• 16 جولائی, 2025

رمضان اور روحانی غذا کا حصول

رمضان کے بابرکت مہینہ میں پیدا ہونے والے روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانا اصل چیز ہے اور یہ تسلسل جاری رہنا چاہئے اور اگر یہ تسلسل نہیں تو پھر گنتی کے چند دن ہی ہیں جو ہم نے گزار دیئے کیونکہ مومن کی زندگی کا مقصد خداتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، عبادات اور اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ ہے۔ اور رمضان کا مقصد یہی ہے کہ اپنی سوچوں اور خیالات کو اس نہج پر چلانے کی تربیت لیں اور سارا سال پھر اس روحانی ماحول کے فیض کی جگالی کرتے رہیں یہاں تک کہ اگلا رمضان آجائے اور پھر روحانیت میں ترقی کی طرف مزید قدم بڑھیں۔ جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ اس تسلسل کو قائم رکھنے کی طرف عبادتوں کے حوالے سے آنحضرتﷺ نے بھی ہمیں توجہ دلائی ہے۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’کبائر سے بچنے کے لئے پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک کفارہ ہوتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم۔ کتاب الطہارۃ باب الصلوٰت الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ حدیث 440)

پس نیکیوں کی طرف توجہ اور ان میں تسلسل اور ان کی آمد کا انتظار ایک مومن کو دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔ غیر مومن سے ممتاز کرتا ہے۔ انسان کبائر سے یا گناہوں سے تبھی بچ سکتا ہے جب نیکیوں کو قائم رکھنے کا ایک تسلسل ہو اور ایک خواہش ہو۔ پس نیکیوں کاتسلسل قائم رکھنے کے لئے جو بھی مواقع پیدا ہوں وہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ رمضان کے ان بابرکت ایام میں ہم نے جسمانی مادی غذا میں کمی کرتے ہوئے صرف روحانی ترقیات کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے اسے گزارنا ہے۔ ایک خاص توجہ اور کوشش اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہے ان شاء اللہ۔ اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے جس قدر کم کھاتاہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی طاقتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دارکو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جولوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اورنرے رسم کے طورپر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘

(الحکم جلد11 نمبر2 موٴرخہ 17؍جنوری 1907ء صفحہ9)

فرمایا:۔ ’’آنحضرت ﷺ رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے۔ ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کرکے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے‘‘

(تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ20-21)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں: ’’رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضامندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ قرآن شریف روزہ کی اصل حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا اور کہتاہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کوعادت پڑ جاوے۔ ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی۔ اور وہ حرام کھاوے، پیوے اور بدکاری اور شہوت کو پورا کرے‘‘

(الحکم 24؍جنوری 1904ء صفحہ12)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم فرماتے ہیں صُومُوا تَصِحُّوْا روزے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو۔ اور صحت تبھی اچھی ہو سکتی ہے کہ اگر آپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے ہیں بڑی سخت بے وقوفی تھی۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے۔ درحقیقت اس سے بہت کم پرہمارا گزارہ ہو سکتاہے جو ہم پہلے کھایاکرتے تھے۔ تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو۔

اب امرواقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں ہے جوروزوں نے ہمیں سکھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روزے میں کھانا کم کرنا لازم ہے کیونکہ کھانا کم کئے بغیر جو اعلیٰ مقصد ہے روزے کا وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ یعنی صرف یہ نہیں کہ کچھ وقت بھوکے رہناہے بلکہ دونوں کناروں پر بھی صبر سے کام لو اور نسبتاً اپنی غذا تھوڑی کرتے چلے جاؤ۔ فرماتے ہیں اس کے بغیر انسان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہو سکتی۔ ذکرالٰہی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی ایک روحانی غذا ہے اور روزمرہ کا کھانا ایک جسمانی غذا ہے۔ تو رمضان کی برکت یہ ہے یا روزوں کی برکت یہ ہے کہ وہ جسمانی غذا سے ہماری توجہ روحانی غذا کی طرف پھیر دیتے ہیں اور ذکر الٰہی میں ایک لطف آنا شروع ہو جاتاہے اور وہ روحانی لطف ہے جو آپ کی روح کو تروتازہ کرتا ہے۔ اس کی مضبوطی کا انتظام کرتاہے اور جسم پہ جوزائد چربیاں چڑھی تھیں ان کو پگھلاتا ہے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جنوری 1997ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان مبارک میں زیادہ سے زیادہ حقیقی معنیٰ میں روحانی غذا کے حصول کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(احتشام الحسن۔ مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ)

پچھلا پڑھیں

بیلیز مشن کی کارگزاری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2022