• 11 جولائی, 2025

اخلاص و محبت کی پُرانی یادیں

تاریخ احمدیت جلد 17کی اشاعت ہونے پر یہ مضمون لکھنے کی توفیق ملی۔ مرکز کی طرف سے تاریخ احمدیت جلد 17موصول ہوئی۔ اس گراں قدر اور قیمتی کتاب کو پا کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ کہنا کسی طرح بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ پوری کتاب مسلسل پڑھ ڈالی اور جب کتاب ختم کی تو صبح قریباًپانچ بجے کا وقت تھا ۔ اکثر واقعات چشم دید ہونے کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔آپؓ کے پُر شوکت خطاب رُوح آفریں تقاریر،آپؓ کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتیں، تبلیغ اسلام کی دُھن اور لگن وغیرہ۔ ان سطور کے لکھنے کا محرک مولانا ذوالفقارعلی خان گوہر مرحوم مغفور کا ایک فقرہ ہوا۔ آپ اپنی خود نوشت سوانح یا بیعت کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک پُرانے احمدی دوست سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’1900ءمیں اکتوبر میں تار پر حکم پہنچنے پر بھون گاؤں تحصیل میں نائب تحصیلدار ہو کر تین ماہ کے لئے گیا ۔ تحصیلدار مولوی تفضل حسین صاحب تھے (پُرانے احمدی دوست)، ہم دونوں کو جو خوشی حاصل ہوئی وہ ہر احمدی اندازہ کر سکتا ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد17صفحہ375)

یہ سادہ سا فقرہ پڑھ کر میں ان کی خوشی کا اندازہ کرنے لگا اور عالم تصور میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی اس چھوٹی سی،معمولی سی کچے پکے مکانوں اور ٹیڑھی میڑھی گلیوں والی بستی میں پہنچ گیا جسے دنیا قادیان کے نام سے جانتی ہے۔ یہ بستی جس سے انتہائی اخلاص اور پیار کی یادیں وابستہ ہیں۔اس بستی کے گلی کوچوں کی مرمت کے رضاکارانہ کام میں حضرت مصلح موعود ؓ کو اپنے کندھوں پرمٹی ڈھونے کا نظارہ ابھی تک ذہن میں اس طرح تازہ ہے جیسے اس وقت بھی آنکھوں کے سامنے ہو۔ یہ بستی جس میں حضرت میر محمد اسمٰعیل ؓجیسا صوفی منش درویش رہتا تھا، جہاں حضرت مولانا شیر علی ؓ جیسا فرشتہ صفت انسان دست باکار اور دل بایار کی مکمل تصویر بستا تھا۔ جہاں حضرت میر محمد اسحاقؓ جیسا عاشق رسول، محدث و مفسر رہتا تھا، وہ بستی جس میں علم معقول و منقول کا پہاڑ حضرت مولوی سرور شاہ ؓرہتا تھا۔ وہ بستی جس میں دعا اور ذکر حبیب کا متوالا حضرت مفتی محمد صادقؓ دھونی مارے ہوئے تھا، ہاں وہی بستی جس میں کتنے ہی غریب طبع درویش ابوہریرہؓ صفت رہتے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا عبادت، دعا اور تبلیغ تھی۔ یہ فہرست تو بہت لمبی ہو جائے گی، مختصر طور پر اس بستی کا تعارف اس طرح بھی کرایا جا سکتا ہے کہ جہاں مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے منتخب روزگار افراد ہندوستان کے ہر کونے بلکہ بیرون ہندوستان سے بھی آکر جمع ہو گئے تھے مگر وہ سب ایک دوسرے کے ’’بھائی جی‘‘ تھے۔ وہاں کوئی غیر نہیں تھا۔ہر بزرگ بابا جی یا میاں جی تھا۔ جہاں ہر خاتون مجسّم شرم و حیا اور زہدو اتقاء،ماسی جی یا خالہ جی تھی۔وہاں کوئی اونچ نیچ نہیں تھی ۔وہاں عزت کا معیار علم اور تقویٰ تھا۔جہاں السّلامُ علیکم کی گونج ہوتی تھی ۔جہاں تلاوت قرآن کی آواز ہر گھر سے آتی تھی۔ یہ مختصر تعارف بھی مفصّل ہوتا جارہا ہے۔

ایسے حالات میں ایک اجنبی اور نئی جگہ دو احمدی بھائیوں کی باہم اچانک ملاقات کس قدر خوشی کا باعث ہوتی ہو گی ۔ اس کے لئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ ضلع جہلم میں ایک مشہور قصبہ دوالمیال کے نام سے مشہور ہے۔اس کی شہرت کی وجہ وہاں کے وطن عزیز کی فوج کے جیالے ہیں۔ہر گھر سے نوجوان بھرتی ہو کر بہادری اور جانبازی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والے اور بلندترین فوجی اعزازات حاصل کرنے والے۔اس دور دراز علاقہ میں احمدیت حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی اور کسی صاحبِ دل احمدی نے پہاڑ کی بلندی پر بہت ہی موزوں جگہ پر اچھی فراخ اور وسیع مسجد تعمیر کروائی ہوئی تھی۔ اس مسجد میں مینارۃ المسیح قادیان سے ملتا جلتا کسی قدر چھوٹا ایک مینار بھی ہے اور غالباََ اسی وجہ سے علاقہ میں یہ قصبہ قادیان ثانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس مسجد میں بیٹھ کرہمارے بزرگ حضرت قاضی عبدالرحمانؓ دراز قد،صحت مند، فربہ جسم،مسکراتا ہوا چہرہ، نورانی داڑھی، مخلص اور فدائی نے خاکسار کو اپنا ایک پراناواقعہ سنایا۔ انہیں کی زبانی سنئے۔

جنگِ عظیم میں جب ہمیں برما بھجوانے کے لئے ایک خستہ حال مال بردار قسم کے جہاز میں سوار کیا گیا اور میں نے جہاز میں جا کر دیکھا کہ مسافر تو بہت زیادہ ہیں مگر نہ تو کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ضروری سہولتیں میسّر ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ میں غیر ملک میں جا رہا ہوں۔ میرے ساتھ کوئی بھی احمدی نہ ہو گا گویا باجماعت نماز بھی میسر نہ ہو گی ۔ درس قرآن و حدیث سننے کو نہ ملے گا ۔ ذکرِ حبیب اور ملفوظات سے بھی محروم رہوں گا ۔ان خیالات نے اتنا غلبہ کیا کہ میں نے جہاز کے ایک کونے میں جا کر نماز شروع کر دی ۔ نماز میں خوب رقت طاری ہوئی اور میں نے رو رو کر دعا کی کہ اے خدا !مجھے اکیلا نہ رہنے دینا۔دعا کر کے دل میں سکون سا پیدا ہوا ۔ کمرے سے باہر نکلا۔ ہجوم کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ ان میں جو معقول صورت شریف آدمی نظر آئے، اس سے دوستی کی جائے،اسے تبلیغ کی جائے اور اس طرح جماعت سے محرومی کا ازالہ کیا جائے۔ کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد میری نظر نے ایک صاحب کو منتخب کر لیا ۔ میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں نے گفتگو کو مذہبی اور تبلیغی رنگ دے دیا۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ وہ صاحب میری باتیں پوری توجہ اور دلچسپی سے سن رہے ہیں۔ کوئی گھنٹہ بھر باتیں ہوئی ہوں گی کہ وہ صاحب بڑے والہانہ انداز میں مجھ سے چمٹ گئے اور کہنے لگے کہ میں تو اللہ کے فضل سے احمدی ہوں آپ کی باتوں سے مزہ لے رہا تھا اس لئے فوراََ ہی آپ کو نہیں بتایا تھا ۔

قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ پھر ہماری نمازیں با جماعت شروع ہو گئیں۔ سلسلہ کی کچھ کتب ان کے پاس تھیں، کچھ میں بھی ساتھ لایا تھا۔ درس وغیرہ کا رُوح پرور اور ایمان افروز سلسلہ شروع ہو گیا۔

اپنے اسی سفر کے سلسلہ میں قاضی صاحب نے فرمایا کہ ہم اپنی روزمرہ کی خدمات اور ذمہ داریاں بجا لا رہے تھے زندگی کافی حد تک ایک معمول پر آ گئی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد ہم نے سنا کہ ہمارے یونٹ میں ایک مسلمان ڈاکٹر آ رہے ہیں۔ طبعاً سب مسلمانوں کو خوشی ہوئی کیونکہ اس زمانہ میں ڈاکٹر عام طور پر انگریز ہی ہوتے تھے یا پھر چند ہندو ڈاکٹر تھے، لہٰذا مسلمان ڈاکٹر کا بہت بے چینی سے انتظار ہونے لگا ۔ خدا خدا کر کے ڈاکٹر صاحب آئے۔ان کی شکل بالکل انگریزوں کی طرح تھی اور رُعب و دبدبہ بھی بہت تھا۔ایک روز ڈاکٹرصاحب کے اردلی نے مجھے بتایا کہ قاضی صاحب یہ ڈاکٹر تو کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ کوئی ولی اللہ لگتا ہے۔ میں نے اسے رات تہجد میں اور دن کوتلاوت میں روتے ہوئے دیکھا ہے ۔ قاضی صاحب فرما تے تھے کہ اسے سن کر مجھے فوراً ہی یہ خیال آیا کہ ایسا نیک شخص تو احمدی ہونا چاہئے اور اگر یہ احمدی نہیں ہے تو اسے احمدی کرنا چاہئے۔ مگر فوجی ضوابط اور ڈاکٹر صاحب کے رعب کی وجہ سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کس اعتقاد کے حامل ہیں۔تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک صورت پیدا فرمائی۔

فوجیوں کی عام حاضری اور ڈیوٹی کی تقسیم کے وقت ایک فوجی نے بیماری کا عذر پیش کیا ۔ ضابطہ کے مطابق ضروری تھا کہ اسے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کیا جائے۔اگر وہ اس کی بیماری کی تصدیق کریں تو اسے ڈیوٹی سے مستثنیٰ سمجھا جائے ورنہ بہانے بنانے کی سزا دی جائے۔اس غرض کےلئے میں نے مطبوعہ فارم پر کر کے اپنے دستخطوں کے بعد نمایاں طور پرAHMADI لکھ دیا اور اس سپاہی کو ایک دوسرے سپاہی کے ہمراہ ڈاکٹری معائنہ کے لئے بھجوا دیا۔ ان کو بھیج کر میں پوری وردی پہن کر ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کے لئے تیار ہو کر بیٹھ گیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر ڈاکٹر صاحب احمدی ہیں تو باہم محبت کی وجہ سے اور اگر احمدی نہیں ہیں تو مخالفت کی وجہ سے بہرحال مجھے ضرور طلب کریں گے ۔

حضرت قاضی صاحب فرماتے تھے کہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہی سپاہی بھاگتا ہوا بہت گھبراہٹ کے عالم میں آیا اور کہنے لگا کہ قاضی صاحب نامعلوم آپ نے اس فارم میں کیا لکھ دیا تھا صاحب کو دیکھتے ہی غصہ آگیا اور اس نے آپ کو فوری طور پر طلب کیا ہے میں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا کہ کوئی بات نہیں میں تو پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کے لئے تیار بیٹھا ہوں جب میں ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا تو وہ اپنے بنگلے میں آرام کر رہے تھے ۔

چارپائی پر مچھر دانی لگی ہوئی تھی۔ وہاں لیٹے لیٹے بظاہربڑے غصہ سے پوچھنے لگے کہ یہ فارم کس نے پر کیا تھا ؟ اس فارم پر کس کے دستخط ہیں؟ وغیرہ میرے یہ بتانے پر کہ یہ اس خاکسار کا ہی کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب مچھر دانی کو ایک طرف کرتے ہوئے اٹھے اور مجھ سے معانقہ کر لیا ۔یہ قابلِ فخر ڈاکٹرحضرت میجر حبیب اللہ شاہؓ تھے۔

روزوں کے دن تھے ۔ ہماری نمازِ تراویح بھی ہونے لگی اور درس بھی باقاعدگی سے ہونے لگا۔خاکسار حضرت ذوالفقار علی خان گوہر مرحوم کے فقرہ پر ہی ان متفرق یادوں کو ختم کرتا ہے کہ اس غیر متوقع اچانک ملاقات پر قاضی صاحب اور شاہ صاحب کو جو خوشی حاصل ہوئی ہو گی اس کا اندازہ ہر احمدی کر سکتا ہے۔

(عبدالباسط شاہد۔یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 06۔مئی2020ء