• 1 اکتوبر, 2023

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

4؍مئی 2016ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ Scandinavian ممالک (ڈنمارک اور سویڈن) کے 19 روزہ دورے پر روانہ ہوا۔

Copenhagen میں آمد اور حضور انور کی
اپنی اہلیہ کے لیے فکر مندی

جب ہم جہاز سے اترے تو حضور انور کو محترم امیر صاحب ڈنمارک مکرم محمد ذکریا صاحب اور چند ایئرپورٹ اسٹاف کے ممبران نے خوش آمدید کہا۔ حضور انور کو آگاہ کیا گیا کہ قافلہ کو امیگریشن سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی کہ حضور انور اور قافلہ ممبران کی گاڑیاں تیار ہیں اور قریب ہی حضور کی منتظر ہیں۔ تاہم ان گاڑیوں تک پہنچنے کے لیے ضروری تھا کہ بہت سی سیڑھیوں سے اترا جائے۔ جیسا کہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ حضور انور کی خالہ سبوحی کے لیے محبت مثالی ہےاور ان سیڑھیوں کو دیکھنے پر حضور انور نے خود ائیرپورٹ کے اسٹاف سے استفسار فرمایا کہ کیا لفٹ کی سہولت ہے؟ کیونکہ خالہ سبوحی کو لمبے عرصے سے گھٹنوں کی درد کی شکایت ہے۔ افسوس کہ لفٹ کچھ دور تھی اس لیے خالہ سبوہی کو نہایت حوصلے اور صبر سے چل کر سیڑھیاں اترنی پڑیں اور حضور انور آپ کے پیچھے چلتے رہے۔

ادائیگی نماز اور معائنہ

چند منٹوں کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ سے چند میٹر کی مسافت طے کر کے مسجد تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے ادا فرمائیں۔ نمازیں ادا کرنے کے بعد حضور انور نے اس عمارت کے معائنے کی ہدایت فرمائی تاکہ گزشتہ دورے کے بعد ہونے والی تبدیلیوں اور مزید کاموں کا جائزہ لے سکیں۔

حضور انور کو تہہ خانے کا ایک ہال بھی دکھایا گیا جہاں مسجد میں نمازیوں کی گنجائش پوری ہونے پر نماز ادا کی جا سکتی تھی۔ اس کمرے (ہال)کو دیکھنے پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا ہال میں موجود لوگ امام سے آگے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں امیر صاحب نے بتایا کہ صرف ہال کا پچھلا حصہ مسجد کی گنجائش سے زائد نمازیوں کی نماز ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاکہ کوئی نمازی امام سے آگے کھڑا ہو کر نماز ادا نہ کرے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے نشان کی طرف اشارہ کیا جوpen کے ساتھ دیوار پر لگایا گیا تھا جو ان کے کہنے کے مطابق حد تھی کہ لوگ یہاں سے آگے نماز ادا نہیں کر سکتے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا یہ تو بہت چھوٹا سا نشان ہے اور بہت سے لوگ تو اس کو دیکھ بھی نہیں سکیں گے۔ اس لئے آپ کو اس جگہ سے آگے ایک ظاہری روک بنانی چاہیے تاکہ کسی وقت بھی کوئی بھی شخص امام کے آگے نماز ادا نہ کرے۔ یہ رو ک ایک سال تک رہنی چاہیے کیونکہ احباب جماعت کو اس حد کو یاد رکھنے کے لیے اتنا عرصہ تو ضرور درکار ہو گا۔

یہ ایک اور مثال تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کس طرح احباب جماعت کی جملہ امور میں رہنمائی فرماتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کی کس قدر توجہ اس امر پر ہوتی ہے کہ ہماری جماعت کا ہر عمل اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔

مہمان نوازی کے متعلق حضور انور کی راہنمائی

بعد ازاں حضور انور کو اس عمارت کے دیگر کمرے دکھائے گئے۔ جب حضور انور کو ایک معین کمرہ دکھایا گیا تو ہالینڈ جماعت کے ایک ممبر نے بتایا کہ عام طور پر یہ کمرہ بطور دفتر استعمال ہوتا ہے لیکن ان دنوں ایم ٹی اے (لندن )کی رہائش کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اس دوست نے اردو کا لفظ ‘‘قبضہ’’ استعمال کیا تھا۔ اس کے سنتے ہی حضور انور نے فرمایا۔

’’قبضہ تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بغیر دعوت کے آ جائے اور بلا ضرورت آ جائے،اس لئے اگر آپ کو ایم ٹی اے کی خدمات نہیں چاہئیں تو میں ان کو گھر بھجوا دیتا ہوں اور آپ میرے خطبہ جمعہ کی transmission کا انتظام اپنے طور پر کر لیں۔ یوں یہ کہنے کی بجائے کہ انہوں نے کمرے پر قبضہ کیا ہوا ہے آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ان دنوں ایم ٹی اے کے مہمانان اس کمرے کو اپنے کام اور سامان وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ‘‘

حضور انور کے تبصرہ سے ایم ٹی اے کی ٹیم کے لیے آپ کی محبت خوب عیاں تھی جو لندن سے حضور انور کے دورہ جات کے دوران آپ کے ہمراہ سفر کرتے ہیں نیز اس تبصرہ سے حقیقی مہمان نوازی کی اہمیت اجاگر ہوئی۔

کسی بھی مہمان کو کبھی بھی ناپسندیدگی کا احساس نہیں دلانا چاہیئے یا یہ کہ وہ کسی بھی طرح کا بوجھ ہے۔ یوں حضور انور کا تبصرہ ایک مثال تھا اور سب لوگوں کے لیے سبق آموز تھا۔ حضور انور کبھی ایسی بات کا پرچار نہیں فرماتے جب تک خود اس پر عمل نہ فرمائیں۔ پس کئی احمدی اور غیر احمدی احباب حضور انور کی مہمان نوازی اور اکرام ضیف کے اعلیٰ معیار کی گواہی دے سکتے ہیں۔

حضور انور نے ہمیشہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے غلام ِصادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی کی ہےجو اپنے مہمانان کا اکرام بہترین اور اعلیٰ رنگ میں فرماتے تھے۔ حضور انور کے پُر حکمت الفاظ اور تبصرہ سننے کے بعد اس میزبان کا رویہ یقینی طور پر اپنے تبصرہ پر معذرت خواہانہ تھا۔

اضافی پندرہ منٹ

رات کے کھانے کے بعد حضور انور مسجد تشریف لائے اور نماز مغرب و عشاء کی امامت فرمائی نیز عمارت کے بعض ایسے حصوں کا معائنہ فرمایا جو ابھی تک نہیں دیکھے تھے۔ مثال کے طور پر آپ نے اپنے سکیورٹی سٹاف کے لیے کئے گئے رہائش کے انتظامات کا جائزہ لیا۔

ایک موقع پر حضور انور نے خاکسار کی طرف دیکھا اور استفسار فرمایا کہ میں کہاں ٹھہرا ہوا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ دیگر دفتر کے اسٹاف کے ساتھ میں ایک قریبی ہوٹل میں رہائش پذیر ہوں کیونکہ مسجد میں رہائش کے لیے زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ حضور انور نے فورا ًاستفسار فرمایا کہ کیا وہاں سب کچھ ٹھیک ہے؟جس پر میں نے عرض کی کہ جی حضور، سب ٹھیک ہے۔

میں ہمیشہ تعجب سے دیکھتا ہوں کہ اس قدر مصروفیت کے باوجود حضور انور کس طرح چھوٹی چھوٹی تفصیلات کے لیے وقت نکال لیتے ہیں اور یہ یقین دہانی کرنے کے لیے بھی کہ آپ کے ساتھ خدمت کرنے والے آرام سے ہیں۔ اپنی رہائش گاہ پر واپسی کے وقت حضور انور نے توقف فرمایا اور استفسار فرمایا کہ فجر کی نماز کتنے بجے ادا ہو گی۔محترم امیر صاحب نے بتایا کہ نماز فجر کا وقت چار بجے رکھا گیا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ طلوع آفتاب کا معین وقت کیا ہے؟ بتائے جانے پر حضور انور نے فرمایا ’’ہم نماز فجر سواچار پر بھی ادا کر سکتے ہیں بجائے چار بجے کے۔ اس سے لوگوں کو مسجد آ کر نماز ادا کرنے میں آسانی ہوگی۔‘‘

حضور انور کی توجہ ہمیشہ اس طرف رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی احباب مسجد میں آ کر نماز ادا کریں۔ اس لئے طلوع آفتاب کے متعلق استفسار کرنے کے بعد آپ نے اضافی پندرہ منٹ لوگوں کی سہولت کے پیش نظر بڑھا دیے۔ ان اضافی پندرہ منٹ کے حصول پر جو لوگ تہہ دل سے حضور انور کے شکر گزار تھے، ان میں سے ایک میں بھی تھا۔

لوکل میئر (صاحبہ) کا حضور انور کو خوش آمدید کہنا

5؍ مئی بروز جمعرات لوکل میئر Mrs Helle Adelborgاور دیگر چار لوکل کونسل کے ممبران مسجدتشریف لائےتاکہ حضورانور کو سرکاری طور پر ڈنمارک میں خوش آمدید کہہ سکیں اور خاص طور پر Hvidovreشہر میں جہاں یہ مسجد واقع ہے۔ ایک احمدی کونسلر بھی تھے جن کا نام کاشف احمد ہے۔

میئر صاحبہ کا تبصرہ

ا س میٹنگ کے اختتام پر میں، میئر صاحبہ سے ملا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ حضور انور سے کس قدر متاثر ہیں اور وہ خود کو کس قدر خوش قسمت خیال کرتی ہیں کہ انہیں حضور انور کا پیغام سننے کا موقع ملا۔ Mayor Adelborgنے بتایا کہ:
’’خلیفۃ (المسیح )بہت پُر حکمت اور شفیق وجود ہیں۔ آپ کی مسکراہٹ دل کو موہ لینے والی ہے اور باوجود اس قدر اہم مذہبی شخصیت ہونے کے آپ بہت عاجز ہیں۔ خلیفہ کی ساری گفتگو کا زور ا سی بات پر تھا کہ دنیا میں امن قائم ہونا چاہیے۔ مجھے فخر ہے کہ ایسے پُرامن اور عزت مآب مسلمان لیڈر نے ہمارے شہر کا دورہ کیا ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں یہ موقع ملااور میں اس دن کو لمبے عرصے تک یاد رکھوں گی۔‘‘

(دورہ حضور انور Scandinavia مئی 2016ءاز ڈائری عابد خان)
( باتعاون : مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم : ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

آداب معاشرت (ملاقات کے آداب) (قسط 7)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2023