’’پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو‘‘ (حضرت مسیح موعود ؑ)
شخصیت پرستی کے مضر اثرات
خلافت احمدیہ کی افادیت و برکات کااندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ خلیفۃ المسیح کے خطبات و خطابات علم و معرفت کے خزانوں سے بھرے ہوتے ہیں جن کو سُن کر جہاں احباب جماعت اپنی اصلاح و تربیت کی طرف توجہ کرتے ہیں وہاں بہت سے پُر حکمت نکات بھی مال و مطاع کے طور پر حاصل کر لیتے ہیں۔ خاکسار اگر اپنی بات کرے تو یہ کہنے میں ہرگز حرج نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات سے ہی آرٹیکلز لکھنے کے موضوع مل جاتے ہیں۔ غزوہ بدر میں شریک ہونے والے خوش قسمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات و واقعات اور سوانح پر مشتمل طویل ترین خطبات کے سلسلہ کے تحت حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت وسوانح پر خطبات کی جو سیریز جاری رہی، اس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک جنگ میں حضرت عمر ؓ کی طرف سے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کو فوج کی سربراہی سے معطل کر کے کسی اور صحابی کو ان کی جگہ سپہ سالار مقرر کرنے کا ذکر فرمایا۔ اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ لوگ حضرت خالد بن ولیدؓ پر انحصار کرنے لگے تھے کہ اگر اسلامی فوج، حضرت خالد بن ولید کی سپہ سالاری میں بھجوائی جائے گی تو فتح ضرور قدم چومے گی۔ یہ شخصیت پرستی ہے یہ خیال بالآخر شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی کے سدّباب کے لئے حضرت عمرؓ نے حضرت خالدبن ولید ؓ کو معطل کر دیا تھا تاکہ نہ صرف مسلمانوں کے دل میں پنپنے والا یہ غلط خیال ختم ہوجائے بلکہ آئندہ یہ سبق بھی مل جائے کہ کچھ بھی ہوجائے اس قسم کے شرک کی ہر حالت میں بیخ کنی کرنی ہے۔
یہ واقعہ تحریر کرتے ہوئے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی ولولہ انگیز خلافت کا آخری دور یاد آرہا ہے جب میں بدو ملہی ضلع سیالکوٹ میں بطور مربی سلسلہ متعیّن تھا۔ ان دنوں جماعتیں اور مجالس، جماعت کےچوٹی کے اجل قسم کے علماء کے نام لکھ کر اپنے ہاں جلسوں میں تقاریر کے لئے درخواست کرتی تھیں تو حضور رحمہ اللہ اس مطلوبہ عالم دین کو نہ بھجواتے بلکہ دعاؤں کے ساتھ کسی اور دوست کو خواہ وہ جونئیر ہوتے بھجوا دیتے اور فرمایا کرتے تھے کہ کسی اعلیٰ مقرر کا نام لکھ کر منگوانا شرک کے زمرہ میں آتا ہے گویا کہ اگر وہ نہ گیا تو جلسہ کامیاب نہیں ہو گا۔ یہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح کی دُور رس نگاہوں میں شرک کی ایک قسم یعنی شخصیت پرستی کی نفی تھی۔ اور جماعت کو یہ بتانا تھا کہ اس قسم کے شرک کو اپنے درمیان سے نکال باہر کریں اور اپنے آپ کو مؤحد جماعت بنائیں۔
دینی تعلیمات کی روشنی میں شخصیت پرستی، شرک کی ابتداء ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شرک کی ابتدائی سیڑھی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی کے ساتھ کسی اور کو کھڑا کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ نعوذ باللہ یہ شخص ہی ہمیں کامیاب کر سکتا ہے یا ہمارے کام کر سکتا ہے یہ اور اس طرح کے سب خیال شرک ہیں اور چاہے یہ شخصیت پرستی ہو یا کچھ اور۔
گزشتہ زمانے میں فوت ہونے والے بڑے لوگوں کے مجّسمے، مورتیاں اور تصویریں بنا کر عبادت کے لئے یا ان کو یاد کرنے کے لئے سجا لینا شخصیت پرستی کے زمرے میں آتا ہے۔ خانہ کعبہ میں جو بت رکھے ہوئے تھے وہ مشرکین کے بزرگوں کے ناموں سے ہی تو منسوب تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مؤحد نبی حضرت ابراہیم ؑ نے مسمار کردیا تھا۔ سورہ نوح آیت 24میں ودّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسّرکے نام سے عرب کے دیوتاؤں اور بتوں کا ذکر ملتا ہے یہ درحقیقت عرب قوم کے بزرگوں، ستاروں اور ان کی منزلوں کے نام تھے۔ جن کی عربوں نے بت بنا کر پرستش شروع کر دی تھی، مکہ والوں نے اپنے باپ دادوں سے سن کر اپنے بتوں کے یہ نام رکھے تھے۔ اس پریکٹس کا ذکر اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ
(التوبہ: 31)
میں بہت واضح رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور مثال قرآن کے حوالہ سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ
(آل عمران: 145)
کہ محمدؐ صرف ایک رسول ہیں۔ یقیناً ان سے پہلے تمام رسول گزر چکے ہیں۔ اس آیت کو بھی شخصیت پرستی کی نفی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ جب آپؐ کی وفات کے بعد یہ تصور کیا جانے لگا کہ آپؐ وفات نہیں پا سکتے جس کا اعلان حضرت عمرؓ نے بھی ان الفاظ میں فرمادیا تھا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ حضرت محمدؐ اب اس دنیا میں نہیں رہے میں اس کی گردن قلم کر دوں گا۔ اس فتنہ کو حضرت ابوبکرؓ نے ال عمران کی آیت 145پڑھ کر ہی سنبھالا دیا تھا کہ حضرت محمدؐ ایک رسول ہی تو تھے۔ آپؐ سے پہلے تمام رسول وفات پا چکے ہیں۔ لہٰذا سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ تو جہاں یہ وفات مسیح پر صحابہ کا پہلا اجماع تھا وہاں اسلام میں شخصیت پرستی کی روک تھام کے لئے بھی پہلا اعلانِ عام تھا جو سیدنا حضرت ابو بکرؓ کے زبان مبارک سے ہوا۔
یہی کیفیت یا اس سے ملتی جلتی کیفیت ہمیں آج کے مامور سیدنا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے دور میں آپؑ کے والد محترم حضرت غلام مرتضٰی کی وفات پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے والد ماجد کی وفات پرزندگی کے معاش کی فکر دامن گیر ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیت اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ ؕ بطور الہام نازل فرما کر آپؑ کو تسلی دی اور فرمایا۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ تو یہاں بھی شخصیت پرستی کے طرز عمل کی نفی کر دی گئی۔
بعض لوگ اپنے بیٹوں پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حا لانکہ یہ عنایت ربی ہے۔ اسی کی دین ہے۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کو مہمان سمجھنا چاہئے۔ پھر آپ علیہ ا لسلام اس حوالہ سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال دے کر فرماتے ہیں کہ ’’ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں
ولی پرست نہ بنو بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو
(ملفوظات جلد2صفحہ 518 جدید ایڈیشن)
*حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو نہایت آسان اور پُر معارف معنوں میں یوں بیان فرمایا ہے۔
’’ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ اللہ تعالیٰ کے کاروبار میں جن کا اس نے ارادہ کیا ہوتا ہے کسی قسم کا فرق آجاتا ہے۔ ایسا تو وہم کرنا بھی سخت گناہ ہے۔ نہیں بلکہ وہ کاروبار جس طرح وہ چاہتا ہے بدستور چلتا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اُسے چلاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ وہ راستہ ہی میں فوت ہو گئے۔ قوم چالیس دن تک ماتم کرتی رہی۔ مگر خدا تعالیٰ نے وہی کام یشوع بن نون سے لیا۔ اور پھر چھوٹے چھوٹے نبی آتے رہے یہاں تک کہ مسیح ابنِ مریم آگیا اور اس سلسلہ میں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ سے شروع کیا تھا۔ کوئی فرق نہ آیا۔
پس یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کوئی فرق آجاتا ہے۔ یہ ایک دھوکہ لگتا ہے اور بُت پرستی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ خیال کیا جاوے کہ ایک شخص کے وجود کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ میں تو اللہ تعالیٰ کے وجود کے سوا کسی اور طرف نظر اُٹھانا بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘
فرمایا۔ ’’میرے ایک چچا فوت ہو گئے تھے عرصہ ہوا میں نے ایک مرتبہ اُن کو عالم رؤیا میں دیکھا اور ان سے اس عالم کے حالات پوچھے کہ کس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو دو فرشتے جو سفید پوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں مولا بس۔ مولا بس۔
(فرمایا : حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے تو یہی لفظ مولا بس موزوں ہوتا ہے)
اور پھر وہ قریب آکر دونوں اُنگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ اے رُوح !جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ۔
فرمایا: ’’طبی امور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے روح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے۔ توریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعہ زندگی کی روح پھونکی گئی۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ274-275 ایڈیشن 1984ء)
* ہمارے موجودہ اور محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی خطبہ جمعہ 22جون2021ء اور خطبہ عید الفطر2021ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اس مضمون پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی طرف توجہ دلائی ہے۔
روحانی بزرگوں سے پیار تو شخصیت پرستی نہیں
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم انبیاء، صلحاء اور خلفاء کرام سے جو پیار کرتے ہیں اور ان پر اپنی جان، مال، عزت اور وقت غرض سب کچھ وار دیتے ہیں کیا یہ شخصیت پرستی کے زمرے میں نہیں آتا؟
اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے تم اپنی جانوں سے زیادہ پیار کرو۔
پھر ایک مقام پر یہاں تک فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نیک صالح لوگوں کی محبت خود پیدا فرما دیتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا
(مریم: 97)
ترجمہ :یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن کے لئے رحمان محبت پیدا کر دے گا۔
اور یہ مضمون احادیث میں بھی ملتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل کو آواز دے کر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت رکھو۔ (بخاری کتاب بدءالخلق) جبکہ نیک، صلحا ء سے دشمنی کے حوالہ سے حدیث ِ قدسی ہے کہ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب الرقاق)
پس ہماری اپنے خلفاء سے محبت طبعی ہے۔ جو ہماری جانوں اور دل کے نہاں خانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کر دی گئی ہے۔ نظامِ خلافت اور خلفاء کے انتخاب کا طریق اس حقیقت پر گواہ ہے کہ جماعت شخصیت پرستی پر نہ یقین رکھتی ہے اور نہ ہی کسی وجود کو ایسا مقام دیتی ہے۔ جماعت کا نظام اس کے ہر شعبہ نظام میں انسانوں کی تبدیلی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اور ان شاء اللہ بڑھتا چلا جائے گا۔ ہم الحمدللہ توحید کے قائل ہیں اور توحیدِ الہٰی کے ہی علمبردار رہیں گے۔ یہ سبق ہے جو ہمیں سورۃ الفاتحہ میں ملتا ہے کہ تما م تعریفیں اُس اللہ جو رحمٰن، رحیم اور مالک یوم الدین ہے کے لیے ہیں۔ اسی کی عبادت کرنے اور استعانت چاہنے کا ہم عزم کرتے ہیں۔ اور ہدایت کے لئے بھی اسی واحد لا شریک خدا سے طلبگار ہیں۔
جبکہ بعض فرقوں میں شخصیت پرستی اور شرک کی کیفیت اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ درگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ حقیقی علم سے نا بلد لوگ ان خانقاہوں اور درگاہوں میں حاضر ہو کر سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ صرف عام زندگی میں ہی نہیں بلکہ سطحی سیاست کے ادنیٰ درجہ کے میدانوں میں بھی بدرجہ اولیٰ موجود ہے۔ اور عوام الناس یہ سمجھ بیٹھتے ہیں یا ان کے ذہنوں میں یہ چیز بٹھا دی جاتی ہے کہ تمہارا یہی لیڈر ہے جو تمہیں دریا پار لگا سکتا ہے اور دنیاوی لیڈر بھی یہی سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہی ادھورا اور کھوکھلا سبق وہ اپنی عوام کو دینا شروع کردیتے ہیں۔ ہم تیسری دنیا میں اکثر ایسے دیکھتے ہیں۔ اسی سے بُت پرستی کی ابتداء ہوتی ہے۔ یہی وہ شخصیات کے بُت ہیں جو وہ اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ اور ایشیائی کلچر میں ہم اپنے آپ کو مسلمان، خدائے واحد و یگانہ کابندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان معاشروں میں بعض لوگوں کے دل صنم کدہ بنے ہوئے ہیں۔ جس سے اعتدال کو خیر باد کہہ کر افراط و تفریط اور غلو ان میں جنم لیتا ہے۔ شدت پسندی، انتہا پسندی اور جذباتیت کو فروغ ملتا ہے۔ امن کا جنازہ نکلنا شروع ہوتا ہے اور معاشرہ مختلف برائیوں سے زنگ آلود بلکہ زہر آلود ہوتا ہے۔
پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ ؑ کی خلافت حقہ سے منسوب ہو کر ان رسوم و رواج اور شرک پیدا کرنے والی خرافات سے کوسوں دور ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والی جماعت پیدا کرنے آئے تھے جو اپنی عبادتوں کی حفاظت کر سکے۔ آپؑ پیر پرستی ختم کرنے آئے تھے۔ اس لئے آپ ؑ نے فرمایا تھا کہ ’’پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وحدہ لا شریک خدا کے حقیقی پرستاراور عبادت گزار بنائے اورشرک کی طرف لے جانے والی شخصیت پرستی ہمارے قریب تک نہ آئے۔ آمین
(ابو سعید)