6 مارچ 1953ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک دن تھا۔پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے ابھی 6سال مکمل نہیں ہوئے تھے کہ ملک ایک سنگین بحران میں پھنس چکا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر فسادیوں کا راج نظر آ رہا تھا۔ حکومت کی مشینری جام کی جا رہی تھی۔ سڑکوں پر کئی گاڑیوں سے شعلے بلند ہو رہے تھے ۔ عمارتوں کو آگ لگائی جا رہی تھی۔ ریل گاڑیوں کو روک دیا گیا تھا۔ غنڈے بدمعاش لوٹ مار کر رہے تھے۔ احمدیوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے ہو رہے تھے ۔ انہیں شہید کیا جا رہا تھا۔ پولیس کہاں غائب تھی؟ صوبے کی حکومت کیا کر رہی تھی ؟ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ کچھ سالوں سے فسادات کو قابو کرنے کی بجائے ان کو ہوا دیتے رہے تھے۔ آج اس ڈرامے کا آخری دن تھا۔ وہ پاکستان کی مرکزی حکومت کو مکمل طور پر دیوار سے لگا چکے تھے۔ اب یہی لگ رہا تھا کہ انہیں ہیرو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ فسادیوں کے مطالبات تھے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وزیر خارجہ کے منصب سے ہٹایا جائے اور احمدیوں کو کلیدی آسامیوں سے برطرف کیا جائے۔
ممتاز دولتانہ کا مطالبہ
اُس وقت پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے تھے۔ ملک کی کابینہ کا اجلاس جاری تھا کہ وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ کا فون موصول ہوا کہ اگر فوری طور پر احمدیوں کے خلاف مطالبات منظور نہ کئے گئے تو رات تک لاہور راکھ کا ڈھیر بن چکا ہوگا۔ ممتاز دولتانہ کو یقین تھا کہ اب وزیر اعظم کو جھکنا پڑے گا اور وہ خود ایک ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے۔ایک ایسا ہیرو جس نے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈال کر مطالبات تسلیم کرالئے اور ملک کو تباہی سے بچا لیا۔
وزیر اعظم نے سراسیمگی کی حالت میں اپنے وزراء کی طرف دیکھا۔ اچانک دو وزراء نے جھنجلا کر کہا کہ یہ کیسی حکومت ہے جو امن بھی قائم نہیں رکھ سکتی؟ اور فیصلہ ہوا کہ لاہور میں جنرل اعظم خان صاحب سے رابطہ کیا جائے ۔ ان کی طرف سے جواب آیا کہ حالات تو خراب ہیں لیکن چند گھنٹے میں قابو بھی کئے جا سکتے ہیں۔اور پھر لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور واقعی چند گھنٹوں میں لاہور میں فسادات پر قابو بھی پالیا گیا۔
تحقیقاتی عدالت کا قیام اور کارروائی
ان فسادات نے جن المیوں کو جنم دیا وہ ایسے نہیں تھے جنہیں آسانی سے فراموش کر دیا جائے۔چنانچہ دو جج صاحبان پر مشتمل تحقیقاتی عدالت قائم کی گئی تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ ان فسادات کا ذمہ دار کون تھا؟ چنانچہ اسی سال اس عدالت نے کارروائی شروع کی۔ یہ تحقیقاتی عدالت جسٹس کیانی اور جسٹس منیر پر مشتمل تھی ۔ تحقیقاتی عدالت کی طویل کارروائی میں بہت سے پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ خفیہ ریکارڈ طلب کیا گیا اور بیسیوں گواہ عدالت میں پیش ہوئے۔اس مضمون میں صرف ایک اہم پہلو کے بارے میں حقائق بیان کئے جائیں گے۔
مسلم کی تعریف کا مسئلہ
جج صاحبان نے جب جماعت احمدیہ کے مخالفین کے مطالبات کا جائزہ لینا شروع کیا تو ان میں سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔ جج صاحبان نے فیصلہ کیا کہ پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ہم کس کو مسلم کہہ سکتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں مسلم کی تعریف کیا ہے؟ جب یہ تعریف طے ہوجائے گی تو پھر ہی یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ہے۔جج صاحبان نے مسلمان کی تعریف معلوم کرنے کے لئے ان علماء سےجو کہ اب تک جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک چلا رہے تھے یہ سوال کیا کہ آخر مسلم کی تعریف کیا ہے؟ آپ کس شخص کو مسلم کہہ سکتے ہیں؟ اس بارے میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہےکہ
’’جب صورت حال یہ ہے تو مملکت کو لازماً کوئی ایسا انتظام کرنا ہو گا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق معین ہو سکے ۔اور اس کے نتائج پر عملدرآمد کیا جا سکے ۔ لہٰذا یہ مسئلہ بنیادی طور پر اہم ہے کہ فلاں شخص مسلم ہے یا غیر مسلم اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اکثر ممتاز علماء سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ مسلم کی تعریف کریں ۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس فیصلے کی وجوہ بالکل روشن ہوں گی بلکہ وہ مسلم کی تعریف بھی قطعی طور پر کر سکیں گے کیونکہ اگر کوئی شخص دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں شخص یا جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ دعویٰ کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ مسلم کس کو کہتے ہیں ۔تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمینان بخش نہیں نکلا۔ اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدر ژولیدگی موجود ہے تو آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہو گا۔‘‘
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت مقرر کردہ زیر پنجاب ایکٹ 2 1954ء برائے تحقیقات فسادات پنجاب 1953ء ص231 و 232)
مختصر یہ کہ ہر عالم نے مسلم کی جو تعریف کی وہ دوسرے سے مختلف تھی۔ اور 1953ء کے فسادات برپا کرنے والوں کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ چونکہ احمدی اُن کے نظریہ ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتے ، اس لئے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا چاہئے۔لیکن سوائے ایک صاحب کے جنہوں نے مسلمان ہونے کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرتا ہو ، کسی اور عالم نے مسلمان ہونے کے لئے یہ شرط نہیں بیان کی کہ ایک شخص کے لئے مسلمان کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کے نظریہ ختم نبوت پر یقین رکھتا ہو۔ علماء نے مسلم کی جو مختلف تعریفیں بیان کی تھیں ان کو سن کر عدالت نے یہ تبصرہ کیا۔
’’ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں۔پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کردیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف اُن تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کرلیں تو ہم اُس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے۔‘‘
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت مقرر کردہ زیر پنجاب ایکٹ 2 1954ء برائے تحقیقات فسادات پنجاب 1953ء ص235و 236)
علماء کا شکوہ
ویسے تو جماعت احمدیہ کے مخالفین نے اس رپورٹ کی بہت مخالفت کی لیکن انہیں خاص طور پر اس حصہ پر شدید اعتراض تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم سوال تھا اور تحقیقاتی عدالت نے انہیں جواب کے لئے وقت نہیں دیا۔ جواب دینے والے علماء پر واضح نہیں تھا کہ ان سے مسلمان کی قانونی تعریف پوچھی جا رہی ہے۔ بعض نے تو یہاں تک الزام لگایا کہ جسٹس منیر بعض علماء سے پُرانا بدلہ لے رہے تھے۔ وہ پہلے ہی سے علماء کے مخالف تھے ۔اور ان کو مرعوب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔
(The Ahmadis and the politics of religious exclusion in Pakistan by Ali Usman Qasmi p 120.125)
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تحقیقاتی عدالت کی شائع ہونے والی رپورٹ تو ساری کارروائی کا خلاصہ ہے۔اصل کارروائی جس میں مکمل ریکارڈ محفوظ کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک فریق ہونے کی حیثیث سے جماعت احمدیہ کو اس کی کاپی دی گئی تھی ۔ اور اب ملک کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے اس کا ریکارڈ انٹرنیٹ پر مہیا کیا جا چکا ہے۔اب ہم یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ ان الزامات کی حقیقت کیا تھی؟
اصل حقائق کیا تھے؟
جب میں نے اس پہلو سے رپورٹ کے بعض حصوں کا جائزہ لیا تو یہ اہم پہلو سامنے آئے ۔
- اس کارروائی میں جب کوئی گواہ یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ کسی سوال کا فوری طور پر جواب نہیں دے سکتا تو وہ یہ کہہ دیتا تھا کہ وہ مشورہ کر کے بعد میں جواب دے گا۔یا یہ کہہ دیتا تھا کہ اسے اس وقت اس بات کا علم نہیں ہے۔لیکن جب جج صاحبان نے یہ سوال کیا کہ مسلم کی تعریف کیا ہے تو ان علماء نے جو اسی وقت جواب دینا چاہتے تھے دے دیا۔انہوں نے اس کے جواب کے لئے کوئی وقت نہیں مانگا تھا۔
- جج صاحبان تمام علماء سے یہ سوال کر رہے تھے ۔ اور تمام علماء کی گواہی ایک ہی دن نہیں ہوئی تھی بلکہ مختلف دنوں میں ہوئی تھی۔ بعض علماء کی گواہی دوسرے علماء سے ایک ماہ بعد ہوئی تھی۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پہلے روز جن سے سوال کیا گیا وہ جواب دینے کے لئے تیار نہیں تھے تو کم ازکم جن علماء کی گواہی بعد کے دنوں میں تھی ان کو تو پہلے سے ہی علم تھا کہ یہ سوال کیا جائے گا۔اس لئے یہ عذر صحیح نہیں لگتا کہ چونکہ سوال اچانک کیا گیا اس لئے صحیح جواب نہیں دیا گیا۔
علماء کا ایک دوسرے کو کافر قرار دینا
اصل قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسی وجہ سے جسٹس کیانی صاحب اور جسٹس منیر صاحب نے اپنی رپورٹ میں سے اصل کارروائی کے بعض ایسے حصے شامل نہیں کئے تھے یا حذف کر دیئے تھے جن کی اشاعت کے نتیجے میں گواہی دینے والے کئی علماء بہت بڑی مشکل میں پڑ سکتے تھے۔ان علماء نے یہ گواہی تو دی تھی کہ ان کے نزدیک احمدی کافر اور غیر مسلم ہیں لیکن عدالتی کارروائی کے دوران یہ تکفیر اس سے بہت آگے بڑھ گئی تھی اور ان علماء نے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ تحریک چلا رہے تھے ایک دوسرے کو بھی کافر قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔
- 3 ستمبر 1953ء کو صدر جمیعت العلماء پاکستان سید ابوالحسنات قادری صاحب بحیثیث گواہ نمبر 13 عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے اہل حدیث کو کافر ِ قطعی قرار دیا اور کہا کہ ایک ایسا فتویٰ بھی موجود ہے کہ دیوبندی بھی کافر ِقطعی ہیں اور ایک اور فتویٰ میں شیعہ احباب کو فقہی کافر قرار دیا گیا ہے۔
- عبد الحامد بدایونی صاحب نے کہا کہ میں تو ہر دیوبندی کو کافر نہیں سمجھتا لیکن بعض علماء نے ان میں سے بعض کو کافر قرار دیا ہے۔
- 21۔اکتوبر 1953ء کو مولانا محمد علی کاندھلوی صاحب گواہ نمبر 76 کی حیثیث سے عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے حلفیہ گواہی دی کہ میرے نزدیک معتزلہ اور اہل قرآن کافر ہیں۔
- گواہ نمبر 17 مولوی شفیع دیوبندی صاحب تھے۔ جج صاحبان نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اور سید محمد احمد قادری صاحب نے دیوبندیوں کو کافر قرار دیا ہے۔پہلے انہوں نے کہا کہ یہ فتویٰ غلط ہے اور غلط خیالات کی بناء پر دیا گیا ہے ۔ پھر جج صاحب کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایک حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو غلط کافر قرار دے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔
- اسی طرح جماعت اسلامی کے مولانا طفیل محمد صاحب 14۔اکتوبر 1953ء کو گواہی کے لئے پیش ہوئے ۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اہل قرآن کو کیا سمجھتے ہیں تو پہلے انہوں نے ان کے عقائد سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جب جج صاحب نے کہا کہ اگر وہ سنت اور حدیث پر یقین نہیں کرتے ۔ اس پر انہوں نے کہا پھر تو میں انہیں کافر سمجھوں گا۔
حقیقت یہ تھی کہ کسی وجہ سے جسٹس کیانی صاحب اور جسٹس منیر صاحب نے کارروائی کا بہت بڑا حصہ اپنی رپورٹ میں شامل نہیں کیا تھا ۔ اگر کارروائی کا یہ حصہ اس وقت شائع ہوجاتا تو جماعت احمدیہ کے مخالفین کو بہت بڑ ا دھچکا پہنچ سکتا تھا ۔ کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جو مخالفین جماعت 1953ء میں ایک دوسرے سے مل کر تحریک چلا رہے تھے ان میں سے کئی ایک دوسرے کو بھی کافر قرار دے رہے تھے۔میرا خیال ہے کہ ان علماء کو ان جج صاحبان سے ناراض ہونے کی بجائے ان کا مشکور ہونا چاہئے۔
(مرزا سلطان احمد)