سورۃ المومن اور حٰمٓ السّجدۃ کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ المومن
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چھیاسی آیات ہیں۔
اس سورت کا آغاز حٰمٓ کے مقطعات سے ہو تا ہے اور اس کے بعد کی چھ سورتوں کا آغاز بھی انہی مقطعات سے ہوتا ہے۔ گویا اس کے سمیت کُل سات سورتیں ہیں جن کا آغاز حٰمٓ سے ہوتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان سورتوں کا سورۃ الفاتحہ کی سات آیتوں سے کوئی تعلق ہے تو کیا ہے۔
گزشتہ سورت میں بنی آدم کو تلقین فرمائی گئی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ دراصل قنوطیت ابلیس کی صفت ہے اور جو سچے دل سے اللہ کی رحمت پر توکل کرے گا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ سب گناہ بخشنے کی قدرت رکھتا ہے۔
اسی طرح گزشتہ سورت میں ملائکہ کے حآ فّین ہونے کا ذکر ہے کہ وہ عرش کے ماحول کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں لیکن اس سورت میں مزید یہ فرمایا گیا کہ تمہاری بخشش کا تعلق ملائکہ کی دعاؤں سے بھی ہے جنہوں نے اللہ کے عرش کو اٹھایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کوئی مادی چیز نہیں کہ وہ کسی عرش پر بیٹھا ہوا ہو اور اسے فرشتوں نے اٹھایا ہو اہو۔ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے اور اس نے کائنات کی ہر چیز کو اٹھایا ہوا ہے اس لئے یہاں اس کی تنزیھی صفات کا ذکر ہے اور عرش سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب صافی ہے جو اللہ کی تخت گاہ ہے اور آپؐ کے دل کو تقویت دینے کے لئے فرشتے اسے چاروں طرف سے گھیرے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے گنہگار بندوں کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی ذرّ یات کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں۔ پس مجھے یقین ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے عرش سے اٹھنے والی وہ دعائیں ہیں جو قیامت تک آنے والے نیک بندوں اور اُن کی ذرّیت کے لئے آپؐ نے کیں۔
اسی سورت میں اس وقت جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، ایک ایسے شہزادے کا ذکر ملتا ہے جو موسیٰؑ پر ایمان لے آیا تھا مگر اسے چھپاتا تھا۔ مگر جب اس کے سامنے موسیٰؑ کو قتل کرنے کی سازشیں کی گئیں تو وہ اس وقت اس کے اظہار سے باز نہ رہ سکا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان تنبیہ کی کہ اگر موسیٰؑ جھوٹا ہے تو اسے چھوڑ دو۔ جھوٹے از خود ہلاک ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ سچا ہوا تو پھر جن چیزوں سے وہ تمہیں ڈراتا ہے ان میں سے بعض ضرور تمہیں آ پکڑیں گی۔
یہاں ہمیشہ کے لئے قوموں کو یہ نصیحت ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرو۔ اگر وہ جھوٹے ہیں تو وہ خود ان کو ہلاک کرے گا لیکن اگر وہ سچے نکلے اور تم نے ان کا انکار کر دیا تو تم ان کے وعید میں سے بعض ضرور اپنے بارہ میں پورے ہوتے دیکھو گے۔ چونکہ ان آیات کا تعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا اعلان کرنے والوں سے بھی ہے اس لئے ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ بعینہٖ یہی معاملہ ان کے ساتھ ہوا۔ تمام جھوٹے نبی ہلاک کر دیے گئے اور ان کا نام و نشان بھی تاریخ میں نہیں ملتا۔
اسی تعلق میں حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی لوگوں کے اس دعویٰ کا ذکر ہے کہ آپ ؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اگر یہ بات سچی ہوتی تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد مبعوث ہوتے؟ پس یہ محض ان لوگوں کے دعوے ہیں جن کو اللہ کی تقدیر کا کچھ بھی علم نہیں۔ ہر چیز بند ہو سکتی ہے مگر اللہ کے فضلوں کی راہ ہر گز بند نہیں ہو سکتی۔ اسی ضمن میں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں کو ہلاک کرتا ہے یہ بھی تنبیہ فرما دی گئی کہ وہ سچوں کی ضرور مدد فرماتا ہے اس لئے جو چاہے زور لگا لو، تم اللہ تعالیٰ کے سچے نبیوں کو کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں کر سکو گے۔
آیت نمبر66 میں دین کو خالص کرنے کی پھر تاکید فرمائی گئی ہے کہ زندہ خدا کے سوا اَور کوئی معبود نہیں۔ پس اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارو۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ829-830)
سورۃ حٰمٓ السّجدہ
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی پچپن آیات ہیں۔
سورۃ المؤمن کے بعد سورۃ حٰمٓ السّجدہ آتی ہے جس کا آغاز حٰمٓ کے مقطعات سے ہی فرمایا گیا ہے۔
اس سورت کےآغاز ہی میں یہ دعویٰ فرمایا گیا ہے کہ قرآن ایک ایسی فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے جس نے مضامین کو کھول کھول کر بیان کیا ہے لیکن اس کے جواب میں منکرین کہتے ہیں کہ ہمارے دل پردہ میں ہیں۔ ہمارے کانوں میں بوجھ ہے اور تمہارے اور ہمارے درمیان ایک حجاب حائل ہے۔ اور رسول کو مخاطب ہو کر یہ چیلنج دیتے ہیں کہ تُو بے شک جو چاہتا ہے کرتا رہ، ہم بھی ایک عزم لے کر اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ یہاں یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ انبیاء کو دشمن کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ جو چاہیں کریں بلکہ مراد یہ ہے کہ تُو اپنی جگہ کام کر اور ہم ان کاموں کو ناکام بنانے کی ہمیشہ سعی کرتے رہیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا یہ جواب سکھایا گیا کہ تُو ان سے کہہ دے کہ میں اگرچہ تمہارے جیسا بشر ہی ہوں مگر مجھ پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں تمہارے اور میرے درمیان زمین وآسمان کا فرق پڑ چکا ہے۔
اس سورت میں بعض ایسی آیات ہیں جو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض لوگ اُن پر اعتراض کرتے ہیں۔ مثلاً آیت نمبر 11تا 13کے بارہ میں وہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش میں جو ساری کائنات ایک دھند کی طرح جَوّ میں پھیل گئی تھی اُسی کا ذکر کیا جا رہا ہے حالانکہ زمین کی پیدائش تو اس کے بہت بعد ہوئی ہے۔
دراصل یہاں یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ زمین میں جو خوراک کا نظام ہے وہ چار اَدوار میں مکمل کیا گیا ہے اور پہاڑوں کے قیام نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ فرمایا کہ اس کے اوپر کا آسمان ایک دھوئیں کی سی صورت میں تھا۔ یہ دھوأں دراصل ایسے بخارات کی شکل میں تھا جو زمین کے قریب کے سات آسمانوں سے بھی بہت بلند تر تھا اور بار بار جب وہ بخارات زمین پر برستے تھے تو گرمی کی شدّت کے باعث پھر دھواں بن کر آسمان کی بلندیوں میں عروج کر جاتے تھے۔ ایک بہت لمبے عرصے تک زمین کی یہ کیفیت رہی اور بالآ خر وہ پانی زمین پر برس کر سمندروں کی صورت میں زمین میں پھیل گیا جہاں سے بخارات کی صورت میں چڑھ کر پہاڑوں سے ٹکرا کر پھر واپس زمین پر برسنے لگا۔ اس کے بعد دو ادوار میں زمین کے قریب کے سات آسمان مکمل کئے گئے اور آسمان کی ہر تہہ کو گویا معیّن حکم دے دیا گیا کہ تم نے یہ کام سر انجام دینا ہے۔ آج سائنسدان زمین کے گرد سات طبقوں میں بٹے ہوئے آسمان کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے ہر طبقے کا ایک معین کام بیان کرتے ہیں جس کے بغیر زمین پر انسان کی بقا ممکن نہیں تھی۔ اور یہ سارے آسمانی طبقات زمین اور اہلِ زمین کی حفاظت پر ہی مامور ہیں۔
جس استقامت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم عطا فرمائی گئی اس کی تفصیل اور پھر اس کے عظیم اجر کا دو حصوں میں ذکر ہے۔ پہلے حصہ میں تو تمام مومنوں کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اگر وہ دشمن کے مظالم کے مقابل پر استقامت دکھائیں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے فرشتے ان پر نازل فرمائے گا جو اُن کے دل کی ڈھارس بندھائیں گے اور اُن سے کلام کرتے ہوئے تسلی دیں گے کہ ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے
اس کے بعد ان آیات میں جو وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْ لًا مِّمَّنْ دعَا اِلَی اللّٰہِ سے شروع ہوتی ہیں، اس مضمون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اگر استقامت کے ذریعہ اپنی حفاظت کے علاوہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے تم ان کو صبر اور حکمت کے ساتھ پیغام پہنچانے میں کوتاہی نہیں کرو گے تو وہ جو تمہاری جان کے پیاسے دشمن ہیں وہ ایک وقت تمہارے جاں نثار دوست بن جائیں گے۔ مگر یہ معجزہ سب سے اعلیٰ شان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پورا ہوا جو سب صبر کرنے والوں سے زیادہ صبر کرنے والے تھے اور آپؐ کو صبر سے ایک حظِ عظیم عطا کیا گیا تھا اور واقعہً آپؐ کی زندگی میں ہی آپؐ کی جان کے دشمن بڑی کثرت کے ساتھ آپؐ کے جان نثار دوستوں میں تبدیل ہو گئے۔
اس سورت کے اختتام پر یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو جو اللہ سے ملاقات کے منکر ہیں بہت سے نشانات دکھائیں گے جن کا تعلق آفاق پر رونما ہونے والے نشانات سے بھی ہو گا اور اس حیرت انگیز نظام ِ زندگی سے بھی ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے ان جسموں کے اندر تشکیل دیا ہے۔ پس جن کو آفاق پر اور اپنے اندرونے پر نظر ڈالنے کی توفیق ملے گی ان کا یہی اعلان ہو گا کہ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 847-848)
(عائشہ چودھری۔ جرمنی)