• 27 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 12)

حیاتِ نورالدینؓ
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اطاعت اور محبت کے واقعات
قسط12

حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب، حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے عقیدت، محبت، فدائیت اور اطاعت کی عدیم النظیر مثال رکھتے تھے۔ مسیح پاک کے ایک اشارہ پر اپنا شہر، اپنا وطن، کاروبار اور تمام املاک چھوڑ کر قادیا ن میں آبسے اور پھر کبھی بھی اپنے وطن کا خیال تک دل میں نہ آنے دیا۔ اور آپ نے ایسی کمال اطاعت کی کہ اللہ نے اس کے صلہ میں آپؓ کو اپنے پیارے آقا کے پہلے خلیفہ ہونے کا شرف عطا فرمایا۔

آپ فرمایا کرتے تھے اگر کوئی شخص ہزار روپیہ روزانہ بھی مجھے دے تو پھر بھی میں حضرت صاحب کی صحبت چھوڑ کر قادیان سے باہر جانے کے لئے تیا رنہیں۔

حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی مبارک عادت تھی کہ آپ کمال ادب اور احترام سے حضرت اقدس کی مجلس میں آتے اور خاموشی سے اکتساب فیض فرماتے۔

حضرت مولوی صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے جو کچھ پایا ہے جو کچھ سیکھا ہے اپنی پیارے مطاع وامام سے سیکھا اور پایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ
لوگ اکسیر اور سنگ پارس تلاش کرتے پھرتے تھے۔ میرے لئے تو حضرت مرزا صاحب پا رس تھے۔ میں نے ان کو چھؤا تو بادشاہ بن گیا۔

ہر امر میں لبیک کہنے کی سعادت

آئینہ کمالات اسلام میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے سچے عاشق حضرت مولانا نورالدین کے متعلق فرماتے ہیں
اس کو میرے دل سے عجیب تعلقات ہیں۔ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں کی مفارقت اختیار کرنا ہے۔ میرے کلام کے سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے۔ اور میرے مقام کی محبت کے لئے وہ اپنے اصل وطن کی یاد کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔ اور میں اس کو اپنی رضا میں فانیوں کی طرح دیکھتا ہو۔ جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بلا توقف پورا کرتا ہے۔ اور جب کسی کا م کی طرف مدعو کیا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے لبیک کہنے والوں سے ہوتا ہے۔ اس کا دل سلیم ہے اور خلق عظیم اور کرم ابر کثیر کی طرح ہے۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ585۔ 586ترجمہ از عربی عبارت)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے پہلی ملاقات کے بعد سے لے کر تادم آخر تک کی زندگی اطاعت امام الزمان کی گواہ ہے۔ آپؓ کی اطاعت کی چند جھلکیاں پیش کرتی ہوں

حضور اقدسؑ کے ارشاد پر وطن کو خیر باد کہنا

حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولانا نورالدین صاحب 1892ء میں ریاست جموں کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے تھے۔ اس کے بعد آپ اپنے وطن بھیرہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے بہت بڑا شفا خانہ اور ایک عالی شان مکان تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا اور پھر مکان کی تعمیر شروع کرادی۔ اسی دوران آپ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ملاقات کے لئے قادیان حاضر ہوئے۔ آپ کا ارادہ تھا کہ حضرت کی ملاقات کے بعد جلد قادیان سے واپس ہوجائیں گے۔ اس لئے واپسی کا یکہ کرائے پر لیا تھا لیکن دوران گفتگو حضرت اقدس نے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہوگئے ہیں اس پر حضرت مولوی صاحب نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ قادیان سے واپسی ایک دو روز کے لئے ملتوی کردی جائے۔ لیکن اس کے بعد حضرت اقدس کے ارشاد پر آپ نے یکے بعد دیگرے اپنی ایک بیوی، پھر اپنا کتب خانہ اور پھر دوسری بیوی کو بھی قادیان بلا لیا۔ حیات نور صفحہ 185 میں درج ہے پھر ایک موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایاکہ مولوی صاحب اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر آپ فرماتے ہیں کہ
خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں۔ میرے واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن چھوڑنے کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔

(حیات نور مصنفہ عبد القادر سوداگر مل صفحہ185)

فی الفور اطاعت

آپ کی اس والہانہ اطاعت اور وارفتگی کی ایک مثال فی الفور دہلی کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے۔

22اکتوبر 1905 کو حضرت اقدسؑ، حضرت اماں جانؓ کو آپ کے خویش واقارب سے ملانے کے لئے دہلی تشریف لے گئے۔ ابھی دہلی پہنچے چند ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بیمار ہوگئے۔ اس پر حضور کو خیال آیا کہ اگر مولوی نورالدین صاحب کو بھی دہلی بلا لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کوتار دلوا دیا۔ جس میں تار لکھنے والے نے امیجی ایٹ (immediate) یعنی بلاتوقف کے الفاظ لکھ دئے۔ جب یہ تار قادیان پہنچا تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو اسی حالت میں فورا چل پڑے۔ نہ گھر گئے، نہ لباس بدلا، نہ بستر لیا۔ اور لطف یہ ہے کہ ریل کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ گھر والوں کو پتا چلا تو انہوں نے پیچھے سے ایک آدمی کے ہاتھ کمبل تو بجھوا دیا مگر خرچ بجھوانے کا انہیں بھی خیال نہ آیا۔ اور ممکن ہے کہ گھر میں اتنا روپیہ ہو بھی نہ۔ جب آپ بٹالہ پہنچے تو ایک متمول ہندو رئیس نے جو گویا آپ کا انتظار ہی کر رہا تھا عرض کی کہ میری بیوی بیمار ہے۔ مہربانی فرما کر اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیجئے۔ فرمایا میں نے اس گاڑی پر دہلی جانا ہے۔ اس رئیس نے کہا میں اپنی بیوی کو یہاں ہی لے آتا ہو۔ چنانچہ وہ لے آیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا۔ وہ ہندو چپکے سے دہلی کا ٹکٹ خرید لایا اور معقول رقم بطور نذرانہ بھی پیش کی۔ اور اس طرح سے آپ دہلی پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

اطاعت مسیح موعودؑ ہی سب سے بڑی خوشی

آپ کی غیر معمولی، بے لوث ارادت اور اطاعت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

ماسٹر اللہ دتہ صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے کہ
1900ء یا 1901ء کا واقعہ ہے کہ میں دارالامان (قادیان) میں تھا ان دنوں ایک نواب صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں علاج کے لئے آئے ہوئے تھے جن کے لئے ایک الگ مکان تھا۔ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے جن میں ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لئے نواب صاحب کا منشاء ہے کہ آپ ان کے ہمراہ وہاں تشریف لے جائیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرما کہ
میں اپنی جان کا مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکا ر ہے۔

پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار بیت الذکر میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا مدعا بیاں کیا۔ حضورؑ نے فرمایا
اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے۔

لیکن مولوی صاحب کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے۔ قرآن وحدیث کا درس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں ایک دنیا داری کے کام کے لئے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے۔

اس دن جب عصر کے بعد درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے فرمایا
مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے۔ اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہوجائے۔ آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرےآقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکا ر نہیں کر ے گا۔

(حیات نور صفحہ186-187)

اطاعت ومحبت کے لئے ہمہ وقت مستعد

حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب کے دل میں اپنے محبوب آقا کی اطاعت ومحبت کا کیسا جذبہ موجزن تھا اس کی ایک مثال حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے ملتی ہے
حضرت میر صاحب فرماتے ہیں۔
ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعوؑ نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کر دینے کے لئے فرمایا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقا اسی وقت مرحومہ امۃ الحئی صاحبہ بھی جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں۔ حضرت مولوی صاحب دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو مرزا کہے کہ اپنی لڑکی کو نہالی (نہالی ایک مہترانی تھی جو حضرت صاحب کے گھر میں کام کرتی تھی) کے لڑکے کو دے دو تو میں بغیر کسی انقباض کے فورا دے دوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق ومحبت کا تھا مگر نتیجہ دیکھ لو کہ بالآخر وہی لڑکی حضورؑ کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خود مسیح موعودؑ کا حسن واحسان میں نظیر ہے (حضرت مصلح موعودؓ۔ ناقل)

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ77)

(حیات نور مصنفہ عبد القادر سوداگر مل صفحہ187-188)

حضرت مسیح موعودؑ کی فدائیانہ اطاعت

آپ کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک ہندو کی بیوی کو دیکھنے کے لئے بٹالہ گئے۔ حضور نے آپ کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گے۔ یکہ پر قادیان سے شام تک بٹالہ پہنچے اور مریضہ کے لئے غذا اور دوا تجویز کرکے واپسی کے لئے بہت زور دے کر یکہ کا انتظام کرایا۔ فرمایا۔
میں پیدل چل کربھی قادیان ضرور پہنچونگاکیونکہ میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے قادیان پہنچنا ہے۔

کچھ راستہ آپ نے یکہ پر طے کیا مگر ان دنوں راستے میں کیچڑ اور پانی ہونے کی وجہ سے یکہ کے چلنے میں رکاوٹ آتی تھی اور گھوڑا قدم قدم پر رکتا تھا۔ یہ دیکھ کر آپ پیدل چل دئے۔ راستے میں آپ کے پاؤں کانٹوں سے زخمی ہوگئے مگر آپ برابر چلتے رہے اور رات گئے قادیان پہنچے۔ صبح کی نماز آپ نے ہی کرائی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ حضور کے پوچھنے پر عرض کی میں رات ہی قادیان پہنچ گیا تھا لیکن کسی تکلیف کا اظہار نہ کیا۔

(حیات نور مصنفہ عبد القادر سوداگر مل صفحہ189)

ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپؓ کی اطاعت کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی سادگی اور اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں وہ سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سر اٹھایا اور فرمایا کہ حضور میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا۔

(ماخوذ از الفضل 27 مارچ 1957ء صفحہ5 جلد46/11 نمبر74)

(خطبہ جمعہ 13 نومبر 2015ء)

تعمیل حکم حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ میں جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں

ایک مرتبہ آپ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔ گویا دل میں یہ تھا کہ حضورؑ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ پھر جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتاتھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔

(حیات نور مصنفہ عبد القادر سوداگر مل صفحہ188)

اے خدا بر تربت او بارشِ رحمت ببار
داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

صیام الدھر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 ستمبر 2022