• 18 مئی, 2024

نایاب ہوتے پانی کی قدر کریں

مکسر نل سے ٹھنڈا گرم پانی ایک تناسب سے ملا کراس سے برتن کھنگال کر ڈش واشر میں رکھتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جہاں دور دور تک سر سبز گھاس کے فرش پر خود کار انتظام سپرنکلر سے پانی کے فوارے گھوم گھوم کے پھوار ڈال رہے تھے۔ بہت خوب صورت منظر تھا دل حمد کی طرف مائل ہؤا اور تشکر کے جذبات کے ساتھ یہ سوچتے ہوئے کہ مہربان خدا نے کیسی کیسی سہولتوں سے نواز ا ہے۔ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لے کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ پانی کا یہ گلاس فرِج میں لگے نلکے سے لیا تھا جس میں فلٹر لگا ہؤا ہے اور اس کے برابر میں ذرا سا بٹن دبانے سے برف کے کیوب گلاس میں آگرے تھے۔ پانی کی اتنی سہولت، آسانی اور فراوانی پہلے کہاں میسر تھی۔ مجھ ناچیز تک پانی کا یہ گلاس پہنچانے میں کتنے بندگانِ خدا کی محنت کارفرما ہوگی۔ بعض دفعہ ہم آدھا گلاس پانی پی کر باقی پھینک دیتے ہیں۔ قدر نہیں کرتے۔ سوچ کے دھارے بہت دور ماضی میں لے گئے۔ میری آنکھ قادیان میں کھلی تھی۔ دارالفتوح میں ریتی چھلہ کے سامنے ہمارا گھر تھا جو دو دکانوں کے اوپر بنایا گیا تھا۔ اس وقت اوپر پانی پہنچانے کے لئے اباجان نے زمین پر ہاتھ سے چلنے والے نلکے کی پائپ کو اضافی پائپ لگا کر چھت میں سوراخ کرکے اوپر نکلوالیا تھا اس طرح پہلی منزل پر نلکا میسر آگیا تھا جو اس وقت اباجان کی جُودت طبع کے نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یہ نلکا اس لئےبھول نہیں پائی کہ میں بہت چھوٹی تھی ایک دفعہ ہینڈل چھٹنے سے ماتھے پر چوٹ لگی تھی جس کا نشان اب تک ہے اور کسی کے پوچھنے پر کہ یہ نشان کیسا ہے قادیان والے گھر کے نلکے کا ذکر رہتا ہے۔

پاکستان آئے تو کچھ عرصہ لاہور رتن باغ رہنے کے بعد ربوہ آئے یہاں کچھ سال رہائش دارا لخواتین میں رہی۔ جہاں ایک احاطے میں چالیس خاندان رہتے تھے اور صحن کے درمیان میں ایک ہاتھ سے چلنے والا نلکا تھا۔ سب اسی سے پانی بھرتے تھے قریباً ہر وقت قطار لگی رہتی جس کو جو برتن میسر ہوتا بھرنے کے لئے لے آتا۔ یہ برتن قطار میں رکھ دئے جاتے عام طور پر کنستر کے اوپر کا ڈھکنا کاٹ کر لکڑی کا ہینڈل لگا لیا جاتا یہ پانی ڈھونے کے کام آتا۔ باری آنے پر جس کا برتن سب سے آگے ہوتا پانی بھر کے لے جاتا باقی برتن آگے کھسکا دئے جاتے اس اثنا میں ہم بچے کھیلتے رہتے اور بڑی عورتیں اپنے کاموں میں لگی رہتیں۔ پانی گھر لا کر لکڑی کی گھڑونچی پر رکھے مٹی کے گھڑوں میں بھر لیا جاتا۔ پا نی بھرنے کا نسبتاً آسان وقت فجر سے پہلے ’جلتی دوپہر کو یا عشاء کے بعد ہوتا کیونکہ ہجوم کم ہونے کی وجہ سے جلدی باری آجاتی۔نلکا چلانے کےلئے زیادہ تر بچوں کی ڈیوٹی لگتی ہم معمر عورتوں کے لئے نلکا چلا کر دعا لیتے۔ گھڑوں اور صراحیوں میں پانی سٹور کیا جاتا جو بہت ٹھنڈا ہوجاتا گرمیوں میں اچھا لگتا لیکن سردیوں میں صبح کے وقت ربوہ کی ٹھنڈ میں اسی پانی سے وضو کرنا ہوتا۔ گیس اور بجلی نہیں تھی پانی گرم کرنے کے لئے لکڑی کا چولھا جلانا ہوتا اور اس کے لئے خشک جھاڑیاں جمع کرنا ہوتیں یا لکڑی حاصل کرنی ہوتی۔یہ سب آسان نہیں تھا۔ تاہم جو میسر تھا اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہتے۔

اس کے بعد جب دارالرحمت وسطی میں اپنا گھر بنا کر اس میں منتقل ہوئے تو سب سے خوشی کی بات یہ تھی کہ ایک نلکا صرف ہمارا تھا بلا شرکتِ غیرے۔ ہم اس سہولت کو اللہ پاک کی عظیم نعمت سمجھتے اور دل سے شکر ادا کرتے۔ صحن میں نلکے کے گرد کُھرا تھا۔ ہم کھُرا ہی کہتے بعد میں پتا لگا کہ اردو میں حوضی کہتے ہیں۔اسی جگہ نلکا چلاکر بالٹی سے پینے کا پانی بھر لیتے یہیں برتن اورکپڑے دھو ئے جاتے۔ہمارا پانی میٹھا تھا اسے میٹھا اس لئے کہتے کہ کڑوا نہیں تھا ورنہ بعض علاقوں میں کڑوا پانی نکلتا تھا۔ کُھرے کی نالی ایک کیاری تک جاتی جس میں امی جان بڑے شوق سے سبزیاں اور پھول لگاتیں وافر پانی ملنے سے پودے خوب پھلتے پھولتے۔ مجھے یاد ہے کئی قسم کی تازہ سبزیاں گھر میں مل جاتیں۔جو امی جان دوسروں کو تحفہ دے کر بہت خوش ہوتیں۔ باغبانی کا یہ شوق پھر سب ہم بچوں میں بھی آیا۔ پینے کا پانی وہاں بھی گھڑے اور صراحیوں میں رکھا جاتا کبھی بہت گرمی ہوتی یا مہمان آتے تو سیر دو سیر برف بازار سے منگوائی جاتی۔ برف لپیٹ کر لانے کے لئے پرانا تولیہ کام آتا مگر گھر آنے تک پھر بھی آدھی رہ جاتی۔ روزوں میں برف سے ٹھنڈا کیا ہؤا پانی بہت اچھا لگتا۔

ربوہ میں یہ خبر بہت دفعہ گرم ہوتی کہ کمیٹی والے اونچائی پر ٹینک بنائیں گے جس میں پانی ذخیرہ کریں گے۔ پھرگھر گھر صاف پانی ملے گا پھرہم نے دیکھا کہ جگہ جگہ چبوترے بننے لگے جن میں نلکے لگائے گئے جہاں وقت پر پانی آتا اور محلے والے پانی بھر لیتے حسن اتفاق سے ایک نلکا ہماری آپا لطیف صاحبہ کے مکان کے سامنے لگا۔ جس سے ہمارے بہنوئی مکرم شیخ خورشید صاحب پانی بھرا کرتے اور یہ کام وہ اتنی پابندی لگن اور محنت سے کرتے جیسے یہ بھی عبادت ہو۔ میری شادی تک کمیٹی کا پانی محلے تک آیا تھا گھروں میں نہیں آیا تھا جو باہر لگے نل سے پانی نہیں بھر سکتے تھے وہ گھر کے نلکے پر ہی گزارا کرتے۔ یہ خیال عام ہو رہا تھا کہ یہ پانی صاف نہیں ہے کئی قسم کی مضر چیزیں پانی میں ملی ہوتی ہیں۔ ہماری امی جان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بہت قدر کرتیں اور ہمیں بھی شکر گزاری اور کفایت کا درس دیتیں۔ صرف پانی ہی نہیں وہ کسی چیز کا ضیاع پسند نہ کرتی تھیں۔ سورہ التکاثر کا ترجمہ سناتیں ضیاع پر استغفار کرنے اور شکر گزار ہونے کی تلقین کرتیں کہ اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں فرماتا۔ اس کے لئے سورہ الانعام کی آیت 142 سناتیں اور کھانے پینے میں حد میں رہنے کے لئے سورہ اعراف کی آیت کا حوالہ دیتیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

پسند نہیں کرتا یعنی ناپسند کرتا ہے۔ بے جا اسراف کرنا،حد سے بڑھنا، ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ آنحضور ﷺ نے خود وضو کرکے احتیاط سے کم پانی میں وضو کا طریق سکھایا۔

ایک حدیث ہے کہ ایک صحابی وضو کررہے تھے جس میں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کر رہے تھے آنحضور ﷺ نے انہیں پانی ضائع کرنے سے منع فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا:

’’کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو۔‘‘

(مسند احمد حديث نمبر6768، سنن ابن ماجہ حديث نمبر419)

پہلے میری سمجھ میں بالکل نہیں آتا تھا کہ پانی میں اتنی کفایت کا ارشاد کیوں ہے شاید کنوئیں سے پانی نکالنے کی محنت کی وجہ سے ایسے فرمایا ہے مگر نہر یا دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی زیادہ پانی استعمال کرنے میں کیسا نقصان کس کی حق تلفی ؟ پھر یہ سمجھ آئی کہ مراد یہ ہے چیز کتنی بھی وافر کیوں نہ ہو ہمارا حق اپنی ضرورت کی حد تک ہے۔اپنی ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے ورنہ ضیاع کی عادت ہوجاتی ہے۔ اور اس سے نفس موٹا ہوتا ہے اور دوسروں کا حق مارا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

صحابہ کرامؓ کی روایات کے مطابق رسول کریم ﷺ بہت تھوڑے سے پانی سے وضو کرلیتے ایک صاع میں غسل فرمالیتے (ایک صاع میں ایک اندازے سے چار لیٹر پانی آتا تھا)۔ اسراف سے بچنا حکم خداوندی ہے اور اتباعِ سنتِ رسول ﷺ کا ثواب بھی ہے۔ جب دنیا کے سب سے مطہر،سب سے مقدس اور سب سے مقرب انسان احتیاط سے پانی استعمال کرتے تھے تو ہمیں بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جو زمین آسمان کے سب خزانوں کا مالک ہے مقدار اور ضرورت کے مطابق اپنی نعمتیں نازل فرماتا ہے اس میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے۔ بے تحاشا، بے اندازہ خرچ کرتے چلے جانا مناسب نہیں۔

مجھے یاد آیا پانی کی قدر کرنے کے لئے اباجان بھی ایک واقعہ سناتے تھے:
ایک روز ہارون الرشید کو پیاس لگی پانی آیا تو پینے ہی لگے تھے کہ قریب بیٹھے ہوئے ابنِ سماک نے کہا ٹھہر جائیے اگر پیاس کی شدت میں آپ کو پانی نہ ملے تو ایک پیالے کے لئے کتنا خرچ کر کے حاصل کر سکتے ہیں؟ ہارون الرشید نے کہا ضرورت پڑی تو آدھی سلطنت دے دوں گا۔ ابن سماک نے کہا پانی پی لیجئے۔ جب انہوں نے پانی پی لیا تو ابن سماک نے کہا اگر یہ پانی پیٹ کے اندر رہ جائے تو کتنا خرچ کر سکتے ہیں۔ جواب دیا ایسی ضرورت پڑی تو آدھی سلطنت دے دوں گا۔ ابن سماک نے کہا تو آپ کی سلطنت کی قیمت ایک پیالہ پانی اور ایک پیشاب کے برابر ہے اس پر غرور نہ ہونا چاہئے ؟ ہارون الرشید کے دل کو یہ بات لگی دیر تک روتے رہے۔

یہ واقعہ دل پر بہت اثر کرتا ہے اور پانی کے ہر گھونٹ پر شکر کی طرف مائل کرتا ہے۔

شادی کے بعد کراچی آگئی توایک دفعہ پھر پانی کی دقّت دیکھی۔ دراصل ہم ایک چار منزلہ بلڈنگ کی چھت پر رہتے تھے کراچی میں اس طرح عارضی بنائے گئے ٹھکانوں پر پانی کی کمی رہتی۔ چھت پر بلڈنگ والوں کے لئے پانی کا بڑا سا ٹینک تھا مگر اس سے پانی بلڈنگ والوں کو ملتا چھت والوں کو نہیں۔ ہم چھت پر کچے پکے کمرے بنا کر رہتے تھے جہاں پانی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ تھا ٹینک میں لگا ایک نل جو زمین سے بمشکل ایک فٹ اونچا ہوگا۔ ہم اس کے نیچے ڈبے اور دیگچیاں لگا کر پانی مٹکوں اور حمام میں بھرتے۔ اتنی محنت سے بھرا ہؤا پانی احتیاط سے استعمال کرتے۔ اور اللہ کا شکر کرتے کہ یہ بھی میسر تھا۔

یہ دور بھی گزر گیا۔ ناصر صاحب کی سرکاری ملازمت میں لاہور،اسلام آباداورکراچی میں بڑے بڑے سرکاری کوارٹروں میں رہنا ہؤا۔ ہر جگہ پانی کا اچھا انتظام تھا۔کمی نہیں تھی لیکن جو عادت ہوگئی تھی کہ ضائع نہیں کرنا وہ ساتھ تھی۔ ایک دفعہ ایک غلطی سے بڑا مسئلہ ہؤا جس سے ایک نصیحت بھی ہوئی ہؤا یوں کہ ایک سرکاری کوارٹر پانی مقرر وقت پردو گھنٹے کے لئے آتا تو ہم بھر لیتے۔ نلکا کھلا رکھتے کہ جب پانی آئے فوراً پتہ لگ جائے جلدی سے بھر لیں ایسا نہ ہو غفلت ہوجائے تو پانی نہ ملے۔ ایک عید کے دن نمازِ عید کے لئے مسجد گئے۔ خوشی خوشی سب سے عید ملتے ملاتے واپس آئے تو گھر سے باہر پانی بہہ رہا تھا کمروں میں سیلاب آیا ہؤا تھا۔ قالینیں گیلی، کئی چیزیں خراب ہوئیں۔ ہم جو پانی کے لئے نلکا کھلا رکھتے تھے وہ کھلا رہا اور پانی بہتا رہا۔ عید کا باقی سارا دن صفائیاں کرتے گزرا۔ پانی کے استعمال کے ضمن میں یاد آیا ایک دفعہ لندن سے ہماری ایک بھتیجی آئی ہوئی تھی وہ ہمیں کھلا پانی استعمال کرتے دیکھ کر حیران رہ گئی بتایا کہ ہم تو ایک پاؤنڈ کا سکہ ڈالتے ہیں تو پانی آتا ہے جب ختم ہو جائے تو پھر پاونڈ ڈالتے ہیں۔ اس کی باتیں سن کر ہمیں اپنی قسمت پر رشک آیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر کیا۔

کراچی میں جب اپنا گھر بنایا تو زیر زمین ٹینک گہرا اور بڑا بنوایا تاکہ دو تین دن پانی نہ بھی آئے تو گزارا ہو جائے۔ پانی کی موٹر سے پانی چھت پر بنے ٹینک میں بھرنا ہوتا لیکن یہ موٹر بجلی سے چلتی ہے اور کراچی کراچی ہے کبھی بجلی نہیں تو کبھی پانی نہیں۔ ایسا بھی ہوتا کہ کبھی بجلی دو تین دن کے لئے چلی جاتی تو پانی بھی غائب ایک دفعہ تو ہم نے پرنالے سے گرنے والا پانی بھی جمع کرکے استعمال کیا۔ ایسے وقتوں میں بچوں کو صبر،ایثار اور نعمتوں کو سنبھال کر خرچ کرنے کے لئے بہت سی مثالیں دیتی خاص طور پر اصحابِ نبی کریم ﷺ کا پُردرد واقعہ جب ایک غزوہ میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل، حضرت حارثؓ بن ہشام اور حضرت سہیلؓ بن عمر زخمی ہوئے۔ تینوں جان کنی کی حالت میں تھے اور شدید پیاس محسوس کر رہے تھے۔ ایسی حالت میں پانی کے چند قطرات ان کے لیے آبِ حیات کا حکم رکھتے تھے مگر ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خود پر ترجیح دی تینوں نے شہادت پائی مگر پانی کے ایک گھونٹ کی قربانی انہیں امر کرگئی لاکھوں لاکھ درود ہوں اس مقدس وجود پر جس نے عرب کے وحشیوں میں، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایسا انقلاب عظیم پیدا کردیا کہ وہ اپنے بھائی کی ضرورت کو دیکھ کر اپنی حالت کو بالکل ہی بھول جاتے تھے۔ ہم بھی ایسی نیکی کرسکتے ہیں پانی کفایت سے استعمال کریں تاکہ کسی اور کو پانی مل سکے۔

حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ جماعت کے لئے مالی قربانی کرنے والے چوٹی کے افراد میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعماء کی قدر کرنے کے بہت سے واقعات بیان ہوئے ہیں مکرم مولانا عطاءالمجیب راشدصاحب، امام مسجدفضل لندن کے مضمون سے کچھ حصہ پیش ہے:
’’اب میں حضرت چودھری صاحبؓ کی زندگی کا ایک اور نادر پہلو بیان کرنے لگا ہوں جس کو خود میں نے بارہا دیکھا اور آپ کے اکثر دوست احباب بھی اس کے چشم دید گواہ ہوں گے۔اس کا تعلق کفایت اور بچت کی خوبی سے ہے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب نہانے کے صابن کی ٹکیہ چھوٹی رہ جاتی ہے جس کو پنجابی زبان میں چپّر کہتے ہیں تو قریبا ًسب لوگ ہی اس کو بیکار سمجھتے ہوئے پھینک دیتے ہیں لیکن چودھری صاحبؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ اس چپّر کو اور صابن کی نئی ٹکیہ کو پانی لگا کر دونوں ہاتھوں سے دبا کر جوڑ لیتے اور پھر اس صابن کو استعمال کرتے۔ اگر کوئی اس بات پر کچھ تعجب یا حیرت کا اظہار کر تا تو آپ یہ سیدھی سادھی دلیل دیتے کہ جس چپّر سے کل تک تم نہاتے ہو ئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے تو آج کیوں اسے استعمال کرتے ہوئے تمہیں شرم آتی ہے۔میں نے خود کئی بار آپ کو (بعض صورتوں میں) دو رنگ کے صابنوں کو بھی جوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت چودھری صاحبؓ کو دنیا جہاں کی بے شمار نعمتوں اور اعزازات سے نوازا تھا۔آپ دنیا کے عظیم محلات اور ایوانوں میں گئے عظیم شخصیات سے ملنے کے مواقع آپ کو ملے لیکن آپ طبعا ًبہت ہی منکسرالمزاج تھے اور آپ کی زندگی پر سادگی اور درویشی کا رنگ غالب تھا۔اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ اپنی ذات پر خرچ میں بہت بچت کرتے لیکن راہ ِخدا میں خرچ کرتے ہوئے اور غرباء اور طلباء کی امداد کے وقت خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ اپنی ذات پر بچت کے حوالہ سے آپ کا ایک معمول یہ تھاکہ جب بھی آپ اپنے کاموں کے لئے سنٹرل لندن جاتے تو ڈسٹرکٹ لائن (District Line) کے ایسٹ پٹنی (East Putney) سٹیشن سے آتے جاتے تھے۔اسکی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ پیدل راستہ کےلحاظ سےوہ دوسرے سٹیشن ساؤتھ فیلڈز (Southfields) سے قدرے دور تھا۔لیکن وہاں سے جانے کی صورت میں کرایہ غالباً ایک پینس کم لگتا تھا۔عام لوگ بالعموم ساؤتھ فیلڈز سٹیشن سے سفر کرتے اور کرایہ کے اس معمولی فرق کا خیال نہ کرتے اور اپنے آرام کو مقدم رکھتے تھے۔ حضرت چودھری صاحبؓ ہر سفر میں ایک پینس کی بچت کرتے اور دوسروں کو بھی بتاتے اور اس کی تحریک فرماتے تھے۔ حضرت چودھری صاحب ؓ نے بتایا اور کئی بار یہ بات ان کی تقاریر میں سننا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض لوگ مجھ سے بحث کرنے لگ جاتے ہیں کہ چودھری صاحب ایسا کرنے سے آپ کو کیا بچت ہوتی ہےمیں کہتا ہوں: ایک پینس۔ وہ پھر کہتے ہیں آخر آپ کو فا ئدہ کیا ہوتا ہے؟میں ان سے پھر کہتا ہوں: ایک پینس۔حضرت چودھری صاحبؓ یہ تذکرہ بہت تفصیل سے فرماتے اور اپنے مخصوص انداز میں احباب کو بتاتے کہ دیکھنےمیں تو یہ ایک پینس کی بچت ہے لیکن اسی طرح بچت کرتے رہنے سے سینکڑوں ہزاروں پاؤنڈ کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ایسے مواقع پر آپ ’’قطرہ قطرہ می شود دریا‘‘ کا فارسی محاورہ بھی استعمال فرماتے۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 8 فروری تا 14 فروری 2019ء)

ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے سنا تھا کہ وہ بھی پانی بہت خیال سے استعمال کرتے ہیں۔ انگلینڈ میں عام طور پر گرم ٹھنڈے پانی کے نلکوں کو ایک تناسب سےکھول کر غسل کرنا ہوتا ہے اور ایک دفعہ پانی مناسب گرم کرکے پھر بند نہیں کیا جاتا۔ جب تک فارغ نہ ہوجائیں۔ لیکن آپ نے بتایا کہ وہ بار بار پانی بند کرکے پھر پانی ملانے کا عمل کرتے ہیں تاکہ پانی ضائع نہ ہو اس طرح لندن کا بہت سا پانی ضائع ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی ذرا سی زحمت کرکے ان متقین کے نقش قدم پر چلیں۔ پانی یا کسی بھی نعمت کا بے احتیاطی سے استعمال نا شکری کے زمرے میں آتا ہے۔

لمبا عرصہ کراچی رہنے کے بعد قسمت امریکہ لے آئی۔یہاں قدرت کے نئے رنگ دیکھے ہر نعمت کی فراوانی ہے اور اس قدر کہ بچوں کو یہ سمجھانا پڑتا ہےکہ اگرچہ آسانیاں میسر ہیں شکرگزار رہنا ضروری ہے۔

شکرگزاری سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم: 8)

حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نعمت شکر کے ساتھ وابستہ ہے اور شکر کے نتیجہ میں مزید عطا ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اور خدا کی طرف سے مزید عطا کرنے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بندہ شکر کرنا نہ چھوڑ دے۔

(کنزالعمال جلد نمبر2 صفحہ151)

ان علاقوں کا سوچیں جہاں پانی کی قلت ہے لوگ پینے کے پانی کو ترستے ہیں۔ ہیومینٹی فرسٹ والے بے آب علاقوں میں نلکوں سے نکلنے والے پانی کو دیکھ کر وہاں کے باشندوں کی خوشی کا عالم دکھاتے ہیں۔ ان کے چہروں پر اچھلتی خوشی دیکھ کر ہمیں بھی خوشی ہوتی ہے۔ پیاسوں کو پانی پلانا صرف ہیومینٹی فرسٹ والوں کا کام نہیں ہم بھی تعاون کرسکتے ہیں دنیا کی کتنی بڑی آبادی کے لئے پینے کا صاف پانی میسر نہیں کتنے لوگ ہیں جو ان جوہڑوں سے پانی پی رہے ہیں جن سے ان کے جانور بھی پانی پیتے ہیں۔ان کی سہولت کے لئے ہم صرف فالتو پانی بہانا ہی بند کردیں تو کتنے لوگ پانی حاصل کر سکیں گے۔ دوسروں کو پانی پلانا بہت بڑی نیکی ہے۔

ساری نصیحتوں، مشاہدے اور تجربے سے پانی کے اسراف سے بچنے کے لئے ہم پانی اتنی دیر کھلا رکھیں جب اس سے جسم کا کوئی عضو، کپڑا یا برتن دھو رہے ہوں اس لئے نہ بہنے دیں کہ ابھی تھوڑی دیر میں استعمال کرنا ہے۔ گھر اور گاڑی دھونے میں نل سے پائپ لگائیں تو اتنی ہی دیر کھولیں جب استعمال ہورہا ہو۔یا ضرورت کا پانی بالٹی میں لے لیں اسی طرح پودوں کو پانی ڈالنے میں بھی پائپ کھلا نہ چھوڑیں بندہ بھول جاتا ہے اور پانی بہتا رہتا ہے۔ غسل وغیرہ کرنے میں کوئی اندازہ رکھیں بے حساب پانی نہ بہائیں۔ اگر کسی دن صرف اندازے کے لئے پیسٹ کرتے وقت نل کے آگے کوئی برتن رکھیں تو علم ہوگا کہ کتنا پانی فالتو بہا دیا۔ ہاتھ کی ایک ہلکی سی حرکت سے پانی بند اور کھول سکتے ہیں اور کئی لیٹر پانی بچا سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دوسروں کو پانی کے حصول میں مد د دے کر ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔

حضرت موسیٰ ؑ نے مدین کے چشمے پر دو خواتین کو پانی لینے میں مدد دی اور ان کے جانوروں کو پانی پلایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی:

رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ

(القصص: 25)

اے میرے ربّ! یقیناً میں ہر اچھی چیز کے لئے، جو تُو میری طرف نازل کرے، ایک فقیر ہوں۔

اور اس فقیر کو اللہ تعالیٰ نے کیا کیا عطا کردیا۔ بے گھر مسافر تھے۔ گھر دیا بیوی دی کام دیا نبوت دی۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش کہاں تک گن سکتے ہیں۔

پانی نہ صرف انسانی حیات کے لئے ضروری ہے بلکہ کرۂ ارض پر ہر ذی روح کی حیات کا تصور پانی کے بغیر مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قیمتی تحفے کا تحفظ بہت ضروری ہے ورنہ دینا میں قلت آب کا خطرہ ہے موسموں کا مزاج بدل رہا ہے زمین کی حدت میں اضافہ ہورہا ہے زیر زمین پانی کے ذخیرے کم ہورہے ہیں۔ ان حالات میں پانی بہانے کی بجائے پانی بچانا اپنے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی زندگی کی ضمانت ہے۔

یہ پانی جتنا زیادہ بہا سکیں بہائیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’عاجزی اپنا شعار بنا لو اور رونے کی عادت ڈالو کیونکہ رونا اسے بہت پسندہے۔ اگر 40 دن تک رونا نہ آئے تو سمجھو کہ دل سخت ہو گیا ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ132)

آنکھ کا پانی جتنا زیادہ بہا سکیں بہائیں اس کا بہانا اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ پسند کرتا ہے کہ ہم آنکھ کے پانی کے ساتھ اس سے دعائیں مانگیں اپنے لئے خیر اور مغفرت اور شر سے حفاظت مانگیں۔

پیشہ ہے رونا ہمارا پیشِ ربِّ ذُوالمِنَن
یہ شجر آخر کبھی اِس نہر سے لائیں گے بار
کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا
لرزہ آیا اِس زمیں پر اُس کے چِلّانے کے دن
آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج
آسماں اَے غافلو اب آگ برسانے کو ہے

(درثمین)

اول تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو
پھر اس لہو سے رات کو اٹھ کر وضو کرو

(چودھری محمد علی)

سلیقہ نہیں تجھ کو رونے کا ورنہ
بہت کام کا ہے یہ آنکھوں کا پانی

’’محبت کا ایک آنسو‘‘ کے عنوان سے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ کی ایک نظم ہے لکھتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن سات قسم کے آدمی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس کے متعلق آنحضوؐر فرماتے ہیں کہ:

رَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہِ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ

(وہ آدمی جو علیحدگی میں اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اس کے خوف سے اس کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں۔ ترجمہ از ناقل) یہ پرکیف نظم اسی تنہائی کے آنسو کی تعریف میں لکھی گئی ہے۔

ہزار علم و عمل سے ہے بالیقیں بہتر
وہ ایک اشکِ مَحبت جو آنکھ سے ٹپکا
خراجِ حُسن میں ہر جِنس سے گِراں مایہ
نُذُورِ عشق میں کیا خوب گوہرِ یکتا
خلاصۂ ہمہ عالَم ہے قَلب مومِن کا
خلاصۂ دِل مومِن یہ اشک کا قطرہ

(الفضل 23اکتوبر 1924ء)

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبۂ عید الفطر مؤرخہ 2؍ مئی 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ