ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تو اپنی نصف نیکیاں مجھے دیدے تو بخش دوں۔ خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں۔ اب وہ عورت مر گئی ہے خاوند کیا کرے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
’’اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دیدے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے۔ شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علیٰ ہذا القیاس خاوند بھی لے سکتاہے۔‘‘
(اخبار بدر نمبر 7 جلد 4 مؤرخہ 5 ؍ مارچ 1905ء صفحہ 2)
’’ایک شخص مثلاََ زید نام لاولد فوت ہو گیا ہے۔ زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کی حین حیات میں بیاہی گئی تھی ۔بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی، اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مر گیا ۔زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جوکہ ناجائز ہے ۔ زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان انکی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہیے؟
حضرت نے فرمایا کہ: اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہوجانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا ۔شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہیے۔ باقی معاملہ اس کا خداتعالیٰ کے ساتھ ہے …… اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔‘‘
(اخبار بدر نمبر39 جلد 6مؤرخہ 26؍ ستمبر 1907صفحہ 6۔ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 294نیا ایڈیشن)