے اختیار میں ہوتا ہے انسان کے اختیار میں نہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ188-189)

سب کو ایک جیسا نہ سمجھو

کہتے ہیں ہارون الرشید کے زمانہ میں کوئی نائی تھا جسے کسی امیر نے ایک شادی کے موقع پر پانچ سو اشرفیاں انعام دے دیں۔ وہ چونکہ امراء کا نائی تھا اس لئے اشرفیوں کی تھیلی کبھی چھپا کر نہ رکھتا بلکہ جہاں جاتا اپنے پاس رکھتا اور اسے اچھالتا رہتا۔ شاید اس لئے کہ باقی امراء بھی دیکھ کر اسے کچھ دے دیں۔ وہ چونکہ ہر جگہ تھیلی اپنے پاس رکھتا اور اسے اچھالتا رہتا تھا اس لئے لوگوں نے اس کا مذاق بنا لیا۔اور اس سے پوچھتے میاں خلیفہ! بتا شہر کا کیا حال ہے؟ وہ کہتا شہر کا حال کیا پوچھتے ہو، کوئی کمبخت بھی ایسا نہ ہو گا جس کے پاس پانچ سو اشرفیاں نہ ہوں۔ آخر کسی نے ہنسی سے اس کی تھیلی غائب کر دی چونکہ وہ امراءکا نائی تھا اس لئے اسے اتنی جرات نہ تھی کہ وہ امراءسے پوچھ سکتا کہ میری تھیلی کس نے غائب کر دی؟ لیکن اندر ہی اندر غم سے اس نے سوکھنا شروع کر دیا۔ اب جو اس سے لوگ دریافت کرتے کہ شہر کا کیا حال ہے؟ تو کہتا شہر کا حال کیا بتائیں، بھوکا مر رہا ہے۔ آخر جس نے تھیلی غائب کی تھی اس نے نکال کر سامنے رکھ دی اور کہا شہر کو بھوکا نہ مارو اپنی تھیلی لے لو۔

تو کئی لوگ اپنے نفس کے متعلق ایک اندازہ لگاتے اور پھر اس اندازہ کو باقی سب لوگوں پر چسپاں کر دیتے ہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ198)

سپاہی کا کام اطاعت کرنا ہے

انگریزی قوم ایک واقعہ پر فخر کیا کرتی ہے اور واقعہ میں اس کا وہ فخر بالکل جائز ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ
غالباً کریمیا کی جنگ میں جبکہ ترکوں کی اعانت پر انگریزی حکومت بھی تھی، روسی فوج کے ایک دستہ کے بڑھنے کی اطلاع ملی۔ اس مقام کا نام بیلا کلاوا تھا۔ انگریزی جنرل نے ایک دستہ رسالہ کو اس فوجی دستہ کو روکنے کا حکم دیا۔ افسر کو بتایا گیا کہ روسی فوج کا ایک دستہ نہیں بلکہ اصل فوج آگے بڑھ رہی ہے، مگر اس نے اسے تسلیم نہ کیا۔ اس پر انگریزی رسالہ کے افسر نے بلا چون و چرا حملہ کر دیا اور روسی فوج سے مقابلہ کر کے وہ رسالہ قریباً سب کا سب فنا ہو گیا اور یہ جانتے ہوئے فنا ہو گیا کہ جو کام وہ کر رہا ہے اس میں اسے کامیابی کی امید نہیں ہے۔

انگریزی قوم اس واقعہ کی یاد کو کئی رنگوں سے زندہ رکھتی ہے۔تاریخ میں بھی اور ریڈروں میں بھی، نثر کے ذریعہ سے بھی اور نظم کے ذریعہ بھی اور اس بات پر فخر کیا کرتی ہے کہ اس کے سپاہیوں نے اطاعت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا۔

تو سپاہی کا کام یہ ہے کہ وہ اطاعت اور ایثار کا نمونہ دکھائے۔ اگر اسے کسی غلطی کا علم ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اطلاع ذمہ وار افسروں تک پہنچا دے لیکن جب افسر کہے کہ میں اس حکم کو قائم رکھنے پر مصر ہوں، تو وہ اس حکم کی اطاعت کرے اور خدا کی آواز پر جو بعض دفعہ واقعات میں سے آتی ہے چل پڑے اور جس قدر بوجھ اٹھاکر جاسکتا ہے جائے۔ اگر دس گز جا سکتا ہے تو دس گز جائے، بیس گز جا سکتا ہے تو بیس گز جائے۔ ہاں جب وہ ڈھیر ہوجائے گا تو اس کا کام ختم ہو جائے گا اور پھر خدا کسی اور کو اس کی جگہ کھڑا کر دے گا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ199-200)

صحابہٴ رسول کا شاندار ایثار

یاد رکھو ہمارا خدا حکیم ہے اور قرآن مجید کا ایک نام حکمت بھی ہے۔ پس جو کام کرو وہ عقل اور حکمت کے ماتحت ہو، اندھا دھند کسی طریق کو اختیار نہ کرو۔ صحابہؓ تو یہاں تک احتیاط کیا کرتے تھے کہ وہ مرتے وقت بھی یہ دیکھ لیتے تھے کہ کس کو زیادہ ضرورت ہے اور کس کو کم۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ
وہ آخری لڑائی جس میں مسلمانوں نے رومی فوجوں کو شکست دے کر شام پر قبضہ کیا اور جس میں روم کے بادشاہ نے اپنے جرنیل ہامان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ فتح پائے گا تو وہ اپنی لڑکی اس سے بیاہ دے گا۔ اس جنگ میں اسلامی مورخین کے نزدیک رومی فوج کی تعداد چھ لاکھ سے دس لاکھ تھی، اور عیسائی مورخین اس تعداد کو3 لاکھ سے6 لاکھ تک بتاتے ہیں۔ مسلمانوں کی فوج اسلامی مؤرخین کے نزدیک ساٹھ ہزار اور عیسائی مورخین کے نزدیک ایک لاکھ تھی۔ بہرحال رومی فوج مسلمانوں کی فوج سے تین گنے سے بھی زیادہ تھی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو جو قربانی کرنی پڑی وہ نہایت ہی اہم ہے۔ بڑے بڑے صحابہؓ اس جنگ میں مارے گئے کیونکہ انہوں نے سب سے زیادہ قربانی اپنے ذمہ لی تھی۔ چونکہ یہاں میری یہ بھی غرض ہے کہ میں آپ لوگوں کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں اس لئے ایک واقعہ جو اسی جنگ میں رونما ہوا سنا دیتا ہوں۔

اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہؓ جو اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف تھے، ان کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ آیا مسلمانوں کو پیچھے ہٹ جانا چاہئے اور حضرت عمرؓ سے پہلے مشورہ لے لینا چاہئے یا مقابلہ کرنا چاہئے؟ حضرت خالدؓ بن ولید بھی اس مشورہ میں شامل تھے، انہوں نے کہا اسلامی فوجوں کا پیچھے ہٹنا سخت ہتک کی بات ہے جسے ہم ہر گز برداشت نہیں کر سکتے اور آپ کا تو یہ خیال ہے کہ ہماری فوج تھوڑی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس سپاہی بہت زیادہ ہیں اور اگر ہماری تعداد اس سے بھی تھوڑی ہو جائے تو ہمیں حملہ کر دینا چاہئے۔ رومی فوج میں ایک عیسائی عربوں کا لشکر بھی شامل تھا جس کا سردار جبلة ابن الایہم تھا… یہ جبلہ تیس سے ساٹھ ہزار تک فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بڑھ رہا تھا۔ گویا یہ لشکر ہراول میں تھا اور رومی فوج نے اس کو آگے اس لئے رکھا ہوا تھا کہ جبلہ کہتا تھا ہم عرب ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ عربوں کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ حضرت خالدؓ نے تجویز کی کہ ہمیں جبلہ کے لشکر پر کم سے کم یہ بات ثابت کر دینی چاہئے کہ ہماری طاقت عرب ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ساٹھ ہزار کے لشکر کے مقابلہ کے لئے مجھے صرف ساٹھ آدمی (یا بعض روایات کے مطابق دو سو۔ تاریخی روایات میں اس قسم کے خفیف فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتے) دیئے جائیں۔ میں ان ساٹھ آدمیوں کو لے کر اس پر حملہ کروں گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ساٹھ آدمی مجھے خود چننے دئیے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں سے ساٹھ کا لشکر چنا۔ اسی لشکر میں عکرمہؓ بھی تھے جو ابوجہل کے بیٹے تھے اور جن کی اولاد اب تک موجود ہے۔ مگر بوجہ ابوجہل کے افعال بد کے کوئی اس کی طرف منسوب ہونا پسند نہیں کرتا۔ پھر حضرت عباسؓ کے بیٹے فضلؓ بھی اسی لشکر میں شامل تھے۔اسی طرح اور بڑے بڑے صحابہؓ یا صحابہؓ کے بیٹے اس میں شریک ہوئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے بھی اس میں شامل تھے۔ غرض اس چھوٹے سے دستہ نے ساٹھ ہزار فوج پر حملہ کردیا اور ایسا زبردست حملہ کیا کہ معاً قلب لشکر تک جا پہنچے اور اس لشکر کو انہوں نے شکست دی لیکن چونکہ دشمن بہت زیادہ تھا اور وہ چند آدمی تھے، اس لئے قلیل افراد ہی بچ سکے۔ باقی سب اس جنگ میں یا مارے گئے یا زخمی ہو گئے۔

جس وقت یہ لوگ زخمی ہو کر میدان جنگ میں پڑے تھے اور عیسائی لشکر ہراول کی شکست کی وجہ سے ہراساں ہو رہا تھا صحابہؓ یہ دیکھنے کے لئے کہ کون کون زخمی ہوا ہے، میدان میں گئے۔ انہوں نے پہلے عکرمہؓ کو دیکھا کہ اس کی زبان خشک ہے اور نزع کی حالت ہے۔ صحابہؓ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو پیاس ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہے۔ وہ کٹورے میں پانی ڈال کر ان کے پاس لائے لیکن ابھی انہوں نے پانی پیا نہ تھا کہ انہوں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی اور دیکھا کہ پاس ہی فضلؓ بن عباسؓ بھی زخمی پڑے ہیں اور پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں انہوں نے کٹورہ واپس کر دیا اور کہا کہ فضل کو پیاس مجھ سے زیادہ معلوم ہوتی ہے پہلے انہیں پانی پلا۔ جب وہ ان کے پاس پانی لے کر گئے تو فضلؓ نے اپنے اردگرد دیکھا اور انہیں بھی ایک مسلمان زخمی نظر آیا وہ کہنے لگے اس مسلمان کو پیاس مجھ سے زیادہ معلوم ہوتی ہے پہلے اسے پانی پلایا جائے۔ غرض اسی طرح دس کے قریب اس میدان میں زخمی پڑے تھے اور ہر ایک پیاس سے تڑپ رہا تھا لیکن ہر ایک نے کہا کہ پانی فلاں کے پاس لے جاؤ اسے زیادہ پیاس معلوم ہوتی ہے۔ آخر صحابہؓ جب آخری زخمی کے پاس پانی لے کر پہنچے تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ اس پر وہ پھر لوٹے لیکن جس جس کے پاس گئے دیکھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے۔

تو صحابہؓ مرتے وقت بھی یہ اندازہ لگایا کرتے تھے کہ ہم سے زیادہ اہم کس کی ضرورت ہے، اور پھرجس کی ضرورت زیادہ ہوتی وہ اس کو مقدم کرتے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنے اندازوں میں کبھی حکمت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ206-208)

ہمیں ایسے مصنف نہیں چاہئیں

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ایک دوست تھے، انہیں کچھ جنون کا عارضہ ہو گیا تھا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام منن الرحمن لکھ رہے تھے اس میں آپ نے بیان فرمایا کہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے۔

اس دوست کے دماغ میں چونکہ کچھ جنون تھا اس لئے یہ سن کر انہوں نے بھی الفاظ کی جستجو شروع کر دی اور عجیب عجیب الفاظ نکالنے شروع کر دئیے۔ ایک دن کہنے لگے لوگ کہتے ہیں مرچوں کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں یہ بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں جو اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ کے الفاظ آتے ہیں، اس میں مرجان مرچوں کو ہی کہا گیا ہے۔ پھر دلیل یہ دی کہ مرچیں بھی لال ہوتی ہیں اور مرجان بھی لال ہوتا ہے۔

غرض قرآن کریم کی عبارات میں وہ تمام پنجابی الفاظ ثابت کرتے۔ اس قسم کے مصنفوں کی ہمیں ضرورت نہیں۔ مصنف وہ ہوں جو ہوش وحواس قائم رکھتے ہوں اور عقل و فکر سے کام لینے والے ہوں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کوئی ایسا فلسفہ نکالیں جس سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے۔ بلکہ ایسی باتیں لکھی جائیں جو عام سمجھ کے مطابق ہوں اور جن میں اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا حل کیا گیا ہو۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ216)

عسر و یسر

کہتے ہیں کوئی پٹھان قدوری پڑھ رہا تھا جس میں اس نے پڑھا کہ نماز میں حرکت صغیرہ ممنوع ہے اور حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر کسی دوسرے وقت اس نے حدیث کا جو سبق لیا تو ایک حدیث ایسی آگئی جس میں لکھا تھا کہ رسول کریمﷺ نے حالت نماز میں ہی دروا زہ کھول دیا اور بعض جگہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر نماز میں سانپ وغیرہ سامنے آجائے تو اسے ماراجا سکتا ہے۔ وہ پٹھان یہ پڑھتے ہی کہنے لگا ’’خومحمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا، قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

اب اگر کوئی شخص ایسا ہو جو نماز پڑھ رہا ہو اور نماز میں ہی سانپ نکل آئے اور وہ نماز نہ توڑے بلکہ پڑھتا رہے تو کیا ہم کہیں گے وہ زیادہ نیک ہے؟

ہم تو یہی کہیں گے کہ اس کے اندر کوئی دماغی نقص ہے جس کی وجہ سے اس نے سانپ کو دیکھنے کے باوجود اسے مارنے کی کوشش نہ کی حالانکہ اسلام نے اس کی اجازت دی تھی۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ219)

حضرت خلیفۂ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مسجد اقصیٰ سے درس دے کر واپس آرہا تھا کہ راستہ میں جو ڈپٹیوں کامکان ہے (جس میں آجکل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں) وہاں ڈپٹی صاحب بیٹھے تھے۔

مجھے دیکھ کر وہ اٹھے اور مصافحہ کیا اور پھر کہا مولوی صاحب! ایک بات دریافت کرنی ہے۔ میں نے کہا پوچھئے۔ وہ کہنے لگے کیا بادام روغن اور پلاوٴ کا استعمال فقیر لوگوں کے لئے بھی جائز ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں یہ چیزیں پاک ہیں اور ہم ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں دیکھتے۔ وہ کہنے لگے میں نے سمجھا تھا فقیر لوگ یہ چیزیں استعمال نہیں کر سکتے۔

درحقیقت ان کی غرض حضرت مسیح موعود ؑ پر اعتراض تھا کہ آپ نے کوئی خاص غذا نہیں مقرر کی ہوئی بلکہ اتباع نبوی میں اعلیٰ یا سادہ غذا جو غذا میسر آجائے آپ استعمال فرما لیتے ہیں اور بادام روغن تو آپ دماغی کام کی وجہ سے ا ور بیماری کی وجہ سے کبھی علاج معالجہ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ222)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2022