• 17 اپریل, 2024

خداتعالیٰ تمام دنیا کا خدا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ تمام دنیا کا خدا ہے۔ اور جس طرح اس نے تمام قسم کی مخلوق کے واسطے ظاہر ی جسمانی ضروریات اور تربیت کے مواد اور سامان بلا کسی امتیاز کے مشترک طور پر پیدا کئے ہیں اور ہمارے اصول کے رُو سے وہ ربّ العالمین ہے اور اس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح وہ ہر ایک زمانے میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتاً فوقتاً مصلح بھیجتارہا ہے۔ جیسے علامہ رازی نے بھی لکھا تھا کہ سوال کرنے والے کے سوال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ جب دیکھ لیتا ہے کہ دنیا بگڑ رہی ہے، حالات خراب ہو رہے ہیں تو اس وقت مصلح بھیج دیتا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جن قوموں یا مذہبوں کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی کو خاص کیا ہوا ہے جیسا کہ (اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس میں آریوں کا اور یہودیوں یا عیسائیوں کا ذکر کیا ہے) ان کا خیال یہ ہے کہ صرف انہیں میں ہی مصلح آ سکتے ہیں، انہیں میں نیک لوگ پیدا ہو سکتے ہیں، انہیں میں نبی آ سکتے ہیں، اسرائیلیوں سے باہر کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ اس بات سے اللہ تعالیٰ کو تمام جہانوں کا ربّ نہیں سمجھتے لیکن اسلام کے خدا کا تصور ربّ العالمین کا ہے، اسلئے قرآن کریم کی ابتداء ہی اس لفظ سے ہے۔

آپ فرماتے ہیں: ’’پس ان عقائد کے رد ّکے لئے خداتعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن اور جابجا اس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں۔ بلکہ خدانے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے اُن کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہرایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر: 25) کہ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا‘‘

فرمایا کہ ’’سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا ربّ ہے اور تمام مکانوں کا ربّ ہے‘‘۔ ہر جگہ کا، ہر ملک کا ربّ ہے۔ ’’اور تمام ملکوں کا وہی ربّ ہے اور تمام فیضوں کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے۔

خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا۔ یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی۔ یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا۔ پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23 صفحہ441-442)

پس اس زمانے میں ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے نتیجہ میں ہمیں یہ فیض ملا۔ اس سے ہم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں اپنی اس صفت کے بارے میں ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں بھی ذکر کیا تھا کہ بیسیوں جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت ربّ کا ذکر فرمایا ہے اور مومنوں کو مختلف طریقوں سے یہ احساس دلایا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ تمہاری بقا اور تمہاری سلامتی چاہے وہ جسمانی ہو یا روحانی ہو، اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ سب میری ذات سے وابستہ ہے، مَیں جو تمہارا ربّ ہوں اس لئے ہمیشہ میری طرف جھکو اور مجھ سے مانگتے رہو۔

(خطبہ جمعہ 24 نومبر 2006)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبۂ عید الفطر مؤرخہ 2؍ مئی 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ