• 2 مئی, 2024

کیا حضرت بدھاؑ  کی لاش کو جلا یا گیا تھا یا دفنایا گیا تھا؟

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف ادوار میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کو بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بعض انبیاء علیہم السلام کی زندگی و وفات کے بارے میں عوام الناس میں غلط تصورات نے جنم لے لیا ہے اور اصل حقائق لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو گئے ہیں۔ ان انبیاء علیہم السلام کی فہرست میں بعض قابل ذکر نام حضرت کرشنؑ، حضرت رام چندرؑ، حضرت الیاسؑ، حضرت سقراط ؑ، حضرت مہاویرؑا، حضرت بدھا ؑ، حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسٰی ؑ ہیں۔

اس مضمون کا مقصد حضرت بدھاؑ کی وفات کی آخری رسومات کےبارے پتہ لگانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ اس سے قبل کہ آپ کی آخری رسومات کے بارے میں بات کی جائےآپ کی حالات زندگی کےاس حصّہ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے جو آپ کی پیدائش سے لے کر روحانیت کے سفر کے آغازتک مشتمل ہے۔

مختصر حالات زندگی

بدھ مت کی روایات کے مطابق آپ کی پیدائش تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح بمقام لمبینی ہوئی (جو کہ اب نیپال کا ایک حصہ ہے)۔ آپ کا نام سدھارتا گوتم تھا۔ آپ کے والد ہندوستان میں واقع ایک قصبہ کپیلا وستو کے راجہ تھے۔ پیدائش کے سات دن بعد آپ کی والدہ وفات پا گئیں۔ کپیلا وستو میں انتیس سال تک زندگی بڑ ے آرام و آسائش سے گذاری۔ آپ کے والد نہیں چاہتے تھے کہ سدھارتا زندگی کے دکھ سکھ کے بارے میں جان کر اس کے بارے میں غور وفکر کرے۔ بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ایک راجکمار ہونے کی حیثیت سے دنیا سے بندھا رہے کیونکہ ان کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ یا تو وہ ایک بدھابنے گا یا ایک طاقتور راجہ۔ دنیا سے مزید جوڑنے کے لئے آپ کے والد نے سولہ سال کی عمر میں آپ کی شادی کردی اور آپ کا ایک بیٹا ہوا۔

جب آپ کو محل سے باہر کی دنیا دیکھنے کا موقع ملا تو آپ نے ایک بار ایک بوڑھے شخص کو دیکھا۔ اس کے بال سفید تھے، اس کی کمر جھکی ہوئی تھی، وہ کانپ رہا تھا اور اس کے دانت بھی خراب ہو چکے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہےآپ کو بتایا گیا کہ ہر انسان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور ہر چیز نے ایک دن ختم ہونا ہے۔ آپ اسے دیکھ کر بہت گھبرائے کہ ایک دن میرے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ اگلی دفعہ جب پھر آپ کو باہر جانے کاموقع ملا تو آپ نے ایک بیمار آدمی اور ایک وفات شدہ آدمی کو دیکھا۔ آخر میں ایک راہب کو دیکھا جس کا مزید آپکی طبیعت پر گہرا اثر پڑا۔ اسی رات آپ نے دنیا کو چھوڑ کر فقیری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور روحانیت کا راستہ اپنے لئے چن لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر انتیس سال تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے ساتھ آپ کا ملازم بھی تھا۔ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں پہنچ کر رکے۔ اپنی داڑھی اور بالوں کو کاٹا۔ اپنا قیمتی لباس، زیورات اور گھوڑا اپنے ملازم کے حوالےکیا اور خود فقیرانہ لباس پہن کر روانہ ہو گئے۔ مختلف فقیروں کی شاگردی اختیار کی، جنگلوں میں پھرتے اور سخت روزے رکھتے تھے لیکن کہیں سے آپ کو اطمینان اور سکون نصیب نہ ہوا۔ آخر ایک روز آپ درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ سب کچھ آپ پرعیاں و روشن ہو گیا اور حقیقت آپ پر کھل گئی (دی ہسٹوریکل بدھا: دی ٹائمز، لائف اینڈ ٹیچنز آف دی فاؤنڈر آف بدھ ازم)۔

پروفیسر جوہانس برونک ہورسٹ کی ریسرچ

اس کے بعد ہم اس مضمون کے اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جسم کے ساتھ کیا ہوا کیونکہ بدھ مت کی تاریخ کے مطابق وفات کے بعد آپ کہ جسم کو جلا دیا گیا تھا۔ اس بات کا جواب تلاش کرنے کے لئے کہ وفات کے بعد آیا کہ آپ کے جسم کو جلایا گیا تھا یا دفن کیا گیا تھا، بدھ مت کی تاریخ کے ماہر اور انڈولوجسٹ پر وفیسر جوہانس برونک ہورسٹ صاحب کی ریسرچ کو پیش کیا جا رہا ہے جس کو انھوں نے اپنے دو مضامین میں شائع کیا۔ ان مضامین کا عنوان ہے:

  1. ہینڈرک کیرن ا ینڈ دی باڈی آف دی بدھا
  2. وٹ ہیپنڈ ٹو دی باڈی آف دی بدھا؟

ان مضامین نے خاکسار کے خیالات اور سوچ پر گہرا اثر چھوڑا۔ امید ہے کہ یہ مستقبل میں مزید تحقیقات کی راہیں کھولیں گے ۔ ان شاءاللہ۔

مہاپرینروانا سترا کی روایت

بدھ مت کی روایت جو مہاپرینروانا سترا میں درج ہے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بدھانے قدیم ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوشی نگر میں اسی سال کی عمر میں وفات پائی اور ان کے جسم کو بعد میں جلا دیا گیا اور ان کی جسمانی باقیات کو تقسیم کر کے کئی سٹوپا (گنبد) میں رکھا گیا۔ ان سٹوپا نے مذہبی عبادات اور زیارت گاہوں کی شکل اختیار کر لی۔ ان کی وفات کے واقعہ اور آخری رسومات کی تفصیل کچھ یوں درج ہے:
آپ کے ایک قریبی مریدانندا نے بدھاسے ان کی وفات کے وقت پوچھا کہ ان کی وفات کے بعد ان کے جسم کے ساتھ کیا کیا جائے۔بدھانے جواب دیا :جس طرح چکرورتی راجاؤں کے جسم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انند انے پوچھا وہ کیسے ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا : انند ا، ایک راجا کی میت کوایک نئے لیلن کے کپڑے میں لپیٹا جاتا ہےپھر اس کو فائن کاٹن اون کے کپڑے میں لپیٹا جاتا ہے اور پھر اس کو ایک اورنئے کپڑے میں۔ہر ایک تہہ کو پانچ سو مرتبہ لپیٹنےکے بعد راجاکے جسم کو تیل سے بھرے ہوئے لوہے کے ٹب میں بند کیا جاتا ہےاور اس کو لوہے کے ایک اوربرتن سے ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔پھر ہر طرح کےخوشبو دار تیل سےجلانے والی جگہ کو تیار کر کے راجا کے جسم کو جلا دیا جاتا ہے۔ لوگ اس کے لئے چوراہے پر ایک سٹوپا بناتے ہیں۔ انندا، اس طرح وہ ایک چکرورتی راجا کی میت کے ساتھ کرتے ہیں۔اور انھیں ایک تا تھا گاتا (یعنی کہ ایک بدھا) کے میت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ ایک تا تھا گاتا کے لئے بھی چوراہے پر ایک سٹوپا بنانی چاہئے۔

بدھا کی لاش کو محفوظ کرنے کا ذکر

مندرجہ بالا روایت کے غور طلب نکات پر بحث پیش خدمت ہے جس کا اکثر حصہ پر وفیسر جوہانس برونک ہورسٹ صاحب کے مضامین کی بنیاد ہے۔

سنسکرت زبان میں لفظ ’’تائیلا ڈرونی‘‘ (پالی زبان میں ’’تیلا ڈونی‘‘) یعنی تیل سے بھرے ٹب کا ذکر ہندوستان کی قدیم مذہبی کتابوں مثلا وید اور رامائن میں بھی آخری رسومات کے حوالے سے ملتا ہے۔ جب ’’تائیلا ڈرونی‘‘ لفظ کو ان کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے تو اس ضمن میں کیا گیاہے کہ لاش کو مختلف مقاصد کے لئے محفوظ کرنا۔ مثلاکسی کا انتظار کرنے کے لئے یاکسی اور جگہ لاش کو منتقل کرنے کے لئے ۔ پھر کیا ہم اس سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بدھاکے ضمن میں بھی اس سے مراد لاش کو محفوظ کرنا ہے؟ بدھا کی لاش کومحفوظ کرنے کی غرض کو آگے مضمون میں بیان کیا جائے گا۔ مزید برآں جب یہ کہا جاتا ہے کہ بدھا کی لاش کو جلانے کے وقت تیل والے ٹب سے باہر نہیں نکالا گیا تو گویا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ تیل سے بھرے ٹب کو بمعہ بدھاکی لاش کے ساتھ جلانے والی جگہ پر رکھ کر جلا دیا گیا۔

ایک فرنچ سکالر جناب آندرے باری ا ٓؤ کے مطابق ایسا کرنے سے بدھا کےجسم کو راکھ اور ہڈیوں میں تبدیل ہونے کی بجائے جیسے ایک پین میں مچھلی فرائی ہوتی ہے ویسے ڈیپ فرائی ہو جانا چایئے تھا۔ ایک لوکل کریماٹورئیم کے ڈایئریکٹر کے مطابق مزید اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر تیل والے ٹب کو ڈھانپ کر آ گ پر رکھا جاتا تو درجہ حرات بڑھنے سےدھماکہ کا احتمال ہو سکتا تھا اور اگر بغیر ڈھانپ کر تیل والے ٹب کو جسم کے ساتھ آگ پر رکھا جائے تو گرم تیل میں جلنے کے بعد جسم کی ہڈیوں اور باقیات کو گند گی کی شکل میں تیل میں تیرنا چائیے تھا (فرنچ سے انگلش ترجمہ: ریسرچ آن دی بیوگرافی آف دی بدھا ان دی سوترا پیتا کا اینڈ اینشنٹ وینیا پیتا کا)۔ گیررڈ فسمان سکالر کی رائے میں بھی اس زمانے میں کوشی نگر میں اتنے کم وقت میں لوہے کا ٹب میسر کرنا بہت مشکل تھا۔اگر کوئی ٹب استعمال کیا گیا تھا تو وہ درخت کے تنے کو خالی کر کے تیار کیا گیا ہو گا۔

ایک سٹوپا یا کئی سٹوپا کی تعمیر

ان مندرجہ بالا نکات کی بنا پر برونک ہورسٹ کے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ اس روایت میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہوں گی۔ اس کے نزدیک اصل حقیقت کچھ یوں ہو گی:
ان کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ بدھا کو دفنایا گیا ہو ۔مگر دفنانے سے پہلے لاش کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے تیل میں رکھا گیا ہوگا تاکہ اس عرصہ کے دوران ایک سٹوپا کی تعمیر کی جا سکے۔ کچھ عرصہ بعد اس دفنانے کے واقعہ کو جلانے میں تبدیل کر دیا گیا ہوگا۔اس کو تبدیل کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی تھی؟ کیوں یہ اتنی بڑی تبدیلی اس واقعہ میں لائی گئی؟ برونک ہورسٹ کی رائے میں وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دفنانے کے لئے صرف ایک سٹوپا کو تعمیر کرنا تھا جبکہ جلانے کے بعد ان کی راکھ اور ہڈیوں کو تقسیم کرنے کے لئے کئی سٹوپا کی تعمیر ضروری تھی۔

یعنی ان کی بات سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک سٹوپا کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ بدھا کے جسم یا ان کی باقیات کو ایک ہی جگہ رکھا گیا ہو گا اور کسی دوسرے تصّور کو فروغ نہیں ملتا۔مگر باقیات کا تقسیم ہونا اور کئی سٹوپا کی تعمیر کے ذکر سے (آگے چل کر اسی روایت میں ان کی جسم کی راکھ کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے اور ان کو مختلف سٹوپا میں رکھنے کا ذکر ملتا ہے) ایک نئی سوچ اور نئے عقیدے نےجنم لیا۔ جس نے راکھ اور ہڈیوں کی پوجا کے گرد گھومنا شروع کر دیا۔ جس سے عجیب و غریب کہانیوں نے جنم لیا۔ اس کا اثر ہم بعد میں آنے والے وقت میں بھی دیکھتے ہیں مثلا بعد کی روایات میں آتا ہے کہ مہاراجہ اشوکا نے پہلے سے تقسیم شدہ ان آٹھ حصوں کو (راکھ اور ہڈیوں) مزید چوراسی ہزار حصوں میں بانٹ کر چوراسی ہزار نئے سٹوپا تعمیر کروا دیے۔

برونک ہورسٹ کے مطابق حیرت کن بات اس روایت میں یہ ہے کہ بدھانے اپنے مرید انندا سے بات کرتے وقت توصرف ایک سٹوپا کا ذکر کیا تھا (مگر آگے چل کر اسی روایت میں ان کی جسم کی راکھ کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے اور ان کو مختلف سٹوپا میں رکھنے کا ذکر ملتا ہے) اس بنا پر برونک ہورسٹ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا بدھا کو مرنے کے بعد اپنے جسم کی راکھ کو کئی حصّوں میں تقسیم کرنے اور اس کی پوجا کیے جانے کی رسم کاپہلے سے نہیں پتہ تھا؟ یہ بھی ممکن نہیں ہےکہ ان کےمرید بدھا کی تعلیم کو جانتے نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں آپ کے مریدوں کو بھی اس بات سے باخبر ہونا چایئے تھا۔

برونک ہورسٹ نے اس روایت میں موجود اس فقرے کی طرف توجہ دلائی ہے: ’’پھر ہر طرح کےخوشبو دار تیل سے جلانے والی جگہ کو تیار کر کے راجا کے جسم کو جلا دیا جاتا ہے‘‘

اس فقرے کو یا تو بعد میں شامل کیا گیا ہے یا پھر کسی دوسرے فقرے کو نکال کر اس فقرے کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر اس فقرے کو روایت سے نکال دیا جائے توبرونک ہورسٹ کے مطابق حقیقت یہ ہی لگتی ہے کہ بدھا کی لاش کو بغیر جلائے صرف ایک ہی سٹوپا میں رکھا گیا جیسا کے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ لاش کو محفوظ کرنے کے لئے تیل میں رکھا گیاتا کہ ایک سٹوپا کی تعمیر کی جا سکے۔ جب ہم مہاپرینروانا سترا کا چینی زبان میں ترجمہ پڑھتے ہیں (جس پر آندرے باری ا ٓؤ نے تحقیق کی) تو ہمیں اس موقف کی کچھ تصدیق ملتی ہے:
پہلی بات اس چینی ترجمہ میں ہمیں بدھا کے جسم کو جلانے کا تو ذکر ملتا ہے مگر جلانےکے بعد کی راکھ اور ہڈیوں کی تقسیم کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور جب ذکر ملتا ہے تو صرف اس صورت میں کہ کوشی نگر کے قریب ساری باقیات کو ایک ہی سٹوپا میں ڈالا گیا۔ اسی ترجمہ میں اس بات کابھی ذکر ملتا ہے کہ وفات سے لے کر سٹوپا کی تعمیر کا عرصہ 90 دن کا تھا۔اس جملے سے پتہ چلتا ہےکہ سٹوپا کی تعمیر کے لئے کافی عرصہ درکار تھا۔ اس لئے جسم کی باقیات کو سٹوپا میں رکھنے کے لئے کافی وقت لگا۔

بے شک یہ چینی ترجمہ بھی سو فیصد درست نہیں کیونکہ اس میں بھی راکھ اور ہڈیوں کا ذکر ملتا ہے مگر اوّل اس میں راکھ اور ہڈیوں کوتقسیم کرنے کا اور بعد میں ان باقیات کے لئے کئی سٹوپا تعمیر کرنے کا ذکر نہیں ملتا۔دوسری دلچسپ بات یہ کہ اس میں بدھا کی وفات سے لے کر سٹوپا کی تعمیر تک کا عرصہ 90 دن کا بتایا جاتا ہے۔ اتنے لمبے عرصے کے لئے لاش کومحفوظ کرنے کے لئے تیل کا استعمال کیا گیا ہو گا۔

خاکسار عرض کرنا چاہتا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس بدھاؑ کے مریدوں کی زندگی اور وفات کے حالات کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ اگر ہم ان کے مریدوں کے حالات زندگی جانتے اور تاریخ نے انہیں تفصیل سے محفوظ کیا ہوتا تو ہم یہ نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہو سکتے تھے کہ مرید بھی اپنے مرشدکے بتائے ہوئے آخری رسومات کے طریقوں پر عمل کر رہے تھے۔

بدھ مت کی دوسری روایات

بدھ مت کی کچھ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ پرانے وقتوں میں جب بدھ مت کے پیرو کار وفات پاتے تھے تو ان کو دفنانے کا بھی رواج قائم تھا۔ مثلا قدیم زمانے میں ایک بدھا گزرا ہے جس کا نام ’’کاشیپا‘‘ بتایا جاتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق اس کو بغیر جلائے مکمل ڈھانچے کے ساتھ ایک ہی سٹوپا میں دفنایا گیا (ریلکس آف دی بدھا)۔ ایک اور بدھ مت کی روایات اور رہنمائی کے اصولوں کی کتاب کا نام ’’وینا یا‘‘ ہے۔ آندرے باری ا ٓؤ اور جوہانس برونک ہورسٹ نے اس کتاب کے چینی ترجمہ میں موجود اس اصول کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں لکھا ہے کہ جس کپڑے میں لاش کو لپیٹا گیا ہو سٹوپا میں دفناتے وقت کپڑے کو اس لاش سے نہیں ہٹاناچاہیے۔ (فرنچ سے انگلش ترجمہ: دی کنسٹرکشن اینڈ ورشپ آف سٹوپاز اوکاڈن ٹو دی وینیا پیتا کا)۔

پانچ سو دفعہ لاش کو کپڑے میں لپیٹنے کا اضافہ

بدھا اور ان کے مریدانندا کی گفتگو والی روایت پر غور کیا جائے تو مزید ایسے شواہد ملتے ہیں جس کو پڑھنے سے یوں لگتا ہے کہ اس میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے جیسا کہ پانچ سو دفعہ لاش کو کپڑے میں لپیٹنے والی بات کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ اگر اس طرح کیا جائے تو الفریڈ فاؤچر سکالر کے مطابق بہت بڑی ممی بن جاتی جس کو دفن کرنا یا ٹب کے اندر فٹ کرنا ہی بہت مشکل کام ہو جاتا۔ (فرنچ سے انگلش ترجمہ: دی لائف آف دی بدھا اوکارڈِنگ ٹو دی ٹیکسٹس اینڈ مونومنٹز آف انڈیا)۔

کیا بدھا کی لاش کوگنگا کی طرف لے جا یا گیا؟

ایک اور سکالر جس کا نام جین پریزلوسکی ہے اس نے آپ کے جسم کو محفوظ کرنے اور دفنانے کے بارے میں اپنی رائے اس طرح پیش کی ہے:
اس کے خیال کے مطابق بھی تیل بھرے ٹب کا مقصد بدھا کے جسم کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنا تھا۔ جس طرح روحانی لوگ جودنیا کو ترک کر دیتے تھے (سنیاسی) ان کو دریائے گنگا کے کنارے (جو سمندر سے جڑ جاتا ہے) پرانے وقتوں میں دفنایا جاتا تھا یا پھر کسی کشتی میں لاش کو رکھ کر بہا دیا جاتا تھا اسی طرح جین پریزلوسکی کے خیال کے مطابق بدھا کے مرید بھی آپ کےجسم کو محفوظ کر کے گنگا کی طرف لے جانےکا ارادہ رکھتے ہونگے (شیئرنگ دی ریلکس آف دی بدھا)۔ بدقسمتی سے جین پریزلوسکی نےبدھا کے جسم کو اس طرح لے جانے کےحوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیاکہ جس کی بنا پر ہم اس کی بات پر یقین کر سکیں۔

مستقبل کی ریسرچ آثارقدیمہ کے ذریعے

آخر میں خاکسار عرض کرنا چا ہتا ہے کہ بے شک اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ہم کسی خاطر خواں نتیجے پر نہیں پہنچ سکے لیکن مستقبل میں ہمارے لئے آثارقدیمہ کے ذریعے اس پر ریسرچ کرنے کے راستے کھل گئے ہیں اور اس ضمن میں ہمیں برونک ہورسٹ کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا کہ جس نے اس واقعہ پر دلائل کے ساتھ بدھا کے جلانے اور دفنانے کے نظریات پرروشنی ڈالی ہے۔ نا صرف بدھا بلکہ مہاویرا کی وفات کے بعد کے مسٔلے پر بھی اپنے ایک دوسرے مضمون میں کچھ روشنی ڈالی ہے (وٹ ہیپنڈ ٹو مہاویرا س باڈی؟)۔ اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور جب وہ چاہے گا وقت آنے پر اسے کھول دےگا۔ ان شاءاللہ ۔ہمیں اصل حقیقت کو جاننےکی کوششیں ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے۔ امید ہے کہ قارئین کے لئے یہ مضمون دلچسپی اور ان کے علم میں اضافےکا باعث ہو گا۔

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

روٹی (قسط 1)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2022