• 18 مئی, 2024

سیّد عبد الماجد رضوی مرحوم

میرا شہید بھائی
سیّد عبد الماجد رضوی مرحوم

میرے پیارے اکلوتے بھائی سیّد عبد الماجد رضوی صاحب مرحوم 29 مئی 2001 ء میں کسی دشمن احمدیت کی گولی کا نشانہ بن کر موقع پر ہی شہید ہو گئے اور اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

آپ کی وفات کے بعد ایک موصی کی حیثیت سے آپ کی نعش کو تد فین کے لئے اننت ناگ کشمیر سے بہشتی مقبرہ قادیان لے جایا جانا تھا۔ لیکن کئی ناساز حالات کی وجہ سے ایسا نہ ہو پایا۔ محترم امیر جماعت صاحب کشمیر اور محترم صدر صاحب کشمیر نے اس صورت حال کی اطلاع حضرت صاحبزادہ محترم مرزا وسیم احمد صاحب کو بذریعہ فون دی اور اُن سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے مقامی طور پر ہی تدفین کی اجازت دے دی۔ چنانچہ اننت ناگ کشمیر انڈیا میں ہی پیارے بھائی کے اپنے ہی ایک زمین کے پلاٹ میں آپ کی تد فین عمل میں آئی۔ اور بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کے لئے موصی کی تختی کا انتظام کیا گیا۔

آپ کی شادی 1975ء میں سیّد احد اللہ شاہ صاحب مرحوم کی دختر نیک اختر سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ سیّد احد اللہ شاہ صاحب مرحوم ضلع شوپیان کشمیر کے ایک معزز اور مخلص احمدی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

ہمارا لاڈلا اور پیارا بھائی ہم پانچ بہنوں، سیّدہ صالحہ بیگم صاحبہ، خاکسار سیّدہ ثریا صادق، سیّدہ مستحیہ ماگرے صاحبہ، سیّدہ نرگس یوسف صاحبہ مرحوم اور سیّدہ ناظرہ انجم صاحبہ کے اکلوتے بھائی تھے۔

سیّد عبد الماجد رضوی صاحب مرحوم ہندوستان کی ریاست کشمیر ضلع اننت ناگ میں 1949ء کو پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام سیّد یوسف شاہ کشمیری (مرحوم) تھا اور والدہ صاحبہ کا نام سیّدہ آ منہ بیگم (مرحومہ) تھا۔ آپ حضرت سیّد سیف اللہ شاہؓ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کے پوتے اور حضرت سیّد محمود عالم ؓ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود ؑ (جو بہار سے پیدل چل کر قادیان پہنچے تھے) کے نواسے تھے آپ کے دادا سیّد سیف اللہ شاہ ؓ صاحب اپنے وقت کے تعلیم یافتہ عالم فاضل سمجھے جاتے تھے اور پھر یہی تعلیم آ پ کے بیٹے سیّد یوسف شاہ صاحب نے بھی اپنے ورثہ میں پائی۔

ماجد جی بچپن سے ہی صوم صلوٰة کے پابند اور دعا گو تھے۔ بے شمار قرآنی دعائیں، مسنون دُعائیں، حضرت مسیح موعود ؑ کی بہت سی دعائیں اور قصیدہ از بر تھے۔ موقع محل کے مطابق قرآنی آیات اور دعاؤں کا استعمال کرتے۔ دُ عاؤں کے ذریعے ہی با قاعدہ اپنے ربّ سے تعلق قائم تھا۔ اسلام احمدیت کی ترقی، خلیفہ ٔوقت، خاندان مسیح موعودؑ کے علاوہ واقفین سلسلہ احمدیہ، مربیان، اسیران ِ راہ مولیٰ، اپنی نسل اور اپنے خاندان کے لئے دُ عائیں کرنا ان کا معمول تھا۔ قرآن ِ کریم سے عشق تھا۔ بہت سی سورتیں حفظ تھیں۔ بہت مسحور کُن تلاوت کرتے، سورة التین کی آخری آیت اَلَیسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ از بر زبان ہوتی۔

ماجد بھائی ان گنت خوبیوں کے مالک تھے۔ بچپن سے ہی نہایت محنتی، غریب پرور، مخلص، مہمان نواز، سمجھدار، دور اندیش اور اپنے خدا پر توکل رکھنے والے وجود تھے۔ انسانیت سے بہت پیار تھا۔ غریب اور امیر میں فرق نہ کرتے۔ گھر میں سب سے حسنِ سلوک، غرباء سے ہمدردی اور،خدمت خلق کا حد درجہ خیال رہتا۔ کسی فقیر کی آواز کانوں میں پڑتے ہی بے چین ہو جاتے۔ جلدی سے کسی کو دوڑاتے کہ خالی ہاتھ نہ جانے پائے۔ گھر میں ہمیشہ مہمانوں کا تانتا لگا رہتا۔ لوگ علاج معالجے کی مدد کے لئے آتے، عید کی شاپنگ، بچوں اور بچیوں کے رشتے، نوکری کی تلاش کے لئے مشورہ کے لئے آتے۔ ہر کسی کے خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔ کوشش ہوتی کہ سب کو اچھا اور نیک مشورہ دیں۔ پھر اُن کے لئے دُعائیں بھی کرتے۔ خوش دلی سے مہمانوں کی تواضع کرتے۔ کوشش ہوتی کہ اُن کے لئے بہترین کھانا تیار کروائیں۔ تحفے بھی شوق سے دیتے۔ کسی ضرورتمند کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے۔ سب رشتہ داروں کے ساتھ بہت پیار کا سلوک روا رکھا۔ سب کے حقوق کا بہت خیال رکھتے۔ تمام رشتہ داروں سے صدق دل سے محبت کرتے اور ہر ایک کی مدد کے لئے ہمہ تن تیار رہتے۔ کسی قسم کے اختلافات کو بیچ میں نہ آنے دیتے۔ اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتے۔ لباس بھی سادہ ہوتا۔ نماز کو سنوار کر ادا کرتے۔

جماعت کی خدمت کا بہت شوق تھا۔ اکثر کہتے کہ اصل زندگی کا مقصد جماعت کی خدمت ہے۔ شدید مخالفت کے باوجود دعوت الٰی اللہ کے فرض کو بھی خوب ادا کرتے۔ کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ جماعت کی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، چندہ ادا کرنے میں بہت باقاعدہ تھے۔ خدا کے فضل سے موصی تھے۔ حصّہ آ مد اور حصّہ جائیداد ادا کرنے کی بہت فکر رہتی۔ تنخواہ ملتے ہی شرح کے مطابق چندہ ادا کر دیتے تاکہ بقایا نہ رہے۔ جائیداد کا چندہ بھی اپنی زندگی میں ادا کرتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی وصیت کے ترکہ کا بہت کم ادا کرنا پڑا۔

سلسلہ احمدیہ سے گہری محبت رکھتے تھے۔ اُن کا خلافت اور جماعت سے محبت، اخلاص اور وفا کا تعلق تھا۔ چونکہ آپ نے خود غربت کے دن دیکھے تھے۔ اس لئے غریب رشتہ داروں ہمسائیوں، دوستوں اور ملنے جلنے والوں کا بھی بہت خیال رکھتے۔ بہت رحمدل، ہنس مکھ اور ہر دلعزیز وجود تھے۔ کم عمری سے ہی چھوٹے بڑے اور بزرگ سب لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ آپ واقعی اپنے نام کی طرح ’’ماجد‘‘ تھے۔

جانورں اور پرندوں سے بھی پیار تھا۔ آپ دل کے بہت صاف تھے۔ کسی کے خلاف کینہ یا غصہ دل میں نہ رکھتے۔ اور اگر رنجش ہوتی تو بلا تکلف اظہار کر کے گلہ شکوہ دور کرنے کی کوشش کرتے۔ بعض اوقات کسی دوسرے سے خواہ وہ آپ سے عمر میں چھوٹا ہی ہو معافی تک مانگنے میں عار محسوس نہ کرتے۔ تعلق بنانے والے اور ان کو قائم رکھنے والے تھے۔ صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ مہمانوں کا بہت احترام کرتے۔ اُن کی خدمت میں کسی بھی قسم کی کمی برداشت نہ کرتے۔

ضلع اننت ناگ کشمیر میں آپ کا مکان ہی جماعت کا مرکز تھا اور نمازیں بھی یہیں ادا ہوتیں۔ MTA کی ڈش کا انتظام بھی اپنے گھر پر ہی کیا ہوا تھا۔ احمدیت کی مخالفت کے زیر نظر کئی دوستوں اور رشتہ داروں نے اننت ناگ سے ہجرت کا مشورہ دیا لیکن آپ یہی جواب دیا کرتے کہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اس قصبہ میں احمدیت کا بیج بونے کی توفیق ہمارے خاندان کو عطا کی ہے اس میں ہمیشہ ضرور میٹھے پھل لگیں گے میں اس بیج کو یہاں سے اُکھیڑنا نہیں چاہتا۔ پھر اکثر شہزادہ عبد الطیف صاحبؓ شہید کی قربانی کا ذکر فر ماتے اور رشک کیا کرتے۔

1979ء میں ذوالفقار بھٹو کے پھانسی کے واقعہ کے بعد وادئی کشمیر کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ جماعت احمدیہ کے لوگ مسلسل تشّدد کا نشانہ بنائے گئے، اموال لوٹے گئے۔ یہاں تک کہ کئی معصوموں کو شہید کر دیا گیا۔ ایسے ہی ایک جلوس ماجد بھائی کے گھر کے سامنے آ پہنچا جب کہ وہ اپنے گھر میں موجود تھے۔ اس سے پہلے کہ یہ شدت پسند جلوس آپ کے گھر پر حملہ کرے اور اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہو دو غیر احمدی حضرات گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر ڈٹ گئے گویا کہ خدا تعالیٰ کی جناب سے براہِ راست آئے ہوں۔ پہلے تو انہوں نے جلوس کے لوگوں کو کچھ نرمی سے سمجھا یا بعد ازاں کچھ تلخ کلمات کا استعمال بھی کیا اِن دو حضرات میں سے ایک کمزور اور بیمار سا شخص تھا۔اس پر زور آزما کر یہ جلوس آگے بڑھ گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ٰنے محض اپنے فضل سے دشمنوں کے اندرون میں سے بچا ؤ کا سامان پیدا کر دیا۔ الحمد للہ۔ ماجد بھائی اس تمام نظارہ کے عینی شاہد تھے اور ان دونوں اشخاص کی بہادری اور خدا خوفی کا ذکر محبت اور عزت سے کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت پُر سوز آواز عطا کی تھی۔ جب اپنی مسحور کُن آواز میں کوئی نظم سناتے تو حاضرین بہت لطف اندوز ہوتے۔ دُرثمین، کلام محمود اور دُر عدن کی بے شمار نظمیں ازبر تھیں۔ اس کے علاوہ غالب اور میر تقی میر کی غزلیں بھی مسحور کن آواز میں سناتے۔ شاعری سے خود بھی شغل رکھتے تھے۔

ابھی آپ کی عمر دس گیارہ سال کی تھی۔ آپ نے اباجی سے فر مائش کر کے عیدا لاضحی کے موقع پر اپنی مرضی کے کپڑے سلوائے، جس میں ایک گرم فیرن (کشمیری چوغہ) بھی شامل تھا۔ سردیوں کا موسم تھا ہمسایوں نے عیدالاضحی کی قربانی کا گوشت مختلف گھروں میں تقسیم کرنے کے لئے اباجان کی اجازت سے ماجد بھائی کی ڈیوٹی بھی لگائی۔ شام کے وقت جب آپ اپنے ذمہ کی ڈیوٹی ختم کر کے گھر آئے تو فیرن (کشمیری چوغہ) غائب تھا۔ اباجان اور اماں کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ایک غریب لڑکا چوک سے ہٹ کر سردی سے کانپ رہا تھا اور رو رہا تھا، میں نے یہ سوچ کر کہ میرے پاس تو گھر میں ایک اور فیرن ہے، مَیں نے اپنا فیرن اس غریب لڑکے کو دے دیا۔

کالج کی تعلیم کے بعد آپ نے بینکنگ کا امتحان پاس کیا تو آپ کو جموں اینڈ کشمیر بینک میں ملازمت مل گئی۔ اور رفتہ رفتہ آپ ترقی کر کے بحثیت بینک مینیجر کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ شہادت کے وقت آپ سکیل 3 آفیسر کے عہدہ پر فائز تھے۔ اور بحیثیت برانچ مینیجر اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔ ایک بار کشمیر میں ہی جب کہ ماجد بھائی برانچ میں خود بھی موجود تھے چند مسلح افراد نے بینک کو لوٹنے کی کوشش کی لیکن ماجد بھائی اور اُن کے دوسرے عملہ کے سمجھانے پر وہ لوگ واپس چلے گئے۔ بینک کے انتظامیہ نے اِن خطرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اکثر عملے کو ریاست سے باہر منتقل کر دیا، آپ کو چند سال کلکتہ میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ اور چند سال بعد آپ کو واپس کشمیر بلا لیا گیا۔

اسی دوران ہمارے پیارے اباجان کی وفات 1974ء میں ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اب آپ کے کندھوں پر ایک بیوہ بہن اور دو غیر شادی شدہ بہنوں کی ذمہ داری بھی آن پڑی جسے آپ نے بخوبی نبھایا۔

جب میں لندن سے کشمیر جاتی تو بہت سیر کرواتے اور شاپنگ کے لئے خود لے جاتے کہ کہیں کوئی دکاندار دھوکے سے مجھ سے زیادہ رقم نہ وصول کر لے۔جب آپ کا تبادلہ جموں اینڈ کشمیر بینک دہلی میں ہوا تو وہاں بھی آپ نے مجھے خوب سیر کروائی۔ ایک دفعہ مجھے وہاں کی ایک مشہور مارکیٹ دکھانے کے لئے لے گئے جہاں صرف ریڑھیاں ہی ریڑھیاں تھیں۔ آپ ایک جوتے والے کی ریڑھی پر ٹھہر ے اور ایک مردانہ جوتے کی قیمت دریافت کی ریڑھی والے نے ایک سو گیارہ روپے بتائی۔ ماجد بھائی نے کہا
’’ارے یہ جوتا تو میں گیارہ روپے میں خرید سکتا ہوں‘‘ میں شرم سے پانی پانی ہو گئی اور ماجد بھائی سے بالکل الگ ہو کر کھڑی ہو گئی تا کہ یہ ظاہر ہو کہ ہم دونوں الگ الگ گاہک ہیں۔ کیونکہ مجھے ماجد بھائی کی اس حرکت پر کہ ایک سو گیارہ روپے کا جوتا صرف گیارہ روپے میں خریدنا چاہتا ہے، کی وجہ سے سُبکی محسوس ہو رہی تھی۔ بہر حال ریڑھی والا کہنے لگا چلیں صاحب مذاق چھوڑیں آپ یہ جوتا ایک سو روپے میں لے جائیں۔ ماجد بھائی واپس جانے کے لئے ایک قدم بڑھاتے تو ریڑھی والا انہیں بلا کر پانچ یا دس روپے اور کم کر دیتا۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا جاتا کہ ’’صاحب آپ خرید نے کی بات نہیں کر رہے‘‘ اور ماجد بھائی کہتے ’’تم بھی تو بیچنے کی بات نہیں کر رہے‘‘ یہاں تک کہ جوتے کی قیمت گھٹتے گھٹتے 45 روپے رہ گئی۔ اس کے بعد ریڑھی والے نے پہاڑہ شروع کر دیا کہ ’’صاحب چلیں آپ یہ جوتا اب لے جائیں۔ چلیں 40 روپے دیدیں، 30 دیدیں۔ 25دیدیں، 20دیدیں، 18دیدیں، 16دیدیں، 15دیدیں، 14 دیدیں، 13دیدیں، 12 دیدیں، اور پھر جوتے کو اخبارکے کاغذ میں لپیٹتے اور اس پر رسی باندھتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’صاحب آپ بھی کیا یاد کریں گے۔ لو صاحب جی آپ گیارہ روپے ہی دے دیں‘‘ ماجد بھائی نے جھٹ سے گیارہ روپے ادا کئے اور جوتا لے کر چل پڑے۔ ابھی وہ چند قدم ہی بڑھے تھے کہ ریڑھی والے نے آ ہستہ آواز میں کہا ’’بڑا آیا گیارہ روپے میں جوتا خرید کر خوش ہونے والا، دیکھ لینا یہ جوتا اگر گیارہ قدم بھی چل پائے تو‘‘۔ یہ جملہ ماجد بھائی نے تو نہ سنا لیکن میں نے سُن لیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ جوتا جونہی گھر آ کر پہنا تو اُ س کے تمام تر ٹا نکے اور تلوہ الگ ہو گیا اس طرح وہ جوتا گیارہ قدم تو کیا ایک قدم بھی نہ چل پایا۔ ماجد بھائی نے بہت استغفار کیا اور کہا کہ آج شاید میں دُعا کر کے گھر سے نہ نکلا تھا۔ دیکھو میرے گیارہ روپے ضائع ہو گئے۔

مَیں نے کشمیر سے لندن واپسی پر اس واقعہ کا ذکر حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ سے کیا تو حضورؒ بہت محظوظ ہوئے، بہت ہنسے، جب ماجد بھائی 1986ء میں لندن آئے اور حضور ؒ سے ملاقات کے لئے گئے تو حضورؒ نے خود ہی ذکر چھیڑا اور فر مایا کہ آپ اپنی زبان سے ایکبار یہ دلچسپ واقعہ ضرور سنائیں۔ ماجد بھائی کی تو بولتی بند ہو گئی، شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے، پھر حضورؒ نے خود ہی یہ وا قعہ سنایا۔ میں حیران تھی کہ حضورؒ کو یہ واقعہ کیسے لفظ بہ لفظ یاد رہا۔ حضور ؒ نے ماجد بھائی سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیسے بھانپ لیا کہ جوتا خراب ہے۔ ماجد بھائی نے جواب دیا کہ حضور کہاں کا بھانپنا تبھی تو گیارہ روپے ضائع کر بیٹھا۔

1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ جلسہ سالانہ قادیان کے لئے دہلی تشریف لائے تو دہلی مشن ہاؤس میں حاضر احباب کو شرف ملاقات بخشا۔ ملاقات کے دوران حضورؒ نے پیارے بھائی سے پوچھا کہ کیا وہ جوتا گیارہ قدم بھی چلا تھا۔ تو ماجد بھائی نے جواب دیا کہ نہیں حضور وہ تو گیارہ قدم کیا ایک قدم بھی نہیں چلا۔ جوتا پہنتے ہی اُس کے تمام تر ٹانکے ٹوٹ گئے اور تلوا الگ ہو گیا۔ حضور پھر ہنسے اور فرمایا کہ اس طرح آپ کے گیارہ روپے بھی ضائع ہو گئے۔

میرے پیارے بھائی کی شہادت پر کئی بہنیں یہاں میرے گھر لندن تعزیت کے لئے تشریف لائیں۔ ان میں سے اکثر نے مجھے بتایا کہ وہ ماجد بھائی کشمیری کو قادیان سے جانتی ہیں اور وہ اس طرح کہ جب بھی انہیں اللہ تعالیٰ ٰ نے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی تو فیق فر مائی تو خادم میزبانوں میں سے ماجد بھائی انگلستان کے مہمان خانہ میں تشریف لاتے اور تعارف یہ کہہ کر کرواتے کہ ’’خاکسار کا نام ماجد ہے، میں کشمیر کا رہنے والا ہوں، آپ سب کی خدمت کے لئے حاضر ہوں، میری بڑی بہن ثریا صادق صاحبہ لندن میں رہتی ہیں، آپ سب بھی احمدیت کے ناطے میری بہنیں ہیں۔ مجھے اپنا بھائی اور خادم سمجھ کر خدمت کا موقعہ دیں‘‘ اس طرح کسی کو کھانے کی ضرورت ہوتی، کسی کو دوائی کی، کسی کو ٹرانسپورٹ کی اور کسی کو شاپنگ یا کسی بھی اور چیز کی جو آپ اُن کے لئے مہیا کروا دیتے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں سے نوازا۔ آپ کے بڑے بیٹے عزیزم ڈاکٹر سیّد بلال احمد رضوی صاحب آج کل دہلی کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ لڑکپن سے ہی جماعت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اِن دنوں دہلی میں منتظم ذہانت اور صحت جسمانی کے عہدہ پر فائز ہیں۔ دعوة الیٰ اللہ اور خدمت خلق کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے زمانہ میں جب آپ 1996 ء میں اپنی پڑھائی کے دوران جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کے لئے کزاکستان سے لندن تشریف لائے تو حضور ؒ اکثر آپ کو روس اور کزاکستان کے مہمانوں کی انگریزی زبان میں ترجمانی کے لئے خود بلا لیتے۔

آپ کے دوسرے بیٹے عزیزم سیّد محمود احمد رضوی صاحب آج کل ضلع اننت ناگ کشمیر کے جموں اینڈ کشمیر بینک میں مینیجر ہیں۔ آپ بھی بچپن سے ہی جماعت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ کو لگام ضلع اننت ناگ (کشمیر) میں قائد کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد جب آپ انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہوئے تو آپ کو ضلع اننت ناگ (کشمر) میں نائب امیر کے فرائض سو نپے گئے۔ جو آپ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اُسی کی دی ہوئی توفیق سے بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔

میرے پیارے بھائی کی شہادت اُن کی اہلیہ اور ہم سب بہنوں کے لئے ایک بہت ہی عظیم صدمہ ہے۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے مرحوم بھائی سیّد عبدا لماجد رضوی کو غریق رحمت فر مائے اور جنت میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فر مائے سب پس ماندگان کا خود ہی حافظ و ناصر ہو اور آپ کی اولاد اور نسل کو اُن کی نیکیوں کا وارث بنائے اور خلافت سے اخلاص و محبت کا تعلق ان کی نسل در نسل جاری وساری رکھے۔ آمین ثم آمین۔

(سیّدہ ثریا صادق۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبۂ عید الفطر مؤرخہ 2؍ مئی 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ