• 3 مئی, 2024

بیعت کی دوسری شرط

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر بیعت کی دوسری شرط ہے۔ ’’یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51 مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں‘‘ (جو سچائی سے روکتے ہیں) ’’تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا۔ کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں (کوئی حرج نہیں) اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے۔‘‘

فرمایا ’’دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے۔ پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔ اس میں خدا کی تعلیم یہ ہے۔ کہ

فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج: 31) … وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا (البقرۃ: 283) …… وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ (البقرۃ: 284) …… وَ اِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی (الانعام: 153) …… قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ (النساء: 136) …… وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا (المائدۃ: 9) …… وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ (الاحزاب: 36) …… وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ (العصر: 4) … لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ (الفرقان: 73)

اس کے ترجمہ میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکار مت کرو۔ اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے۔ اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے۔‘‘ (انصاف کی بات ہے) ’’اگرچہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو۔ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو۔ اگر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے۔ یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو۔ اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔ سچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے۔ ان کی عادت ہے کہ اَوروں کو بھی سچ کی نصیحت دیتے ہیں۔ اور جھوٹوں کی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ360-361)

(خطبہ جمعہ23 ؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 03؍ ستمبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 ستمبر 2021