إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
(البقرة: 223)
ترجمہ: ىقىناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اسلام سے قبل مذہب کے معنی ہی پلید، غلیظ، گندا اور میلا رہنے کے سمجھے جاتے تھے۔ ہندوؤں، یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ پڑھ لیں بعض پنڈت اور پادری تو اس لئے بزرگ اور عالی منصب سمجھے جاتے تھے کہ ان کی امتیازی علامت یہ تھی کہ تیس چالس سال سے انہوں نے غسل نہیں کیا تھا، ناخن نہیں کاٹے یا کپڑے نہیں بدلے تھے۔ غرض رسول ہاشمی ﷺ کا ظہور ایسے وقت میں ہوا جبکہ سارا جہان غلاظت اور گندگی میں ڈوبا پڑا تھا ۔ آپ ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ایسے ماحول میں مبعوث فرمایا جہاں گندگی اور آلودگی کا نام مذہب اور غلاظت کا نام نیکی تھا۔ اور آپ ﷺ کے مبارک وجود کے آنے کا ایک اہم مقصد ایسے جھوٹے اور غلیظ تصورات کو اس عالم سے ختم کرنا تھا۔
اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے پاک دامنی اور طہارت سے آشنائی بخشی بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد ؑ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کی دوحالتیں ہوتی ہیں۔ جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وہ ظاہری پاکیزگی کا بھی لحاظ رکھے۔ پھر ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہوں میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔ ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممّد اور معاون ہے….اس لئے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن ضرور غسل کرے، ہر نماز میں وضو کرے ، جماعت کھڑی ہو تو خوشبو لگائے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 164)
جیسا کہ درج بالا آیت میں ذکر ہو چکا ہےکہ ىقىناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔یہاں خدا تعالیٰ نے ہماری اس اصل کی طرف توجہ دلائی ہے جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ فرماتے ہیں۔ الطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ کہ پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
(صحیح مسلم 534)
اور ساتھ ہی آپﷺ نے یہ بھی فرمایا الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ کہ ایمان کی شرط ہی پاکیزگی ہے۔
(صحيح مسلم،كتاب الطہارة)
غرض کہ انسان جتنا مرضی تواب بننے کی کوشش کرلے اور مطہر نہ ہو تو ایمان ہرگز ہرگز مکمل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ طہارت حاصل کر لے اور اس آیت میں جیسے کہ الْمُتَطَهِّر کا کلمہ آیا ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ ہر وقت پاک دامنی، نفاست اور صفائی اختیار کرنے کی جدوجہد میں لگے رہنا۔ یہ بات ہمیں اپنے پیارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اس مقدس اقوال کی طرف متوجہ کرتی ہےکہ
الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَقَصُّ الشَّارِبِ (صحيح البخاري، كتاب اللباس) پانچ چیزیں فطری ہیں، ختنہ کرنا، زیرناف بالوں کا صاف کرنا، مونچھوں کا کتروانا، ناخن کٹوانا، اور بغل کے بالوں کو صاف کرنا۔ نبی پاک ﷺ کی اپنی صفائی کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لئے ان کو مسواک کا حکم دیتا۔‘‘
(صحیح بخاری حدیث نمبر 887)
خالقِ دو جہاں آپ ﷺسے فرماتا ہے۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (المدثر:5) اور جہاں تک تىرے کپڑوں (ىعنى قرىبى ساتھىوں) کا تعلق ہے تُو (انہىں) بہت پاک کر۔
حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’یہاں آپ ﷺ کو ربانی حکم ہے کہ لوگوں کو بتلا کہ گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا بلکہ انسان کا ذہن کند ہو جاتا ہے اور وہ خداتعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے‘‘۔
(سیرِ روحانی صفحہ 450)
انسان ظاہری پاکیزگی کے بغیر روحانیت کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتا اسی وجہ سے ہر نماز سے پہلے وضو رکھا گیا ہے اور اس کی فرضیت کے بارے آپ ﷺ فرماتے ہیں ۔
لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ
(صحيح مسلم، كتاب الطہارة)
وضو کے بغیر کوئی نماز نہیں۔ نبی پاک ﷺ کو صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکیزگی اختیار کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نمار جمعہ کے لئے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان گھس کر نہ بیٹھے۔ پھر جتنی ہو سکے نفل نماز ادا کرے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموشی سے سنے تو اس کے اِس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعہ)
نبی پاک ﷺ نے نہ صرف نہانے کا حکم دیا بلکہ ہر ایک چیز کی صفائی کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے مکانوں کی صفائی کا ارشاد فرمایا۔ راستوں کی صاف رکھنے کی تلقین کی اور اپنے خیالات و افکار کی صفائی کے حوالے سے ، آپ ﷺ فرماتے ہیں۔
قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَاتَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا
(صحيح البخاري، كتاب الادب)
تم بدگمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کے عیوب کی ٹوہ میں لگے رہواور ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو اور نہ حسد کرو اور نہ بغض رکھو اور نہ کسی کی غیبت کرو اور اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن جاؤ۔حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں۔ مجھے خدا نے جومسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنادیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حقِ ہمدردی بجالاؤ۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کروکہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہوجاؤ گے۔ کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی نا پاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے۔ سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسےمت ہو…یہی وہ بات ہے جو قرآنِ شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا’’
(روحانی خزائن جلد 17 ، گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، صفحہ14-15)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ۔
’’رسول کریم ﷺ نے آکر کایا پلٹ دی، مذہب کا نام غلاظت سمجھا جاتا تھا محمد رسول ﷺ نے مذہب کا نام صفائی رکھ دیا‘‘
(سیرِ روحانی صفحہ 468)
دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو پاکدامنی، پاکیزگی اور نفاست اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس خوش قسمت گروہ میں شامل ہونے کی توفیق دے جن کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (الأَعلى: 15) ىقىناً وہ کامىاب ہوگىا جو پاک ہوا۔ آمین
(روحان احمد۔غانا)