یکم اپریل 1960ء کو پیدا ہونے والے مکرم ضیاء الحق شمس صرف 38 سال کی عمر میں 3 اگست 1998ء کو یو کے کے جلسہ میں بھر پور شرکت کر نے کے بعد واپس آتے ہوئے اپنے علاقہ میں ہی صبح 2 سے 3 بجے کے درمیان ایک کار حادثہ کے نتیجہ میں اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ وہ خود تو ملک راہی عدم کو پدھارے جب کہ پیچھے رہ جانے والے پسماندگان اور جاننے والے دوستوں کو بہت ہی سوگوار کر گئے۔ لیکن کیا کیا جائے کیونکہ مشیت ایزدی کے آگے سر تو جھکانا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کا سلوک فرمائے اور اپنے قرب میں جگہ دے۔ آمین
حضرت خلیفۃ المسیح رابع رحمہ اللہ نے اپنے اگست 1998ء کے خطبہ جمعہ میں اس حادثہ کا ذکر بڑے دکھ بھرے انداز میں کیا۔ کچھ لوگ اس دنیا میں گو وقت تو تھوڑا گزارتے ہیں لیکن اپنی خوبیوں کی وجہ سے وہ ارد گرد کے ماحول پر بہت گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ شمس صاحب کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی خوبیوں کی مالک تھی۔ بظاہر ایک سادہ سی شخصیت لیکن اندر سے کتنی گہری اس کا اندازہ ان کے ساتھ قریب سے کام کرنے والوں کو ہی ہو سکتا ہے۔ 1987ء سے لے کر اپنی وفات تک شمس صاحب کو جماعتی خدمات کی نمایاں توفیق ملتی رہی۔ خاکسار کو جب پہلے انچارج بازنین سیل، بعد ازاں نیشنل سیکریٹری تربیت برائےنو مبا ئعین اور نیشنل سیکریٹری تبلیغ مقرر کیا گیا تو محترم شمس صاحب اس سارے عرصہ میں اپنی جماعت ڈوزل ڈارف کے صدر اور ریجن نارڈ رایین کے سیکریٹری تبلیغ کی حیثیت سے بہت ہی مؤثر اور مفید رنگ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ خاکسار کو ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کی بے شمار خوبیوں کا پتہ چلا۔ آپ انتہائی عاجزانہ اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کوئی بھی جماعتی کام ہوتا تو ہر دوسری چیز کو بھول کر جماعت کے کاموں کی تکمیل میں لگ جاتے اور جب تک کام مکمل نہ ہوتا ان کو چین نہ آتا۔ سادہ سی طبیعت کے باوجود مؤثر رنگ میں جماعتی تبلیغی کاموں کی تکمیل ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی تھی ۔خاص کر انتہائی کامیاب تبلیغی نشستیں منعقد کرانے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ زیر تبلیغ احباب کی بڑی تعداد کو تبلیغی میٹنگز میں شمولیت کے لئے کیسے قائل کر لیتے تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ شاید اللہ کو ان کا خلوص اور دیوانگی بہت بھاتی تھی۔ ان کی دیوانگی دیکھتے ہوئے ان پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ کا یہ شعر بالکل فٹ ہوتا تھا کہ
عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں
مقصود میرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو
وہ جماعتی خدمت کے میدان میں واقعی ایک دیوانے کی حقیقی تصویر تھے۔ان کی خدمت کے دور میں ان کا ریجن نارڈ رایین تبلیغ کےمیدان میں جرمنی بھر میں بہت ہی نمایاں رہا۔ خاص طور پر بلکان ممالک کی جنگ کی وجہ سے ان ممالک کے مہاجرین میں جماعت کا پیغام پہنچانے میں محترمی شمس صاحب کا بہت ہی بڑا حصہ ہے۔ البانین اور بازنین بولنے والے افراد کے ساتھ انہوں نے بے شمار میٹنگز کا انتظام کرایا ۔ جس کے نتیجہ میں اس وقت بلکان ممالک سے تعلق رکھنے والوں نے ہزاروں کی تعداد میں جماعت میں شمولیت بھی اختیار کی اور پھر انہی احمدی ہونے والوں میں سے بعض نے واپس جا کر اپنے ممالک میں نہ صرف احمدیت کو قائم رکھا بلکہ جماعت کے پیغام کو اپنے ہم وطنوں تک بھی پہنچایا۔
ایک مرتبہ ان کے علاقہ میں البانین اور بازنین بولنے والوں کے ساتھ تبلیغی نشست کا پلان تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ میٹنگ میں شمولیت کے لئے بایرن کے علاقہ سے روانہ ہو چکے تھے۔ خاکسار کو ان کا فون آیا اور بتلایا کہ میٹنگ کے لئے مخصوص ہال اب کسی وجہ سے نہیں مل رہا ۔ ایک ہی صورت ہے کہ ایک معمولی سے لاگر یعنی اسٹور ہاؤس میں اس میٹنگ کو کرایا جائے۔ حضور انور رحمہ للہ سے اجازت لے کر ان کو اسٹور ہاؤس میں ہی پروگرام کرنے کی ہدایت کی گئی۔ البانین زبان کے ماہر ڈاکٹر ذکریا خان صاحب کو لانے کے لئے مرحوم سبحان طارق صاحب کی ڈیوٹی لگی جبکہ بازنین زبان کی ماہر آرمینا آ رناتو وچ کو محترم انیس دیالگڑھی صاحب لینے چلے گئے۔ پروگرام ختم ہونے پر یہ میٹنگ محض اللہ کے فضل سے حاضری، سوال و جواب اور بیعتوں کے نقطہ نظر سے جرمنی کی بہترین میٹنگ قرار پائی۔ محترمی شمس صاحب نے اس معمولی اسٹور کو اپنی انتھک محنت اور دیوانگی کے جذبہ کے تحت صرف چند گھنٹوں میں ایک بہترین ہال میں تبدیل کر دیا۔ میٹنگ کے بعد حضور انور رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا کہ یہ جگہ کسی لحاظ سے بھی اسٹور ہاؤس تو نہیں لگ رہی۔ آنکھوں میں خلیفہ وقت کی محبت اور احترام کی روشنی کی عکاسی کرتے ہو اتنی ہی سادگی اور عاجزی سے کہنے لگے! حضورآپ اللہ والے ہیں آپ کی دعاؤں اور برکت کی وجہ سے یہ سماں بندھ گیا ہے ورنہ ہماری کیا حیثیت ہے۔ حضور انور رحمہ اللہ نے ان کے جذبہ خدمت کی بہت تعریف کی اور بہت زیادہ اظہار خوشنودی فرمایا۔
اپنی جماعتی خدمات کے دوران ان کو جب بھی کسی پروگرام کو کرانے یا کسی اور خدمت کے لئے کہا جاتا تو کبھی بھی دوسری بات نہ کرتے اور کہتے کہ بے فکر ہو جائیں انشا اللہ ہو جائے گا اور واقعی کر کے بھی دکھاتے۔ جماعتی خدمات کی سعادت کے لحاظ سے یہ اپنے وقت کے ایک بہترین خادم سلسلہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزاء سے نوازے اور ان کی اولاد کو بھی اپنے والد کی نیکیوں کو قائم رکھنے اور نمایاں جماعتی خدمات کی توفیق دے۔ آمین
(زبیر خلیل خان۔جرمنی)