• 25 اپریل, 2024

کیا عقل داڑھ ختم ہو رہی ہے؟

teeth

پیدائش کے بعد جسمانی افزائش کے دوران تمام اعضاء کی طرح منہ بھی مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ شیر خوار بچوں کو کھانے اور چبانے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے دانت مسوڑھوں کے نیچے ہوتے ہیں تاکہ ابتدا میں انہیں دودھ پینے میں آسانی رہے۔وقت کے ساتھ دانت بتدریج مسوڑھوں کو ہٹا کر باہر نکلتے اور بڑے ہونے لگتے ہیں۔ انہیں دودھ کے دانت بھی کہا جاتا ہے ،ان کی تعداد اوسطاً بیس تک ہوتی ہے اور یہ بارہ سال تک رہتے ہیں۔اس دوران بعض دانت گر جاتے ہیں لیکن 13 سال تک نئے اور پرانے دانت پکے ہو جاتے۔ یوں 28 دانت مکمل ہو جاتے ہیں لیکن چار داڑھوں کی جگہ باقی ہوتی ہے۔ دو اوپری جبڑے میں اور دو نیچے والے میں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر انسان کے منہ میں یہ داڑھیں اتنی تعداد میں ہی نکلیں۔

عمر کے ابتدائی حصے میں ان کے نہ نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ 32 دانتوں کے لیے درکار جگہ منہ میں نہیں ہوتی۔ لیکن 17 سے 21 سال کے درمیان جبڑا اتنا بڑا ہو چکا ہوتا ہے کہ داڑھیں نکل سکیں۔ چونکہ جسم کی نشونما کے ساتھ اعضاء میں سختی پیدا ہو چکی ہوتی ہے اس لیے ان داڑھوں کے نکلنے کے دوران کئی لوگوں کو بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر منہ میں اتنی جگہ پیدا نہ ہوئی ہو کہ داڑھیں آسانی سے نکل سکیں تو بہت زیادہ تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ جب یہ داڑھیں پہلے سے جگہ بنا چکے دانتوں کو دھکیل کر اور مسوڑھوں کو ہٹا کر اپنی جگہ بناتی ہیں تو جبڑے کی شکل بگاڑ دیتی ہیں۔ کئی کیسز میں منہ اور جبڑا ٹیڑھا بھی ہو جاتا ہے اور بذریعہ آپریشن ان داڑھوں کو نکالنا پڑتا ہے۔18 سال کے بعد یہ عمر کے کسی بھی حصہ میں نکل سکتی ہیں۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان لڑکپن کے دور سے شعور ی دور میں قدم رکھتا ہے۔

اردو لغت میں عقل داڑھ کی ذیل میں لکھا ہے ’’عربی زبان سے مشتق اسم ’عقل‘ کے ساتھ ہندی اسم ’داڑھ‘ لگانے سے مرکب ’عقل داڑھ‘ بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے 1867ء کو ’’نور الہدایہ‘‘ میں مستعمل ملتا ہے۔ چار دانت جو جوانی میں نکلتے ہیں (یعنی سیانی عمر میں اور یہی ان کی وجہ تسمیہ بتائی جاتی ہے۔)

البتہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ عقل داڑھ نہیں بلکہ ’’عقب داڑھ‘‘ ہے کیونکہ یہ جبڑے کے باقی دانتوں کے عقب میں نمودار ہوتی ہے۔عقب داڑھ کا لفظ مرور زمانہ کثرت استعمال سے عقل داڑھ میں تبدیل ہو گیا۔چنانچہ اب اسی طرح غلط العام مستعمل ہے۔ بحرحال دونوں توجیہات قرین قیاس معلوم ہوتی ہیں۔

ابتداء میں انسان کچے گوشت سمیت بغیر پکائے خوراک استعمال کرتے تھے جس کے لیے دانتوں کی تعداد کا زیادہ اور جبڑے کا بڑا ہونا ضروری تھا۔آگ کی دریافت کے بعد نوع انسان نے غذاء کو پکا کر اور نرم کرکے استعمال کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے عقل داڑھ کی ضرورت ختم ہو گئی اور منہ کے دہانے چھوٹے ہونے لگے ہیں۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی ایک ٹیم اس معاملہ پر تحقیق کر رہی ہے۔ اس ٹیم کی سربراہی ایڈیلیڈ میں فلنڈرس یونیورسٹی کے ڈاکٹر ٹیگھن لوکاس کررہے ہیں۔وہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران انسانوں میں ہونے والی ان تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے رہے ہیں۔ان کی تحقیق کے مطابق جدید انسانوں کے منہ میں دانتوں کے لئے کم سے کم جگہ بن پارہی ہے۔اسکی ابتدائی وجہ ہماری غذاء اور غذائی عادات ہیں۔ انسان پچھلے کئی سو سال سے غذاء کو پکا کر اور نرم کرکے استعمال کر رہا ہے۔سخت اور کچی اشیاء اب ہماری خوراک کا حصہ نہیں چنانچہ اضافی دانتوں کی ضرورت بھی ختم ہو چکی ہے۔اس تبدیلی کی وجہ سے ہمارے چہرے اور جبڑے چھوٹے ہورہے ہیں اور بچے ان تبدیلیوں کے ساتھ ہی پیدا ہورہے ہیں۔ڈاکٹر لوکاس کہتے ہیں کہ “یہ وقت کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ ہم نے آگ اور کھانے کی اشیاء کو زیادہ استعمال کرنا سیکھا ہے۔ بہت سارے لوگ عقل داڑھ کے بغیر ہی پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘

اس وقت پیدا ہونے والے 20 سے 25 فیصد بچوں میں ایک سے تین تک عقل داڑھیں ہوتی ہیں جبکہ 35 فیصد تعداد ایسے بچوں کی ہے جن میں ایک بھی عقل داڑھ نہیں ہوتی۔

ہر انسان میں دانتوں کی کل تعداد 28 ہوتی۔17 سال کے بعد عمر کے کسی حصے میں کئی لوگوں میں ایک سے چار تک عقل داڑھیں نکل سکتی ہیں۔لیکن وقت کے ساتھ داڑھیں نکلنے یا بالکل نہ نکلنے کے عمل میں پچھلے سو سال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اس تغیر کو مائیکر ایولوشن کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اگراسی رفتار سے یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلی چند صدیوں میں عقل داڑھ بالکل ختم ہو جائے گی۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

انجم افشاں ودود مرحومہ کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2023