• 25 اپریل, 2024

قرآنی کو خوش الحانی سے پڑھنا اچھی بات ہے

• لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں۔ جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے۔ نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ’’ق‘‘ اور ’’ع‘‘ کو پورے طور پر ادا کر دیا۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے۔ مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر ے۔ یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب وغریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کومدنظر نہ رکھا جاوے، اس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے۔

(الحکم جلد 5نمبر12 موٴرخہ 31؍ مارچ1901ء صفحہ3)

• قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ رُبَّ قَارِئٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْآنُ۔ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہےتلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خداتعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خداتعالیٰ کے عذاب سے خداتعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے۔

(ملفوظات جلد5صفحہ 157جدید ایڈیشن)

پچھلا پڑھیں

آداب معاشرت (ملاقات کے آداب) (قسط 7)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2023