آج سے ایک سو سال قبل مورخہ 15فروری 1920ء کو حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق لندن سے بحری جہاز کے ذریعہ فلاڈلفیا شہر کی بندرگاہ پر پہلے مبلغ سلسلہ کے طور پر پہنچے۔ آتے ہی امیگریشنافسر نے انٹرویو لیا اور آمد کی وجہ پوچھی آپ نے بتایا کہ اس خطہ ارض پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے مبلغ کے طور پر آئے ہیں۔ اُس زمانہ میں امریکہ آنے سے قبل ویزا لینے کا رواج نہیں تھا امیگریشن افسر جس کو داخلہ دیتا تھا اُسے داخلہ کی اجازت ملتی مگر کبھی کبھار کسی کو داخلہ سے منع کر کے اُسی جہاز پر واپس بھجوا دیا جاتا تھا۔
حضرت مفتی صاحب سے طویل انٹرویو لیا گیا جس میں یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آپ بھی باقی مسلمانوں کی طرح تعدّدِ ازدواج پر یقین رکھتے ہیں، حضرت مفتی صاحب نے پورے اعتماد سے جواب دیا جی ہاں میرا بھی یہی عقیدہ ہے جو میرے پیارے آقا حضرت محمد رسولا لله ﷺ پر الله تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہو کر ہماری مقدس کتاب قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔ امیگریشن افسر نے پوچھا کہ کیا تم اس تعدّدِ ازدواج کی تبلیغ بھی یہاں کرو گے ؟حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا یقیناً ایسا بھی کروں گا۔ امیگریشن افسر نے کہا تمہیں پتہ ہے کہ یہ ہمارے قانون کے خلاف ہے۔ اس پر حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا کہ ہم احمدی مسلمان کوئی چیز قانون کے خلاف نہیں کرتے، مگر یہ قانون انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان کو باہم افہام و تفہیم سے بنایا جاتا ہے یہ تبدیل بھی ہو جاتے ہیں۔ اس پر امیگریشن افسر نے حضرت مفتی صاحب کو حکم دیا کی تمہیں ہم امریکہ میں داخلہ نہیں دے سکتے کیونکہ تم اپنی تعلیمات پھیلا کر ہمارے ماحول اور طرز زندگی کو بدلنے کی کوشش کرو گے اور امریکہ میں بگاڑ پیدا کرسکتے ہو، اس لئے جس بحری جہاز سے آئے ہو اسی کے ذریعہ واپس چلے جاؤ، حضرت مفتی صاحب نے امیگریشن افسر سے مؤدبانہ طور پر پوچھا کہ سر میرے لئے اور کیا آپشن ہے۔ امیگریشن افسر نے کہا کہ آپ کو گرفتار کر کے جج کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور مقدمہ چلائیں گے، کہ تم افسر کی بات ماننے سے انکاری ہو۔ حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا یہ دوسری آپشن مجھے منظور ہے۔ اس پر آپ کو اُسی شام گرفتار کر کے قید خانہ بھجوا دیا گیا۔
حضرت مفتی صاحب جیل میں مقدمہ کی کارروائی کا انتظار کرنے لگے اور باقی قیدیوں کو تبلیغ اسلام میں مصرف ہوگئے اور سیدی و آقائی حضرت مصلح موعود رضی الله کو سارا ماجرہ لکھ بھجوایا۔ اور تقریباً روز ہی آپ خط لکھ کر حضور کی خدمت میں حالات لکھتے اور تبلیغ کی رپورٹ ڈاک کے حوالے کرتے۔ اس دوران جیل میں ہی بعض رپورٹس کے مطابق آپ سترہ اور بعض کے مطابق بائیس افراد کو دائرہ اسلام میں داخل کر چکے تھے جن میں دوران سفر جہاز میں مسلمان کئے گئے احمدی مسلمان بھی شامل ہیں۔
جب آپ کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج آپ کی شخصیت اور آپ کے لباس سے بہت متاثر ہوا اور دلچسپ مکالمہ کے بعد جج نے حضرت مفتی صاحب کو امریکہ میں قانونی داخلے کی اجازت دے دی۔ اس دوران سیدنا حضرت مصلح موعود رضی الله کے ولولہ انگیز جوابی خطوط بھی حضرت مفتی صاحب کو ملے جن میں یہ بشارت بھی تھی کی دنیا کی کوئی طاقت آپ کو امریکہ میں داخلہ سے نہیں روک سکتی۔
حضرت مفتی صاحب نے رہا ہونے کے بعد فلاڈلفیا شہر میں پہلا مرکز قائم کیا اور کچھ عرصہ میں ہی حالات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ فرمایا کہ فلاڈلفیا ایسٹ کوسٹ کا شہر ہے اور غالباً رسلو رسائل کے لحاظ سے میڈ ویسٹ ریجن میں شکاگو شہر زیادہ بہتر ہے اس لئے شکاگو شہر منتقل ہوگئے۔ وہاں Wabash Ave پر ایک دو منزلہ مکان میں مشن ہاؤس قائم کر دیا۔ فلاڈلفیا قیام کے دوران اس شہر کے علاوہ نیویارک اور باسٹن تک کی کئی سعید روحوں کو آپ دائرہ احمدیت میں داخل کر چکے تھے۔ شکاگو نقل مقانی کے بعد تبلیغ کا سلسلہ اور وسعت اختیار کر گیا۔ مختلف سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آپ اپنا مخصوص لباس شلوار قمیض اور لمبا کوٹ پہن کر جاتے اور مرجع خاص و عام ہوجاتے۔ اس وقت معروف سیاہ و سفید کی تحریک عروج پر تھی۔ بلیک مسلم تحریک کے بانی عالیجاہ محمد آپ کے گرویدہ ہوگئے اور اُنہوں نے شکاگو سے تین چار گھنٹے کی مسافت پر ڈیٹرائیٹ شہر میں اُن کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے آپ کو مدعو کیا۔ اور اس تحریک کے بہت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوگئے۔ شکاگو قیام کے دوران وہاں کی ایک یونیورسٹی نے آپ کے علم و فضل کے پیش نظر ڈاکٹر آف ڈوینیٹی کی ڈگری سے نوازا۔ تین سال آپ امریکہ میں تبلیغ اسلام میں مصروف رہے اس کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر واپس قادیان تشریف لے گئے۔ آپ کے بعد حضرت مولوی محمد دین (سابق صدر صدر انجمن احمدیہ ربوہ) امریکہ کے دوسرے مبلغ کے طور پر تشریف لائے۔
مورخہ 15فروری سال 2020ء کے دن حضرت مفتی محمد صادقؓ کی امریکہ آمد اور جماعت کے قیام کو ایک سو سال پورے ہونے پر امریکہ کی تمام جماعتی مساجد اور مشن ہاؤسز پر چراغاں کیا گیا۔ 80 سے زیادہ شہروں میں ہر جگہ دن کا آغاز نماز تہجد سے کیا گیا اور فجر کے بعد ناشتہ اکٹھے کیا اور مرکزی مسجد بیت الرحمان میں خدام انصار لجنہ اور اطفال نے شکرانے کے طور پر سترہ ہزار خشک فروٹ اور کھانے کے پیکٹس تیار کر کے ضرورت مند افراد کے لئے ہیومینٹی فرسٹ کے حوالے کئے۔ شام 4 بجے مسجد بیت الرحمان میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد تھا جس میں جماعت کے علاوہ معززینِ شہر نے بھی شرکت کی۔ نماز مغرب وعشاء کے بعد ڈنر کا انتظام تھا اس طرح اس دن کا اختتام۔ الحمدُ للّٰه۔ تفصیلی رپورٹ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں۔
(چوہدری منیر احمد ۔امریکہ)