• 9 جولائی, 2025

محترمہ امینہ ایدل وائز المیدادیاز برازیل

محترمہ امینہ ایدل وائز المیدادیاز برازیل
پہلی احمدی خاتون مبلغہ

محترمہ امینہ ایدل وائز اور آپ کے آباؤاجداد پرتگال سے آکر برازیل کے شہر ریودے جینزو Rio de Janeiro میں آباد ہو گئے تھے۔ آپ کی شادی نیوی کے ایک کرنل سے ہوئی تھی۔آپ ان کے ساتھ امریکہ اور میکسیکو میں 10 سے 12 سال رہیں۔ آپ کو انگریزی اور سپینش خوب اچھی طرح آتی تھی۔ آپ برازیل میں خواتین کے ایک رسالے کی کچھ عرصہ ایڈیٹر بھی رہیں۔ ان کی مصروفیات اور اشغال میں سے ایک پینٹنگ بھی تھی۔ آپ قدرتی مناظر کی پینٹنگ کرتی تھیں۔ Copacobana کے عالمی شہرت یافتہ علاقہ میں جہاں آپ رہتی تھیں اپنی بنائی ہوئی سینریاں باہر نکال کر رکھ دیتیں تھیں اور سیاح منہ بولا دام دے کر انہیں خرید کر لے جاتے تھے۔ اس طرح آپ اپنے اخراجات پورے کر لیتی تھیں اور مصروف بھی رہتی تھیں۔ آپ قدرتی مناظر کے خاکے بنانے کے لیے جزیرہ Paqueta جایا کرتی تھیں۔ جنرل سیکرٹری مکرم سید محمود احمد کی اہلیہ کا وہاں آبائی مکان تھا اور انہی کے ساتھ ان کا دوستانہ تعلق بھی تھا۔ مکرم سید محمود احمد کی اہلیہ برازیلی تھیں چنانچہ مجھے انہوں نے فون پر اطلاع دی کہ امینہ صاحبہ ہمارے جزیرے پرآرہی ہیں تو میں ان کو تبلیغ کروں۔ ویک اینڈ پر میں وہاں چلا گیا اور ناشتے کی میز پر تبلیغی باتیں ہوئیں۔ میں نے انہیں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ انگریزی زبان میں پڑھنے کو دیں۔وہ دونوں کتب ساتھ لے گئیں اور دو ہی دن میں انہیں پڑھ ڈالا اور کہنے لگیں کہ میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتی ہوں۔ میں نے عرض کی کہ اتنی جلدی کیا ہے؟۔دعا کر کے تسلی کر لیں۔کچھ اور لٹریچر کا مطالعہ فرما لیں۔ فرمانے لگیں کہ نہیں آپ مزید دیر نہ کریں میں نے جو سمجھنا تھا سمجھ لیا ہے۔میں نے ان سےپوچھا کہ کیا کوئی رؤیا وغیرہ دیکھی ہے؟ کہنے لگیں ہاں! اور بتایا کہ Floria Napallis شہر کی بات ہے نومبر 1975ء میں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت میں نے کشف میں ایک فرشتہ دیکھا تھا جو تمہاری طرح کا تھا اور آج ان کتب کے مطالعہ سے مجھے وہی سکون و اطمینان اور روحانی وجدان کی کیفیت حاصل ہوئی ہے جو اس وقت کشف میں محسوس ہوئی تھی۔چنانچہ آپ اپنی نوٹ بک لے کر آئیں جس میں وہ کشف درج تھا۔ امینہ صاحبہ نے بتایا کہ اس زمانہ میں پادریوں کی حکومت تھی۔ چرچ میں کسی عورت کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور مجھے سوالات سوجھتے رہتے تھے۔میں نے ایک دن کچھ سوال کیے تو پادری نے مجھے چرچ سے نکال دیا جس پر میں نے اپنی بہت بے عزتی محسوس کی اور گھر آ کر اپنا کمرہ بند کر کے خوب روئی اور اللہ تعالیٰ یعنی آسمانی باپ سے فریاد رسی کی کہ اے آسمانی باپ! آج میری تیرے گھر میں بے عزتی ہوئی ہے تب اچانک میں نے یہ کشف دیکھا جو میں نے سبز روشنائی سے لکھ کر رکھا ہوا ہے۔

کشف امینہ ایدل وائز بعنوان سر سبز

(یہ وہ اردو ترجمہ ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں بتاریخ 4؍مئی 1987ء کو بذریعہ ڈاک ارسال کیا گیا تھا)

اس نے سبز لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔جیسے زیتون کا رنگ ہوتا ہے۔ اس کے لباس میں بڑے بڑے بٹن تھے۔ اس کے سیاہ رنگ کے جوتے تھے۔ اس نے اپنی کمر میں ایک سنہری پٹی کسی ہوئی تھی جس میں ایک سنہری نوک دار تلوار لٹک رہی تھی۔ اس کے سر پر ایک کپڑا رکھا ہوا تھا جس میں سنہری کام ہوا تھا اور نیچے ایک کھلی سی شلوار زیب تن کی ہوئی تھی۔ وہ میرے کمرے میں کھلے دروازے سے آیا۔ اس کی آواز بلند اور مضبوط تھی۔اس کا رنگ سانولا اور آنکھیں موٹی موٹی تھیں۔ اس نے اپنی تلوار پیٹی میں سے نکال کر فضا میں لہرائی اور میں پہلے تو خوف محسوس کرنے لگی۔ پھر میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا ’’میں تمہارا محافظ ہوں اور تمہارا دفاع کرنے آیا ہوں‘‘ یہ سن کر میں پر سکون اور مطمئن ہوگئی۔ یہ چند گھڑیاں جو سکون و اطمینان کی گزریں میری تمام زندگی کو پر مسرت اور خوش آئند بناتی ہوئی مجھ پر محیط ہو گئیں۔

وہ میرا محافظ کہاں ہے؟ یہ میں اس سے دریافت کرتی مگر اس خیال سے کہ ایسا پوچھنا کہیں اسے ناگوار نہ گزرے چپ ہی رہی۔وہ تو زندگی بخش تھا بلکہ لافانی! وہ انسان تھا یا ایک انسان کے لباس میں فرشتہ تھا!وہ چند گھڑیاں جو میں نے اس کے ہمراہ گزاریں انہیں میں نے محسوس کیا کہ وہ تو ایک مجسم محبت تھا۔ کیا اعتماد تھا! کیا بھروسہ تھا!وہ جو بھی تھا۔ میری خواہش تو یہی تھی کہ یہ حالت سکون واطمینان جو مجھے حاصل ہوا وہ ہمیشہ کے لیے جاودانی ہوجائے۔

پادری لوگ مجھے دن رات پریشان کرتے ہیں اور مجھے مقدس مذہبی تحریرات کے مطالعہ سے روکتے ہیں اور اس طرح اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہیں مگر اب تو مجھے ان کے خلاف ایک محافظ مل گیا ہے۔ میں بہت خوش ہوئی اور ایک پر مسرت چیخ میرے وجود کے اندر سے یعنی میری روح میں سے بلند ہوئی اور مجھے یوں لگا جیسے ساری کائنات اس کو سن رہی ہے اور اس میں ایک کمزور عورت کو ایک محافظ ایک بہت عظیم شخص مقررکیا گیاہے۔مجھے یوں لگا جیسے میرا خدا مجھ میں سما گیا ہے اور مجھے مُردوں میں سے نکال کر زندوں میں شامل کر دیا ہے۔

جو صر ف میں نے ہی محسوس کیا اور جیسے اپنے شعور میں صرف میں نے ہی سمجھا۔

Floria Noplis …November 1975

اقرار: میں ایدل وائز المیدادیا امینہ۔ خداتعالیٰ کی قسم کھا کر اقرار کرتی ہوں کہ یہ میرا ایک سچا کشف جو بذریعہ اقبال احمدنجم اسلام و احمدیت کے قبول کرنے سے پورا ہوا ہے۔

(ایدل وائز 3؍مئی 1987ء)

آپ کا وقف اور دین اسلام و احمدیت کی خدمت

میں نے امینہ ایدل وائز صاحبہ سے درخواست کی کہ آپ وقف کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے وقف کی درخواست لکھ دی جو حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اور ہدایت فرمائی کہ مشن ہاؤس میں انہیں ایک کمرہ دے دیا جائے اور 25،20سال کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تراجم کروائیں۔ پہلے پمفلٹ پھر کتابچے اور پھر کتابیں۔ چنانچہ خاکسار نےحضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق عمل کیا وہ اپنے بیٹے کے مکان Copacabons سے مشن ہاؤس تشریف لے آئیں۔ خاکسار نے انہیں سٹیشنری اور ڈکشنریاں وغیرہ لا دیں اور انہوں نے تندہی سے ترجمہ کاکام شروع کر دیا۔ جو ترجمہ وہ دن بھر کرتیں میں رات کو اس پر نظر ثانی کرتا تھا۔ یہ کام بڑی تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے محترمہ کو ان تھک بڑی تیزی سے لگاتار آٹھ آٹھ گھنٹے کام کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ جو تراجم آپ نے کیے میں وہ لکھتا ہوں۔

  1. میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
  2. اسلام کیا ہے؟
  3. احمدیت کیا ہے؟
  4. حضرت عیسیٰ علیہ السلام
  5. اسلام و احمدیت
  6. حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے
  7. جہاد
  8. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
  9. مسیح ہندوستان میں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام
  10. محمدﷺ بائبل میں
  11. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
  12. نماز کی کتاب
  13. ہماری تعلیم از حضرت مسیح موعود علیہ السلام
  14. اسلامی اصول کی فلاسفی از حضرت مسیح موعود علیہ السلام
  15. اسلام کیا ہے؟
  16. مذہب کی تجدید
  17. اسلام کا اقتصادی نظام از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
  18. بلال رضی اللہ عنہ
  19. حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پر مشتمل مختلف اقتباسات۔
  20. پرتگالی زبان میں ترجمہ قرآن کریم

مندرجہ بالا تراجم پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور ہمیں آپ نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ بجھوایا اور پھر دن رات ترجمے کاکام شروع ہوگیا۔ اس ترجمے کو صرف ہم دو ہی کرنے والے تھے۔محترمہ جو ترجمہ دن بھر کرتیں میں رات گئے تک لفظ لفظ دیکھتا تھا۔ خاص طور پر عربی چونکہ محترمہ کو نہیں آتی تھی اس لیے میں آیت آیت دیکھتا تھا اور جس جس لفظ کے متعلق تبادلہ خیال کرنا ہوتا تھا وہ ہم ناشتے کی میز پر فائنل کرتے جاتے تھے اور ٹائپسٹ کو دیتے جاتے تھے۔ یہ مکمل ہو کر جب چھپا تو ہم نے کہیں اپنے نام کا ذکر نہیں کیا۔ مگر حضور پر نور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت خاکسار اور سسٹرامینہ کا ذکر بغرض دعا دیباچہ میں لکھوادیا۔ یہ ہمارا ترجمہ جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سے پیش کئے جانے والے پہلے 50 تراجم میں سے ایک ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے محترمہ امینہ ایدل وائز آف برازیل کو 1989ء میں احمدیہ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اپنی گراں قدر خدمات سے عظیم الشان مثال قائم کرنے کی وجہ سے اور خصوصاً قرآن کریم کا پُرتگالی ترجمہ کرنے کی وجہ سے پہلی احمدی مشنری خاتون کے خطاب سے نوازا۔

(بحوالہ محسنات، احمدی خواتین کی سنہری خدمات)

احمدیہ مشن پرتگال کا قیام

یہ کام بھی سسٹر امینہ کو سر انجام دینے کی توفیق ملی۔ 1982ء میں میرا بائی پاس آپریشن ہوا تھا اور اس کے بعد میری پرتگال کے لیے تقرری ہوئی تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اتنی جلدی ملک سے باہر جانے سے روک دی پھر جب اجازت ملی تو مجھے 1985ء میں برازیل بھجوایا دیا گیا پھر وہاں سسٹر امینہ جیسی قابل خاتون شامل سلسلہ عالیہ احمدیہ ہو گئیں تو صرف قرآن کریم کے ترجمہ مکمل ہو جانے کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ آپ کو وہاں وقف عارضی پر بھجوا کر پرتگال میں جماعت کی رجسٹریشن کرا لی جائے۔ آپ سے پوچھا تو آپ کو آمادہ پایا۔ بالآخر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت سے ان کا پاسپورٹ بنوایا اور ٹکٹ خرید کر انہیں دے دیا گیا۔ میں نے اپنی طرف سے پاور آف اٹارنی وکیل صاحب کے نام بنوا دیا تھا۔ چنانچہ 4؍نومبر 1987ء کو احمدیہ جماعت پرتگال کا قیام عمل میں آگیا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔ الحمد للّٰہ کہ پرتگال مشن کے بانیوں میں اُن کا اور خاکسار کا نام بھی شامل ہو گیا۔ سسٹر امینہ پر تگال کا مشن رجسٹرڈ کرا کے جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کے بعد اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شرف حاصل کر کے واپس برازیل لوٹیں تو بہت خوش و خرم تھیں۔

برازیل میں مشن ہاؤس کی خرید

آقا نے انہیں جماعت احمدیہ برازیل کے لیے مشن ہاؤس کی خرید میں خاکسار کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ ریودے جنیرو شہر کے مضافات میں Petropolis کا قصبہ ہے۔ آپ نے مجھے بتایا کہ وہاں پر ان کی سہیلی رہتی ہے اور اس کا خاوند اپنا آبائی مکان فروخت کرنا چاہتا ہے۔ ان کو اپنے کاروبار کے لیے فوری رقم درکار ہے ورنہ وہ شائد نہ بیچتے۔ قصبہ سنٹر سے 10۔ 15 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ مین روڈ پر ہے۔ مکان کی چوکی بلند ہے۔ ساتھ گیسٹ ہاؤس، سرونٹ کواٹر بھی ہے۔ منی فٹ بال کی ایک گراؤنڈ بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف پہاڑی ہے اور زمین اوپر تک پھیل گئی ہے۔ ہم نے جا کر دیکھی تو ہم تینوں کو بہت پسند آئی۔ (یعنی خاکسار،سسٹر امینہ اور مکرم سید محمود احمد جرنل سیکرٹری کو)

میں نے جب بتایا کہ ہمیں اپنی مذہبی جماعت کے مرکز کے طور پر اسے خریدنا ہے تو کہنے لگے کہ ہم تب تو صرف چند پرانی یاد گار چیزیں اٹھائیں گے باقی سب کچھ مشن کے لئے چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ حضور پُرنور رحمہ اللہ کی اجازت سے یہ جائیداد خرید لی گئی جو ہمارا مشن ہاؤس برازیل ہے۔جس میں اب تو مسجد بن گئی ہے اور اس کا نام بھی بیت الاول حضور پُرنور نے رکھا ہے۔

سسٹر امینہ اید ل وائز کے اخلاق حسنہ

عبادت گزار،سادہ مزاج اور بااخلاق خاتون تھیں۔ بعض اوقات نماز کے بعد چہرے پر کپڑا ڈال کر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔جب پوچھتا کہ کیا ہوا ہے تو خاموش رہتی تھیں اور خاص حالت کے دور ہونے کے بعد آپ کا چہرہ دیکھنے کا اتفاق ہوتا تو چہرہ پسینہ پسینہ اور سفید نظر آتا۔یہ جذب کی روحانی کیفیت جو ان پر طاری ہوا کرتی تھی، میرے اصرار پر انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ ایسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ ایک پاک قوت مجھ میں داخل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے مجھے اپنے پر قابو نہیں رہتا۔ چہرہ سفید ہو جاتا ہے اور پسینہ آجاتا ہے اور سخت گرمی لگتی ہے۔مگر مجھے دلی راحت اور سکون و قرار نصیب ہوتا ہے۔

آپ اپنے بیٹے اور پوتی کو ملنے کبھی کبھی Copacabons جایا کرتی تھیں اور سبزیاں بنا کر دے آتی تھیں۔اپنی پوتی کے لیے تحائف بھی لے جایا کرتی تھیں۔آپ کے بیٹے نے دو شادیاں کی ہوئی تھیں۔ پہلی بیوی سےآپ کے پوتے پوتیاں پڑھ لکھ کر برسر روزگار ہو چکے تھے۔ آپ بڑی محبت سے انہیں یاد کرتیں اور انہیں دعوت الی اللہ بھی کرتی تھیں۔دوسری بیوی اٹالین تھی جو ساتھ Copacabons میں رہتی تھی۔ وہ اسے اتنا پسند تو نہیں کرتی تھیں مگر کبھی اُسے بُرا بھی نہیں کہتی تھیں۔ اکثر ملنے جاتی تھیں۔ آپ کو قبولیت دعا کے کئی نشانات عطا ہوئے تھے۔ پُرتگال میں جماعت کی رجسٹریشن کے دوران آپ کو کئی دقتیں درپیش ہوئیں تو محض دعا سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مشکل کام آسان ہو گئے۔ مہمان نواز بھی بہت تھیں۔جب بھی اپنے بیٹے اور پوتی کو مل کر آتیں تو کچھ نا کچھ ضرور لے کر آتیں۔ انناس آپ کو بہت پسند تھے۔ کیلے بہت کھاتی تھیں اور اس کی سوئیٹ ڈش بنا کر کھاتی تھیں۔ فرائی پین میں پانی ڈالتیں اور کیلا ڈال کر چھیل لیتی تھیں اور چینی ڈال کر چمچ سے کھا لیتی تھیں۔ کھانوں میں لوبیا چاول کھاتی تھیں جو برازیلین لوگوں کی عمومی خوراک ہے۔ میں جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے والوں کے لئے آنے والوں کے لیے پلاؤ تیار کرتا تھا اور یہ دارالضیافت کی طرف سے ضیافت ہوتی تھی۔ آپ کو پلاؤ بہت پسند تھا۔ جب بھی پوچھتا کہ کیا پکائیں تو فرماتیں پلاؤ۔چنانچہ یخنی بنا کر فریج میں رکھ چھوڑتا تھا۔ دوپہر کو آپ خود ہی اس میں سے تھوڑی سی یخنی لے کر اس میں چاول دَم کر کے پلاؤ بنا لیتی تھیں۔ آپ کے ساتھ گزرا ہوا وہ تھوڑا سا وقت بھی نہیں بھولتا اور ہمیشہ دعاؤں میں یاد رہتی ہیں۔ احباب کرام سے بھی درخواست ہے کہ اُن کے لیے دعا کریں۔ آپ 23؍اکتوبر 1999ء کو 82 سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

(اقبال احمد نجم۔لندن)

پچھلا پڑھیں

جماعت یوکے کی نئی ویب سائیٹ کا افتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ