• 26 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 3۔اپریل 2020ء

آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت کرنے والے اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت طلحٰہ بن عبید اللہؓ کی سیرت مبارکہ کا مزید کچھ تذکرہ

حضرت طلحٰہ ؓ اور حضرت زبیرؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جن کی بابت آنحضرت ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے

جنگِ جمل کے بارے میں اُٹھنے والےبعض سوالات کے تفصیلی جواب۔ حضرت طلحہؓ کی افسوسناک شہادت اور حضرت علیؓ اور صحابہؓ کا اظہار افسوس

قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جتنی اجازت ہے اس کے مطابق آج خطبہ کا انتظام ہے۔ دُنیا میں سننے والے ہزاروں لاکھوں ہیں، چاہےمسجد میں اس وقت میرے سامنے ہوں یا نہ ہوں ۔یہ وحدت قائم رکھنے کی ہمیشہ ہمیں کوشش اور دُعا بھی کرنی چاہئے

اللہ تعالیٰ حالات بہترکرے اور اس وباء کو بھی دُور کرےاور پھر دوبارہ مسجد کی رونقیں اسی طرح واپس بھی آجائیں ۔ضروری تدابیر حفظ ماتقدم عمل میں لائیں

سب سے بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ کریں۔ پاک تبدیلی کر کے خدا تعالیٰ سے صُلح کریں ،راتوں کو اُٹھ کر تہجد میں دُعائیں مانگیں۔ آپ کی حالت کی سچی تبدیلی ہی خدا کے اس عذاب سے بچا سکے گی

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 3۔اپریل 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمورخہ3۔ اپریل 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔ حضور انور نے فرمایا: آج کل کے حالات کے مطابق اور جو قانون یہاں کی حکومت نے بنایا ہے اس کے مطابق باقاعدہ لوگ، سننے والے سامنے بیٹھے ہوں خطبہ نہیں دیا جا سکتا۔ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جتنی اجازت ہے اس کے مطابق آج انتظام ہے۔ کیونکہ دُنیا میں سننے والے ہزاروں لاکھوں ہیں، چاہےمسجد میں اس وقت میرے سامنے ہوں یا نہ ہوں۔ یہ وحدت قائم رکھنے کی ہمیشہ ہمیں کوشش اور دُعا بھی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حالات بھی بہتر کرے، اس وباء کو بھی دُور کرے اور پھر دوبارہ مسجد کی رونقیں اسی طرح واپس بھی آجائیں ۔

حضور انور نے فرمایا: اب میں خطبہ کا جو موضوع ہے اس کو شروع کرتا ہوں۔ گزشتہ دو جمعے پہلے کے خطبہ میں حضرت طلحٰہ بن عبید اللہؓ کا ذکر ہو رہا تھا ۔ جنگِ جمل کے بارے میں اُٹھنے والےبعض سوالات ہیں جن کا کچھ حد تک جواب دونگا ۔ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے قبل خلافت کی بابت ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ بخاری میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔جب حضرت عمر ؓ کی وفات کا وقت قریب تھا تو لوگوں نے کہا امیر المومنین! وصیت کر دیں،کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں ۔ انہوں نے فرمایا: میں چند لوگوں سے بڑھ کر کسی کو اس خلافت کا حقدار نہیں پاتا، کہ رسول اللہ ﷺ ایسی حالت میں فوت ہوئےکہ آپؐ ان سے راضی تھے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت علیؓ ، عثمانؓ ،زبیرؓ ، طلحٰہ ؓ، سعدؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ کا نام لیا ۔ فرمایا: میں اُس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لئے ادا کریں اور اُن کی عزت کا خیال رکھیں اور انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنےکی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلےاپنے گھروں میں ایمان کوجگہ دی ۔ جو اُن میں سےکام کرنے والا ہو اُسے قبول کیا جائے اور سارے شہر کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنےکی اس کو وصیت کرتا ہوں اور میں اس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور مَیں اس کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذمہ کرتا ہوں ۔ جب آپؓ فوت ہو گئے ، تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نےلیا تھا ۔

حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا: اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپرد کردو ۔حضرت زبیرؓ نے کہا: میں نے اپنا اختیارحضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو دیا۔ حضرت عبد الرحمنؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے کہا: آپ دونوں میں جو بھی اس امر سے دستبردار ہوگاہم اسی کے حوالہ اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہوں، ان میں اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے یعنی اللہ کے نزدیک افضل ہے۔اس بات نے دونوں بزرگوں کو خاموش کر دیا ۔پھر حضرت عبد الرحمٰنؓ نے کہا: کیا آپ اس معاملہ کو میرے سُپرد کرتے ہیں ؟ اوراللہ میرا نگران ہےکہ جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کرونگا ۔ ان دونوں نے کہا اچھا۔پھر عبد الرحمٰنؓ ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر الگ لے گئے اور کہنے لگے آپ ﷺ سے رشتہ کا تعلق ہے ،بتائیں اگرمَیں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے اور اگر مَیں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ اُس کی بات سنیں گےاور اُن کاحکم مانیں گے ۔ پھر عبد الرحمٰن ؓ دوسرے کو تنہائی میں لے گئےاور اُن سے بھی ویسے ہی کہا ۔ جب اُنہوں نے پختہ عہد لے لیا تو کہنے لگے عثمان! آپ اپنا ہاتھ اُٹھائیں اور انہوں نے اُن سے بیعت کی اور حضرت علی ؓ نے بھی اُن سے بیعت کی اور گھر والے اندر آگئے اور انہوں نے بھی اُن سےبیعت کی ۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓ انتخاب خلافت حضرت عثمانؓ کی تفصیل بیان کرتے ہوئےاس واقعہ کا یوں ذکر فرماتےہیں کہ حضرت عمرؓجب زخمی ہوئے اور آپؓ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپؓ نےچھ آدمیوں کے متعلق وصیت کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں ۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت زبیر ؓ اور حضرت طلحٰہ ؓ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورےمیں شامل کرنے کے لئے مقررفرمایا۔ مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیااور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اورتین دن کے لئے صہیبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر کیااور مشورہ کی نگرانی مقداد بن اسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے ایک فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں اور فرمایا: جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبد اللہ بن عمر ؓ اُن میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔اگر اس فیصلے پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبد الرحمٰن عوفؓ ہوں وہ خلیفہ ہو ۔آخرپانچوں اصحاب نے مشورہ کیا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبد الرحمٰن عوفؓ نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت عبد الرحمٰن عوفؓ نے کہاکہ سب سے پہلے مَیں اپنا نام واپس لیتا ہوں ۔پھر عثمانؓ نے کہا، پھر باقی دو نے۔حضرت علیؓ خاموش رہے۔آخر انہوں نے حضرت عبد الرحمٰن عوفؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے ۔انہوں نے عہد کیا اور سب کام حضرت عبد الرحمٰن عوفؓ کے سپرد ہو گیا۔ حضرت عبد الرحمٰن عوفؓ تین دن مدینہ کے گھر گھر گئے اورمَردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے۔سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان ؓ کی خلافت منظور ہے ۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیااوروہ خلیفہ ہو گئے ۔

حضور انور نے فرمایا:فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت طلحٰہ ؓ حضرت عمرؓ کی وصیت کے وقت حاضر نہ تھے ۔ایک روایت کے مطابق جسے زیادہ درست قرار دیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کی بیعت کے بعد حاضر ہوئے ۔ بہرحال حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوئے اور پھر یہ نظام معمول پر آنے لگا۔

جب حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علی ؓ کی طرف دورتے ہوئے آئے جن میں صحابہؓ اور تابعین بھی شامل تھے۔وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ علیؓ امیر المومنین ہیں ۔ یہانتک کہ وہ آپ کے گھر حاضر ہو گئے ۔پھر انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں ۔ پس آپ اپنا ہاتھ بڑھایئے۔کیونکہ آپ اس کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا: یہ تمہاراکام نہیں ہے بلکہ یہ اصحابِ بدر کا کام ہے ۔ جس کے بارے میں اصحاب بدر راضی ہوں وہ خلیفہ ہو گا۔ پس وہ سب اصحاب بدر حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔پھر انہوں نے عرض کی کہ ہم کسی کو آپ سے زیادہ اس کا حقدار نہیں سمجھتے ۔

پس اپنا ہاتھ بڑھائیں کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔ آپؓ نے فرمایا: طلحٰہ ؓاور زبیرؓ کہاں ہیں۔ سب سے پہلے آپؓ کی زبانی بیعت حضرت طلحٰہ ؓنے کی اور دستی بیعت حضرت سعدؓ نے کی۔ جب حضرت علی ؓ نے یہ دیکھا تو مسجد گئےاور منبر پر چڑھے۔ سب سے پہلا شخص جو آپ کے پاس اُوپر آیا اور انہوں نے بیعت کی وہ حضرت طلحٰہ ؓ تھے۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ اور باقی اصحاب نے حضرت علیؓ کی بیعت کی۔ طلحٰہ ؓ اور زبیرؓ عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں جن کی بابت آنحضرت ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہوئی ۔

حضور انور نےفرمایا: جنگِ جمل اور حضرت طلحٰہ ؓ کی شہادت کا تذکرة کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ انبیاء جب دُنیا میں آتے ہیں تو اُن کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں۔ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحٰہ ؓ،حضرت زبیرؓ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ،حضرت سعدؓ اور حضرت سعیدؓ وہ لوگ تھے جو بڑے سمجھے جاتے تھے ۔ ان کے بڑے سمجھنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ دین کی خاطر انہوں نے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ حضرت طلحٰہ ؓ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمان ؓکے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہئے تو اس گروہ کے لیڈر حضرت طلحٰہ ؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ تھے لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ سرِدست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہئے تاکہ اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو۔ بعد میں ہم ان لوگوں سے بدلے لے لیں گے اس گروہ کے لیڈر حضرت علیؓ تھے۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحٰہ ؓ حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہ ؓنے الزام لگایا کہ علی ان لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے اور حضرت علی ؓنے الزام لگایا کہ ان لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں اسلام کا فائدہ ان کو مدّنظر نہیں۔ گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہؓ نے لشکر کی کمان کی۔

حضرت طلحٰہ ؓ اور حضرت زبیرؓ بھی اس لڑائی میں شامل تھے۔ پھر حضرت زبیرؓ تو حضرت علیؓ کی بات سن کر علیحدہ ہو گئے تھے اور دوسرے بھی صلح کرنا چاہتے تھے لیکن پھر منافقین جو تھے یا فتنہ پردازجو تھے انہوں نے فتنہ ڈالا لیکن بہرحال دو گروہ تھے یہ اور لڑائی میں شامل تھے اور دونوں فریق میں جنگ جاری تھی تو ایک صحابی حضرت طلحٰہ ؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہاطلحٰہ! تمہیں یاد ہے کہ فلاں موقع پر مَیں اور تم رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا تھا طلحٰہ ! ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اور لشکر میں ہو گے اور علی اور لشکر میں ہو گا اور علی حق پر ہو گا اور تم غلطی پر ہو گے۔ حضرت طلحٰہ ؓ نے یہ سنا تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا ہاں مجھے یہ بات یاد آ گئی ہے اور پھر اسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے جب وہ لڑائی چھوڑ کر جا رہے تھے تا کہ رسول کریم ﷺکی بات پوری کی جائے تو ایک بدبخت انسان جو حضرت علیؓ کے لشکر کا سپاہی تھا اس نے پیچھے سے جا کر آپؓ کو خنجر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جو قاتل تھا طلحٰہؓ کا وہ اس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! حضرت علی کو کہا۔ آپ کو آپ کے دُشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا کون دُشمن۔ اس نے کہا اے امیر المؤمنین! مَیں نے طلحٰہ ؓ کو مار دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: اے شخص مَیں بھی تجھے رسول کریم ﷺ کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھا جبکہ طلحٰہ ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور مَیں بھی بیٹھا ہوا تھا کہ اے طلحٰہ! تو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذلت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا۔ اس لڑائی میں جب حضرت علیؓ اور حضرت طلحٰہ ؓ اور زبیرؓ کے لشکر کی صفیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں تو حضرت طلحٰہ ؓ اپنی تائید میں دلائل بیان کرنے لگے، یہ اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ایک صحابی نے انہیں حدیث یاد دلائی تھی اور وہ جنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ دلائل بیان کر ہی رہے تھے کہ حضرت علی کے لشکر میں سے ایک شخص نے کہا او ٹنڈے چُپ کر۔ حضرت طلحٰہ ؓ کا ایک ہاتھ بالکل شَل تھا وہ کام نہیں کرتا تھا۔ جب اُس نے کہا او ٹُنڈے چُپ کر تو حضرت طلحٰہ ؓ نے فرمایا کہ تم نے کہا تو یہ ہے کہ ٹُنڈے چُپ کر مگر تمہیں پتا بھی ہے کہ مَیں ٹنڈا کس طرح ہوا ہوں۔ اُحد کی جنگ میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو تین ہزار کافروں کے لشکر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور انہوں نے چاروں طرف سے رسول کریم ﷺ پر تیر برسانے شروع کر دئیے اس خیال سے کہ اگر آپ مارے گئے تو تمام کام ختم ہو جائے گا۔ اس وقت کفار کے لشکرکے ہر سپاہی کی کمان محمد رسول اللہ ﷺ کے منہ کی طرف تیر پھینکتی تھی۔ تب مَیں نے اپنا ہاتھ رسول کریم ﷺ کے منہ کے آگے کر دیا اور کفار کے لشکر کے سارے تیر میرے اس ہاتھ پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میرا ہاتھ بالکل بیکار ہو کر ٹُنڈاہو گیا مگر میں نے رسول کریم ﷺ کے منہ کے آگے سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔

محمد انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگِ جمل کے روز ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور کہا طلحٰہ ؓ کے قاتل کو اندر آنے کی اجازت دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت علیؓ کو کہتے سنا کہ اس قاتل کو دوزخ کی قبر سنا دو۔ حضرت طلحٰہ ؓ جب شہید ہوئے اور حضرت علیؓ نے اُن کو مقتول دیکھا تو اُن کے چہرے سے حضرت طلحٰہ ؓ کے چہرے پر سے مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا اے ابو محمد! یہ بات مجھ پر بہت شاق ہے کہ مَیں تجھ کو آسمان کے تاروں کے نیچے خاک آلودہ دیکھوں۔ پھر فرمایا: مَیں اللہ کے حضور اپنے عیوب اور دُکھوں کی فریاد کرتا ہوں۔ پھر حضرت طلحٰہ ؓ کے لئے دُعائے رحمت کی اور فرمایا کہ کاش مَیں اس دن سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ حضرت علیؓ اور اُن کے ساتھی بہت روئے حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک شخص کو یہ شعر پڑھتے سنا۔

فتی کان یدنیہ الغنی من صدیہ
اذا ما ھو استغنی ویعبدہ الفقر

وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو دولت مندی اور غنی ہونے کی حالت میں دوستوں سے مل جل کے رہتا تھا اور محتاجی کے وقت ان سے کنارہ کشی کرتا تھا ۔حضرت علیؓ نے فرمایا اس شعر کے مصداق تو ابومحمد طلحٰہ ؓ بن عبیداللہ تھے۔اللہ ان پر رحم کرے۔

حضور انور نے آخر پر آج کل کے حالات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش فرمایا۔ ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ’’مکانوں کو روشن رکھیں اور آج کل گھروں میں طاعون کے دنوں کی بات ہے گھروں میں خوب صفائی رکھنی چاہئے۔ کپڑوں کو بھی ستھرا رکھنا چاہئے۔ آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی رکھنا سنت ہے۔ پھر ایک موقع پر فرمایا: وہ لوگ جن کے شہروں میں اور دیہات میں طاعون شدت کے ساتھ پھیل گیا ہے اپنے شہروں سے دوسری جگہ نہ جائیں ،اپنے مکانوں کی صفائی کریں اور انہیں گرم رکھیں اور ضروری تدابیر حفظ ماتقدم کے عمل میں لائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ کریں۔ پاک تبدیلی کر کے خدا تعالیٰ سے صُلح کریں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر تہجد میں دُعائیں مانگیں۔پھر آپ نے فرمایا کہ اپنی حالت کی سچی تبدیلی ہی خدا کے اس عذاب سے بچا سکے گی۔

حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر دُعاؤں پر زور دے، حکومت کی ہدایات پر عمل بھی کریں، گھروں کو بھی صاف رکھیں، دھونی بھی دینی چاہئے، ڈیٹول وغیرہ کے سپرے بھی کرتے رہیں، وہ مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر فضل فرمائے اور رحم فرمائے بہرحال خاص طور پر ان دنوں میں دُعاؤں پر خاص زور دیں اللہ سب کو اس کی توفیق دے۔

پچھلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ