سورۃ النور کی آیت استخلاف میں خدا تعالیٰ نے قیام خلافت کےانعام کے ذریعہ مومنوں کو دوہری خوشخبریاں دی ہیں۔
- دین کو تمکنت حاصل ہوگی۔
- خدا خلافت کے سایہ میں بسنے والوں کے تمام مصائب و آلام دکھ درد اور پیش آنے والے غم دور کر دے گا۔
1984ء میں حکومت پاکستان نے خلافت احمدیہ کو نیست و نابود کرنے اور جماعت کو خلافت سے دور کرنے کا بہت بڑا منصوبہ بنایا۔ جس کا اعلان حاکم وقت نے خود ایک بدنام زمانہ ترمیمی آرڈیننس کے ذریعہ کیا۔ تمام حالات سے باخبر رہنے کے لیے متعدد ایجنسیوں کو فعال کر دیا گیا۔ لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ خلافت کا انعام تمام قدرتوں کے مالک خدا کے ہاتھوں عطا ہوتا ہے۔ یہ پودا کسی کمزور ہاتھ کا لگایا ہوا نہیں جس کو اکھاڑ پھینکنا کچھ آسان ہو۔وہ قادر مطلق خدا ہر لمحہ اور ہر موڑ پر اپنے بندوں کی خود راہنمائی فرماتا ہےاور اپنی عطا شدہ نعمت کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔
چنانچہ ایک طرف انسانی نظام سے منسلک ایجنسیاں مستعد ہوئیں تو دوسری طرف خدا ئے قدوس کی راہنمائی میں چلنے والوں کی طرف سے مسجد مبارک ربوہ میں قافلہ کی اسلام آباد روانگی اور بحفاظت رسیدگی کے لیے احباب کی خدمت میں دعا کی درخواست کا اعلان ہوا اور پھر حسب اعلان اور پروگرام ایک قافلہ اسلام آباد (پاکستان) کے لیے روانہ بھی ہوگیا۔ اس وقت تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ خدا نے جس قافلے کے اسلام آباد جانے کا اعلان کروایا ہے وہ اسلام آباد کہاں ہے۔ بعد میں جب پتہ چلا کہ جو قافلہ اسلام آباد(پاکستان) جا رہا تھا وہ تو اصل قافلہ نہ تھا بلکہ اصل قافلہ تو لندن پہنچ چکا ہے اور پھر جلد ہی خدا نے جماعت کو ایک وسیع جگہ عنایت فرمادی۔جس کا نام اسلام آباد رکھ کر بتایا گیا کہ اصل قافلہ اس اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھا۔جو دشمن کے ہر شر سے نجات پا کر بخیرو عافیت اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ تمام روئے زمین پر بسنے والے مومنوں کے غم اور فکر دور ہوئے۔ اب اس وسیع زمین میں جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے خود یہاں متعدد جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ بلکہ ایک مرتبہ تو اپنے اہل و عیال کے ساتھ دو تین ماہ قیام کی سعادت بھی مل گئی الحمد للّٰہ۔لیکن اب تو اس قطعہ زمین کی قسمت بدل چکی ہے۔ اب سمجھ آتی ہے کہ قافلہ اسلام آباد جانے سے کیا مراد تھی۔
پیارے آقا سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے مجھے گزشتہ دنوں 7؍ سے 27؍ستمبر 2022ء اسلام آباد میں وقف عارضی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ربوہ سے محض ایک مختصر قافلہ نہیں بلکہ سارا قصر خلافت ہی یہاں منتقل ہو گیا ہے۔ جس میں قصر خلافت کی عمارت کے ساتھ بہت خوبصورت مسجد مبارک اور بنیادی ضروری دفاتر جن میں نہایت مستعد نوجوان کارکنان جو آج کا کام آج ہی کرنے کے عادی ہیں۔ خواہ نماز عشاء تک یا اس کے بھی بعد تک بیٹھنا پڑے۔ دفتر روزانہ کھلتے ہیں۔ ہاں البتہ کارکنان اپنی سہولت کے لیے شاید باری باری یا اپنی ضرورت کے مطابق ہفتہ میں ایک چھٹی کر لیتے ہیں۔ سارے کام اکثرو پیشتر کمپیوٹر پر ہوتے ہیں اس لیے اگر ضرورت پیش آئے تو کارکن اپنا کام گھر لے جا کر بھی کر لیتے ہیں۔
لنگر خانہ مسیح موعود علیہ السلام بھی خدمت میں مستعد ہے۔ صبح دوپہر شام تینوں وقت کھانا ملتا ہے۔ تینوں اوقات میں مختلف قسم کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔
اسلام آباد کا ماحول بہت خوبصورت، کشادہ اور خوش گوار ہے۔ خلیفہٴ وقت کی موجودگی میں ہر طرف روحانیت کی بارش محسوس ہوتی ہے۔ ملنے جلنے والے یا راستہ چلتے ہوئے قریب سے گزرنے والے ایک دوسرے کو سلام کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ مناظر دیکھ کر ربوہ کے پچاس سال پہلے کے مناظر آنکھوں کے سامنے گزر جاتے اور یوں محسوس ہوتا کہ اس قافلے کے ساتھ ربوہ کا سارا ماحول بھی قافلہ سالار نے یہاں منتقل کر لیا ہے۔
میرا وقف عارضی پروگرام تین ہفتے کا تھا۔ جن میں سے تقریباً دو ہفتے سرائے نصرت اسلام آباد گزارنے کا موقع ملا۔ اس طرح حضور انور کی قربت اور فیوض کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔یہ احسان بھی پیارے آقا کا ہی ہےجنہوں نے شفقت فرمائی چنانچہ ملاقات میں فرمایا کہ آپ سرائے نصرت میں رہتے ہو سارا دن تبشیر میں ڈیوٹی کر رہے ہو نمازیں یہاں ادا کرتے ہو اور بتاؤ! تمہیں کیا چاہئے۔ یہی تم نے لکھا تھا نا؟ خاکسار نے عرض کیا جی حضور کی شفقت ہے اور شفقت ہی چاہئے۔
جہاں تک تبشیر میں ڈیوٹی کا تعلق ہے وہ تو وقت گزارنے کے لیے ایک مفید بہانہ تھا۔ اگر کوئی فرانسیسی خطوط آتے تو مجھے ترجمہ کے لیے مل جاتے اور مجھے اردو ترجمہ کرنے کی سعادت مل جاتی۔ ان ایام میں جن خطوط کا ترجمہ کیا ان کی کل تعداد شاید ایک سو سے زائد نہ ہوگی۔ فالحمد للّٰہ۔ البتہ خدا کا شکر ہے کہ ان ایام میں پانچوں نمازیں حضور کی اقتداء میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور مسجد میں آتے جاتے قریب سے دیدار بلکہ دو تین مرتبہ تو نماز کی ادائیگی کے بعد رخ انور ہماری طرف موڑ کر حضور نے نظر شفقت فرمائی۔ حضور انور نے کیا دیکھنا تھا کیا دیکھا مجھے تو حسن و جمال سے بھر پور چہرہ شریف کا دیدار ہو گیا اور میری حاضری بھی لگ گئی۔ میں نے فوراً کہا کہ میرے نا صرف پیسے پورے ہوگئے بلکہ بہت سا منافع بھی محبوب آقا نے عطا فرما دیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ جَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔
عام طور پر چلتے پھرتے جو شخص بھی مجھے دیکھتا ہے تو اس کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ میری ٹانگوں میں کوئی گڑبڑ ہے۔لیکن جب میں ملاقات کے لیے حضور انور کے دفتر میں داخل ہوا تو دیکھتے ہی فرمایا یہ تمہاری ٹانگوں کو کیا مسئلہ ہے؟ یہ کوئی ایکسیڈنٹ کا اثر ہے یا کچھ اور ہے خاکسار نے عرض کیا۔ حضور! ڈاکٹروں نے بہت تجزیہ کر کے یہی بتایا ہے کہ ایک ایکسیڈنٹ کے اثرات دوبارہ ظاہر ہو رہے ہیں۔ اب اس لمحہ کے بعد وہاں قیام کے دوران اور اب یہاں واپس آ کر بھی اب تک ٹانگوں میں،کمر میں یا گردن میں کسی جگہ کچھ بھی درد محسوس نہیں ہوا۔ الحمد للّٰہ۔
اور ہاں خدا تعالیٰ کے وہ بزرگ خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جن کو خدا دشمن کے مکروہ ارادوں سے اپنی خاص قدرت سے بحفاظت یہاں لایا اور جن کے سفر ہجرت کے آغاز میں قافلے کا اسلام آباد کے لیے سفر اعلان ہوا وہ اپنی زندگی کے سب مراحل بہت تیزی اور نہایت کامیابی سے طے کرتے ہوئے یہیں اپنے خدا کو پیارے ہوگئے اور اب حضرت بیگم صاحبہ کے ساتھ اسی اسلام آباد کے مبارک قطع زمین میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ ارْفِعْ دَرَجَاتُہُمْ اور ابن منصور حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رفقاء کے ساتھ یہاں قیام فرما ہیں اور جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی مشن کی قیادت فرما رہے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اَیَّدْھُمْ بِرُوْحِ الْقُدُسِ
(محمد ادریس شاہد۔ فرانس)