• 28 اپریل, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 42)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 42

سوال:۔ یمن سے ایک دوست نے بیوی کو دی جانے والی تین طلاقوں کی بابت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں راہنمائی کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 اگست 2021ء میں اس مسئلہ پر درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ اصل میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو بیوی کی کسی ناقابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے۔ بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا۔ اس لئے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان ایسے طیش میں تھا کہ اس پر جنون کی سی کیفیت طاری تھی اور اس نے نتائج سے بے پرواہ ہو کر جلد بازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کے بارہ میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِی أَیْمَانِكُمْ وَلَكِنْ یُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِیمٌ۔ (البقرہ: 226) یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو (قسموں) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالارادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بُردبارہے۔

آپ کی بیان کردہ صورت سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ آپ مختلف وقتوں میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے چکے ہیں اور قرآن کریم نے ایک مسلمان کو جو تین طلاق کے استعمال کا حق دیا ہے، آپ اسے استعمال کر چکے ہیں اور اب آپ اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ جب تک کہ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهُ والی شرط پوری نہ ہو۔

بہرحال ان امور کی روشنی میں آپ خود اپنا جائزہ لے کر اپنے متعلق فیصلہ کریں کہ آپ کی طلاق حقیقی رنگ میں تھی یا لغو طلاق کے زمرہ میں آتی ہے۔

سوال:۔ جرمنی سے ایک خاتون نےلڑکوں اور لڑکیوں کا اپنے جسموں کے مختلف حصوں پر Piercings کروانے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مسئلہ دریافت کیا ہے۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔

جواب:۔ اسلام نے چیزوں کی حلت و حرمت کے احکامات کے علاوہ بعض اشیاء کے طیب و غیر طیب ہونے اور بعض کاموں کے لغو ہونے کے بارہ میں بھی تعلیمات دی ہیں۔

زیور پہننے کیلئے لڑکیوں کے کان اور ناک کی حد تک Piercings کروانے کا رواج شروع سے چلا آتا ہے اور اس میں کسی قسم کی قباحت اور ممانعت نہیں پائی جاتی۔ لیکن لڑکوں کیلئے تو کان اور ناک وغیرہ چھدوانا بھی ناپسندیدہ اور لغو کام ہے۔

ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے، جب اس حد سے تجاویز کیا جائے تو ایک جائز کام بھی بعض اوقات ناجائز یا لغو کے زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس میں پڑنے سے ایک مومن کو منع کیا گیا ہے۔ (سورۃ المومنون: 4)

نپلز اور جسم کے ایسے حصوں پر Piercings کروانا جنہیں اسلام نے پردہ میں رکھنے کا حکم دیا ہے ان پر ایسا کام کروانا تو ویسے ہی بےحیائی اور خلاف شریعت فعل ہے۔ باقی زبان پر اور ہونٹوں کے اندر اور باہر Piercings کروانا کئی قسم کی بیماریوں اور انفیکشن کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لئے میرے نزدیک تو لڑکیوں کیلئے بھی پردہ میں رہتے ہوئے صرف ناک اور کان میں زیور کے استعمال کیلئے Piercings کروانے کی اجازت ہے اور اس سے زیادہ ان کیلئے بھی یہ کام لغو اور ناجائز کے زمرہ میں آئے گا۔

سوال:۔ ڈنمارک سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں سے کس کی فضیلت زیادہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25؍اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔

جواب:۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں ان دونوں مہینوں کی فضیلت کا کوئی باہمی تقابلی جائزہ تو بیان نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں مہینوں اور ان میں ہونے والی عبادات کے کثرت سے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں۔ یہ فضائل عمومی رنگ میں بھی بیان ہوئے ہیں اوربعض اوقات حضور ﷺ نے کسی سوال پوچھنے والے کے حالات کے پیش نظر اور بعض اوقات موقعہ محل کے لحاظ سے بھی انہیں بیان فرمایا ہے۔

قرآن کریم اور حدیث میں بیان ہونے والی ان فضیلتوں کی بناء پر بعض اعتبار سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور اس میں کی جانے والی عبادتیں اور اس میں نازل ہونے والے احکام بظاہر زیادہ افضل قرار پاتے ہیں اور بعض لحاظ سے ذوالحجہ کا پہلے عشرہ اور اس کی عبادات بظاہر زیادہ افضل ٹھہرتے ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا:۔ سَیِّدُ الشُّهُورِ شَهْرُ رَمَضَانَ وَأَعْظَمُهَا حُرْمَةً ذُو الْحِجَّةِ۔

(شعب الایمان للبیھقی، فصل تخصیص أیام العشر من ذی الحجة، حدیث نمبر 3597)

یعنی تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور ان میں سے حرمت کے اعتبار سے سب سے عظیم ذوالحجہ کا مہینہ ہے۔

سوال:۔ گھانا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر کسی نے میت کو چھوا ہو تو کیا اس کیلئے غسل جنابت کرنا فرض ہے اور کیا وہ غسل جبابت کئے بغیر نماز جنازہ میں شامل ہو سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25؍اگست 2021ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:۔ لَیْسَ عَلَیْكُمْ فِی غَسْلِ مَیِّتِكُمْ غُسْلٌ إِذَا غَسَلْتُمُوْهُ فَإِنَّ مَیِّتَكُمْ لَیْسَ بِنَجَسٍ فَحَسْبُكُمْ أَنْ تَغْسِلُوْا أَیْدِیكُمْ۔

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب الجنائز باب لیس علیكم فی غسل میتكم غسل)

یعنی جب تم اپنے کسی مردہ کو غسل دو تو اس کے بعد تم پر غسل واجب نہیں۔ کیونکہ تمہارے مردے نجس نہیں ہیں۔ مردہ کو غسل دینے کے بعد تمہارا ہاتھ دھو لینا کافی ہے۔

اسی طرح موطا امام مالک میں حضرت اسماء بنت عمیسؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ جب انہوں نے اپنے خاوند حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات پر انہیں غسل دیا تو غسل دینے کے بعد وہاں موجود مہاجرین سے پوچھا کہ کیا اب میرے لئے غسل کرنا ضروری ہے؟ تو اس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ نہیں۔

(موطا امام مالک کتاب الجنائز بَاب غُسْلِ الْمَیِّتِ)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم مردہ کو غسل دیا کرتے تھے۔ پھر ہم میں سے بعض خود غسل کر لیتے تھے اور بعض غسل نہیں کرتے تھے۔

(سنن دارقطنی کتاب الجنائزباب التَّسْلِیمُ فِى الْجَنَازَةِ وَاحِدٌ وَالتَّكْبِیرُ أَرْبَعًا وَخَمْسًا)

ان احادیث کے مقابل پر سنن ابی داؤد میں مروی حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو مردہ کو غسل دے اسے چاہیے کہ غسل کرے۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے، جنابت کی وجہ سے، جمعہ کے روز، سینگی لگوانے سے اور مردہ کو غسل دے کر۔

لیکن اس مضمون کی روایات کو علماء حدیث نے ضعیف اور منسوخ قرار دیا ہے۔ نیز کہا ہے کہ غسل سے مراد صرف ہاتھوں کا دھونا ہے۔

فقہاء اربعہ کے نزدیک بھی میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا واجب نہیں، صرف مستحب ہے۔ تا کہ میت کو غسل دینے کی وجہ سے اگر انسان کو کوئی گندگی لگ گئی ہو یا گندے پانی کے چھینٹے انسان کے بدن پرپڑ گئے ہوں تو غسل کے نتیجہ میں اس کی صفائی ہو جائے۔

پس جب میت کو غسل دینے کی وجہ سے نہلانے والے پر غسل واجب نہیں ہوتا تو میت کو چھونے والے پر کس طرح غسل واجب ہوسکتا۔ لہٰذا میت کو غسل دینے والا بغیر غسل کے نماز جنازہ میں شامل ہو سکتا ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ ہاں فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ جس طرح باقی نمازوں کیلئے وضوء ضروری ہے اسی طرح نماز جنازہ کیلئے بھی وضوء کرنا ضروری ہے، وہ اسے کرنا چاہیے۔

سوال:۔ کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا خدا تعالیٰ کا نافرمان اس دنیا میں تکلیف و مصائب میں رہتا ہے یا مومن تکالیف کا شکار رہتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 اگست 2021ء میں بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے نہایت پُر حکمت کلام کے ذریعہ یہ مضمون ہمیں سمجھا دیا ہے آپ فرماتے ہیں:۔ الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ۔ یعنی یہ دنیا مومن کی قید اور کافر کی جنت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق بَاب نمبر1)

اس جامع و مانع کلام میں حضور ﷺ نے ہمیں یہ بات سمجھائی ہے کہ ایک مومن اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام اور ناپسندیدہ قرار دی جانے والی شہوات دنیا اسی کی خاطر چھوڑ دیتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر اور اس کی اطاعت میں مجاہدات کرتا اور مشکلات برداشت کرتا ہے، اس لئے یہ دنیا بظاہر اس کیلئے ایک قیدخانہ کی مانند ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وہ فوت ہوتا ہے تو اس کی اس عارضی قربانی کے نتیجہ میں اخروی اور دائمی زندگی میں اس کو ان مصائب و مشکلات سے استراحت نصیب ہوتی اور وہ ان دائمی انعامات کا وارث قرار پاتا ہے جن کا خدا تعالیٰ نے اس سے وعدہ کیا ہوتا ہے۔ جبکہ ایک کافر خدا تعالیٰ کے حکموں کو پس پشت ڈال کر اس عارضی دنیا کے ہر قسم کے حلال و حرام سامان زندگی سے فائدہ اٹھاتا اور اسی دنیا کو اپنے لئے جنت خیال کرتا ہے۔ لہٰذا جب وہ مرتا ہے تو اس دنیا میں کئے گئے اپنے کرموں کی وجہ سے اسے اخروی اور دائمی زندگی میں عذاب الہٰی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پس ایک سچے مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کو اپنے پیش نظر رکھےکہ دنیوی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے اور اس کی تکالیف بھی عارضی ہیں۔ اور جن لوگوں کو اس عارضی زندگی میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں ایسے شخص کی اخروی زندگی جو دراصل دائمی زندگی ہے، کی تکالیف دور فرما دیتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن کو اس دنیا میں جو بھی تکالیف پہنچی ہیں یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے جو کانٹا بھی چبھتا ہے اس کے بدلے میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اجر لکھ دیتا ہے یا اس کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والاداب بَاب ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِیمَا یُصِیبُهُ مِنْ مَرَضٍ أَوْ حُزْنٍ۔۔۔)

اس دنیوی زندگی کے مصائب میں اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو سب سے زیادہ ڈالتا ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے انبیاء پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں پھر رتبہ کے مطابق درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر آزمائش آتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو حضورﷺ سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا۔

(صحیح بخاری کتاب المرضی بَاب شِدَّةِ الْمَرَضِ)

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ﷺ کے کئی بچے فوت ہوئے، حالانکہ صرف ایک بچہ کی وفات کا دکھ ہی بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
قرآن کریم کے دوسرے مقام میں جو یہ آیت ہے۔ وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡہَا جِثِیًّا۔ (سورۃ مریم: 72۔73) یہ بھی درحقیقت صفت محمودۂ ظلومیت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اور ترجمہ آیت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نفس نہیں جو آگ میں وارد نہ ہو یہ وہ وعدہ ہے جو تیرے رب نے اپنے پر امر لازم اور واجب الادا ٹھہرا رکھا ہے پھر ہم اس آگ میں وارد ہونے کے بعد متقیوں کو نجات دیدیتے ہیں اور ظالموں کو یعنی ان کو جو مشرک اور سرکش ہیں جہنم میں زانو پر گرے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اس آیت میں بیان فرمایا کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں۔ اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اسی دنیا میں جو دارلابتلا ہے انواع اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالیٰ کیلئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء و قدر بھی نار کی شکل میں ان پر وارد ہوتے ہیں وہ ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا اور حدیث صحیح میں ہے کہ تپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نار جہنم میں سے ہے اور مومن بوجہ تپ اور دوسری تکالیف کے نار کا حصہ اسی عالم میں لے لیتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کیلئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں پس وہ بطیب خاطر اس جہنم میں وارد ہو جاتا ہے تو معاً اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ142 تا 145)

دنیوی تکالیف اور آزمائشوں میں بہت سی الہٰی حکمتیں مخفی ہوتی ہیں، جن تک بعض اوقات انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ پس انسان کو صبر اور دعا کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’بعض وقت مصلحت الہٰی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی۔ طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامرادیاں لاحق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہیے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ23، ایڈیشن 2016ء)

سوال:۔ جرمنی سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا ایک عورت اپنے مخصوص ایام میں کسی عورت کی میت کو غسل دے سکتی ہے؟ نیز یہ کہ جس شخص کو صدقہ دیا جائے کیا اسے بتانا ضروری ہے کہ یہ صدقہ کی رقم ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 15؍ستمبر 2021ء میں بارہ میں درج ذیل ہدایات عطاء فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ قرآن کریم یا احادیث میں بظاہر کوئی ایسی ممانعت نہیں آئی کہ حائضہ یا جنبی کسی میت کو غسل نہیں دے سکتے۔ البتہ صحابہ و تابعین نیز فقہاء میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ اس کے جواز کے قائل ہیں اور ان کی دلیل آنحضورﷺ کا یہ فرمان ہے کہ إِنَّ الْمُسْلِمَ لَیْسَ بِنَجَسٍ (السنن الکبریٰ للبیہیقی کتاب الجنائز باب من لم یر الغسل من غسل المیت) یعنی مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان کے نزدیک کسی جنبی یا حائضہ کے میت کو غسل دینے میں کوئی حرج نہیں۔ جبکہ ایک گروہ کے نزدیک حائضہ اور جنبی کا میت کو غسل دینا مکروہ ہے۔ اور ایک تیسری رائے یہ ہے کہ اگر مجبوری ہو اور حائضہ اور جبنی کے علاوہ کوئی اور میت کو غسل دینے والا موجود نہ ہو تو اس مجبوری کی صورت میں حائضہ اور جنبی میت کو غسل دے سکتے ہیں لیکن عام حالات میں انہیں میت کو غسل نہیں دینا چاہیے۔

میرے نزدیک بھی عام حالات میں حائضہ اور جنبی کو میت کو غسل نہیں دینا چاہیے لیکن اگر کوئی دوسرا موجود نہ ہو تو مجبوری کی حالت میں حائضہ یا جنبی کے میت کو غسل دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

آپ کے دوسرا سوال کا جواب یہ ہے کہ صدقہ بتا کر دینا چاہیے کیونکہ کئی لوگ صدقہ لینا پسند نہیں کرتے۔ پھر حدیث میں بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو آپ اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے اسے استعمال نہ فرماتے بلکہ اہل صفہ کو بھجوا دیتے لیکن اگر کوئی ہدیہ پیش کرتا تو اس میں سے خود بھی کھاتے اور اہل صفہ کو بھی بھجواتے۔ اس سے توبظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی خدمت میں صدقات اور ہدیہ جات پیش کرنے والے بھی آپ کو بتایا کرتے تھے کہ یہ صدقہ ہے یا ہدیہ ہے۔ اسی لئے تو آپ اس کے استعمال میں بھی فرق فرمایا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب الرقاق بَاب كَیْفَ كَانَ عَیْشُ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ وَ تَخَلِّیهِمْ مِنْ الدُّنْیَا)

(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔ انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

انجم افشاں ودود مرحومہ کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2023