• 18 مئی, 2024

خطباتِ امام اور ایم ٹی اے کی برکات

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور وہی دن رات اس کی آبیاری کررہا ہے۔پس اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اُسی کے ارادے سے یہ پودا دن بدن پھل پھول رہا ہے اور ترقی کی منازل طے کرتا چلا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت سے اس کی سدا بہار شاخیں اکناف عالم میں پھیل چکی ہیں جس کے پرسکون اور آرام دہ سائے تلے ان گنت سعید روحیں اکٹھی ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا کہ:
’’خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور تیرے نام کی خوب چمک آفاق میں دکھاوے۔‘‘ (الحکم مورخہ 9؍ستمبر 1899ء صفحہ5 کالم3) نیز آپ کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ: ’’خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو زمین کے کناروں تک پہنچادے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ97) اگرچہ یہ دو علیحدہ علیحدہ الہامات ہیں لیکن ان دونوں کامقصد ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلانے اور اس کی ترویج واشاعت کا کام اپنے ذمہ لیاہے اور وہی اُسے پورا فرمائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ67)

حضور علیہ السلام ایک اور نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’خدا نے اس آخری زمانہ کے بارہ میں جس میں تمام قومیں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی صرف ایک ہی نشان بیان نہیں فرمایا بلکہ قرآن شریف میں اور بھی کئی نشان لکھے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ کہ …… اس کے ذریعہ سے ملاقاتوں کے طریق سہل ہوجائیں گے۔ اور ایک یہ کہ دنیا کے باہمی تعلقات آسان ہوجائیں گے اور ایک دوسرے کو بآسانی خبریں پہنچاسکیں گے۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ183)

پس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا، جلد جلد بڑھے، پھلے پھولے اور ترقی کرے تاکہ اُس کی برکات ساری دنیا پر محیط ہوجائیں۔ سو اُس کا قدرت نما ہاتھ مختلف طریق اور ذرائع سے اس پیغام زندگی کو دنیا میں پھیلانے کے سامان پیدا فرما تا جارہا ہے۔ اُس علیم وخبیر نے آج سے چودہ سوسال پہلے یہ خوشخبری سنادی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ جب وہ ایسے اسباب مہیا فرمادے گا کہ دورداز علاقوں میں بیٹھے انسان ایک جگہ اکٹھے کر دیئے جائیں گے۔ وَاِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر: 8) ’’اور جب نُفوس ملا دیئے جائیں گے۔‘‘ نیز اُس نے یہ اعلان عام فرمایا کہ: وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر: 11) ’’اور جب صحیفے نشر کئے جائیں گے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’(1) یہ زمانہ اس قسم کا آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے وسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور وَاِذَا النُفُوْسُ زُوِّجَتْ کی پیشگوئی پوری ہوگئی اب سب مذاہب میدان میں نکل آئے ہیں اور یہ ضروری امر ہے کہ ان کا مقابلہ ہو اور ان میں ایک ہی سچا ہوگا اور غالب آئے گا۔‘‘

(الحکم 31؍ اکتوبر 1902ء)

’’(2) آخری دنوں میں …… دنیا میں بڑا تفرقہ پھیل جائے گا…… اور جب یہ باتیں کمال کو پہنچ جائیں گی تب خدا آسمان سے اپنی قرنا میں آواز پھونک دے گا یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے جو اس کی قرنا ہے ایک ایسی آواز دنیا کو پہنچائے گا جو اس آواز کے سننے سے سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہوجائیں گے اور تفرقہ دور ہوجائے گا اور مختلف قومیں دنیا کی ایک ہی قوم بن جائے گی۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزئن جلد23 صفحہ83)

پس جب اس پیشگوئیوں کے ظہور کا وقت آپہنچا تو اس نشرواشاعت کے مختلف ذرائع پیدا فرما دیئے۔ اخبارات و رسائل اور کتابوں کی اشاعت کے نت نئے طریق ایجاد ہوگئے۔ پھر ذرائع مواصلات نے تیز ترین کی اور الیکٹرونک میڈیا کا آغاز ہوا جس کے ذریعہ وقتاً فوقتاً پیغام توحید دنیا میں پھیلنے لگا۔ جب خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اُس کی تعلیم جلد جلد دنیا میں پھیلے اور لوگ آسانی کے ساتھ گھروں میں بیٹھے اُس سے فائدہ اٹھا سکیں اُس نے جماعت کو ایم ٹی اے جیسے نعمت سے نواز دیااور یوں اکناف عالم میں بیٹھی لاکھوں سعید روحیں جوق در جوق اُس کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہوگئیں اور نفوس، نفوس کے ساتھ ملادیئے گئے۔ پس وہ جو کہتا ہے وہ کر دکھاتا ہے اور کوئی نہیں جو اُسے ایسا کرنے سے روک سکے

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

(اشتہار اعلان مطبوعہ ریاض ہند امرتسر 22؍مارچ 1886ء)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْھِمْ مِّنْ السَّمآءِ اٰیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُھُمْ لَھَا خٰضِعِیْنَ

(الشعرآء: 5)

’’اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایک ایسا نشان اُتاریں جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں۔‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے 1938ء میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ایم ٹی اے کی طر ز پر جاری ہونے والے نظام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہو ا ساری دنیا میں درس وتدریس پر قادر ہو سکے گا…… قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت وانبساط سے لبریز ہوجاتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 7؍جنوری 1938ء از الفضل 13؍جنوری 1938ء)

اس دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ جس میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد ارشادات کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ذریعہ نشر ہونے والے پروگرام وہ بیج ہیں جن کی تخم ریزی کے لیے حضور علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے وقت کی چند ایجادات کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ ’’جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔‘‘ … اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تائیدات کے طور پر ایم ٹی اے اور انٹرنیٹ بھی آپ کو مہیا فرمادیا ہے جس کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام ہورہا ہے… پس اللہ تعالیٰ تو یہ انتظامات فرمارہا ہے لیکن ہمیں بھی اس کے حکموں پر چلتے ہوئے اس زمانہ میں اپنی سوچوں کو وسعت دیتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ اپنی اور اپنی نسل کی فکر کرتے ہوئے اس انقلاب میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں ہم اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کے نظارے دیکھتے ہوئے فیض پانے والے ہوں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 420)

اللہ تعالیٰ کے الہام وکلام کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور جب تک وہ چاہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ وہ اپنے بندوں کے ازدیاد ایمان کے لیے جس پر چاہتا ہے اپنا الہام وکلام نازل فرماتا ہے۔جب وہ چاہے کہ اُس کی قدرت نمائی ہو، وہ ان الہامات کو پورا کرکے اپنا چہرہ ہویدا کرتا ہے۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے جب ایم ٹی اے جیسے نظام کا تصور بھی کسی ذہن میں نہیں آسکتا تھا اُس نے اپنے بعض بندوں کو اس نظام کے بارہ میں آگاہ فرمادیا۔پس ایم ٹی اے ایک آسمانی مائدہ ہے جس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ درج ذیل پیشگوئیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ متی کی انجیل میں آخری زمانہ کی علامت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں سنائی جائے گی تاکہ سب قوموں کے لیے گواہی ہو تب انجام ہوگا۔‘‘

(متی باب 24 آیت14)

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مومن جو امام قائم کے زمانہ میں مشرق میں ہو گا اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہوگا اور اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مشرق میں ہوگا۔

(بحارالانوار جلد52 صفحہ391 شیخ محمد باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی۔بیروت)

ایک منادی آسمان سے آواز دے گا جسے ایک نوجوان لڑکی پردے میں رہتے ہوئے بھی سنے گی اور اہل مشرق ومغرب بھی سنیں گے۔

(بحارالانوار جلد52 صفحہ285 شیخ محمد باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی۔بیروت)

علامہ قمی کہتے ہیں کہ ایک منادی امام قائم اور اس کے باپ علیہما السلام کے نام کی ندادے گا اس طرز پر کہ اس کی آواز ہر آدمی تک برابر انداز میں پہنچے گی۔ قمی کہتے ہیں کہ صیحہ سے مراد یہ ہے کہ قائم کی آواز آسمان سے آئے گی۔ حضرت امام جعفر صادق کہتے ہیں کہ یہ رجعت یعنی امام مہدی کا زمانہ ہوگا۔) تفسیر صافی۔ سورۃ ق زیر آیت نمبر42-43۔ از ملا حسن فیض کا شانی انتشارات کتاب فروشی محمودی (زرارہ کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
ایک منادی امام قائم کے نام سے منادی کرے گا۔ میں نے پوچھا یہ منادی خاص ہوگی یا عام۔ فرمایا عام ہوگی اور ہر قوم اپنی اپنی زبان میں اسے سنے گی۔

(بحارالانوار جلد52 صفحہ205 شیخ محمد باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی۔بیروت)

حضرت امام باقر ؒ فرماتے ہیں:

i.آسمان سے ایک منادی امام قائم کے نام سے منادی کرے گا جسے مشرق ومغرب کے سب لوگ سنیں گے۔ ہر سونے والا اسے سن کر جاگ اٹھے گا اور کھڑا ہونے والا بیٹھ جائے گا اور بیٹھنے والا اس آواز کے جلال سے کھڑا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اس پر جو اس آواز کو درخور اعتنا سمجھے اور لبیک کہے۔

(بحارالانوار جلد 52 صفحہ230 شیخ محمد باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی۔بیروت)

ii. ہمارے امام قائم جب مبعوث ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کو بڑھادے گا۔ یہاں تک کہ یوں محسوس ہوگا کہ امام قائم اور ان کے درمیان فاصلہ ایک برید یعنی ایک سٹیشن کے برابر رہ گیا ہے چنانچہ جب وہ امام ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور ساتھ دیکھیں گے جبکہ امام اپنی جگہ پر ہی ٹھہرا رہے گا۔

(بحارالانوار جلد52 صفحہ376 شیخ محمد باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی۔بیروت)

اسی طرح نواب نورالحسن خان صاحب امام مہدی کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
ایک عام ندا ہوگی جو ساری زمین والوں کو پہنچے گی۔ ہر زبان والا اپنی اپنی زبان میں اس کو سنے گا …… آسمان سے ایک منادی بنام مہدی ندا کرے گا۔ مشرق ومغرب والے اس کو سنیں گے کوئی سوتا نہ رہے گا مگر جاگ اٹھے گا۔ کوئی کھڑا نہ ہوگا مگر بیٹھ جائے گا۔ کوئی بیٹھا نہ ہوگا مگر دونوں پاؤں پر کھڑا ہوجاوے گا۔ یہ ندا اس ندا کے سوا ہے جو بعد ظہور مہدی کے ہوگی۔ (اقتراب الساعہ صفحہ67 از نورالحسن خان مطبع مفید عام 1301ھ)

امام مہدی کے ذکر میں ایک اور پیشگوئی ان الفاظ میں ملتی ہے:
’’پھر ایک ایسی ندا آئے گی جو دور سے اسی طرح انسان سنے گا جیسے وہ نزدیک کی آواز سنتا ہے۔‘‘

(امام مہدی الزمان ازعلی محمد علی دخیل، ترجمہ سید صفدر حسین نجفی صفحہ86 مصباح الہدیٰ لاہور)

ان تمام پیشگوئیوں اور پیش خبریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے لیے مقدر تھا کہ نشرواشاعت کے ایسے آسان ذرائع مہیا ہوں، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام نہایت آسانی کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلے اور اُس کے نام کا ڈنکا قریہ قریبہ نگرنگر بجے اور دلوں کو موہ لینے والی آواز ہر گھر میں پہنچے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کی شکل میں یہ روحانی مائدہ جماعت احمدیہ کو عطا فرماکر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ: ’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ)

پس اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی اس خواہش کو من وعن پورا فرماتے ہوئے آپ کے گھر کے دائرہ کو پوری دنیا پر محیط کردیا ہے۔ اب ایم ٹی اے اور دیگر جدید ذرائع کی برکت سے آپ کے نائب اور خلیفہ کی آواز گھر گھر پہنچ رہی ہے اور آپ کا ہر فرد جماعت سے واسطہ ورابطہ ہے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک

خطبات امام، تربیت کا اہم ذریعہ

دنیا کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو اس کی اکثریت لہو ولعب کا شکار ہے اور دن بدن اخلاقی گراوٹ کی لپیٹ میں آتی جارہی ہے۔ نشرواشاعت کے جدید ذرائع کے ذریعہ جہاں دنیا گلوبل ولیج کا رُوپ دھا ر چکی ہے وہیں ان ذرائع کے غلط استعمال سے برائی اور بے حیائی کے طوفان نے پوری دنیا کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک بھی اس زد میں ہیں۔ وہ اس غلاظت کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے کی بجائے خواب غفلت کے مزے لے رہے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا میں جماعت احمدیہ ہی وہ خوش قسمت جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایسا راہ نما عطا کیا ہے جو دن رات اُن کی فکر کرتا ہے اور اُن کی اخلاقی اور روحانی حالتوں کی بہتری کے لیے مختلف تدبریں سوچتا اور طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے۔ وہ اپنے خطبات اور خطابات میں ایسے راہ نما اصول بیان فرماتا ہے جن پر عمل کرنے سے برائی اور بے حیائی سے نہ صرف بچا جاسکتا ہے بلکہ روحانی ترقی کی منازل بھی طے کی جاسکتی ہے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کی بابرکت آواز اور آپ کے زندگی بخش پیغاماتسے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ جماعتی اخبارات اور رسائل کے علاوہ خلیفہ وقت سے مضبوط تعلق کا ایک اہم ذریعہ ایم ٹی اے کی شکل میں جماعت کے پاس موجود ہے۔ اس ذریعہ سے ہر انسان آپ کی زبان مبارک سے اُن کلمات کو سن لیتا ہے جو آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ پس اگر ہم دنیا کی غلاظتوں سے بچنا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ ایم ٹی اے کی طرف دھیان دیں اور اس آسمانی مائدہ سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اس زمانے میں ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو ہم احمدی کررہے ہیں یا جماعت احمدیہ کررہی ہے۔ میں نے جلسوں کے دنوں میں بھی توجہ دلائی تھی اور اُس کا بعض لوگوں پر اثر بھی ہوا اور انہوں نے مجھے کہا کہ پہلے ہم ایم ٹی اے نہیں دیکھا کرتے تھے، اب آپ کے کہنے پر، توجہ دلانے پر ہم نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا ہے تو افسوس کرتے ہیں کہ پہلے کیوں نہ اس کو دیکھا، کیوں نہ ہم اس کے ساتھ جڑے۔ بعضوں نے یہ اظہار کیا کہ ہفتہ دس دن میں ہی ہمارے اندر روحانی اور علمی معیارمیں اضافہ ہوا ہے۔ جماعت کے بارے میں ہمیں صحیح پتہ چلا ہے۔ پس میں یاددہانی کروا رہا ہوں، اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لیے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لیے ہمیں دیا ہے تاکہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو (Live) پروگرام آرہے ہیں جو علمی، روحانی اور دینی ترقی کا باعث ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18؍اکتوبر 2013ء الفضل انٹرنیشنل 8؍نومبر 2013 صفحہ8)

پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں سے فائدہ اٹھایا جائے۔خاص طور پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات وخطابات کے وقت اپنے دنیاوی کام چھوڑ کر انہیں بغور سنا جائے۔ یہ امام وقت کی آواز ہے جو زمین پر خدا کا نمائدہ ہے اس لیے جو اس آواز کو سنے گا اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا، یقینا اُس کا نفس پاکیزگی کی طرف مائل ہوگا جس کے نتیجہ میں وہ روحانی زندگی سے ہمکنار ہوگا۔ ذیل میں ایم ٹی اے کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے چند اقتباسات درج کئے جارہے ہیں تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایم ٹی اے سے متعلق جماعت سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔

خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں

سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک خطبہ جمعہ میں ایم ٹی اے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(1) ’’یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں فاصلوں کی دُوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت اور خلافت کے تعلق کو جوڑ دیا ہے۔ اس لئے میرے خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں۔ مَیں نے جائزہ لیا ہے بعض عہدیداران بھی خطبات کو باقاعدگی سے نہیں سنتے۔ یہ خطبات وقت کی ضرورت کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے اپنے آپ کو اِن سے ضرور جوڑیں تاکہ دنیا میں ہر جگہ احمدیت کی تعلیم کی جو اکائی ہے اس کا دنیا کو پتہ لگ سکے …حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام … فرماتے ہیں کہ: ’’ضروری ہے کہ جو اِقرار کیا جاتا ہے مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، اِس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا عمدہ نمونہ پیش کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد5 صفحہ605 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ کی نصرت اُنہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ456 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف: 16) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑجاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 456 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) نیز فرماتے ہیں کہ: ’’چاہئے کہ تمہارے اعمال احمدی ہونے پر گواہی دیں۔‘‘ (ملفوظات جلد5 صفحہ272 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت کو یہ بات بہت ہی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے۔ ہر وقت اُسی سے مدد مانگتے رہنا چاہئے۔ اُس کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ279 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں پاک تبدیلیاں ہیں؟ کس حد تک ہم اپنے بچوں کو بھی جماعت سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں؟ کس حد تک ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کررہے ہیں؟ ایسا عمل کہ غیر بھی ہمیں دیکھ کر برملا کہیں کہ یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ کیا ہمارے نمونے ایسے ہیں کہ اسلام کے مخالف ہمیں دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوں؟ اگر ہم یہ معیار حاصل کررہے ہیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ باتیں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث بنائیں گی وہاں ہمیں تعداد میں بھی بڑھائیں گی اور جماعت کے خلاف جو مخالفتیں ہیں ایک دن ہوا میں اُڑ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اور مجھے بھی ایمان وایقان میں ترقی دے اورہر لمحہ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور دشمن کے ہر منصوبے کو خاک میں ملادے۔‘‘ آمین

(خطبہ جمعہ 27؍ستمبر 2013ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 18؍اکتوبر 2013ء صفحہ6-7)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ایک اور موقع پر ایم ٹی اے کی افادیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
(2) ’’اس وقت ایم ٹی اے کے تین چینلز نہ صرف اپنوں کی تربیت کا کام کررہے ہیں بلکہ مخالفین اسلام کا ان دلائل سے منہ بند کررہے ہیں جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ہمیں دیئے۔ پس ایم ٹی اے کو جہاں اللہ تعالیٰ نے غلبہ دکھانے کا ذریعہ بنایا ہے وہاں غلبہ عطا فرمانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر بھی مہیا فرمایا ہے۔ جو ان مقاصد کو لے کر ہر گھر میں داخل ہورہا ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کی آمد کا مقصد تھے۔ یعنی وہ کام جو آپ کے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے تھے اور اس زمانے میں وہ کام حضرت مسیح موعود ؑ کے سپرد ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ششم صفحہ 217 بحوالہ روزنامہ الفضل 15؍اپریل 2013ء)

ایم ٹی اے تبلیغ کا اہم ذریعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
(3) ’’بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ اس وقت بات کرنی چاہئے جب دل بات سننے کی طرف مائل ہو۔ اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ اپنے رابطے بڑھائیں۔ مستقل مزاجی ہو، ایک تسلسل ہو تو جب ہوجب ہی پتا لگے گا کہ کس وقت کسی کے دل میں کیا کیفیت ہے۔ پھر ایم ٹی اے پہ لایا جاسکتا ہے، مختلف پروگرام دکھائے جائیں، مختلف وقتوں میں آتے ہیں کسی وقت کوئی پروگرام پسند آسکتا ہے۔‘‘

(الفضل ربوہ 11؍دسمبر 2013ء)

دنیا میں خلافت کی آواز پہنچانے کا ذریعہ

اس زمانے میں کس طرح ایم ٹی اے خلیفہ ئ وقت کی آواز بن چکا ہے اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
(4) ’’ایم ٹی اے نے تمام دنیا میں آواز پہنچادی …… پہلے تو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خلیفۃ المسیح کا خطبہ سنتے تھے اب ہر شہر میں، ہر گاؤں میں، ہر گھر میں یہ آواز پہنچ رہی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد2 صفحہ350)

ایم ٹی اے خلافت سے تعلق کا اہم ذریعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 16؍اگست 2013ء کے خطبہ جمعہ میں خلافت کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے سلسلہ میں ایم ٹی اے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(5) ’’خلافت کے ساتھ تعلق میں آج کل اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ دیا ہوا ہے۔ اسی طرح alislam ویب سائٹ ہے۔ پس ان سے بھی جوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو، نوجوان کو، مرد ہو، عورت ہو جوڑنے کی کوشش کریں اور نظام جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2013 صفحہ 15)

ایم ٹی اے نصف ملاقات کا ذریعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
(6) ’’خلیفہ وقت کو جماعت سے براہ راست اور جماعت کو خلیفہ وقت سے بغیر کسی واسطے کے ملنے کی تڑپ بھی دونوں طرف سے ہے …… اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس کے لئے نصف ملاقات کا ایک راستہ بھی ہمارے لئے کھول دیا ہے جو ایم ٹی اے کے ذریعے انتظام فرمایا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ 663)

ایم ٹی اے جماعتی تبلیغ کے ساتھ ساتھ احباب جماعت کی عملی اصلاح اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، ہر احمدی کو گھر بیٹھے صحبت صالحین کا ایک ایسا ذریعہ عطا کردیا گیا ہے کہ اگرہر انسان اس کے پروگراموں سے بھر پور فائدہ اٹھائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے اندر پاک روحانی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوجائیں۔

ایم ٹی اے برکات خلافت پہنچانے کا ذریعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(7) ’’اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک بڑا انعام مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ بھی ہے …… اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ایم ٹی اے کو روحانی خزائن اور خلافت کی برکات پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ اپنوں کے لئے تربیت اور غیروں کے لئے تبلیغ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 30؍مئی 2008ء ہفت روزہ بدر قادیان یکم جنوری 2009ء صفحہ8)

ایم ٹی اے اتحاد مومنین کا اہم ذریعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ 2013ء کے موقع پر لجنہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
(8) ’’اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ہمیں ایم ٹی اے اور جماعتی ویب سائٹ کی صورت میں ایک نعمت سے نوازا ہے۔ آپ سب کو میرے تمام پروگرام دیکھنے چاہئیں تاکہ آپ کو ہمیشہ حقیقی رہنمائی ملتی رہے اور آپ کو پتہ چلتا رہے کہ خلیفہ وقت آپ سے کیا توقعات رکھتا ہے۔ پروگرام دیکھ کر آپ کو خلیفہ وقت کے ارشادات اور نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرنی `چاہئے۔ خلیفہ وقت سے جو کچھ بھی سیکھیں اس کو جذب کرنے والی بنیں اور ایسے پروگرام بنائیں جو آپ کے اندر مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے میں ممد ثابت ہوں۔ اس طرح جماعت احمدیہ کے اتحاد کی خوبصورتی اور امتیاز ہمیشہ قائم رہے گا۔ ہر احمدی خلیفہ وقت کے ارشادات کو دوسروں تک پہنچانے والا بنے گا اور اس کے ذریعہ آپ کے سارے کام بابرکت ہوجائیں گے اور آپ کا خلافت کے ساتھ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 4؍دسمبر 2013ء)

ایک ایمان افروز واقعہ

اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے کی برکت سے کس طرح دلوں کو اسلام احمدیت کی طرف مائل کر رہا ہے اس کے متعلق ایک ایمان افروز واقعہ پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ مکرم محمد اوشن صاحب آف مراکش لکھتے ہیں:
’’1997ء کی بات ہے کہ میری بیوی مکرمہ تاجاوینی صاحبہ کو ایک دن ایم ٹی اے مل گیا اس وقت اس پر پروگرام لقاء مع العرب لگا ہوا تھا۔ میری اہلیہ یہ پروگرام بڑے شوق سے دیکھنے لگی۔ میری اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے انداز تکلم اور تبحر علمی سے بہت متاثر تھی اور یہی کہتی تھی کہ مسلمانوں کے یہ عالم ہمیشہ حق بات ہی کہتے ہیں اور نہایت معقول تفسیر پیش فرماتے ہیں۔

ان دنوں میں مَیں بیلجیم کی ایک مسجد میں بطور مؤذن ڈیوٹی دیتا تھا۔ اس وقت لقاء مع العرب ہفتہ میں ایک بار آتا تھا۔

میری اہلیہ تو یہ پروگرام باقاعدگی سے دیکھتی تھی لیکن میں جب گھر لوٹتا تو اس وقت ایم ٹی اے پر انگریزی یا دیگر زبانوں میں پروگرام آرہے ہوتے تھے جن کی مجھے کوئی سمجھ نہ آتی تھی۔ یوں وقت گزرتا گیا اور جماعت سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔

میں ایم ٹی اے پر اکثر پاکستانی اشخاص کو دیکھتا تھا اس لئے غلطی سے یہ سمجھتا تھا کہ شاید ہر پاکستانی ہی احمدی ہے۔ اسی خوش فہمی کے زیر اثر بیلجیم میں جب بھی میں کسی پاکستانی کو دیکھتا تو اس سے سوال کرتا کہ کیا تم مسلمان ہو؟ وہ کہتا الحمدللّٰہ۔ پھر جب میں یہ پوچھتا کہ کیا تم احمدی ہو؟ تو وہ کہتا: أَعُوْذُ بِاللّٰہ، وہ تو کفار ہیں۔ان کے ایسے جواب بھی مجھے جماعت کے بارہ میں تحقیق کرنے سے نہ روک سکے۔ میں نے اپنے ساتھ اپنے داماد کو بھی اس تحقیق میں شامل کرلیا۔ اس نے مجھے انٹرنیٹ سے بیلجیم میں جماعت احمدیہ کا پتہ نکال کردیا۔ پھر ہم دونوں ایک روز مرکزِ جماعت بھی پہنچ گئے، وہاں پر مربی صاحب نے ہمارا بہت اچھی طرح استقبال کیا۔ بڑی محبت سے ہمارے سوالوں کا جواب دیا ور ہمیں کچھ کتب اور لٹریچر بھی دیا۔

یہ جون 2010ء کی بات ہے۔ اس کے بعد ہم دوماہ کے لئے مراکش چلے گئے۔ اس عرصہ میں مَیں نے کتب بھی پڑھ لیں اور دعا بھی کی تو مجھے انشراح صدر ہوگیا۔ لہٰذا واپسی پر اگست 2010ء میں مَیں نے بیعت کرلی۔ اور یوں مجھے اپنی منزل مقصود اور گُم گشتہ متاع مل گئی ہے۔

مجھے جماعت کی صداقت پر دلیل کے طور پر اور ثبات قدم کے لئے کسی رؤیا وغیرہ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ میں نے قبول احمدیت سے قبل ہی بکثرت یہ دعا کی تھی کہ اے خدایا میری حقیقی اسلام کی طرف راہنمائی فرمادے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور مجھے اس جماعت میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ الحمدللہ۔

(الفضل انٹرنیشنل 05؍جولائی 2013ء صفحہ 3)

پس مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والا ایک عظیم انعام ہے جس کی بے انتہا برکات ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان برکات سے حصہ پانے کے لیے اس آسمانی مائدہ کے ساتھ جڑا جائے اور اس کے مختلف پروگراموں سے خود بھی استفادہ کیاجائے اور اپنے بچوں کو بھی ایم ٹی اے کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(ظہیر احمد طاہر۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

بیلیز مشن کی کارگزاری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2022