• 26 اپریل, 2024

روٹی (قسط 1)

روٹی
قسط 1

جب پیٹ میں بھوک کی آگ بھڑ کتی ہے تو ہر چیز پیچھے رہ جاتی ہے۔ World Food Programme کے مطابق دنیا میں ہر نو میں سے ایک آدمی بھوک کا شکار ہے۔ اور یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے ہر روز بڑھتا جارہا ہے۔ یہ مذہب وملت سے بالاتر مسئلہ ہے۔ یہ ایک انسانی وعالمی مسئلہ ہے۔ مذہب اسلام میں یہ وہ واحد نیکی ہے جس پر صرف بات کرنا، ترغیب دلانا یا کوئی بھی ایسا عمل یا فعل بجا لانا جس سے دوسرے کی اس جانب توجہ پیدا ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے حدخوشنودی ہے۔

قرآن شریف میں آتا ہے کہ:
’’اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ ہم تمہیں محض اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم ہر گز نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ یقیناً ہم اپنے رب کی طرف سے (آنے والے) ایک تیوری چڑھائے ہوئے، نہایت سخت دن کا خوف رکھتے ہیں۔ پس اللہ نے انہیں اس دن کے شر سے بچالیا اور تازگی اور لطف عطا کئے۔

(الدھر: 9)

کھانا کس لیے؟ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کی رضا کے لیے،اس کی خوشنودی کے لیے غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔اور اس کے بدلے میں وہ ذرہ برابر بھی شکریہ کے طلب گارنہیں ہیں۔ یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ مسلم مسکین، مسلم یتیم یا پھر مسلم اسیر کو کھانا دیتے ہیں بلکہ مضمون یہ ہے کہ کسی بھی مذہب وملت سے اس کا تعلق ہو۔ اصل میں ہم تو صرف واحدولاشریک خالق ومالک اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے خوف میں اور اس کو خوش کرنے کے لیے کھانا دے رہے ہیں۔

پھرقرآن شریف میں آتا ہے کہ:

’’یا ایک عام فاقے والے دن میں کھانا کھلانا‘‘

(البلد: 51)

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر اس کے اندر یتامیٰ و مساکین کی حقیقی محبت ہوتی۔ اور وہ ان کی تکالیف کو دور کرنے کا صحیح احساس اپنے اندر رکھتا۔ تو اس کا فرض تھا۔ کہ وہ بھوک والے دن ان کو کھانا کھلاتا۔ یعنی قحط میں ان کی خبر گیری کرتا یا فقر وفاقہ میں ان کے لیے غلہ وغیرہ مہیا کرتا۔

(تفسیر کبیر سورۃ البلد: 51)

غریب ممالک میں غربت کی وجہ سے، پھر مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کی وجہ سے ایسے حالات ہیں کہ ہر روز ضرورت مندوں کو خوراک کی طلب ہے۔

ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اسلام کا کونسا عمل بہترین ہے؟ آپﷺ نے فرمایا (یہ کہ) تو (بھوکوں کو) کھانا کھلائے اور سلامتی کی دعا کرے۔ اس کے لئے جس کو تو جانتا ہے اور اس کے لئے بھی جسے تو نہیں جانتا۔

(بخاری جلد اول حدیث نمبر12 صفحہ49)

اب اسی طرح کی حدیث مسلم جلد اول حدیث نمبر48 صفحہ نمبر43 میں بھی ملتی ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے پہلے طعام کا ذکر فرمایا پھر سلامتی کا۔ ایک معنی تو اس حدیث مبارکہ کا یہ ہے کہ بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب وملت مسکین وغریب کے لیے کھانے کا انتظام کیا جائے اور سب کو سلام کیا جائے۔ دوسرے معنی اس حدیث کے یہ بھی ہیں کہ مسکین وغریب کے لیے کھانے کا انتظام کر کے اسلام کااحسن ترین اقدام فرمارہے ہیں۔ ایک اور معنی اس کے یہ بھی ہیں کہ مسکین کو جب تک اس کی بنیادی ضرورت خوراک مہیا نہیں ہوگی مسکین کی سلامتی خطرے میں ہے۔ بس غریب ومسکین کے لئے خوراک مہیا کرکے اس کی سلامتی کے لئے بھی دعا کی جائے اور اپنی سلامتی کے لیے بھی۔ بڑا ہی گہرا مضمون ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ:
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے پیٹ کو سیر کر دے۔‘‘

(مشکوۃ کتاب زکوٰۃ)

پھر حدیث میں آتا ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلایا کرو، پیاسے کو پانی پلایا کرو۔

(کتاب زکوۃ کی ادائیگی3470۔مسند احمد)

یہ افضل تر ین صدقہ ہے

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ:
اگر تو دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر دست شفقت رکھ۔

(مسند احمد)

اسی طرح کی حدیث کتاب آداب5001 مشکوٰۃ میں بھی ہے۔

اس حدیث میں دل کی سختی دور کرنے کا علاج موجود ہے۔

پھر حدیث میں آتا ہے کہ:
رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو۔ تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

(کتاب زکوۃ1908۔مشکوۃ)

مذہب اسلام میں باربار عبادات کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اگر ساتھ ہوں تو ہمارے پیارے نبی محمد مصطفیﷺ نے جنت کی ضمانت دی ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:
بیوہ اور مسکین کی (خدمت کے لئے) جدوجہد کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔

راوی کہتے ہیں اور میرا خیال ہے آپﷺ نے فرمایا اس عبادت کرنے والے کی طرح جو تھکتا نہیں اور اس روزہ رکھنے والے کی طرح جو روزہ چھوڑتا نہیں۔

(مسلم جلد15 حدیث نمبر5281 صفحہ نمبر179-180)

اس حدیث مبارکہ میں مسکین کی خدمت کی کتنی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے۔

اسلام مطلب امن وسلامتی۔ لیکن یہ معنی صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ اسلام تو تمام جانداروں سے بھی رحم کا سلوک دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے سزا دی گی جس نے اس کو دیر تک قید کر رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی اور اس وجہ سے وہ (عورت) دوزخ میں داخل ہوئی۔ نہ تو اس نے بلی کو کچھ کھلایا اور نہ ہی پانی پلایا۔ اس نے اس کو روک رکھا۔ نہ خود کھانا دیا اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی۔

(بخاری جلد نمبر6 حدیث نمبر 3482صفحہ نمبر 495)

اسی طرح کا مضمون مسلم کی دو احادیث میں بھی ہے۔ مسلم جلد13 حدیث نمبر4735 اور 4736 صفحہ نمبر284 میں بھی ہے۔

اب غور کریں کہ ایک جاندار کو بھی بھوک کی تکلیف سے مارنے کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اگر جانداروں کو رکھنے کا شوق ہے تو ان کا پورا خیا ل رکھا جائے۔

پھر حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ایک بار ایک کتا ایک کنوئیں پر گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ پیاس اس کو مار ڈالے۔ اتنے میں بنی اسرائیل کی بدکردار عورتوں میں سے ایک عورت نے اسے دیکھ لیا۔ اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کتے کو پانی پلایا۔ اس سبب سے اس کو بخش دیا گیا۔

(بخاری جلد6 حدیث نمبر3467 صفحہ نمبر484-485)

وہی مضمون کہ اگر جانداروں کوپالنے کا شوق ہوتو ان کی بھی خوراک کا پورا خیال رکھا جائے۔

ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’یعنی خدا کی رضا کے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔‘‘

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’کامل راست باز جب غریبوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں تو محض خدا کی محبت سے دیتے ہیں نہ کسی اور غرض سے دیتے ہیں اور وہ انہیں مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ یہ خدمت خاص خدا کے لئے ہے اس کا ہم کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا شکر کرو۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ سورۃ الدھر: 9)

اعلیٰ ترین مقصد کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو جائے۔ اس خوفناک تر ین دن سے ڈرتے ہیں جب موت آجائے گی اور اس وقت کوئی چیز نہ کام آئے گی مگر وہ روٹی جو زندگی میں مسکین کودی تھی بعین ممکن ہے کہ وہ کام آجائے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’جب روٹی کھاؤ تو سائل کو بھی دو اور کتے کو بھی ڈال دیا کرو اور دوسرے پرندہ وغیرہ کو بھی اگر موقع ہو۔‘‘

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ان کے مالوں میں سوالیوں اور بے زبانوں کا بھی حق ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ الذاريات 20)

وہی بات جو پہلے بھی آئی ہے کہ اگر پرندوں اور جانوروں کو پالنے کا شوق ہو تو ان کا پورا خیال رکھا جائے۔

اب یہ جو مضمون ہے کہ غریب کو کھانا کھلایا جائے چند ایک انتہائی تکبرانہ انداز میں جواب دیتے ہے کہ ہم کیوں کھلائیں۔ مندرجہ ذیل آیت میں تین باتیں غور طلب ہیں۔ اول نمازی نہ ہونا۔ دوم غریب کو کھانا نہ کھلانا یا کھانے کا انتظام نہ کرنا اور سوم یہ بات ہے کہ فضول لغو بحثوں میں زندگی کے قیمتی ایام ضائع کرنا۔ اور یہ خاکسار کا ذاتی مشاہد ہ ہے کہ گھنٹوں کیا دنوں اور ہفتوں فضول کی بحث دوستوں کے درمیان جاری رہتی ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ:
جو جنتوں میں ہوں گے۔ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوگے۔ مجرموں کے بارہ میں۔ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کیا۔؟ وہ کہیں گے ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ اور ہم لغو باتوں میں مشغول رہنے والوں کے ساتھ مشغول ہوجایا کرتے تھے۔ اور ہم جزاسزادن کا انکار کیاکرتے تھے۔ یہاں تک کہ موت نے ہمیں آلیا۔

(المدثر: 45)

بعض تو بے باکی میں اتنے بڑھ جاتے ہے کہ جب توجہ دلائی جاتی ہے کہ غریب کو کھانا کھلاؤ تو کفرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم کھلائیں؟ نعوذ باللہ۔۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیوں نہیں انہیں کھلادیتا۔ قرآن میں اس ہی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے آتا ہے کہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں کہتے کیا ہم انہیں کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھلاتا؟ تم تو محض ایک کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہو ئے ہو۔

(یٰس: 48)

آج کے شدید خراب معاشی حالات میں مشکل ہوجا تا ہے کہ کس طرح مسکین کے لیے خوراک کا انتظام کیا جائے۔ حدیث مبارکہ میں ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

’’دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور تین کا کھاناچار کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔‘‘

(مسلم جلد11 حدیث نمبر3821 صفحہ نمبر134)

پھر اس ہی مسلم کی جلد میں حدیث آتی ہے کہ؛ ہمارے پیارے رسولﷺ نے فرمایا کہ:
ایک آدمی کا کھاناوہ آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور چار کاکھانا آٹھ کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔

(حدیث نمبر 3824 صفحہ نمبر135)

ان احادیث میں اصول دے دیا گیا ہے گھر کے معمول کے بجٹ میں مسکین کے لیے روٹی کا انتظام ہو سکتا ہے۔ بعض دفعہ بہت ذیادہ کھانا گھروں میں بنتا ہے اور آخر میں اس کو ضائع کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ پہلے ہی خیال رکھا جائے کہ کھانا ضائع نہ ہو۔ پھر ہر روز کافی یاچائے باہر سے پینے کی بجائے اس رقم کو فوڈ بینک میں دی جاسکتی ہے۔ بہرحال بے شمار طریقے ہیں۔

لوگوسنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں
جس میں ہمیشہ عادت قدرت نما نہیں

(درثمین 118)

ایک دفعہ ایک دوست کے ساتھ ہستی باری تعالیٰ پر بات ہورہی تھی۔ اس کو ایک حوالہ پیش کیا اس نے کتاب لی اور میرے سامنے کتاب کا ایڈیشن سامنے رکھ دیا۔ مطلب اس کا یہ تھا کہ آج ہستی باری تعالیٰ کو کس طرح تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ذہن میں بے شمار شک وشبات تھے۔ سوال میرے دوست کا جائز تھا۔

اس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور
تا ہووے شک وشبہ سبھی اس کے دل سے دور

(درثمین 121)

آج کے مادی اور افراتفری کے دور میں یہ سوال ہوتا ہے۔ اور خاص طورسے دہریہ نظریات سے متاثر لوگ وجود باری تعالیٰ کے متعلق اکثر وپیشر یہ سوال ضرور کرتے ہیں۔

اس کے بے شمار جوابات ہیں لیکن چونکہ موضوع مضمون مسکین کے لیے روٹی ہے تو اس سوال کا جواب اس ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا۔ اے ابن آدم!میں نے تجھ سے کھانامانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کس طرح کھلا سکتا ہوں جبکہ تو سب جہانوں کا رب ہے۔ وہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تو جانتا نہیں کہ اگر تو اسے کھلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔

(مسلم جلد13 حدیث4647 صفحہ نمبر232)

اب دیکھیں اس حدیث میں خدا واحد لاشریک کو پانے کا ایک ذریعہ کسی مسکین کو کھانا مہیا کرنا ہے۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کمزوروں میں مجھے تلاش کرو۔ یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کرکے تم میری رضا حاصل کرسکتے ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں میں اور غریبوں کی وجہ سے ہی تم خدا کی مدد پاتے ہواور اس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو۔

(ترمذی۔حدیقۃ الصالحین صفحہ نمبر565)

وہی مضمون کے اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنے کا ایک طریقہ مسکین کی خدمت میں ہے۔

اسی طرح ہمارے پیارے حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی یہ ہی نسخہ دیا ہے کہ:
اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامع ہی پہن لیا تھا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ نمبر204 ایڈیشن 2016ء)

اور جہاں تک سوالی کا تعلق ہے تو اسے مت جھڑک: (الضحی: 11)

اکثر یہ بحث بھی ہوتی ہے کہ اس فقیر کی مدد نہیں کرنی چاہیے تھی یا نہیں۔ یہ روٹی کھانے کے نام پر مانگ رہا ہے مگر اصل میں ایسا نہیں ہے بعض تو اس فقیر کے پیچھے پورا نیٹ ورک ثابت کردیتے ہے۔ سوال ایک روٹی کے لیے چند پیسوں کا ہوتا ہے اور جواب میں لمبی فلسفی گفتگو۔ پہلی تو یہ بات ہے کہ تھوڑا سا دے دینا چاہیے اور اگر کسی وجہ سے نہ دے سکے تو اردو زبان میں اس کا جواب بڑا ہی پیارا اور نرمی کے ساتھ یہ ہے کہ ہمیں معاف کردینا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

ہمارے پیارے حضرت مرزاغلام احمدقادیانی امام مہدی ومسیح موعود ؑ نے ایسی تمام بحثوں کو اپنے پاؤں تلے کچل کر رکھ دیاہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کر چڑ جاتے ہیں۔ اور اگر کچھ مولویت کی رگ ہو تو اس کو بجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانے شروع کر دیتے ہیں اور اس پر اپنی مولویت کا رعب بٹھا کر بعض اوقات سخت سست بھی کہہ بیٹھتے ہیں۔ افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے، جو ایک نیک دل اور سلیم فطرت انسان کو ملتا ہے۔اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے۔ اس کو کچھ دینے میں تو گنا ہ لازم نہیں آتا، بلکہ حدیث شریف میں لَوْ أَتَاكَ رَاكِبًا کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی سائل سوار ہوکر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہیے اور قرآن شریف میں ’’اور سائل کو مت جھڑک‘‘ (الضحی: 11) کا ارشاد آیا ہے۔ اس میں کوئی صراحت نہیں کی گئی کی فلاں قسم کے سائل کو مت جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک۔ پس یاد رکھو کہ سائل کو مت جھڑکو۔ کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے۔ اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلدی ناراض نہ ہو۔ یہ شیطان کی ایک خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنادے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر480-481 ایڈیشن 2016ء)

بے شمار واقعات ہیں جن کے ذریعے ترغیب دلائی گئی ہے کہ مسکین کے لیے روٹی کا سامان کیا جا ئے یا خوراک کا انتظام کیا جا ئے۔ ایک واقعہ پر اکتفا کر تا ہوں۔

یہ واقعہ دو خلفا احمدیت نے اپنے خطبات میں بارہا سنایا ہے۔حضرت خلیفة المسیح الرابع ؓ نے اپنے خطبہ جمعہ 30 جولائی 1982میں سنایا ہے۔ تذکرۃ الاولیاء میں یہ روح پرور اور انتہائی طاقتور واقعہ لکھا ہوا ہے۔ لمبا واقعہ ہے اس لیے خاکسار انتہائی اختصار کے ساتھ خلاصہ پیش کر رہا ہے۔

ایک بہت بڑے ولی اللہ حج پر گئے۔ رویا میں دیکھا فرشتے باتیں کر رہے تھے کہ اس دفعہ کسی آنے والے کا حج قبول نہیں ہوا۔ مگر ایک شخص جو حج پر ہی نہیں گیا اس کی وجہ سے تما م کا حج اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا۔ اس کا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پیا را لگا۔ ولی اللہ حیران و پریشان ہوگئے کہ تم یہ کیا باتیں کر ہے ہو۔ وہ کون شخص ہے اور اس نے ایسا کیا کیا۔ فرشتوں نے اس شخض کا پتہ دے دیا۔ ولی اللہ اس شخص کے پاس گئے اور معلوم کیا کہ تم نے ایسا کیا عمل کیا ہے۔ وہ شخص جو حج پر نہیں گئے تھے بولے کہ مجھے بہت شوق تھا کہ میں حج کروں اور اس کے لیے میں پیسے جمع کر رہا تھا میں خود انتہائی غریب ہوں مگر ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ میرا پڑوسی انتہائی کسمپری وغربت میں زندگی گذار رہا ہے اور حرام کھانے پر مجبور ہے۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے سارے حج کے پیسے پڑوسی کو دے دیے تاکہ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے روٹی و خوراک کا انتظام کر لے۔ اور حج کا ارادہ ترک کردیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے گھر آیا اور فرمایا کہ اے میرے بندے میں تیرا حج قبول کرتا ہوں۔

(مکمل واقعہ۔ خطبات طاہر جلد اول صفحہ نمبر86)

بھوک کی تکلیف دور کرنے پر اللہ تعالیٰ نے کتنی خوشنودی فرمائی۔

توں کی جانے یار فریدا
روٹی بندہ کھا جاندی اے

حضرت بابافریدگنج شکر ؓ فرماتے تھے کہ اسلام کے پانچ رکن بیان کئے جاتے ہیں، لیکن اے فرید! ایک چھٹا رکن بھی ہے اور وہ ہے۔۔۔ روٹی۔ اگر یہ چھٹا نہ ملے، تو باقی پانچوں بھی جاتے رہتے ہیں۔

بڑاہی عارفانہ اور پرحکمت اقتباس ہے اور دل سے گواہی نکلتی ہے کہ آپ بہت بڑے صوفی بزرگ تھے۔ اب دیکھیں کہ یہی مضمون ہمارے پیارے حضرت مسیح موعودؑ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’اکثر مرتد ہونے کا سبب بھوک کی آگ کا بھڑک اٹھنا ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد8 نورالحق حصہ اول صفحہ نمبر148 ایڈیشن 1984ء)

پھر حدیث میں بھی یہ ہی مضمون ملتا ہے۔ ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

كَادَ الفَقْرُ أَنْ يَكُوْنَ كُفْرًا

یعنی قریب ہے کہ غریبی کفر بن جائے۔

(مشکوۃ کتاب آداب5051)

(باقی کل ان شاءاللہ)

(منصور احمد خان۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبۂ عید الفطر مؤرخہ 2؍ مئی 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ