• 15 مئی, 2024

جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت کے ساتھ مزید تاکید یہ فرمائی کہ جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ۔ جہاں خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف باتیں ہوں ان مجالس میں نہ جاؤ۔ اب یہ گھٹیا اور لغو باتیں اس زمانے میں بعض دفعہ لا شعوری طور پر گھروں کی مجلسوں میں یا اپنی مجلسوں میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ نظام کے خلاف بات ہوتی ہے۔ کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ عہدیداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں، اگر نیچے اُس پر اصلاح نہیں ہو رہی تو مجھ تک پہنچائیں۔ لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر جب وہ باتیں کرتے ہیں تو وہ لغو باتیں بن جاتی ہیں۔ کیونکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی۔ اُس میں فتنہ اور فساد اور جھگڑے مزید پیدا ہوتے ہیں۔ پھر اس زمانے میں ٹی وی پر گندی فلمیں ہیں۔ انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ہیں۔ ڈانس اور گانے وغیرہ ہیں۔ بعض انڈین فلموں میں ایسے گانے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر مانگا جا رہا ہوتا ہے، یا اُن کی بڑائی بیان کی جا رہی ہوتی ہے جس سے ایک اور سب سے بڑے اور طاقتور خدا کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ یا یہ اظہار ہو رہا ہو کہ یہ دیوی دیوتا جو ہیں، بت جو ہیں، یہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بھی لغویات ہیں، شرک ہیں۔ شرک اور جھوٹ ایک چیز ہے۔ ایسے گانوں کو بھی نہیں سننا چاہئے۔

پھر فیس بک (Facebook) ہے یا ٹوئٹر (Twitter) ہے یا چیٹنگ (Chatting) وغیرہ ہیں۔ کمپیوٹر وغیرہ پر مجالس لگی ہوتی ہیں۔ اور ایسی بیہودہ اور ننگی باتیں بعض دفعہ ہو رہی ہوتی ہیں، جب ایک دوسرے فریق کی لڑائی ہوتی ہے تو پھر بعض نوجوان وہ باتیں مجھے بھی بھیج دیتے ہیں کہ کیا کیا باتیں ہو رہی تھیں۔ پہلے خود ہی اُس میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی شریف آدمی اُن کو دیکھ اور سُن نہیں سکتا۔ بڑے بڑے اچھے خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیاں اس میں شامل ہوتے ہیں اور اپنا ننگ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ پس ایک احمدی کے لئے ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ ایک احمدی مسلمان کو تو حکم ہے کہ تم احسن قول کی تلاش کرو۔ اُس احسن کی تلاش کرو جو نیکیوں میں بڑھانے والا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بنو اور جو لعنت ایسے لوگوں پر پڑنی ہے اُس سے بچ سکو۔ بہر حال بہت سے احسن قول ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں۔ نیکی کے راستے اختیار کرنا اور بتانا احسن ہے اور برائی سے روکنا اور رُکنا احسن ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک مومن سے ایک حقیقی عبد سے یہی فرماتا ہے کہ احسن قول تمہارا ہونا چاہئے۔ ایک جگہ فرمایا وَلِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ (البقرہ:149) کہ یعنی ہر ایک شخص کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے آپ پر مسلط کر لیتا ہے۔ تمہارا مطمح نظر یہ ہو کہ تم نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔

پس جب نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی تو قول اور عمل دونوں احسن ہوں گے۔ اُس کے مطابق ہوں گے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اگر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی تو یقیناً پھر شیطان سے اور اُس کے حملوں سے بچنے کی بھی کوشش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو مَیں نے شروع میں تلاوت کی تھی اس میں فرمایاکہ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ کہ یقیناً شیطان ان کے درمیان، یعنی انسانوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان کے بھی بہت سے معنی ہیں۔ اکثر ہم جانتے ہیں۔ شیطان وہ ہے جو رحمان خدا کے حکم کے خلاف ہر بات کہنے والا ہے۔ تکبر، بغاوت اور نقصان پہنچانے والا ہے اور اس طرف مائل کرنے والا ہے۔ حسد کی آگ میں جلنے والا ہے۔ نقصان پہنچانے والا ہے۔ دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والا ہے۔ غرض کہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہر وہ بات جو احسن ہے اور جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے تا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا ہوں، شیطان اُس کے الٹ حکم دیتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

صیام الدھر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 ستمبر 2022