• 1 مئی, 2024

مضحکہ خیز بات

مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک جمہوری سیاسی اسمبلی اور جمہوری سیاسی اسمبلی کا دعویٰ کرنے والی اسمبلی اور حکومت مذہب کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا کہ پاکستان میں جو نئی حکومت بنی ہے، یہ بھی حسبِ سابق احمدیوں کے ساتھ وہی کچھ کرے گی جیسے پہلے بھی یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ اور ایک وزیر کا نام لیا کہ وہ تو پہلے بھی احمدیوں کے ساتھ اچھا نہیں رہا۔ اب پھر ایسے حالات ہو جائیں گے۔

لکھنے والے نے اس پر اپنی بڑی فکر کا اظہار کیا ہوا تھا۔ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کیا ہوتا ہے، لیکن چاہے یہ حکومت ہو یا کوئی اور حکومت ہو جب پاکستان میں ایک قانون احمدیوں کے خلاف ایسا بنا ہوا ہے جس میں ظلم کے علاوہ کچھ نہیں تو پھر اس قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی فکر کرنی ہے تو وہ پاکستان میں احمدیوں کے لئے ہمیشہ کی اور مستقل فکر ہی ہے۔ اور پاکستانی احمدیوں کو خود بھی اس لحاظ سے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر تو ہم نے دنیاوی حکومتوں سے کچھ لینا ہے تو بیشک یہ سوچ رکھیں اور فکر کریں۔ لیکن اگر ہمارا تمام تر انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے اور یقیناً خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے تو پھر اس قسم کی فکر ضرورت نہیں۔ یا اس قسم کی امید کی ضرورت نہیں کہ فلاں آئے گا تو ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے اور فلاں آئے گا تو حالات خراب ہو جائیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو پھر اس قسم کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان دنیاوی حکومتوں نے تو دنیا کے لحاظ سے جو چاہنا ہے کرنا ہے۔ اور ماضی میں جب سے احمدیوں کے خلاف اسمبلی میں یہ قانون پاس ہوا ہے، گزشتہ تقریباً اڑتیس سال سے یہ کر رہے ہیں۔ بلکہ اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے یہ مخالفت ہے۔ اُس وقت سے بھی اگر حکومت کے لیول پر نہیں تو حکومتی کارندے کچھ نہ کچھ مخالفین کے ساتھ شامل ہو کر جماعت احمدیہ کے خلاف یا بعض احمدیوں کے خلاف منصوبے بناتے رہے ہیں۔ بہر حال چاہے ایک نظریہ رکھنے والی حکومت ہو یا دوسرا، اپنے زعم میں تو انہوں نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا ہوا ہے۔ اور یہی ایک وجہ ہے مخالفت کی، یہی ایک وجہ ہے مُلّاں کو کھلی چھوٹ دیئے جانے کی۔ اور جو بھی حکومت آئے وہ ظلموں کی انتہا بھی ایک طرح سے ہر حکومت میں ہو رہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔

پس ہمیں نہ تو ان دنیاوی حکومتوں سے کسی بھلائی کی امید ہے اور نہ رکھنی چاہئے اور نہ ہمیں دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لئے یا مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے۔ وہ مسلمان ہے جو اعلان کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شرعی نبی مانتا ہوں، خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں۔ ا ور اس تعریف کے مطابق احمدی مسلمان ہیں اور عملاً بھی اور اعتقاداً بھی دوسروں سے بڑھ کر مسلمان ہیں۔ پس اس اعلان کے بعد ہمیں زبردستی غیر مسلم بنا کر کچھ بھی ظلم یہ آئینی مسلمان ہم پر کریں یا وہ مسلمان جو آئین کی رو سے مسلمان ہیں، ہم پر کریں، یا حکومتیں اور اُن کے وزراء کی اشیر باد پر ان کے کارندے ہم پر کریں، یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار بن رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں یقینا ًہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہونی چاہئیں۔ ہر احمدی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قرب اور اس قرب میں مزید بڑھنا یہی الٰہی جماعتوں کا شیوہ ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ یہاں ابھی میں نے آئینی مسلمان کہا تو جن کو اس بات کا پوری طرح پتہ نہیں اُن کے علم کے لئے بتا دوں کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ احمدی آئینی اور قانونی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک جمہوری سیاسی اسمبلی اور جمہوری سیاسی اسمبلی کا دعویٰ کرنے والی اسمبلی اور حکومت مذہب کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے۔

(خطبہ جمعہ 14؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 03؍جون 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جون 2022