وہ مالا مال کرے بن کہے دعاؤں سے
وہ ماں نہیں ہے مگر کم نہیں ہے ماؤں سے
خدا نے جیسے ہمیں دھوپ میں سنبهالا ہے
ہماری نسلیں بھی محروم ہوں نہ چھاؤں سے
انہوں نے دور بہت شہر کر لئے آباد
جو راہِ حق میں نکالے گئے تھے گاؤں سے
وہ دے گا طورِ تسلی مرے بجھے دل کو
وہی نکالے گا کانٹے وفا کے پاؤں سے
ہزاروں میل پہ بیٹھا بھی دل میں بستا ہے
وہ آشنا ہے میرا بڑھ کے آشناؤں سے
جوابی خط کوئی ملتا ہے یا نہیں ملتا
کہ جھولیوں کو غرض ہے فقط دعاؤں سے
نہیں ہیں خط پہ جو مرشد کے دستخط قدسی
یہ کم نہیں کہ وہ واقف ہے میرے ناؤں سے
(عبدالکریم قدسی۔امریکہ)