• 4 مئی, 2025

ہزاروں میل پہ بیٹھا بھی دل میں بستا ہے

وہ مالا مال کرے بن کہے دعاؤں سے
وہ ماں نہیں ہے مگر کم نہیں ہے ماؤں سے
خدا نے جیسے ہمیں دھوپ میں سنبهالا ہے
ہماری نسلیں بھی محروم ہوں نہ چھاؤں سے
انہوں نے دور بہت شہر کر لئے آباد
جو راہِ حق میں نکالے گئے تھے گاؤں سے
وہ دے گا طورِ تسلی مرے بجھے دل کو
وہی نکالے گا کانٹے وفا کے پاؤں سے
ہزاروں میل پہ بیٹھا بھی دل میں بستا ہے
وہ آشنا ہے میرا بڑھ کے آشناؤں سے
جوابی خط کوئی ملتا ہے یا نہیں ملتا
کہ جھولیوں کو غرض ہے فقط دعاؤں سے
نہیں ہیں خط پہ جو مرشد کے دستخط قدسی
یہ کم نہیں کہ وہ واقف ہے میرے ناؤں سے

(عبدالکریم قدسی۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ