• 8 جولائی, 2025

کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا

5 مارچ 1897 کا دن اور دوپہر کے قریب کا وقت ہے۔ پورے لاہور میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ میو ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں ایک درمیانی عمر کا شخص خون میں لت پت اس حالت میں لایا گیا ہے کہ اُس کا پیٹ پھٹا ہُوا اور انتڑیاں کسی تیز دار آلے سے کٹی ہُوئی تھیں اور مُنہ سے بچھڑے کی آواز جیسی آوازیں نکل رہی تھیں-خوف و ہراس کا عجیب منظر تھا۔ ڈاکٹرز کی ایک ٹیم فوری طور پر مریض کو طبی امداد دینے کیلئے بلائی گئی۔ ان میں ایک نوجوان ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ بھی تھے۔ ان کے ایک ساتھی ڈاکٹر نے کسی کام کے سلسلہ میں انہیں مرزا صاحب کہ کر آواز دی تو یہ زخمی شخص تڑپنے لگا اور خوف سے اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی جا رہی تھی۔ شام کے وقت اس کا آپریشن کیا گیا مگر شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہُوئے یہ بدنصیب اگلے دن 6 مارچ (عید الفطر سے اگلے دن) کو اس جہان فانی سے کُوچ کر گیا- اس شخص کا نام لیکھرام تھا جو ہندو آریہ سماج کا بہت بڑا لیڈر تھا مگر انتہائی بد زبان اور گُستاخ تھا۔ اسلام اور آنحضرت ﷺ اور قرآن مجید کی تحقیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا- جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے نتیجہ میں روز قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا گیا-

حضرت مسیح موعودؑ کیا خوب فرماتےہیں

جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

انیسویں صدی ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ملک ہندو مذہب کا اکھاڑہ بنا ہُوا تھا- عیسائیت نے پوری طاقت سے اپنے پنجے گاڑے ہُوئے تھے اور پادریوں کی ایک فوج اسلام کے خلاف صف آرا تھی- ہندوؤں اور سکھوں نے علیحدہ یلغار کی ہوئی تھی۔ ہندوؤں کی دو اہم تحریکیں نمایاں طور پر اُبھر کر سامنے آئیں ان میں ایک برہمو سماج اور دوسری آریہ سماج تھی- برہمو سماج راجہ رام موہنرائے نے 1828ء میں کلکتہ میں قائم کی- جبکہ آریہ سماج کی بنیاد سوامی دیانند سرسوتی نے 1875ء میں ممبئی میں رکھی۔ دونوں تحریکوں نے بے شمار سماجی اصلاحات بھی کیں۔ برہمو سماج نسبتاً معتدل رویہ رکھنے والی جماعت تھی جبکہ آریہ سماج سخت کٹر اور بنیاد پرست تنظیم تھی اور وید کے علاوہ تمام مذہبی صحیفوں کو جھوٹا قرار دیتی تھی۔ سوامی دیانند کی تعلیمات ستیارتھ پرکاش کے نام سے شائع شدہ ہیں۔

لیکھرام اپریل 1857ء میں سید پور ضلع جہلم میں تارا سنگھ اور بھاگ بھری کے ہاں پیدا ہُوا۔ اسے گھر میں لیکھو کے نام سے پکارا جاتا تھا-ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے پنجاب پولیس میں ملازمت اختیار کر لی۔بعد میں اس کا پشاور ٹرانسفر کر دیا گیا۔ یہاں اس کا رابطہ آریہ سماج سے ہُوا- لیکھرام سوامی دیانند کی تحریک سے اس قدر متاثر ہُوا کہ پولیس کی نوکری سے استعفی دے دیا اور اپنے آپ کو آریہ سماج کے پرچار کے لئے وقف کر دیا۔ یہ شخص بلا کا خطیب اور مناظر تھا۔ اس نے اردو میں 33 کتابیں تصنیف کیں جو کلیات آریہ مسافر کے نام سے شائع شدہ ہیں۔ اسلام اور بانئ اسلام کے خلاف اس کی زبان چُھری کی طرح چلتی تھی۔اس کے سر پر مسلمانوں کو ہندو بنانے کی دُھن سوار تھی۔ اپنی اس شعلہ بیانی کی وجہ سے وہ ہندوؤں کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کی حمایت و نصرت کے لئے چمکتے نشانوں کے ساتھ مبعوث کیا گیا۔

؂ دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں پر جوش ہے
اب گیا وقت خزاں آئے ہیں پھل لانے کےدن

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب براہین احمدیہ کے ذریعہ تمام مخالفین، معاندین مکفرین اور مکذبین کو کھلا چیلنج دیا کہ اسلام، بانئ اسلام اور قران مجید کی صداقت و حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے آپ کو مامور کیا گیا ہے اور جو بھی سچائی کا طالب ہو وہ آپ کے پاس آئے اور اپنی تسلی وتشفی کر لے۔ ؂

کرامت گرچہ بے نام و نشاں است
بیا بنگر ز غلمان محمد

1885ء میں لیکھرام قادیان آیا اور قریبا ًدو ماہ تک رہا۔ جاتے وقت ایک کارڈ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ آپ میرے لئے خدا سے کوئی نشان طلب کریں- فروری 1886ء میں حضرت اقدسؑ نے پیشگوئی مصلح موعود شائع کی اور لکھا کہ اگر لیکھرام راضی ہو تو اس کے بارہ میں پیشگوئی شائع کی جائے۔ اس پر لیکھرام نے جواب دیا کہ آپ کو میری طرف سے اجازت ہے جو چاہو شائع کرو اور میں(لیکھرام) یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ تم (مرزا صاحب) تین سال کے اندر ہیضے سے ہلاک کر دئیے جاؤ گے۔ حضرت اقدسؑ کی کتاب براہین احمدیہ کے مقابلے میں تکذیب براہین احمدیہ شائع کی اور بہت دل آزار حملے کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکھرام کو اس کی بدزبانیوں سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ آخر کار جب اس شخص کی دل آزاری بہت بڑھ گئی اور اس کے ناپاک حملوں نے حضرت اقدسؑ کو مجبور کیا کہ آپ خدا تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں اس کے لئے کوئی نشان طلب کریں تو اللہ جل شانہُ نے آپ کو الہاماً فرمایا

عِجْل جَسَداً لَہُ خوار لہُ نَصَب وَ عَذَاب یعنی یہ صرف ایک بےجان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے- پھر فرمایا سَتُعْرفُ یَوْمُ الْعِیْد وَالْعِیْدُ اَقْرَب

یعنی تو اس نشان کے دن کو جو عید کی مانند ہے پہچان لے گا اور عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہو گی- نیز حضرت اقدس ؑنے اپنے ایک شعر میں اسے مخاطب کرتے ہُوئے لکھا

الا اے دشمن نادان و بےراہ
بترس از تیغ بران محمد

چنانچہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت اقدس ؑنے پیشگوئی شائع فرمائی کہ لیکھرام 20 فروری 1893ء سے لے کر 20 فروری 1899ء تک چھ سال کے عرصہ میں خدا تعالیٰ کی قہری تجلی کا نشانہ بنے گا۔

ایک جلالی کشف
’’لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر‘‘

آج 2 اپریل 1893ء صبح کے وقت تھوڑی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اُس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہُوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے……… تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام ………. کی سزا دھی کے لئے مامور کیا گیا ہے۔

(برکات الدعا)

واقعہ قتل

لیکھرام کے قتل سے چند ماہ قبل ایک نوجوان اس کے پاس آیا اور اسے کہا کہ وہ مسلمان ہے مگر اب ہندو ہونا چا ہتا ہے چنانچہ لیکھرام نے بہت خوش ہو کر اسے اپنے پاس رکھ لیا اور 7 مارچ 1897ء کا دن مقرر ہوا جب اُسے باقاعدہ طور پر ہندو بنا کر آریہ سماج میں داخل کیا جانا تھا۔ ہندوؤں نے لیکھرام کو بہت منع کیا کہ یہ شخص اُس کے لئے بہت خطرناک ہو سکتا ہے مگر لیکھرام نے انکار کر دیا اور اس نوجوان کو اپنے مزید قریب کر لیا- 5 مارچ (عید الفطر) کو لیکھرام اپنے مکان واقع شاہ عالم مارکیٹ لاہور میں بالائی منزل پر بیٹھا کوئی تحریری کام کر رہا تھا اور یہ نوجوان بھی اس کے قریب ہی بیٹھا ہُوا تھا کہ لیکھرام نے تھک کر انگڑائی لی- موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے اس نوجوان نے سُرعت کے ساتھ ایک تیز خنجر لیکھرام کے پیٹ میں گھسا دیا اور اسے بار بار گھمایا تاکہ انتڑیاں پوری طرح کٹ جائیں۔ لیکھرام کے مُنہ سے ذبح کئے ہُوئے بچھڑے کی طرح سے آوازیں نکلیں۔ نیچے صحن میں لیکھرام کی بیوی اور والدہ بیٹھی ہُوئی تھیں وہ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئیں- وہ نوجوان آہستہ آہستہ چلتا ہُوا دوسرے ملحقہ کمرے میں چلا گیا- لیکھرام کی ماں نے آگے بڑھ کر اس کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی- اتنے میں پولیس بھی پہنچ گئ- پولیس کی نگرانی میں کمرے کو کھولا گیا مگر کمرے میں کوئی نہیں تھا اس کمرے میں صرف ایک چھوٹا سا روشن دان تھا جہاں سےچڑیوں کے علاوہ کوئی بڑی چیز نہیں گزر سکتی تھی۔ نیچے گلی میں ایک شادی ہو رہی تھی اور بہت سے لوگ جمع تھے مگر کسی نے بھی قاتل کو جاتے ہُوئے نہیں دیکھا۔ پھر آخر قاتل کہاں گیا اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟ یہ قاتل کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا اور کہاں چلا گیا کسی کو علم نہیں۔ حضرت اقدسؑ کے گھر کی بھی تلاشی لی گئی اور پورے ہندوستان کا کونہ کونہ چھان مارا گیا مگر قاتل کا سراغ نہ مل سکا-

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’یقیناً یہ سمجھنا چاہئے کہ جو چُھری لیکھرام پر چلائی گئی یہ وہی چھری تھی جو وہ کئی برس تک ہمارے سیدو مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی بےادبی میں چلاتا رہا‘‘

(سراج منیر)

ایک انسان کے اس طرح مارے جانے پر بحثیت انسان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دکھ ہوا- آپؑ نے فرمایا
ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آ جاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا …….. اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہُوئی۔

وہ لیکھرام تو اپنے انجام کو پہنچ چکا مگر خدا تعالیٰ نے ہماری انکھوں کو ایک اور لیکھرام کی عبرتناک موت کا نشان دکھانا تھا اور وہ اس زمانہ کا لیکھرام تھا جس کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔

ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا
ساتھ میرے ہے تائید ربالوری
کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا
آج بھی اذن ہو گا تو چل جائے گی

اور پھر نہ صرف ہم نے بلکہ پوری دنیا نے وہ تیغ دعا چلتی ہوئی دیکھی۔ آئندہ بھی خدا تعالیٰ کی غیرت مسیح محمدی کے غلاموں کو ایسے نشان دکھاتی رہے گی۔ (انشاء اللہ)

(ڈاکٹر فضل الرحمٰن بشیر۔تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

بیت السبوح فرینکفرٹ میں اہم تبلیغی ورکشاپ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ