• 6 مئی, 2024

مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے

غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا
مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت منشی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے نیچے دیوار کھینچ کر راستہ بند کر دیا تو احمدیوں کو اس سے بہت تکلیف پیدا ہو گئی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عدالت میں چارہ جوئی کا ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر مجھے اور اخویم منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی کو بھی ارشاد فرمایا کہ تم اپنے حلقوں میں سے ایسے ذی عزت لوگوں کی شہادت دلواؤ جو دیوار کے گزرنے سے پہلے اس راستہ سے گزرتے ہوں۔ چنانچہ میں اپنے حلقہ سے فقیر نمبر دار لوہ چپ کو قادیان لایا کیونکہ یہاں ہی جیوری آئی ہوئی تھی۔ چنانچہ اُس نے شہادت دی کہ بندوبست کے دنوں میں ہم یہاں آتے رہے ہیں اور اس راستہ سے گزرتے رہے ہیں۔ بعض دفعہ گھوڑوں پر سوار ہوا کرتے تھے۔ مرزا نظام الدین نے اس سے شہادت سے پہلے دریافت کیا کہ تم شہادت کے لئے آئے ہو۔ فقیر نمبر دار نے جواب دیا ہاں۔ اس پر مرزا نظام الدین نے اُس سے سخت کلامی کی جس کے جواب میں فقیر نے کہا کہ مرزا صاحب اگر آپ مجھے گالیاں دیں گے تو جب آپ ہمارے علاقہ میں شکار کے لئے نکلیں گے تو ہم اس سے بھی زیادہ سختی آپ پر کریں گے جس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اُس واقعہ کے بعد مرزا نظام الدین جو کہ میرے پہلے سے واقف تھے بوجہ ناراضگی ایک سال تک نہ بولے۔ (ان سے بات نہیں کی) ایک سال کے بعد میں اتفاقاً گورداسپور گیا ہوا تھا اور عدالت کے باہر ایک عرضی نویس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں مرزا نظام الدین بھی آ گئے اور کہنے لگے۔ منشی صاحب! آپ مجھ سے ناراض کیوں ہیں اور بولتے کیوں نہیں؟ مَیں نے کہا میں آپ کے ساتھ اگر بات کروں اور آپ ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں سخت کلامی کریں تو مجھے تکلیف ہو گی۔ کہنے لگے مَیں اُن کو بزرگ سمجھتا ہوں۔ اُن کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ مَیں نے اپنے باغ کی لکڑی ہزاروں روپے میں فروخت کی ہے اور اب سبزی سے ہزاروں روپے کی آمد ہوتی ہے۔ اُن کے یہ بھی الفاظ تھے کہ اب مجھے ولایت کی طرح آمد ہوتی ہے۔ (یعنی بہت زیادہ آمد ہوتی ہے۔ تو پھر) مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ کے یہ خیالات ہیں تو مَیں صلح کرتا ہوں۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ319تا 321۔ روایات منشی امام الدین صاحبؓ)

خلیفہ نور الدین صاحب سکنہ جمّوں فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی احمدیت سے بہت پہلے کے میرے دوست تھے۔ ایک دفعہ وہ چینیاں والی مسجد لاہور میں نماز پڑھا رہے تھے کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور اپنی علیحدہ نماز ادا کی۔ مولوی صاحب نماز سے فارغ ہو کر مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر سمجھے کہ شاید میں نے اُن کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ اور بہت خوش ہوئے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو بھی مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے۔ مولوی صاحب یہ سن کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے کہ دوسرے احمدیوں کا تو یہ عقیدہ نہیں اور وہ تو اپنے پیچھے کسی غیر احمدی کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتے۔ (ہر ایک کا اپنا اپنا مزاج اور سوچ ہوتی ہے۔ اچھا واقعہ ہے۔) میں نے کہا مولوی صاحب خدا فرماتا ہے مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی (التوبہ: 113) کہ نبی اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت نہ طلب کیا کریں، اگرچہ وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا آپ کے عقائد مشرکانہ نہیں؟ مجھے تو آپ کے عقائد مشرکانہ لگتے ہیں اور یوں بھی مَیں بحیثیت امام اپنے غیر احمدی مقتدی کے لئے کیا دعا کروں گا کہ یا اللہ مجھے بخش اور اس کو بھی بخش دے جو تیرے مسیح کا منکر ہے اور اُسے گالیاں دیتا ہے۔ میں نے اس واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تو حضور ہنس پڑے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ81-82 روایات حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں)

محمدنذیر فاروقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کئی سال گزرنے کے بعد 1908ء میں خود اپنے گاؤں اور گرد و نواح میں حکیم صاحب کی مخالفت نے زور پکڑا اور ایسی تکالیف رونما ہوئی کہ جن کی تفصیل کے لئے ایک اچھے خاصے وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس امر کا اظہار موجب خوشی ہے کہ ہر ایسی تکلیف میں وہ ثابت قدم رہے اور اپنی خود داری اور غیرت کو کبھی بھی ملیا میٹ نہ ہونے دیا جس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے حکیم صاحب کی مالی حالت کو بہتر سے بہتر بنا دیا اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے تھے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ 236 روایات حکیم نواب علی صاحب فاروقی)

حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں قریب البلوغ تھا کہ حضرت صاحب کے پاس قادیان آیا۔ ابھی نیا نیا نوجوان تھا۔ بلوغت کی عمر کو پہنچ رہا تھا۔ حضور نے فرمایا میاں زین العابدین! کیا ابھی تک آپ کی شادی کا کوئی انتظام ہوا ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! منگنی ہوئی تھی مگر میرے احمدیت کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے۔ مسکرا کے فرمایا کہ تم نے تو ابھی تک بیعت نہیں کی پھر احمدیت کی وجہ سے کیسے رشتہ نہ ہو سکا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو کافر کہو اور مَیں یہ کہہ نہیں سکتا۔ مَیں نے اُنہیں جواب دیا تھا کہ اگر تم ایک لڑکی کی بجائے دس لڑکیاں دو تو بھی مَیں مرزا صاحب کو ولی اللہ ہی کہوں گا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا بہتر کرے گا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ-60 59۔ روایات حضرت شیخ زین العابدینؓ)

اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی صبر اور استقامت اور ثباتِ قدمی جاری فرمائے اور احمدیت اور خلافت سے ہمیشہ ان کا پختہ تعلق رہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ نظم بزبان اردو جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2021