ماہِ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دئیے گئے ہیں جو کہ تقوٰی کے حصول اورآفات و مصائب سے بچاؤکا ذریعہ ہیں۔ یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا، جو از خود ہدایت و فلاح کا منبع ہے۔ آنحضرتﷺ نے جہاں اس ماہِ مبارک کو رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا مہینہ قرار دیا ،اسے امن و آشتی کا گہوارہ شمار کیا وہاں اپنے عمل سے اس مہینہ کی برکات و افضال کو سمیٹنے کا اسوہ قائم کیا۔ اور باقی دنوں سے بڑھ چڑھ کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے درس دئیے اور کمرِ ہمت کسے رکھی۔
یہ مہینہ اللہ تعالیٰ سے لَو لگانے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے مواقع کے حصول کا بہترین وقت ہے۔یہی وہ مبارک ایام ہیں جن میں انسان طرح طرح کے روحانی مجاہدات کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرتا اور تقوٰی اللہ کی منزلیں عبور کرتا ہے۔ اور اپنے مولیٰ کی محبت و عشق میں فنا ہوتا چلا جاتا ہے۔ رمضان المبارک قربانیوں کا بھی مہینہ ہے جس میں انسان اپنے محبوب خدا کی خاطر کھانے، پینے اور خواہشات و جذبات تک کی قربانی کرتا ہے۔گویا ایک مومن کو اس بات کی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے بعد اگر بڑی بڑی قربانیاں دینے کا وقت اور مطالبہ آیا تو وہ اس سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔جماعتِ احمدیہ کی سرشت اور خمیر میں دوسروں کی ہمدردی و خیر خواہی اور قیامِ امن کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اپنے قوم، ملک اور ایمان کے لئے قربانیاں دینا ہماری ترجیح بن چکا ہے۔ بڑی سے بڑی مصیبت اور آزمائش کو مسکراتے ہوئے برداشت کر جانا ، ہر طرح کی تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہونے اور اپنے حقوق کی پامالی کے باوجود پُر امن رہنا بانی جماعت احمدیہ کی صداقت و کامیابی کی دلیلِ بیّن ہے، جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ؎
گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار
اب جبکہ قربانیوں کا مبارک مہینہ آ چکا ہے اور دشمن ہمارے خون کا پیاسا ہونے کی وجہ سے اس کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ من گھڑت تعلیم اور فتوے سنا سنا کر عوام الناس اور بے قابو لوگوں کو مشتعل کر رہا ہے۔ تو آیئے ایسے حالات میں ہم اپنے مولیٰ کی گود میں پناہ لیں اور دل کی گہرائیوں سے اس سے قربانیوں کا عہدِ وفا باندھیں۔سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی حالات میں اورایسے ہی مبارک دنوں میں جماعت کو قربانیوں کے لئے تیار کرتے ہوئے فرمایا۔
’’یہ رمضان ہمارے لئے ایک بہت بڑی اور خاص نعمت بن کر آیا ہے۔ کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں احمدیت کے دشمنوں نے اپنے غیض و غضب کے سارے دروازے ہماری طرف کھول دئیے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جس میں احمدیت کے معاندین ایک پُر امن ملک میں کھلے بندوں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ…جماعت کا ایک فرد بھی باقی نہ رہنے دو، اس ملک میں خون کی ندیاں بہا دو یہاں تک کہ ایک احمدی بھی دیکھنے کو نہ ملے۔ یہ تعلیم کھلم کھلا دی جا رہی ہے۔ اس موقع پر رمضان المبارک ہمارے لئے اللہ کی رحمتوں کے دروازے کھولنے کے لئے آیا ہے۔ رمضان ہمارے لئے یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ پہلے بھی خدا دعائیں سنا کرتا تھا لیکن اب تو اور بھی تمہارے قریب آ گیا ہے۔ وہ تم پر رحمت کے ساتھ جھک رہا ہے۔دعائیں سننے کے سارے دروازے کھل چکے ہیں ۔ تمہاری ہر آہ و پکار آسمان تک پہنچے گی۔ کوئی ایسی آواز نہیں ہو گی جو تمہارے دل سے اُٹھے اور اللہ کے عرش کو ہلا نہ رہی ہو۔
پس رمضان شریف رحمتوں کا پیغام لے کر آیا ہے ۔ اگر خدا کی نافرمانی کے دروازے کھولے جا رہے ہیں تو اللہ کی فرمانبرداری کے دروازے آپ کو امن کی دعوت دیتے ہوئے وا ہو رہے ہیں اور آپ کو اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ مخالفت کے ہر موقع پر جماعت کو انتہائی صبر کا نمونہ دکھانا چاہئے۔ ساری دنیا میں ایک بھی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا ہو، مرد ہو یا عورت ہو جو بے صبری کا ایک معمولی سا بھی مظاہرہ کرے۔
دنیا میں قوموں نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں اور خدا کے نام پر تو قربانی دینا الہٰی قوموں کے مقدر میں لکھا ہوا ہے۔ ادنیٰ ادنیٰ ،ذلیل ذلیل قومیں جو خدا کے تصور سے بھی نا آشنا ہیں بلکہ خدا کی ہستی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتی ہیں وہادنیٰ پیغامات کے لئے بڑی بڑی قربانیوں سے دریغ نہیں کرتیں۔ ہم تو اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے، اللہ کے نام اور اس کی عظمت کی خاطر اور محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے وابستہ رہنے کے لئے بدرجہ اولیٰ قربانیاں دیں گے۔ اس لئے اگر ہم میں سے ہر ایک کاٹا جائے اور پھینکا جائے تو اس کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔ پس اگر دینِ حق کی زندگی ہماری ظاہری موت کا تقاضا کرتی ہے تو اے اللہ! ہم مرنے کے لئے حاضر ہیں…پچھلی جنگِ عظیم میں روس نے جو قربانی دی ہے وہ بڑی حیرت انگیز ہے۔ روس کا ایک کروڑ سپاہی میدانِ جنگ میں مارا گیا اور ایک کروڑ غیر سپاہی اس جنگ میں کام آیا۔ پس اگر دنیا والے دنیا کی خاطرایک کروڑ سپاہی میدانِ جنگ میں کٹوا سکتے ہیں تو محمد رسول اللہ ﷺ کے دیوانوں کے لئے ایک کروڑ جانیں فدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ بڑی ہی غلط فہمی کا شکار ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ڈرا کر ہمیں غلبۂ دینِ حق کی مہم سے ہٹا دیں گے ۔وہ نہیں جانتے کہ ہم کس سرشت کے لوگ ہیں، کس خمیر سے ہماری مٹی اُٹھائی گئی ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عشق سے ہمارا خمیر گوندھا گیا ہے۔اللہ کی محبت اور اس کی اطاعت ہمارے رگ و ریشہ میں رچی ہوئی ہے، اس لئے دنیا کا کوئی خوف ہمیں ڈرا نہیں سکتا۔ ایک کروڑ احمدی خدا کے نام پر مرنے کے لئے تیار ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک کروڑ احمدیوں کو دشمنی سے مار دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کروڑ ہا کروڑ ایسے بندے پیدا کر دے گا جو احمدیت کی طرف منسوب ہونے میں فخر سمجھیں گے اور احمدیت کے لئے مزید قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں گے، اس لئے یہ سودا نقصان کا سودا نہیں ہے۔ مگر میں آپ کو بتا دیتاہوں کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جایا کرتے ہیں، اللہ ان کو مرنے نہیں دیا کرتا، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا۔ وہ قومیں جو اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کر لیتی ہیں وہ زندہ رکھی جاتی ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پانے والی قومیں بن جاتی ہیں۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
پس یہ رمضان المبارک بہت برکتوں والا مہینہ ہے، بہت بروقت آیا ہے۔ ایک طرف مخالف خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی یہ پیاری آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جس کی زندگی میں یہ مہینہ داخل ہو جائے گا اللہ رحمت کے دروازے اس پر کھولتا چلا جائے گا۔پس اس مہینہ کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں، خود اس مہینہ میں داخل ہو جائیں کیونکہ اس سے بہتر امن کی اور کوئی جگہ نہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ؎
عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں
یہی وہ مضمون ہے کہ عدو جب شور و فغاں میں بڑھ گیا تو ہمیں اپنے پیارے رب کے حضور پناہ ملی اور جس طرح بچہ خوف زدہ ہو کر ماں کی گود میں گُھستا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ماں اس کو چاروں طرف سے لپیٹ لیتی ہے اور کوئی وار ایسا نہیں ہو سکتا جو ماں پر پڑے بغیر بچے پر پڑ جائے…یہ رمضان ہمیں سنبھالنے اور پناہ دینے کے لئے عین وقت پر آیا ہے۔ اس لئے بہت دعائیں کریں اور خاص طور پر اپنے رب سے اس کی محبت مانگیں،اللہ کی رضا تلاش کریں،اس سے التجا کریں کہ اے خدا! ہم تیری رضا پر راضی ہیں۔جو بھی تیری رضا ہے ہمارے لئے ٹھیک ہے،لیکن ہم بہرحال تیری پناہ میں آتے ہیں۔ ہمیں لپیٹ لے، ہمیں چھپا لے، ہماری کمزوریوں سے پردہ پوشی فرما، ہماری غفلتوں کو دور فرما دے اور ہماری پناہ بن جا،ہمارے لئے قلعہ بن جا جس کے چاروں طرف تُو ہی تُو ہو اور دشمن ہم تک نہ پہنچ سکے جب تک تجھ پر حملہ آور ہو کر نہ پہنچے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر یہ ہو جائے تو ہم نے گویا اپنی زندگی کا مقصد پا لیا۔ جس کو خدا مل جائے اس کو پھر اور کیا چاہئے، پھر تو وہ بے اختیار یہ کہے گا۔
فَلَسْتُ اُبَا لِی حِیْنَ اُقْتَلَ مُسْلِماً
عَلٰی اَیِّ شَقَّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِی
وَ ذَالِکَ فِی ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِن یّشاَ
یُبَارِک عَلیٰ اَوْصَالِ شلًوِ مُّمزَّعِی
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدراً)
یعنی میں تو اپنے رب کو پا چکا ہوں اب اگر تم مجھے قتل کرتے ہو تو مجھے کیا پرواہ ہے کہ میں قتل ہونے کے بعد کس کروٹ گروں گا۔ خدا کی قسم میرا یہ مرنا اور میرا قتل ہونا محض اللہ کی خاطر ہے اور اگر وہ چاہے میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے پر رحمتیں نازل فرما سکتا ہے۔
(روزنامہ الفضل 26جون 1983ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی تمام برکات سے بھرپور اور وافر حصہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جب تک اس کی رضا ہے، ہمیں اپنی حفاظت میں خوف و ہراس سے مبرّا امن والی زندگی عطا فرمائے اور جب اُس کے حضور حاضری کا وقت آجائے تو ہمیں اپنی محبت و رضا کی چادر میں لپیٹے ہوئے ایمان کی حالت میں اپنے پاس بلالے۔ اور ہمارے وہ بھائی اور پیارے جوخون کے پیاسے دشمن کی پیاس اپنے خون سے بجھاتے ہوئے ہم سے سبقت لے گئے، اللہ تعالیٰ ان سے خاص مغفرت و رحمت کا سلوک فرمائے اور ان کے اعزّہ کا حامی و ناصر اوروالی و خود کفیل ہو۔ اور بد اندیش دشمن کی بد چالیں اسی پر اُلٹائے۔ آمین
(مظفر احمد دُرانی)