مولانا حکیم نورالدین بھیرہ ضلع سرگودہا تحصیل بھلوال
حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی تعارف کے محتاج نہیں آپؓ کی سوانح حیات سے متعلق دو کتابیں ہیں اور جماعتی لٹریچر میں بھی تفصیل موجود ہے۔ نیز خلیفۃ المسیح الاوّل ہونے کی حیثیت سے بھی سارا جگ آپؓ کو جانتاہے ۔
باقی ناموں کی فہرست یوں ہے
2۔ حکیم شیر محمد رانجھا ؓموضع چاوہ ضلع سرگودہا تحصیل بھلوال
3۔ مولوی نظام دینؓ موضع ادرحماں ضلع سرگودہا تحصیل بھلوال
4۔ مولوی محمد اسمٰعیل ؓہلال پور ضلع سرگودہا تحصیل بھلوال
5۔ میاں خد ا بخشؓ موضع کوٹ مومن ضلع سرگودہا تحصیل بھلوال
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں :
وہی اس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں
نہیں راہ اس کی عالی بارگاہ تک خود پسندوں کو
گویا متکبر اور خود پسند بارگاہ ِ خداوندی تک حضوری کے لائق نہیں۔ عاجز اور منکسرالمزاج بندے ہیں مولا کریم کو پسند ہیں ۔
حضرت حکیم شیر محمد رانجھا ؓ موضع چاوہ تحصیل بھلوال
آپ کا گھر بھیرہ کے قریب ہی واقع ہے۔ موصوف حضرت مولانا نورالدین ؓ کے ہم سبق اور ہم جولی ہیں۔
خاکسار نے آپؓ کی قبر ہجن کے ایک ابتدائی قبرستان میں دیکھی ہے 1955ء کی بات ہے ہجن میں اپنے دوست حکیم ولی محمد کے پاس بیٹھا تھا تو ولی محمد مذکور کے والد نے مجھے اشارہ سے بتایا وہ سامنے درخت کے نیچے آپ کے بزرگ حکیم شیر محمد رانجھا کی قبر ہے۔ اس بوڑھے شخص نے کہا ’’قبر کھودنے اور تیار کرنے میں میں خود شامل تھا‘‘ اور برادرم کرنل (ر) دلدار احمد سے بھی راقم الحروف نے ایک بار سنا ہے کہ حکیم شیرمحمد رانجھا نے اکثر ہجن میں رہائش رکھی ہے۔ غالباً اپنی زرعی جائیداد کی نگرانی اور کاشت وغیرہ کے سلسلہ میں حکیم صاحب موصوف ؓ وہاں رہائش پذیر رہے ہیں۔ بقول دلدار احمد حکیم شیر محمد رانجھا موصوف بہت خوبصورت قد وقامت والی شخصیت اور باوقار تھے۔ دلدار صاحب کے ننھیال کے واسطہ سے حکیم شیر محمد رشتہ دار تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھاکہ ہجن ہی کے ایک صاحب، معروف اور صاحب حیثیت آدمی نور محمد المعروف نورا ہجن نے اپنی بہن حکیم صاحب ؓ کے عقد میں دے دی تھی۔ خاکسار ایک اور وسیلہ سے بھی حکیم صاحب موصوف ؓ سے متعارف ہے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ شیرمحمد ہجن سے ادرحماں اپنے بھائی مولوی نظام دینؓ سے ملنے آیا کرتے تھے۔
مولوی نظام دینؓ موضع ادرحماں تحصیل بھلوال
نظام دین ؓ ادرحماں گاؤں کے استاد تھے ۔ اور امام الصلوۃ بھی تھے۔ پڑہا ر قبیلہ نے ہی اپنی ایک لڑکی ان کے عقد میں دے دی۔ گویا آپؓ موضع ادرحماں کے نواسہ اور داماد بھی تھے۔اللہ خالق و باری تعالیٰ نے ان کو دو بیٹے عطا فرمائے عبدالعلی اور شیر علی بڑے بیٹے عبد العلی کو نظام دین بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ کالج میں داخلہ دلوایا اور چھوٹے شیر علی کو ایف سی کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخل کروایا ۔ عبد العلی چونکہ حافظ قرآن مجید بھی تھے اس بنا پرحافظ مولوی عبدالعلی کے نام سے موسوم ہیں۔ ہم بزرگوں سے حافظ مولوی عبد العلی سنتے آئے ہیں۔ علی گڑھ کالج سے ہی قانون کی ڈگری ایل ایل بی حاصل کرنے کے بعد سرگودہا کچہریوں میں پریکٹس (وکالت)شروع کردی تھی۔ بقول مسعود احمد خاں دہلوی حافظ مرحوم نے شہر سرگودہا بلاک نمبر9سے پہلی احمدیہ مسجد تعمیر کروائی اور قریب اپنا گھر بنواکر رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ دہلوی صاحب مرحوم و مغفور کہتے تھے کہ مسجد میں نمازوں کی امامت بھی خود ہی کرتے۔ بادل، بارش، سردی، گرمی موسم کیسا بھی ہوتا کچہریوں سے نمازوں کے اوقات میں مسجد پہنچ جانا آپ کا معمول تھا۔
حصول تعلیم کے دوران علی گڑھ ہی میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو پہچان کر آپؑ کی بیعت ہو چکے تھے اور اپنے چھوٹے بھائی شیر علی کو بھی بذریعہ دلائل مرزا صاحب کی مہدویت و مسیحیت کے دعویٰ کی صداقت سے قائل کر لیا تھا۔ شیر علی نے ایف سی کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد خود بھی حضرت مرزا صاحبؑ کی زیات کی خاطر قادیان تشریف لے گئے اور آپ کی بیعت کر لی تھی ۔ اپنی نیک نفسی اور عجز و انکسار کی بنا پر امام مہدی علیہ السلام سے ’’فرشتہ‘‘ کا لقب نصیب ہوا۔ اور مرشد کے حکم سے قرآن مجید کا انگلش زبان میں ترجمہ کرنے ایسے بیٹھے کہ اپنے گاؤں واپس آنا ہی بھلا دیا۔
حضرت محمد اسمٰعیلؓ موضع ہلال پور تحصیل بھلوال
آپؓ ایک عالم فاضل خانوادہ کے چشم و چراغ تھے۔ جب امام وقت کی زیارت کرنے قادیان حاضر ہوئے تو آپؑ کی زبانِ مبارک سے مولوی محمد اسمٰعیل فاضل ہلالپوری کا نام پایا اور امام الزمان کے ارشاد کی تعمیل میں قرآن شریف کا لفظی ترجمہ اردو زبان میں کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور مدرسہ احمدیہ میں عربی پڑھانے کی خدمت بجالاتے رہے۔ ہم نے جماعت احمدیہ کے بعض معروف علماء کو فخر سے یہ کہتے سنا ہے کہ مولوی محمد اسماعیل فاضل ہلالپوری میرے استاد ہیں۔آپؓ کا قرآن مجید کا لفظی اردو ترجمہ بھی بہت مقبول ہوا۔ آپ کی ساری اولاد کسی نہ کسی رنگ میں خدمت دین بجا لاتے ہوئے جماعت احمدیہ میں جانے پہچانے افراد بن چکے ہیں مثلاً مولوی محمد احمد جلیل، مولوی عبد المجید فاضل معلم اصلاح و ارشاد۔ سب سے بڑے بیٹے حافظ عبدالحق نے اپنے گاؤں سے قریب ہی ایک گاؤں میں جا ڈیرہ ڈالا اور وہاں کی عوام کو قرآن مجید پڑھانا اور دین اسلام کی تعلیم دینی شروع کر دی۔
محترمہ استانی عارفہ آپؓ کی بیٹی نے محلہ دارلبرکات ربوہ میں احمدی مستورات کی تعلیم و تربیت میں نمایاں حصہ لیا ہے۔
میاں خدا بخش گوندلؓ موضع کوٹ مومن تحصیل بھلوال
سینہ بہ سینہ روایت کے تحت سنا ہے کہ جب پنجاب میں طاعون کی وبا ءنے سر اٹھایا تو ان خدا بخش گوندل کی بغل میں گلٹی سی نمودار ہوئی تو علاج کی خاطر بھیرہ میں مشہور و معروف طبی خاندان کے پاس علاج کی غرض سے بھیرہ پہنچے تو وہاں حضرت مولانا حکیم نور الدین ؓ کے مطب میں حضرت مسیح موعودو مہدی موعودؑ ایک کا یہ پمفلٹ پڑ ا دیکھا اٹھا کر پڑھا تو لکھا تھا۔ اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ جو ہمارے گھر میں داخل ہونگے وہ بچائے جائیں گے۔ پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کر لی اور حضرت حکیم صاحبؓ کی وساطت سے بیعت کا خط بھی لکھ دیا۔ شافی مطلق اللہ نے فضل فرمایا۔ چند ہی دنوں میں بخار اتر گیا اور گلٹی بھی غائب ہوگئی۔ موصوفؒ کا حضرت مرزا صاحبؑ کے دعویٰ کی صداقت پر ایمان پختہ ہو گیا۔ کوٹ مومن اپنی معاشرتی سنگلاخ زمین میں مشہور ہے۔ یہاں کے باسی طبعاً متشدد مانے جاتے ہیں لیکن اسی ماحول سے اللہ تعالیٰ نے موصوفؓ کو شناخت کرنے میں رہنمائی فرمائی آپؒ زہد وتقویٰ میں ترقی کرتے کرتے نماز تہجد بھی ادا کرنے لگے اور تہجد اد اکرتے سجدہ کی حالت میں اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی اولاد میں سے دو بیٹوں میں گل محمد گوندل اور میاں محمد رشید گوندل کو استقامت اور استقلال سے جماعت احمدیہ سے وابستہ رکھا۔ یہاں خدابخش گوندلؒ کی نسل میں سے میاں محمد رفیق (ایم۔ اے)مع اپنی اولاد کے دامنِ احمدیت سے وابستہ ہیں اور میاں محمد رشید گوندل اور ان کی اولاد بھی اخلاص و وفا میں کسی سے کم نہیں ہیں اور آج کل امریکہ اور کینیڈا ایسے ترقی یافتہ ممالک میں مقیم ہیں۔ ماشاء اللّٰہ
میاں خدا بخش ؒ کی تقویٰ شعاری اور پاک تبدیلی، نیک نفسی سے متاثر ہو کر گوندل قبیلہ کے ایک معروف شخص بھی حضرت مرزا غلام احمدؑ کے دامن سے وابستہ ہوئے تھے اور ان کو بابو محمد بخش سگنلر کینال ریسٹ ہاؤس اُپی کی صحبت نے بھی متاثر کر رکھا تھا۔ ان کا نام ہے چوہدری بہادر خان گوندل ۔ ان صاحب نے اپنے زرعی رقبہ میں گاؤں کوٹ مومن سے باہر ہی اپنا گھر بنا کر اس میں رہائش رکھ لی اور چند مزارعین اور ملازمین کو بھی وہیں گھر بنا دیئے۔ یوں یہ ایک چھوٹی سی بستی آباد کر کے اس کا نام حویلی بہادر خان رکھا ہے۔ جو ساری گوندل برادری میں اسی نام سے مشہور ہے۔
میاں خدا بخش کی ایک پوتی عزیزہ رفعت بصیر کی زبانی معلوم ہوا کہ چوہدری بہادر خان حضرت مرزا غلام احمد ؑ سے عقیدت اور اخلاص میں اسقدر ترقی کر چکے تھے کہ قادیان دارالامان میں بھی اپنا گھر تعمیر کرا لیا تھا۔ ہاں ایک بار پھر واپس ادرحماں اور ہلال پور چلے آئے ۔ حضرت مولوی نظام دین والد ماجد مولوی شیر علیؓ و حافظ مولوی عبد العلی کے احمدیت قبول کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت کا اعلان سن کر سارا گاؤں ادرحماں اما م الصلٰوۃ اور استاد موصوف کی پیروی میں جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیااور یہاں ایک مضبوط دیہاتی جماعت وجود میں آئی۔اسی طرح حضرت مولوی محمد اسمٰعیل ہلالپوری کے قبول احمدیت سے متاثر ہو کر ہلال پور سے نون قبیلہ کا ایک معروف زمیندار جو گاؤں میں نمبردار بھی تھاحافظ عبد العزیز، بھی حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کی بیعت کرکے احمدی ہوئے۔عبدالسمیع نون ایڈوکیٹ سرگودہا انہی کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ غریب طبقہ سے بھی چندافراد نےہلال پور میں احمدیت قبول کرلی۔ان میں سے ایک فرد شیر محمد آرائیں کو تو ہم نے خود بھی دیکھا ہوا ہے ۔ اکثر جمعہ پڑھنے اور عیدین کے مواقع پر ہمارے گاؤں ادرحماں آیا کرتے تھے۔ گویا مولوی محمد اسمٰعیلؓ اور مولوی نظام دینؓ کے فیضان سے ہلال پور اورادرحماں میں جماعتیں قائم ہوئی تھیں اور بفضلِ الہٰی آج تک قائم ہیں۔ الحمد للّٰہ علی ذالک
یہ علم و عرفان کی مجالس یہ تیرے شیریں سخن کا حاصل
وہ جنوں ہیں وفاشعاروں کا گامزن صبح و شام ہونا
اللہ تعالیٰ ان بزرگان کو اپنے قرب میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے قائم ہو نے والی جماعتوں سے بھی ایسے وفا شعاراور فیض رساں وجود پیدا کرتا رہے۔ آمین
(ماسٹر احمد علی۔ کینیڈا)