خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاھلی
سیرت النبیﷺ کا ہر پہلو ہی نہایت حسین و جمیل ہے۔ آپؐ کی سیرت کے گلستان میں جس طرف بھی جائیں ہر کوچہ اسوۂ پاک کا ایک نیا اور سب سے اعلیٰ منظر پیش کرتا ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا خَیرُکُم خَیرُکُم لِاَھلِہ وَ اَنَاخَیرُکُم لِاَھلیِ۔ (چیک کر لیں) (سنن ابی ماجہ۔کتاب النکاح)۔ سیرت کا مطالعہ کرنے سے نہایت شان کے ساتھ یہ بات نظر آتی ہے کہ بلا شبہ آپ ہی ہیں جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہترین حسن سلوک فرمانے والے تھے۔
اس مضمون میں سب سے پہلے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں انبیاء اور بالخصوص آنحضورﷺ کا شادی کرنے کی غرض و غایت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا:
’’بعض نادان لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ جبکہ انبیاء ایسے فنا فی اللہ ہوتے ہیں اور دنیا اور اس کی لذتوں سے دور بھاگتے ہیں، پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ بیویاں اور بچے بھی رکھتے ہیں؟ ایسے معترضین اتنا نہیں سمجھتے کہ ایک شخص تو ان باتوں کا اسیر اور ان فانی لذتوں میں فنا ہوجاتا ہے، لیکن اس کے خلاف انبیاء کا گروہ ان باتوں سے پاک ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ان کے لئے محض خادم کے طور پر ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں انبیاؑء ہر قسم کی اصلاح کے لئے آتے ہیں۔ پس اگر وہ بیوی بچے نہ رکھتے ہوں، تو اس پہلو میں تکمیل اصلاح کیونکر ہو۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ عیسائی لوگ معاشرت کے متعلق حضرت مسیحؑ کا دنیا کے رو برو کیا نمونہ پیش کر سکتے ہیں ؟کچھ بھی نہیں۔ جب وہ اس راہ سے ہی نا واقف ہیں اور مدارج سے ہی بے خبر، تو وہ کیا اصلاح کریں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی کمال ہے کہ ہر پہلو میں آپؐ کا نمونہ کامل ہے۔ دنیا اور اس کی چیزیں انبیاؑء پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتیں اور وہ فانی لذتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کیا کرتے، بلکہ ان کا دل خدا تعالیٰ کی طرف اس دریا کی ایک تیز دھار کی طرح جو پہاڑ سے گرتی ہے بہتا ہے اور اس کی رو میں ہر خس وخاشاک بہ جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات [2003ایڈیشن] جلد1 صفحہ240)
آنحضورﷺکا اپنے اہل خانہ سے حسن سلوک کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
آپﷺ کے حسن سلوک کی ایک خوبصورت مثال اس واقعہ میں نظر آتی ہے کہ جب آپؐ کی شادی حضرت خدیجہ ؓ سے ہوئی تو آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور اپنے ساتھ کامل وفا کا پورا یقین کرتے ہوئے حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے تمام اموال اور غلام اور معاملات کا پورا اختیار آپؐ کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ حضرت خدیجہؓ جو بذات خود نہایت نیک طبع ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دانا اور زیرک بھی تھیں چند دن میں ہی اس حقیقت کو جان گئی تھیں کہ اُن کے شوہریعنی محمدﷺ سے بڑھ کر اور کوئی ان کے اموال ومعاملات کے اختیار کا حقدار نہیں ہوسکتا۔
اور آپﷺ کا اپنی زوجہ کے ساتھ نہایت اعلیٰ درجہ کے حسن سلوک کی گواہی حضرت خدیجہؓ نے تقریباً پندرہ سال کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد پہلی وحی کے نزول کے موقع پر بھی دی۔ جب وحی ہوئی اور آنحضرتﷺ گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں تھے۔آپؐ سب سے پہلے اپنی زوجہ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس آئے اور انہی کو سب سے پہلے اس واقعہ کی خبر دی۔ اور حضرت خدیجہؓ نے فورا آپؐ کی تصدیق فرمائی اور آپؐ کے اس دعویٰ میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک نہ کیا۔ حضرت خدیجہؓ جو آپؐ کے ساتھ زندگی کا ایک عرصہ گزار چکی تھیں جانتی تھیں کہ آپؐ نے وہی بیان کیا ہے جو حقیقت ہے۔ اور حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف آپ کی وحی کی تصدیق کی بلکہ آپؐ کو اعلیٰ اخلاق کا حامل قرار دیتے ہوئے یہ تسلی بھی دی کہ خدا آپؐ کو کبھی ناکام و نامراد نہ ہو نے دے گا۔
فرمایا کہ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں اور رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں اور غریبوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور معدوم ہوجانے والی نیکیوں کو زندہ کرنے والے ہیں ’’یعنی جو نیکیاں ختم ہو گئی ہیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے والے ہیں اور سچ بولنے کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود حق کے ہی معین و مددگار ہیں‘‘۔ یعنی سچی بات ہی کہتے ہیں ’’اور مہمان نواز بھی ہیں‘‘۔
(بخاری بدء الوحی کیف کان بدء الوحی)
حضرت خدیجہؓ اسلام کے ظہور سے قبل مکہ کی ایک رئیسہ خاتون تھیں۔ آپ کو تمام آسائشیں میسر تھیں۔ انہوں نے اسلام کے زمانہ میں بیشمار تکالیف برداشت کیں۔ یہاں تک کہ شعب ابی طالب میں محصوری کا عرصہ بھی گزارا لیکن اپنے شوہر کا ساتھ نہ چھوڑا اس کی وجہ آنحضور ﷺ کا وہ بہترین حسن سلوک تھا جو آپؓ ہر لمحہ محسوس کرتی تھیں۔ اس حسن سلوک کے مقابلہ میں دنیا کی ہر تکلیف بے حیثیت تھی۔
حضرت خدیجہؓ کے ساتھ آپﷺ کی ایسی محبت تھی کہ جو ان کی وفات کے بعد بھی ماند نہ ہوئی۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آپؐ کو کہا کہ اے اللہ کے رسول! خدا نے آپؐ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں۔ اب اس بڑھیا (یعنی حضرت خدیجہؓ) کا ذکر جانے بھی دیں۔ تو آپؐ نے فرمایا نہیں، نہیں۔ خدیجہ اُس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری سِپر بنی جب میں بے یارو مددگار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان سے مجھے اولاد بھی عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر۶ صفحہ ۸ ۱۱مطبوعہ بیروت)
اور یہی وہ حسن سلوک تھا جو آپؐ نے اپنی ہر زوجہ کے ساتھ روا رکھا۔اور ہر زوجہ ہی آپﷺ کے حسن سلوک کی گواہ بنی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نیز آپ ؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی خادم کو مارا۔ خادم کو بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔
(شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہﷺ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی مصروف الاوقات نہیں تھا۔ اس کے باوجود گھر والوں کے حقوق پوری طرح ادا کیا کرتے تھے اس بارے میں روایت ہے جس میں حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب الاذان)
آنحضورﷺ کا اپنی ہر زوجہ کے ساتھ ایسا حسن سلوک تھا کہ ہر ایک کی یہ تمنا ہوا کرتی تھی کہ اس دنیا میں بھی جس قدر ممکن ہو آپؐ کا قرب نصیب ہو آپؐ کی زوجیت میں ہی ہمارا حشر ہو۔ چنانچہ حضرت سودہؓ کو ایک دفعہ بوجہ پیرانہ سالی خود ہی یہ وہم ہوا کہ کہیں آپؐ انہیں ان کی پیرانہ سالی کی وجہ سے طلاق ہی نہ دے دیں حالانکہ آنحضورﷺ کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ درخواست کی کہ یا رسول اللہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو۔
(نیل الاوطار کے ص۱۴۰)۔
اسی طرح یہ بھی نظر آتا ہے کہ ازواج مطہرات کو آپؐ کے حسن سلوک نے ایسا گرویدہ کرلیا تھا کہ صرف اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی آپﷺ کی ہی معیت کے لئے بیتاب تھیں۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو فرمایا کہ اَسرَعکُنّ لحاقًابی اَطولُ کنّ۔ یعنی تم میں سے سب سے پہلے (وفات کے بعد) مجھے وہ ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ یہ سن کر آپؐ کی ابدی معیت کی تمنا کرتے ہوئے ازواج مطہرات ہاتھ ناپنے لگیں۔
(مسلم کتاب فضائل الصحابہؓ باب فضائل زینبؓ حدیث2452)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے اور ان کی سہیلیوں سے بھی حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ ؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور فرماتے یہ تو خدیجہ ؓ کی بہن آئی ہیں۔ اور جب گھر میں جب کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کا اہتمام فرماتے
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ)
آنحضورﷺ کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ایسا تعلق تھا کہ آپؐ ان کے مزاج اور عادات سے بھی خوب واقف ہوا کرتے تھےاور ان کی ان عادات و اطوار کا از راہ محبت ان سے ذکر بھی کیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ حضرت عائشہ ؓنے عرض کیا کہ وہ کیسے؟ آپؐ نے فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں ربّ محمدؐ کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ربّ ابراہیمؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے کہاکہ ہاں یا رسول اللہ! یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپﷺ کا نام چھوڑتی ہوں (دل میں توآپﷺ کی ہی محبت ہے)۔
(بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن)
آنحضورﷺ کا یہ طریق تھاکہ آپؐ اتنا وقت ہی گھر سے باہر گزارتے جتنا ضروری ہوتا اور جب باہر کے کام ختم ہوجاتے تو اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارتے اور اسی بات کی نصیحت آپﷺ نے اپنے صحابہ کو بھی فرمائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے، جس کے لئے اُسے سفر کرنا پڑا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہوئے جلد گھر واپس آجائے۔
(صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب السرعۃ فی السیر حدیث3001)
آپؐ نے اپنے صحابہ ؓکو بھی اپنے اسی اُسوہ پر چلنے کی تاکید فرمائی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عبداللہ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو؟ (یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو) اس پر میں نے عرض کی: ہاں یا رسول اللہؐ! تو آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کرو۔ کبھی روزہ رکھو، کبھی چھوڑ دو۔ رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کروکیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے۔
(بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم)
آنحضرتؐ کی ایک بیوی حضرت صفیہ ؓتھیں جن کام اصل نام زینب تھا۔ حضرت صفیہ ؓ رسول اللہؐ کے شدید معاند اور یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیئی بن اخطب کی بیٹی تھیں اور انہی معاندین میں سے ایک سردار کنانہ بن ربیع بن الحُقیق کی بیوہ تھیں۔ آنحضورﷺ نے جنگ خیبر سے واپسی پر جو کہ حضرت صفیہؓ کا آنحضورﷺ کے ساتھ پہلا سفر تھا، آنحضرتؐ نے اونٹ پر حضرت صفیہ ؓکے لئے خود جگہ بنائی۔ آپؐ نے جو عبا پہنی ہوئی تھی اسے اتار کر اور تہہ کرکے حضرت صفیہؓ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھا دیا۔ پھر ان کو سوار کرتے ہوئے آپ نے اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا اور فرمایا کہ اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔
(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر)
اسی طرح اسی سفر کا ایک اور واقعہ حضرت صفیہؓ بیان کرتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپﷺ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا۔ مجھے اونگھ آگئی اور میرا سر پالان کی لکڑی سے جا ٹکرایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے بڑی شفقت سے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے: اے لڑکی! اے حییٔ کی بیٹی! ذرا احتیاط، ذرا اپنا خیال رکھو۔ پھر رات کو جب ایک جگہ پڑاؤ کیا تو میرے ساتھ بہت محبت بھری باتیں کیں۔ فرمایا: دیکھو! تمہارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اس نے کی تھی جسکی وجہ سے مجبوراً تیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا۔۔۔حضرت صفیؓہ کہتی ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول اللہﷺ کے پاس سے اُٹھی تو آپﷺ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپؐ سے زیادہ محبوب مجھے کوئی نہیں تھا۔
(مجمع الزوائد جلد9 صفحہ 15۔بحوالہ ہمارا گھر ہماری جنت صفحہ 10۔11)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نمونہ گھریلو زندگی میں ہےوہ ہر لحاظ سے بہترین تھا۔ آپؐ اپنے اہل خانہ کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے۔ یعنی جو ان کے اخراجات ہیں ان کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنی وفات کے وقت بھی ازواج مطہراتؓ کے نان ونفقہ کے بارے میں تاکیدی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا خرچہ ان کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے۔
(بخاری کتاب الوصایا باب نفقۃ القیم للوقف)
ایک روایت ہے کہ حضرت سلمان بن احوصؓ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضورؐ کے ہمراہ موجود تھے۔ اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمدوثناء کے بعد وعظ و نصیحت فرمائی اور پھر فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں ہمیشہ بھلائی کے لئے کوشاں رہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ قیدیوں کی طرح بندھی ہوئی ہیں۔ تم ان پر کوئی حق ملکیت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں (یعنی تمہارا حق ملکیت نہیں کہ جب چاہو مارنا شروع کر دو جب چاہو جو مرضی سلوک کر لو۔ سوائے اس کے کہ وہ نشوزکی یابے حیائی کی مرتکب ہوں) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کے کپڑوں اور کھانے کا بہترین خیال رکھو۔
(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ فی حق المرأۃ)
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: عورت پسلی کی طرح ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ دو گے اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو تم اس کی کجی کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
(بخاری کتاب الانبیاء باب خلق آدم وذریت)
آنحضورﷺ اپنی ازواج کو جس حد تک ممکن ہوتا اپنی مصاحبت بھی عطافرماتے اور ان کو دینی کاموں میں خدمات سے ثواب حاصل کرنے کا بھی پورا موقع عطا فرماتے تھے۔ آپ ؐ جب جہاد پر جاتے تو اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتے اور جس زوجہ کے نام کا قرعہ نکلتا انہیں اپنے ساتھ جہاد پر لے جاتے۔ وہ ازواج آنحضورﷺ کی ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے دوران صحابہؓ کو پانی پلاتیں اور زخمی صحابہؓ کی دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔ دوران سفر آنحضورﷺ اپنی ازواج سے گفتگو بھی فرماتے رہتے۔
(بخاری کتاب الجہاد باب حمل الرجل امراتہ فی الغزو حدیث)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے۔ جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے کہ تم بھی دو رکعت ادا کرلو۔
(بخاری کتاب الصلوٰۃ، باب الصلوٰۃ خلف النائم)
اسی طرح یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آنحضورﷺ اپنی ازواج کو نیکی کے کاموں میں اپنے ساتھ ثواب حاصل کرنے کا پورا موقعہ عطا فرماتے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپؐ کی اکثر ازواج آپ کے ہمراہ تھیں۔ اسی حج کے متعلق یہ ذکر ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بھی حج کی غرض سے آپ کے ہمراہ تھیں اور مقام سرف پر ان کے مخصوص ایام شروع ہو گئے۔ انہوں نے اس غم سے رونا شروع کر دیا کہ اب وہ حج کے ثواب سے محروم رہ جائیں گی۔ آنحضورﷺ نے بڑی شفقت بھرے انداز میں ان کے رونے کی وجہ معلوم کی اور وجہ معلوم ہونے پر آپؐ نے ان کی دلجوئی فرمائی اور کہا: اِنَّ ھٰذَا اَمْرٌکَتَبَ اللّٰہُ علیٰ بَنَاتِ آدَمَ۔ یعنی یہ تو وہ امر ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ چھوڑا ہے۔ نیز فرمایا کہ تم حج کے تمام اعمال ادا کرو بس بیت اللہ کا طواف نہ کرواور یہی نہیں بلکہ آپؐ نے بعد میں حضرت عائشہ ؓکو ان کے بھائی کے ساتھ عمرہ بھی کروایا تاکہ ان کی عمرہ اور طواف کی آرزو بھی پوری ہو جائے۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ اسی حج کے موقع پر آپؐ نے اپنی طرف سے اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے گائے کی قربانی کی اور ان کا گوشت بھی تقسیم فرمایا۔
(بخاری کتاب الاضاحی حدیث نمبر5547)
آنحضورﷺ اپنی ازواج مطہرات کی تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے اور اس غرض کے لئے سب سے بڑھ کر آپؐ اپنے نمونہ اور اعلیٰ کردار سے ان کی تربیت فرماتے تھے۔ جہاں ضروری ہوتا الفاظ میں بھی ان کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔
ایک دفعہ جبکہ آپؐ حضرت عائشہؓ کے پاس تھے توکسی دوسری زوجہ نے اپنی خادمہ کے ہاتھ برتن میں کھانا بطور تحفہ بھیجا۔ حضرت عائشہؓ نے اس خادمہ کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے وہ برتن گر کر ٹوٹ گیا۔ آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس برتن کے ٹکڑتے جمع کئے پھر جو کھانا اس برتن میں تھا وہ اس میں ڈالا۔ بعدازاں گھر سے ایک برتن لیا اور اس خادمہ کے ہاتھ اس اُمّ المومنین ؓکی طرف اسے بھیج دیا جن کی طرف سے کھانا آیا تھا اور ٹوٹا ہوا برتن اس کے گھر رہنے دیا جس سے وہ برتن ٹوٹا تھا۔
(بخاری حدیث نمبر5225)
یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو آپؐ کے حسن سلوک کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آپؐ اپنی ازواج میں مساوات اور انصاف فرماتے تھے۔ اگر کسی زوجہ سے انجانے میں یا بوجہ بشریت کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو آپؐ نہایت احسن رنگ میں انکی غلطی سے انہیں آگاہ فرمادیتے اور درست عمل کی بھی رہنمائی فرما دیتے۔ آپؐ اپنی تمام ازواج مطہرات کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے تھے۔
آنحضورﷺ کے گھر کا ماحول خالص دینی ماحول تھالیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپؐ کے گھر کے ماحول میں کسی قسم کا ہنسنا کھیلنا یا مزاح کرنا ممنوع تھا۔ آپؐ اپنی ازواج کے ساتھ گھر میں نہایت بشاشت کے ساتھ رہتے اور باہمی مزاح بھی رہتا تھا۔ اس پہلو پر ایک حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپؐ اپنی ازواج سے کس قدر بے تکلف تھے اور ازواج مطہرات بھی ادب و احترام کی حدود میں رہتے ہوئے مزاح کی باتوں سے لطف اندوز ہوا کرتی تھیں۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے سر میں درد تھا اور وہ درد سے کراہ رہی تھیں۔ آنحضورﷺ نے ان سے مزاح کے رنگ میں فرمایا: اے عائشہ! آپ کو کس بات کی فکر ہے؟ اگر آپ کی وفات ہو گئی تو میں تمہیں غسل دوں گا اور کفن پہناؤں گا پھر نماز جنازہ پڑھوں گا پھر دفن کروں گا۔
(بخاری کتاب المرضی۔ حدیث 5666)
اسی طرح یہ بھی ملتا ہے کہ بعض اوقات آنحضرتﷺ حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑے بھی ہیں۔ اس واقعہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’بعض وقت آنحضرتﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑے بھی ہیں ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خودنرم ہوگئے تاکہ حضرت عائشہ آگے نکل جائیں اور وہ آگے نکل گئیں اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی آئے جو تماشہ کرتے تھے آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا تماشہ دکھایا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ حبشی ان کو دیکھ کر بھاگ گئے۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ388 ایڈیشن1988ء)
آنحضورﷺ اپنی ازواج کو بعض اوقات معاملات میں مشورہ دینے کی بھی اجازت عنایت فرماتے تھے اور اگر وہ مشورہ درست ہوتا تو آپؐ اسے قبول بھی فرماتے تھے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے سیرت النبیؐ سے دو واقعات بیان فرمائے ہیں جو یہاں آپؓ ہی کے الفاظ میں درج کئے جاتے ہیں:
’’ایک دفعہ حضرت عمرؓ ایک بات کے متعلق سوچ رہے تھے اُن کی بیوی نے کہا بات تو آسان ہےاس طرح کرلو۔اُنہوں نے کہا تُو کون ہوتی ہے میرے معاملے میں دخل دینے والی۔ اُن کی بیوی نے کہا جب رسول کریمؐ کی بیویاں اُن کو مشورہ دیدیتی ہیں تواگر میں نے دیدیا تو کیا حرج ہے۔ حضرت عمرؓ اُسی وقت اپنی لڑکی کے پاس جو کہ رسول کریمؐ سے بیاہی ہوئی تھی دوڑے گئے اور پوچھا کہ کیا تم رسول کریمؐ کے معاملے میں دخل دیا کرتی ہو۔ وہ کہنے لگیں۔ ہاں۔ حضرت عمرؓ نے اُنہیں کہا یہ بہت بُری بات ہے تم پھر اس طرح کبھی نہ کرنا۔ اُن کی پھوپھی نے جب یہ بات سنی تو اُنہوں نےکہا تم کون ہوتے ہو رسول کریم ؐ کے گھر کی باتوں میں بولنے والے۔ تو اُس زمانے میں عورتوں کو بیلوں کی طرح سمجھتے تھے مگر رسول کریمؐ خود عورتوں سے مشورہ لیا کرتے تھے۔‘‘
(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول صفحہ 55،56)
اسی طرح حدیبیہ والے واقعہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:
’’آخر فیصلہ کرنے سے یہ بات قرار پائی کہ مدینہ والے اس سال چلے جاویں اوراگلے سال آویں۔ اس فیصلہ سے صحابہ کرامؓ بہت رنجیدہ ہوئے کہ رسول کریمؐ نے کفار کی یہ بات کیوں مان لی ہے۔ پھر رسول کریم ؐ نے فرمایا کہ قربانی کے لئے جو کچھ لائے ہویہیں پر قربان کردو۔ مگر کوئی نہ اُٹھا۔حتی ٰکہ رسول کریمؐ نے تین دفعہ کہا مگر پھر بھی سب بیٹھے رہے۔ یہ حال دیکھ کر رسول کریمؐ کو بہت فکر ہؤاکہ کہیں اس واقعہ سے لوگوں پر ابتلاء نہ آ جاوے۔ آخر آپ اُٹھ کر گھر گئے اور اپنی ایک بیوی سے پوچھا کہ کیا کیا جاوے یہ آج پہلی دفعہ ہے کہ مَیں بات کہوں اور لوگ نہ کریں۔ آپؐ کی بیوی نے کہا آپؐ اَب اُن سے کچھ نہ کہیں سیدھے چلے جاویں اور جاکر اپنی قربانی کے گلے پر چھری پھیر دیں۔ چنانچہ آپؐ گئے اور اپنے اُونٹ کے گلے پر نیزہ مارایہ دیکھ کر سب لوگ اس طرح کھڑے ہوئے کہ ہر ایک یہی چاہتا تھاکہ مجھ سے کوئی اور پہلے نہ ہو جائےکیونکہ اُن کے صرف دل ٹوٹے ہوئے تھے۔رسول کریمؐ کو قربانی کرتےدیکھ کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تو ایک عورت کے مشورےکی بدولت سے یہ مشکل حل ہو گئی۔‘‘
(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول صفحہ 57،56)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ہمارے ہادیٔ کامل رسُول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں۔ وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے۔ جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو۔ اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 403 ایڈیشن1988ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’چاہیئے کہ بیویوں سے خاوندکا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچےّ اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 300، 301ایڈیشن1988ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’جو شخص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سےنرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘
(کشتیٔ نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ19 ایڈیشن2008ء)
٭…٭…٭
(مرسلہ: آصف احمد خان، مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)