• 18 جولائی, 2025

حضرت حکیم احمد حسین لائل پوریؓ

حضرت حکیم احمد حسین لائل پوری رضی اللہ عنہ

حضرت حکیم احمد حسین لائل پوری رضی اللہ عنہ پرانے اور مخلص صحابہ میں سے ایک تھے۔ آپ ایک لائق حکیم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اچھا علمی مذاق رکھتے تھے اور نظم و نثر میں قلم چلانے والے تھے۔ بقول حضرت شیخ عبدالکریم صاحب جلد ساز آف کراچی آپ ’’گو لاہور کے باشندہ تھے مگر چونکہ لائلپور میں حکمت کا کام کرتے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اس لئے لائل پوری مشہور ہیں۔‘‘ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کیونکہ آپ کی وفات لائل پور میں نہیں ہوئی۔ بہرحال جماعتی لٹریچر میں آپ کا زیادہ تر ذکر آپ کی نظموں اور مضامین کی صورت میں محفوظ ہے اور نظموں کے ساتھ جو آپ کا تعارف شائع ہوا ہے اس میں ایک جگہ قیام کراچی اور ایک جگہ ’’سابق معالج رؤساء سندھ و سابق ایڈیٹر وکیل اسلام حال وارد لائل پور‘‘ لکھا ہے۔

آپ کی بعض نظموں کا ذکر ذیل میں دیا جاتا ہے۔ آپ کی مسدس مشتمل بر پندو نصائح اہل تشیع اخبار بدر 8 و 16 جون 1904ء صفحہ9 پر شائع شدہ ہے جہاں آپ کا تخلص جرّاؔر اور قیام کراچی لکھا ہے:

دم ز بو بکر و عمر عثمان و حیدر می زنم
احمدی ام نعرۂ اللہ اکبر می زنم

حضرت اقدس علیہ السلام کی مجلس میں سب سے آخری نظم 16؍مئی 1908ء کو آپ نے سنائی، اس کے بعد کوئی نظم حضرت اقدس کے حضور میں نہیں سنائی گئی:

یا رب قادیاں میں میرا مزار ہووے
اور میرا ذرّہ ذرّہ اس پر نثار ہووے

(الحکم 18؍جولائی 1908ء صفحہ8)

اسی طرح جلسہ سالانہ دسمبر 1908ء کے موقع پر آپ نے ’’بھارت ماتا‘‘ عنوان سے ایک پنجابی نظم سنائی جس میں اہل ہند کے لیے پیغام ہے، یہ نظم اخبار بدر 21؍جنوری 1909ء صفحہ9 پر شائع شدہ ہے۔ آپ کی ایک نظم ’’اے قادیان کی بستی تجھ پر سلام ہووے‘‘ اخبار الفضل 7مارچ 1916ء صفحہ 12 پر شائع شدہ ہے۔

آپ کے تحریر کردہ مضامین میں ’’مثیل مسیح اور مثیل پطرس‘‘ (الحکم 10؍جولائی 1908ء صفحہ11، 12)، ’’اللہ کی ہستی اور ثناء اللہ کا تعصب‘‘ (الحکم 6؍اگست 1908ء صفحہ 6)، ’’درود شریف سے اثبات نبوت‘‘ (الفضل 22؍اپریل 1916ء صفحہ4) اور ’’خدا کی قسم مسیح موعود نبی اللہ تھا‘‘ (الفضل 31مارچ 1917ء صفحہ9-11) وغیرہ جماعتی لٹریچر میں موجود ہیں۔

ان تحریری خدمات کے علاوہ عملی طور پر خدمت دین اور تبلیغ میں بھرپور حصہ لیتے۔ حضرت شیخ عبدالکریم صاحب جلد ساز آف کراچی بیان کرتے ہیں: ’’مَیں 1903ء میں حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری کے ذریعہ احمدی ہوا تھا …. وہ اپنے کام کے لئے کراچی تشریف لائے تھے۔ ان کی تبلیغ سے میں احمدی ہو گیا تھا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر1 صفحہ1) ایک مرتبہ دہلی میں آپ نے پادری احمد مسیح سے مباحثہ کیا۔ (الفضل 14اگست 1922صفحہ2) حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ نے حضرت چودھری محمد حسین باجوہ رضی اللہ عنہ آف تلونڈی عنایت خان (وفات: یکم مارچ 1933ء) کی معیت میں بغرض فراہمی چندہ تبلیغ ضلع لائل پور اور سرگودھا کا دورہ کیا۔

(الحکم 26؍جولائی 1908ء صفحہ7 کالم1)

رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں غیروں کی شراکت اور حضرت اقدسؑ کا ذکر ہٹانے کی تجویز پر جن مخلصین نے غیرت مندانہ خطوط لکھے اُن میں ایک خط حکیم محمد حسین صاحب لائل پور کے نام سے بھی شائع شدہ ہے، واللہ اعلم یہ آپ ہی ہیں یا کوئی اور۔ بہرحال وہ خط اس طرح ہے:
’’…. اخبار الحکم مورخہ 24؍فروری 1906ء کا مطالعہ کیا اور خطوط مولوی صاحب محمد علی صاحب بنام ایک ایڈیٹر غیر احمدی کے پڑھے، دل نہایت خوش ہوا مگر ساتھ ہی خواجہ صاحب کی تجویز پڑھنے سے نہایت رنج ہوا بلکہ لائل پور کی تمام جماعت افسوس کرتی ہے۔ امید یہ کہ یہ کاروائی حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور پیش نہیں ہوئی۔ آپ ذرا غور فرمائیں کہ مولوی محمد علی صاحب کو خدا نے اِس قدر طاقت علمی عملی بخشی تو کس کی خاطر! حضرت اقدس علیہ السلام کے زیر سایہ رہنے سے، ورنہ پہلے مولوی صاحب نے کوئی ایسی کاروائی نہیں دکھلائی۔ اور یہ تحریر فرماویں کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا مشن اسلام کے باہر ہے یا اسلام میں داخل ہے؟ اگر اسلام میں داخل ہے تو باہر نہیں ہونے چاہئے اور وسط سطر میں حضرت اقدس کا نام مبارک آوے تا لوگوں کو معلوم ہو کہ اسلام کس کے ذریعہ چل رہا ہے اور مولوی صاحب کس کے زیر سایہ ہیں۔ اس وقت تک جس قدر اشاعت رسالہ کی حضرت اقدس کے ارشاد سے بیرونجات میں مخالفوں کے نام مفت ہوئی اس میں جماعت نے حتی الوسع خدمت بجا لانے میں کوتاہی نہیں کی اور آئندہ دست بدعا ہیں کہ خدا ہم کو طاقت دے کہ ہم سب مل کر اس کی اشاعت میں سر توڑ کوشش کریں۔ نہ معلوم کہ ایک ایڈیٹر مخالف کےلکھنے سے ضمیمہ کی تجویز کریں۔ جب ہم احمدی فرقہ کا ایمان ہے کہ اشاعۃ اسلام اور خوبیاں اسلام کی بیان کرنا اور تجدید دین حضرت اقدس علیہ السلام کا کام ہے تو کیا جب مخالف ان کا نام ہی لکھوانا نہیں چاہتے تو ان …. حکیم محمد حسین از لائل پور

(بدر 5؍اپریل 1906ء صفحہ7 کالم3)

خلافت ثانیہ کے موقع پر آپ ابتداء میں غیر مبائعین کے ساتھ تھے لیکن جلد ہی خلافت حقہ کو پہچان کر ایمان لے آئے، اخبار فاروق نے ’’حکیم احمد حسین لائلپوری خلیفہ ثانی کی بیعت میں‘‘ سرخی کے تحت لکھا:
’’حکیم صاحب موصوف کے مخلصانہ اشعار اور اے قادیان کی بستی تجھ پر سلام ہووے‘‘ ایسے مصرعوں میں مدینۃ المسیح سے پیار اور پھر حضرت خلیفۃ ثانیؓ کی مخالفت میں مضامین مندرجہ پیغام دیکھ کر ہمیں تعجب ہوتا تھا کہ حکیم صاحب کو کیا ہوگیا۔ ’’الحق‘‘ دہلی کے خلاف بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا تھا، الحمد للہ کہ اب حجاب دور ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ حق پر وہی مسلمان فریق ہے جس کے ساتھ خدا نے اپنی معیت کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ کی بیعت کا خط حسب ذیل ہے:

حضرت خلیفۃ ثانی مصلح موعود علیہ السلام:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ بعض وجوہات سے بیعت میں تاخیر ہوئی جس کی معافی کا خواستگار ہوں۔ میرے دل نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ خدا نے آپ کو خلیفۃ المسیح الموعود علیہ السلام بنایا جس کی اتباع لازم ہے، اس واسطے حضور میری بیعت قبول فرماویں اور میرے حق میں دعا فرماویں۔ میری کمزوری اور لغزش کو بھی معاف فرمایا جاوے۔ راقم حکیم احمد حسین احمدی لائلپوری‘‘

(فاروق 24؍فروری 1916ء صفحہ8 – 9)

15؍فروری 1920ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بریڈلا ہال لاہور میں وزیر اعظم انگلستان مسٹر لائڈ جارج کے اعلان کہ ’’آئندہ دنیا کا امن عیسائیت سے وابستہ ہے‘‘ کے جواب میں نہایت پُر زور لیکچر ارشاد فرمایا، اس اجلاس میں حضرت حکیم احمد حسین لائل پوری صاحبؓ نے کلام محمود سے حضور ؓ کی درج ذیل نظم کا ایک حصہ پڑھا:

کیا جانیے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا
کس بات کا ہے اس کو دھڑکا لگا ہوا

(الفضل 26 فروری 1920ء صفحہ3 کالم1)

آپ نے برہان پور (صوبہ مدھیا پردیش۔ انڈیا) میں وفات پائی، اخبار الفضل نے لکھا:
’’ڈاکٹر احمد حسین صاحب لائل پوری وارد برہان پور علاقہ نماڑ قضاء الٰہی سے فوت ہوگئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم بڑی خوبی کے آدمی تھے، شاعر تھے اور واعظ خوش الحانی سے عمومًا جلسہ پر نظمیں سنایا کرتے تھے۔ ان کی نظم ’’اے قادیاں کی بستی تجھ پر سلام ہو وے‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔‘‘

(الفضل 14فروری 1925ء صفحہ2)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍فروری 1925ء میں آپ کی نمازہ جنازہ غائب کا اعلان فرمایا: ’’میں نماز کے بعد حکیم احمد حسین صاحب کا جنازہ پڑھوں گا۔ حکیم صاحب شاعر تھے، اکثر جلسوں میں شعر پڑھا کرتے تھے اور مخلص احمدی تھے۔ ان کے بھائی کا خط آیا ہے کہ وہ علاقہ نماڑ میں فوت ہوئے ہیں اور ان کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہ تھا اس لئے میں ان کا جنازہ پڑھوں گا۔‘‘

(خطبات محمود جلد9 صفحہ41)

(غلام مصباح بلوچ۔استاذ جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

تربیتی سیمینار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2022