اصلاح نفس کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی روح پرور نصائح
(مکرّر اشاعت)
جب بندہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
سچی توبہ پاک تبدیلی پیدا کرتی ہے
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے۔جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو پہلے گناہ بخش دیتا ہے پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو وہ ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا اقرار بھی کرے لیکن پھر بھی جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کی سزا کو معاف کر دیتا اور رجوع بہ رحمت فرماتا ہے اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا کو معاف کر دیتا ہے اس لیے تم بھی اب ایسے ہوجر جاؤ کہ تم وہ ہو جاؤ جو پہلے نہ تھے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ183)
رضائے الٰہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ
نماز سنوار کر پڑھو خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں ہو تمہارے دلوں میں رقت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جاؤ تو بے خوف اور نڈر ہو جاؤ۔نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہئے۔ ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضی ہوگا یا ناراض۔ نماز بڑی ضروری چیزہے اور مومن کا معراج ہے خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے نماز اس لیے نہیں کہ ٹکر یں ماری جائیں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں بہت سے لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں یہ کچھ نہیں۔ نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اورخدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے اس کی نماز ہر گز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مدنظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتاپس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتاوے کہ تم خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لئے دعا کرو
(ملفوظات جلد دوم صفحہ183-184)
دین کی عظمت
اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی بلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلاء میں کروڑ ابتلاء ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے۔
من نہ آنستم کہ روزے جنگ بینی پشت من
آں منم کا ندرمیان خاک و خوں بینی سرے
پس کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کونسے ہولناک جنگل اور پرخار بادیہ درپیش ہیں جن کومیں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے ناز ک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے،نہ لوگوں کے سب و شتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کیے جائیں گے ان کا پچھلا حال پہلےسےبد تر ہوگا کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلا ؤں سے خوفناک ہو جائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے بس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عنداللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے۔
(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد9 صفحہ23-24)
حتی مقدور بدی کے مقابلہ سے پرہیز کرو
تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پراترے گی اور روح القدس سے مدد دئیےجاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم پر تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہوسکے گا۔ خدا کے فضل کاصبر سے انتظار کرو۔ گالیاں سنو اور چپ رہو،ماریں کھاؤ اور صبر کرو حتی مقدور بدی کے مقابلہ سے پرہیز کرو تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے۔ یقیناً یاد رکھو کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خداکے خوف سے پگھل جاتے ہیں انہی کے ساتھ خدا ہوتا ہے۔اور وہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا جو علیم و خبیر ہے وہ صادق کو دیکھ لیتا ہے۔ بس اپنے ہاتھ سے اس کو بچا تا ہے۔کیا وہ شخص جو سچے دل سے تم سے پیار کرتا ہے اور سچ مچ تمہارے لئے مرنے کو بھی طیار ہوتا ہے اور تمہارے منشاء کے موافق تمہاری اطاعت کرتا ہے تمہارے لئے سب کو چھوڑتا ہے کیا تم اس سے پیار نہیں کرتے اور کیا تم اس کو سب سے عزیز نہیں سمجھتے۔ پس جب کہ تم انسان ہو کر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہیں کرے گا خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اس کا وفادار دوست کون ہے اور کون غدار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے سوتم اگر ایسے وفادار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارےغیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کرکے دکھلائے گا۔
(تذکرہ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ68)
صرف خدا سے محبت کرنی چاہئے
واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیزوں سے محبت نہیں کرسکتے تمہارے لیے ممکن نہیں کہ مال سے محبت کرو اور خدا سے بھی۔صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم سے خدا سے محبت کر کے اس راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے پس جو شخص خدا کے لیےبعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا لیکن وہ شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانا چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔
(ضمیمہ ریویو آف ریلیجنز ستمبر 1903ء)
ایک عظیم بشارت
اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے۔ جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت دے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ کہ قیامت آجائے گی اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سےٹھٹھہ نہیں کیا گیا پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا۔
(تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ66)
نماز دعا کا بہترین ذریعہ ہے
انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے۔ وہ شخص جوخدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے امن میں رہتا ہے جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑگڑانے والا اپنے آپ کو ربو بیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے یاد رکھواس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی۔ نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہے ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لیے ملا تھا اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد کرنے میں گزار دیتے ہیں حضور الٰہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں۔ نماز میں دعا مانگو نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ402)
خدا سے محبت کرنے والوں کا مقام
یاد رکھو جو خدا سے محبت تام نفل ہی کے ذریعہ ہوتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرماتا ہے کہ پھر میں ایسے مقرب اور مومن بندوں کی نظر ہو جاتا ہوں یعنی جہاں میرا منشا ہوتا ہے وہی ان کی نظر پڑتی ہے صادق موت کا بھروسہ نہیں رکھتا وہ خدا سے غافل نہیں ہوتا ان کے کان ہو جاتا ہوں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جہاں اللہ کی یا اس کے رسولﷺ کی یا اس کی کتاب کی تحقیر اور ذلت ہوتی ہے وہاں سے بیزار اور ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں وہ سن نہیں سکتے اور کوئی ایسی بات جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم کے خلاف ہو نہیں سنتے اور ایسی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے۔ ایسا ہی فسق و فجور کی باتوں اور سماع کے ناپاک نظاروں اور آوازوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ437)
پورے آداب سے دعا مانگو
قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا امید نہ ہو مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں ہمارا خدا علی کل شی ان قدیر خدا ہے قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بے شک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے نمازیں ہرگز ضائع نہیں ہوتیں آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے نمازیں کہاں پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں نماز تو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لئے بیٹھے رہتے ہیں نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے تو اسے کیا فائدہ۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے تم کو جو دعائیں کرنی ہو ں نماز میں کرلیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ191)
تم حزب اللہ بن جاؤ
دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے نہیں، صحابہؓ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے سے نہیں ڈگمگائے۔ کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔ میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پا لیتا ہے دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔ مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقیٴ دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو درد ناک عذاب سے نجات دیتی ہے پس میں بھی خدا تعالیٰ کے انہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ میں زیادہ امید ان پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے جو اس شوق کو کم کر تے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو نہ پالے اس لیے کبھی سست نہیں ہونا چاہئے اورہر امر کو جو سمجھ میں نہ آئے پوچھنا چاہئے تاکہ معرفت میں زیادت ہو پوچھنا حرام نہیں بحیثیت انکار کے بھی پوچھنا چاہئے اور عملی ترقی کے لیے بھی۔ جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کریں اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کرکے فائدہ پہنچائے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ142-143)
دین کی خاطر زندگی بسر کرو
تکلّفات میں وقت ضائع کرنا حضور علیہ السلام کو ناپسند تھا اس کے متعلق حضورؑ نے فرمایا: ’’میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع جاتا ہے یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے اور فرمایا: کوئی مشغولی اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے مجھے سخت ناگوار ہے فرمایا جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے فرمایا ہم دین کے لیے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں بس دین کی راہ میں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ310)
خدا کا دامن ہمیشہ پکڑے رکھو
اس سلسلہ میں داخل ہوکرتمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہو جائیں گے۔ نہیں۔ خدا کا دامن پکڑنے والا ہر گز محتاج نہیں ہوتا۔اس پر کبھی برے دن نہیں آ سکتے خدا جس کا دوست اور مددگار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہو جاوے کچھ پرواہ نہیں۔ مومن اگر مشکلات میں بھی پڑےتو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن اس کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خدا کے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خدا خود ان کاحافظ و ناصر ہو جاتا ہے یہ خدا جو ایسا خدا ہے کہ وہ علیٰ کل شی قدیرہے وہ عالم الغیب ہے وہ حی قیوم ہےاس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پاسکتا ہے؟ کبھی نہیں خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتوں میں بچالیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے آگ میں پڑ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیزامرنہ تھاکیا ایک خطرناک طوفان میں حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کا سلامت بچ رہنا کوئی چھوٹی سی بات تھی اس قسم کی بے شمار نظیریں موجود ہیں اور خود اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے اپنے دست قدرت کے کرشمے دکھائے ہیں دیکھو مجھ پر خون اور اقدام قتل کا مقدمہ بنایا گیا ایک بڑا بھاری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدعی ہوا اور آریہ اور بعض مسلمان اس کے معاون ہوئے۔ لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فرمایا تھا کہ ’’ابراء‘‘ (بے قصور ٹھہرانا) بس یہ وقت ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے دلوں کو پاک صاف کرو …خدا بے نیاز ہے اسے صادق مومن کے سوا اور کسی کی پرواہ نہیں ہوتی اور بعد از وقت دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے مہلت دی ہے اس وقت اسے راضی کرنا چاہئے۔ لیکن جب اپنی سیاہ کاریوں اور گناہوں سے اسے ناراض کر لیااور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اٹھا اس وقت عذاب الٰہی کو دیکھ کر توبہ استغفار شروع کی اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ جب سزا کا فتوی لگ چکا۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ195-196)
تعلق کے تقاضے
یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دارزندگی بسر کرتے ہیں نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی۔ جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو ؟ تو کہتے ہیں شکر الحمدللہ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعاراللہ کی حرمت نہیں کرتے پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاوٴ یہ نکمی حالت ہے خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا۔اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنی ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض اور مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ او اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو خدا تعالیٰ کے حضور اتنی بات کافی نہیں ہوسکتی کہ زبان سے اقرار کرلیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم ؑ کے وقت سے شروع ہوئی کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو بس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ282)
اپنی زندگیاں وقف کرو
فرمایا انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لیے وقف کردی اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔یاد رکھو کہ یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کےمفاد اور منافع پر ان کو اطلاع ملتی۔جو خدا کے لئے اس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے ہرگز نہیں بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ اس للٰہی وقف کا اجر ان کا رب دینے والا ہے یہ وقف ہر قسم کے ہموم وغموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جب کہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم وغموم اور کرب و افکار سے خواستگار نجات ہے پھر کیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جاوے تو اس پر تو جہ ہی نہ کرے کیا للٰہی وقف کا نسخہ تیرہ سو برس سے مجرب ثابت نہیں ہوا؟ کیا صحابہ کرامؓ اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے مستحق نہیں ٹھہرے؟ پھر اب کون سی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائدہ اٹھانے میں دریغ کیا جاوے بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے نا آشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے نا واقف محض ہیں ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کو مل جاوے تو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں، میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لیے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مرو ںاور زندہ ہو ں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ369-370)
ابدی زندگی کے چشمہ سے فیض پاؤ
میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لیے پیدا کردی ہے مبارک وہی ہے جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ، کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پاچکے یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی، لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے بس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو،کہ وہ تمہیں سیراب کرے۔کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا، اپنے خدا کو وحدہ لاشریک سمجھو جیسا کہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرارکرتے ہو۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب مطلوب اور مطاع اللہ کے سوا نہیں ہے یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہودیوں عیسائیوں یا دوسرے مشرک بت پرستوں کو سکھایا جاتا اور وہ اس کو سمجھ لیتے تو ہرگز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے۔اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ان پر تباہی اور مصیبت آئی اور ان کی روح مجذوم ہوکر ہلاک ہوگئی۔
(ملفوظات جلد2 صفحہ135-136)
جان، مال، عزت خدا کی راہ میں
فرمایا: وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنالیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تاکہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ اس للٰہی واقف کی طرف ایماء کر کے فرماتا ہے بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ اس جگہ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ کے معنی یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلل کا لباس پہن کر آستانہ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبروغرض جو کچھ اس کے پاس ہے خدا ہی کے لئے وقف کرے اور دنیا اور اس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنا دے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ364)
محبت الٰہی اور اس کا تقاضا
خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو اپنی اولاد اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو … اصل توحید کوقائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لواور یہ محبت ثابت نہیں ہوسکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو نری زبان سے ثابت نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے۔یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلوتہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہوتو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے نہیں میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے یہی وہ غرض ہے کہ جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لیے جاری کیا ہے وہ یقینا بے نصیب رہتا ہے اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے۔ اور اس چشمہ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اتار کر آستانہ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کرے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا۔اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہوگیا… تم ان راہوں سے آؤبے شک وہ تنگ راہیں ہیں لیکن ان سے داخل ہوکر راحت اور آرام ملتا ہے۔مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے۔پھینک دو ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے تو یقینا یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور راست باز نہیں بن سکتے ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہوگا جو وفاداری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اورصدق پیدا کرو۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ137-139)
یہ مضمون روزنامہ الفضل 25؍اپریل 2005ء صفحہ3-4 پر شائع شدہ ہے۔ قارئین اس لنک پر اس کو ملاحظہ فرماسکتے ہیں:
https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A20050425.pdf
(چوہدری صفدر نذیر جاویدگولیکی)