• 5 مئی, 2024

بشریٰ داؤد مرحومہ

ایک گمنام استانی
بشریٰ داؤد مرحومہ
تقریر و تحریر میں تاریخ لجنہ کراچی کا روشن ستارہ

یہ نام بچپن سے لڑکپن تک سماعتوں اور بصارتوں کا حصہ بنا رہا۔ مختلف کتب کے سرورق پر طبع شدہ یہ نام اس وقت شاید درسی کتاب کی طرح اپنی طرف متوجہ نہ کر سکا۔ نہ یہ معلوم تھا کہ یہ نام پڑھ سکنے کی عمر تک یہ ستارہ واقعی آسمان پر جگمگانے کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے چلا گیا تھا۔

ان کی وفات کے قریباً انیس سال بعد الفضل آن لائن لندن کے 22؍جنوری 2022ء کے شمارہ میں محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ کے مضمون ’’ایک تھی بشریٰ‘‘ پر نظر پڑی۔ گو یہ مضمون مصباح کے بشریٰ داؤد نمبر۔ دسمبر 1993ء میں شائع ہوا تھا لیکن اس کی دوبارہ اشاعت نے ایک گمنام استانی سے ملا دیا۔

عنوان دیکھ کر یہ علم نہ تھا کہ ایسا گہرا ایمان افروز مضمون ہوگا۔ یہ خیال کیا کہ یہ ذکر خیر ایسا ہی ہوگا جیسا عموماً لکھا جاتا ہے۔ لیکن مضمون کیا تھا، لفظ لفظ جماعت سے محبت اور خدمت کا عکاس۔ مضمون کی روانی نے جذبات کی فروانی کو بڑھا کر اشکبار کرتے ہوئے آخری حرف تک چمٹائے رکھا۔مضمون پڑھ کر دل ایسا اداس ہوا جیسے یہ سانحہ کل ہی رونما ہوا ہو۔

کراچی کی لجنہ کی مساعی کا خاکسار تہ دل سے معترف ہے۔ والدہ کے ساتھ بیت الرحمٰن، گیسٹ ہاؤس، احمدیہ ہال، کسی گھر کی بیٹھک، کسی صحن میں چارپائیوں پر یا مسجد میں کبھی کلاسز، اجلاسات، میٹنگز، جلسہ سیرت النبیؐ میں شرکت کرنا بھی کچھ کچھ مستحضر ہے۔ نصاب وقفِ نو کے علاوہ کونپل، غنچہ کتاب کو ہاتھوں میں لئے ہم ان وقف نو کلاسز میں جاتے۔

کونپل، غنچہ، گل، گلدستہ اور گلشن احمد نامی کتابچہ و کتب نے جس طریق پر احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت میں کردار ادا کیا ان کو تاریخ سراہتی چلی جائے گی۔ ان کی شریک مصنفہ بشریٰ داؤد صاحبہ تھیں۔

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتب ’’ولادت سے نبوت تک‘‘ اور دوسری کتاب ’’نبوت سے ہجرت تک‘‘ ان کے علاوہ کتابچے مقدس ورثہ، چشمہٴ زمزم، اصحاب فیل، پیاری مخلوق، انبیاء کا موعود، امن کا گہوارہ، مکّۃ المکرمہ، وہ ابتدائی کتب تھیں جو بچپن میں ہم نے پڑھیں تھیں۔ ان کتب کی خاص بات بچہ اور والدہ میں سوال و جواب ہے۔ یہ کتب تربیت سے زیادہ تعلیمی رنگ رکھتی ہیں۔ اسی لئے مرحومہ موصوفہ کو ایک استانی کہا جا سکتا ہے۔

اب یہ کتابچہ گھر گھر، مسجد مسجد پائے جانے کا سارا کریڈٹ بھی لجنہ اماء اللہ کراچی کی اس ٹیم کو جاتا ہے جسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیاں قرار دیا اور ان مکھیوں نے بشریٰ داؤد صاحبہ کو اپنی ملکہ قرار دیا۔

مجھے یاد ہے جس روز ’’چشمہٴ زم زم‘‘ کا مضمون پڑھا تھاتو سکول میں چند روز بعد اسی موضوع کا سبق تھا۔ درسی کتاب میں ایک شخص یا ایک قبیلہ کی طرز پر کہانی بیان ہوئی تھی۔ کلاس ٹیچر نے کہا کہ ایک قافلہ گزرا جو قریش قبیلہ تھے۔ ان میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی بھی ہوئی۔ اس پر خاکسار نے قریش کے بجائے قبیلہ جرہم کا بتایا تھا۔ تو انہیں حیرت ہوئی تھی۔

ان کتب اور اطفال و وقف نو کلاسز میں سکھائے گئے اسلامی اور تاریخی ناموں کےصحیح تلفظ اور سنین کے سبب سکول میں سبق پڑھتے ہوئے تلفظ کی صحیح ادائیگی اور معلومات پر اساتذہ اظہار حیرانی ضرور کرتے۔

حورِ جہاں بشریٰ المعروف بشریٰ داؤد، حوری کے نام سے لجنہ اماء اللہ کراچی کی کتب کے ذریعہ تعارف تھا ان کتب کا ہماری تعلیم و تربیت میں اہم مقام ہے۔ لوگ درختوں کے بیج اس لئے لگاتے ہیں کہ آئندہ نسل اس سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن درخت کے محدود اثمار سے محدود زمان و مکان لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ اس کے بالمقابل کتب وہ اشجار طیبہ ہیں جو زمان و مکان کی حدود سے بالا چہار دانگ عالم میں اپنے اثمار سے لوگوں کو مستفیض کرتی چلی جاتی ہیں۔

آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 23؍جولائی 1993ء کے خطبہ میں آپ کا ذکر خیر فرمایا:
مرحومہ کی وفات پر لجنہ اماء اللہ کے جریدہ مصباح نے جناب مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب کے زیر ادارت 96 صفحات کا۔ محترمہ بشریٰ داؤد صاحبہ نمبر شائع کیا۔ الاسلام ویب سائٹ پر لجنہ اماء اللہ سیکشن میں مصباح کے اس خصوصی نمبر کا اضافہ مرحومہ موصوفہ کی سیرت پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔

اس احمدی خاتون کی صفات کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک تین بچوں کی ماں نے گھر بار سمیت جماعت کی قلمی و لسانی خدمت کو امر کر دیا۔ سیرت النبیﷺ کے موضوع پر ایک سحر انگیز مقررہ اور سیرت کے بیان میں رطب اللسان کتب کی مصنفہ تھیں۔ وفات سے قبل لاہور میں سیرت النبیﷺ کے کامیاب جلسوں میں ان کی تقاریر کا طوطی بولتا تھا۔

الاسلام ویب سائٹ پر لجنہ اماء اللہ کا سیکشن پر انہی کا کام نمایاں نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس مضمون کے عنوان میں گمنام کا لفظ استعمال کیا ایک وجہ تو یہ کہ ان کتب کی وجہ سے وہ پردہ غیب سے ہی ایک احمدی نسل کی استانی ٹھہریں۔

دوسرا یہ کہ ان کی وفات کے وقت بھی کئی لوگ ان کی ان خوبیوں سے نا آشنا تھے تاوقتیکہ حضرت خلیفۃ المسیح کی لسان مبارک سے ان کے لئے داد تحسین عطا ہوئی۔

مصباح کے نمبر میں شامل آپ کے والد صاحب کو لکھے گئے چند تعزیتی خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ واقعی ایک گوہر نایاب تھیں۔

• محترم عطاء المجیب صاحب راشد امام بیت الفضل لندن نے لکھا کہ: ’’جب حضور انور نے خطبہ جمعہ میں ان کی بے شمار خوبیوں کا بھرائی ہوئی آواز میں ذکر فرمایا تودل جذبات اور جذبات رشک سے بھر گیا۔ ایسا خوش انجام کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل و احسان سے ہی ہوتا ہے۔ آپ کا اور آپ کے محبین کا دل اس لائق، ممتاز، خادم، دین ہستی کی جدائی سے محزون تو ہے لیکن کیا ہی بابرکت اور مبارک انجام ہے جو انہیں نصیب ہوا مبارک باد کے لائق ہے وہ وجود جس کی محبت اور خدمات کے تذکرہ نے خدا تعالیٰ کے محبوب امام کے دل میں یہ جذبات غم وحزن پیدا فرمائے جو مسلسل دعاؤں میں ڈھلتے چلے جارہے تھے۔ اس موقع پر دلی جذبات تعزیت کے ساتھ اس مبارک انجام پر اس قابل فخر بیٹی کے والد گرامی کی خدمت میں مبارک باد بھی عرض کرتا ہوں جذبات کے دو دھارے بیک وقت ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ بہت خواہش ہے کہ میں آپ کی موصوفہ قابل فخر بیٹی کی زبانی سیرت نبوی کامبارک تذکرہ سن سکوں۔ اگر ان کی تقاریر ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ ہوں تو میری درخواست ہے کہ کسی موقع پر ارسال فرمائیں تا میں بھی وہ آواز سن سکوں جو حضور انور کے ارشاد گرامی کے بعد تاریخ احمدیت کا حصہ بن گئی ہے۔‘‘

• محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد مرحوم نے لکھا کہ: ’’عزیزہ بشری داؤد صاحبہ کی وفات بڑے صدمے کا باعث بنی خصوصاً جب میری بیوی نے مجھے ان کی خوبیوں جماعت کے لئے ان کی وابستگی اور جماعت کی خدمت کے لئے ان کے جذبہ کے بارے میں تفصیل بتائی۔ میری بیوی بھی آپ سے اور دیگر عزیزان سے تعزیت کا اظہار کر رہی ہیں۔ اگرچہ اس وفات پر جس طرح میری بیوی نے صدمہ محسوس کیا ہے اس سے تو یہ لگتا ہے کہ خود ان سے عزیزہ بشری کی تعزیت کرنی چاہئے۔ اللہ آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے آپ کو اور دیگر تمام عز یزان کو خود تسلی اور سکینت بخشے۔‘‘

• حافظ مظفر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ: ’’آپ کے ساتھ بنگلہ دیش کے سفر میں ان کی لکھی تقاریر (جو آپ ساتھ لائے تھے) دیکھ کر تو میں حیران ہی رہ گیا اور جب حضورانور ان کی سیرت کی تقریر کا دلنشین تذکرہ فرما رہے تھے تو میں خود جو حدیث کا طالب علم اور سیرت میرا من بھاتا موضوع ہے حسرت سے سوچ رہا تھا کہ کاش ان کی کوئی تقریرسنی ہوتی۔ اگرچہ کراچی میں گذشتہ میٹنگ میں مجھ سے لاہور میں اپنے دورہ اور تقاریرکا تذکرہ کیا مگر مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ لکھنے کے ساتھ ایسا اچھا بولتی بھی ہیں۔ کراچی میں سیرت کے جلسوں کی وہ سرخیل تھیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی کتب سے مستفید و مستفیض ہونے والوں کے دلوں سے نکلی دعائیں اور ان کی ان نیکیوں اور خدمات کافیض ان کی نسلوں تک جاری رہے۔ آمین

(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

جماعت یوکے کی نئی ویب سائیٹ کا افتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ