• 16 مئی, 2024

تو اس کے ساتھ ہے جس سے تو محبت کرتا ہے

اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ (الحدیث)
تو اس کے ساتھ ہے جس سے تو محبت کرتا ہے

آنحضورﷺ نے فرمایا کہ حکمت اور دانائی کی بات تو مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے اسے جہاں سے بھی ملے لے لے کیونکہ وہی اس کا بہتر حق دار ہے

(ترمذی)

حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ
’’علم ایسی چیز نہیں ہے کہ وہ صرف درس گاہوں میں شامل ہو کر یا مسجد کے خطبات سن کر یاعالموں کی مجلس میں بیٹھ کر یا اخبار پڑھ کر یا کتابوں کا مطالعہ کرکے ہی حاصل ہوسکے، بلکہ وہ ایک بہت وسیع چیز ہے جسے آنکھیں اور کان کھول کر زندگی گزارنے والا انسان صحیفہ عالم کی ہر تختی سے حاصل کرسکتا ہے۔‘‘

(چالیس جواہر پارے صفحہ 141)

صحیفہ عالم کی ایک تختی آج کل موبائل فون کی صورت میں قریباً ہر انسان کے ہاتھ میں موجود ہے۔ جس پر بعض اوقات بہت سبق آموز پیغام منصہ شہود پر آتے ہیں۔ میرے ایک خیرخواہ اور برخودار زاہد محمود نے اوپر تلے دو میسیجز بھجوائے ہیں۔

ایک میسیج میں یہ سبق ہے کہ واٹس ایپ پر جو Regular رابطہ کرتا ہے یا رابطے میں رہتا ہے اس کا نام اوپر آجاتا ہے اور جو رابطہ منقطع کرلیتا ہے یا رابطہ میں وقفہ ڈالتا ہے اس کا نام Contact list میں نیچے سے نیچے چلا جاتا ہے۔

اس میسیج میں سبق یہ ہے جب ہم اپنے رب سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اسی سے مانگتے ہیں تو اپنے رب سے رابطے میں رہنے والے کا نام اوپر رہتا ہے۔ ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ اللہ ہم کو یاد رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ کہ مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ جبکہ اس کے برعکس جو اپنے رب سے رابطہ منقطع کرتے ہیں یا رابطہ کم رکھتے ہیں تو ان کا نام بھی اپنے رب کی فہرست میں نیچے چلا جاتا ہے۔

دوسری Post میں یہ میسیج تھا کہ فون پر اگر آپ مختلف Chapters کھول کر کام کر رہے ہوں اور اس دوران کسی کی call آجائے تو وہ تمام کھلے Chapters کو ماند کرکے، فون کال سرفہرست آجاتی ہے اور فون سُنا جاتا ہے۔

اس میسیج کو بھجوانے والا یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دیگر کاموں میں مصروف ہو تو اللہ تعالیٰ کی call یعنی اذان ہوجائے تو اس کا جواب دینا چاہیے اور مسجد کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔

گویا ان دونوں Posts میں مومنوں کے لئے بہت بڑا سبق ہیں۔ یاددہانی کروانے کے لئے ’’فَذَکِّرْ‘‘ کا قرآنی حکم موجود ہے۔ نماز کے حوالہ سے اذان بہترین یاددہانی ہے۔ جب بھی اذان کی آواز کانوں میں پڑے تو فوراً مساجد کا رخ کرنا چاہیے۔ مجھے کئی بار تربیتی دورہ جات کے دوران مختلف فیکٹریوں اور ملوں کی رہائشی کالونیز میں رات بسر کرنے کا موقع ملتا رہا ہے ۔ میں نے بارہا دیکھا کہ علی الصباح فیکٹری کے وقت سے 10، 15 منٹ قبل جب سائرنز یا ہارنز بجنے کی آواز پر ورکرز (Workers) تیز تیز قدموں کے ساتھ فیکٹری کی جانب بڑھنا شروع کرتے ہیں۔ تا وقت پر فیکٹری میں پہنچ سکیں۔ یہی کیفیت آنحضورﷺ کے دور میں صحابہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے مساجد کی طرف بڑھنے کی تھی۔ حتی کہ پہلی صف میں بیٹھنے کے لئے قرعہ اندازی کرنے کی آنحضورﷺ نے ہدایت فرمائی تھی۔ جب پہلی صف میں آرزو اور خواہش رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر پہلے آنے والوں کے نام بالترتیب لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے، اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے، اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا، لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں‘‘۔

(متفق علیہ)

جہاں تک cell فون پر رابطہ رکھنے والوں کے نام اور ان کے بھجوائے ہوئے پیغام موبائل میں موجود نام اور نمبرز میں سے اُوپر رہنے کا تعلق ہے۔ اُن کے نمبرز دیکھ کر اور پیغامات کو دوبارہ پڑھ کر اُن قرابت داروں کے لئے دعائیہ کلمات منہ سے نکلتے اور خدا کے دربار میں درجہ قبولیت پاتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ جو بھی اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ سے تعلق میں رہے گا۔ ذکر الہٰی کرتا رہے گا۔ راتوں کو اُٹھ کر تنہائی میں نماز تہجد میں اپنے خدا سے باتیں کرے گا۔ تسبیح و تحمید کرے گا۔ دن کو بھی عبادت میں گزارے گا اور اللہ کے سب سے پیارے وجود پر درود وسلام بھیجتا رہے گا وہ لازماً خدا کے قریب رہے گا اور خدا اُس سے پیار کرے گا۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو نے آنحضور ﷺ کے حضور حاضر ہوکر دریافت فرمایا کہ قیامت کب ہوگی؟ آنحضورﷺ نے پوچھا ۔تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ بدو نے جواباً کہا ’’صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ محبت‘‘ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ کہ تو اس کے ساتھ ہے جس سے تومحبت کرتا ہے۔

(بخاری، کتاب الادب)

پس خدا کی محبت کے حصول کے ذرائع میں سے اہم ذریعہ اس کی طرف جھکنا، تسبیح و تحمید و ذکر الہٰی کثرت سے کرنا۔ عبادت میں نماز پنج وقتہ، نوافل، اس کی پیاری کتاب قرآن کریم سے محبت اور اس کی تلاوت اور اس کے پیارے رسول حضرت محمد رسول اللہﷺ سے پیار کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا ًسمجھو کہ خداتمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں۔ اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتاکہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ22)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہمیں چاہئے کہ ہر قسم کے کنکر، پتھر کو دل میں سے نکال دیں اور خدا کا سچا عبادت گزار بنیں۔ جب انسان اس طرح کوشش سے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے تو پھر اللہ اس سے زیادہ بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔‘‘

ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اپنے بندوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو مَیں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو مَیں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو مَیں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اور جو میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اور اگر وہ میری طرف چلتے ہوئے آتا ہے تو مَیں دوڑتے ہوئے اس کی طرف جاتا ہوں۔

(بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ و یحذرکم اللّٰہ)

پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے وہ عمل سرزد ہوں اور وہ عبادتیں عمل میں آئیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے آنے کا مقصد ایک خدا کی پہچان اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کروانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جن حکموں پہ ہم نے عمل کرنا ہے ان کا علم کس طرح ہو؟ وہ ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے۔ اس کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے سے اس کا علم حاصل ہو گا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد سوم، صفحہ564)

پچھلا پڑھیں

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

اگلا پڑھیں

اسکاٹ لینڈ ریجن میں آن لائن سیرت النبی جلسہ