• 27 اپریل, 2024

استغفار کو توبہ پر تقدّم حاصل ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’استغفار اورتوبہ دوچیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدّم ہے۔کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہےجو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادةاللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس وقت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی۔ جس کا نام ہے۔ اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے۔ غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے۔ سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا، کیا کر سکے گا؟ توبہ کی توفیق استغفار کے بعدملتی ہے۔ اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مرجاتی ہے۔ پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا ۔ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی (هود: 4) سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے۔ ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے۔ جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے۔ ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق، شہید نہیں ہوسکتا۔

غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امرحق ہے۔ اس کے آگے الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ (هود: 4) لیکن اگر زیادت لے کر آیا تو خدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا اور اپنے فضل کو پا لے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے۔ ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محروم نہ رکھے گا۔

بعض لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ میاں ہم نے ولی بننا ہے؟ جو ایسا کہتے ہیں وہ دنی الطبع کافر ہیں۔ انسان کو مناسب ہے کہ قانونِ قدرت کو ہاتھ میں لے کر کام کرے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ475)

پچھلا پڑھیں

تربیتی کلاسز جماعت احمدیہ تنزانیہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 فروری 2020